عشاء مجلس ۲۴ مئی ۴ ۲۰۲ء :جنت سے بڑھ کے مزے کا حصول ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔ بیان :عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 04:16) حسبِ معمول تعلیم ہوئی۔۔۔ 04:16) روحِ سلوک تقویٰ بھی سنت کے مطابق ہونا چاہیے بتائو! اس وقت کی یہ تقریر کیسی رہی؟ بتائو یہ میں اﷲ والوں کی غلامی کا انعام دیکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے اس وقت ایسے مضامین بیان کرارہے ہیں ؎ میں اُن کا نہ ہوتا تو یہ ملتا مجھے انعام سارے عالم کے اولیاء صدیقین اگر بیٹھے ہوں تو ان کو بھی میری تقریر سے وجد آجائے گا کہ واقعی اس سے زیادہ کیا بندگی اور اطاعت ہوسکتی ہے کہ بندہ کی ہر سانس اﷲ تعالیٰ پر فدا ہو اور ایک سانس بھی اپنے مالک کو ناخوش نہ کرے، یہ اولیاء صدیقین کا آخری مقام ہے، جس کے آگے بس نبوت ہے جس کا دروازہ بند ہے جو اس مقام تک پہنچ گیا وہ منتہائے ولایت تک پہنچ گیا۔ 14:32) اس میں دعوۃ الحق بھی شامل ہے، اسی میں تمام امتثالِ اوامر موجود ہے اسی میں اجتنابِ نواہی موجود ہے، اسی میں اتباعِ سنت موجود ہے کہ ہر سانس اﷲ کو خوش کریں تو سنت کے مطابق کریں اور اﷲ تعالیٰ کی ناخوشی سے بچیں تو سنت کے مطابق بچیں۔ اپنے دل پر غم اٹھاکر ہم اﷲ کے لئے خوش ہوں یہ بھی سنت کے مطابق ہے اور اﷲ تعالیٰ کو ناخوش کرکے کسی وقت ہم اپنا دل خوش نہ کریں یہ بھی سنت کے مطابق ہے اور اﷲ کی ناخوشی سے بھی سنت کے مطابق بچیں ورنہ ہم گناہوں سے غیر سنت کے مطابق بھی بچ سکتے ہیں لیکن اس پر کوئی ثواب نہ ہوگا۔ کیسے؟ بدنظری سے بچنے کے لیے آنکھ ہی نکلوادی آپریشن کرکے، نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، اڈّہ ہی ختم کردیا کہ یہ نالائق نافرمانی کرتی ہیں تو یہ تقویٰ سنت کے مطابق نہیں اس لیے اﷲ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے ورنہ آپ آنکھ نکلوا کے کہیں میں تو آنکھ نکلوا کرآپ کے شعر پر عمل کررہا ہوں کہ نہ کالی کو دیکھو نہ گوری کو دیکھو لہٰذا نہ کالی کو دیکھتا ہوں نہ گوری کو دیکھتا ہوں۔ یا کوئی شخص کسی کے عشق میں مبتلا ہوجائے کہ ہر وقت اس کی یاد ستارہی ہو۔ لہٰذا اس نے کہا کہ میں غیراﷲ کے چکر میں پھنسا ہوا ہوں اس سے بہتر ہے کہ خود کشی کرلوں، یا اس معشوق کو قتل کردیا کہ نہ تم رہے نہ ہم رہے۔ بتائیے یہ عمل سنت کے خلاف ہوگا یا نہیں؟ پس چونکہ سنت کے خلاف ہے اس لیے مقبول نہیں مردود ہے۔ 17:36) کلمہ کے معنیٰ ہیں غیر اﷲ سے دل کو چھڑانا اور اﷲ سے دل کو چپکانا۔ غیر اﷲ سے دل چھڑانا یہ لا الٰہ ہے اور اﷲ سے دل کو چپکانا یہ الا اﷲ ہے لیکن یہ چھڑانا اور چپکانا کیسے ہوگا؟ محمد رسول اﷲ، غیراﷲ سے دل کا چھڑانا بھی سنت کے مطابق ہو اور اﷲ سے دل کو چپکانا بھی سنت کے مطابق ہو یعنی رسالت کے احکام کے مطابق ہرکام کرنا۔ اس راستہ سے دل غیر اﷲ سے چھڑاؤجو راستہ نبی نے سکھایا اوراسی راستہ سے اﷲ سے چپکو جو راستہ نبی نے بتایا۔ یعنی ہماری ہر سانس اﷲ پر فدا ہو سنت کے مطابق اور ہماری ہر سانس کو اﷲ کی ناراضگی سے تحفظ حاصل ہو سنت کے مطابق۔ آہ! کلمہ کی ایسی تفسیر سنی تھی آپ نے؟ کہ ہماری زندگی کے دو ہی کام ہیں (۱) ہر سانس غیراﷲ سے جان چھڑانا اور (۲)ہرسانس جان کو اﷲ سے چپکانا ۔ مگر یہ چھڑانا اور چپکانا دونوں تابع فرامین سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم ہوں۔ یہی اصل پاس انفاس ہے۔ پاس انفاس یہ نہیں ہے کہ ہر سانس میں الا اﷲ کی ضربیں مار رہا ہے مگر کہیں بدنظری کر رہا ہے، کہیں گانا سن رہا ہے، کہیں حرام نمک چکھ رہا ہے۔ یہ ہرگز پاس انفاس نہیں۔ اصلی پاس انفاس یہ ہے کہ ہر سانس اﷲ پر فدا کر رہا ہے اور ایک سانس بھی اﷲ کو ناراض نہیں کرتا۔ بتاؤ کیا بندگی کی عظیم الشان معراج پر یہ تقریر نہیں ہے کہ بندہ اپنی بندگی اس مقام تک لے جائے جہاں بندگی اورولایت کی انتہا ہے جس کے آگے ولایت کا کوئی مقام نہیں؟ ا س سے اعلیٰ کوئی مقام ہو تو ہمیں بتاؤ۔ جِتنے بھی دین کے شعبے ہیں سب کا آخری مقام اولیاء صدیقین کا یہی مقام ہے یَبْذُلُ الْکَوْنَیْنِ فِیْ رَضَا مَحْبُوْبِہٖ تَعَالٰی شانہٗ کہ دونوں جہاں اﷲ پر فدا کردے۔ 23:07) جنت سے بڑھ کے مزہ کا حصول مولانا حسن صاحب! اس وقت آپ کی مسجد میں جو یہ مضمون ہوا ہے کہ اس زور و شور کے ساتھ اس سفر میں پہلی مرتبہ بیان کیا۔ میر صاحب بتاؤ یہ مضمون کیسا لگا؟ میر صاحب ہمارے رفیق سفرو الحضر اور قدرداں ہیں۔ 24:23) حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ کہ حضرت والا رحمہ اللہ کی کیسی خدمت کی اور شادی بھی نہیں کی۔۔۔ 26:13) یہ خوب سمجھتے ہیں میری بات کو۔ بس اگر یہ مقام ہم نے حاصل کرلیا تو قلب میں وہ انعامات پائیں گے کہ دنیا ہی میں جنت کا مزہ پاجائیں گے بلکہ جنت سے بڑھ کے مزہ پائیں گے کیونکہ جنت مخلوق ہے، حادِث ہے اور اﷲ تعالیٰ قدیم ہیں واجب الوجود ہیں پس جنت اﷲ کی برابری کیسے کرسکتی ہے ؎ مانا کہ میر گلشنِ جنت تو دور ہے عارف ہے دل میں خالقِ جنت لئے ہوئے اختر جو بات پیش کر رہا ہے اس پر عمل کرلیں تو سچ کہتا ہوں کہ ہم اور آپ جینے کا مزہ پاجائیں گے۔ ان ظالموں نے جینے کا کوئی مزہ نہیں پایا جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کی ناخوشی کی راہوں سے چوری چھپے حرام خوشیوں کی عادت ڈالی ہوئی ہے، وہ حیات کی لذت سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتے، خالقِ حیات کو ناراض کرکے لذتِ حیات سے آشنا ہونا چاہتے ہو؟ ؎ ایں خیال است و محال است و جنوں مَعِیْشَۃً ضَنْکاً کا جس پر نزول ہو، جس کی حیات مظہرِ حیاتِ معیشۃ ضنکا ہو وہ کیا جانے حیاتِ طیبہ کو اور جس کی حیات حیاتِ طیبہ سے وابستہ ہو کیا پوچھتے ہو اس کی زندگی کو۔ 31:37) میر صاحب! کیا کریں اب میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ مولانا رومی کا وہ شعر پیش کرکے اب میں ختم کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں ؎ بوئے آں دلبر چوں پراں می شود ایں زباں ہا جملہ حیراں می شود جتنی زبانیں عالم میں ہیں اﷲ تعالیٰ کی لذتِ غیر محدود کو بیان کرنے سے حیران اور قاصر ہیں۔ اب دعا کرو کہ اﷲ تعالیٰ توفیق دے، علم کے ساتھ عمل کی توفیق بھی ضروری ہے۔علوم و معارف کی بارش ہو مگر اﷲ تعالیٰ کا فضل و رحمت بھی ساتھ ہو تب کام بنتا ہے: {وَ لَوْ لاَ فَضْلُ اﷲِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اَبَداً} (سورۃ النُّور، آیت:۲۱) اﷲ تعالیٰ ہم سب کو یہ فضل و رحمت نصیب فرمادیں۔ یا کریم یا اﷲ آپ نے اپنے اس فضل و رحمت کو ہمارے تزکیہ کا موقوف علیہ بیان فرمایا ہے۔ اے اﷲ آپ نے قرآنِ پاک کی اس آیت وَ لَوْ لاَ فَضْلُ اﷲِ الخ میں جس رحمت اور جس فضل کو ہم سب کے تزکیہ کا قیامت تک کے لیے موقوف علیہ ارشاد فرمایا اس رحمت کو اور اس فضل کو اپنی رحمت و فضل ہی سے عطا فرمادیجئے کہ ہمارا استحقاق نہیں ہے، ہم نالائق ہیں، اس فضل و رحمت کو اے خدا اپنے فضل و رحمت ہی سے عطا فرمادیجئے کہ ہم سب مسافر ہیں اور اے اﷲ آپ مسافر کی دعا کو رد نہیں فرماتے۔ 34:24) اختر کو، میری ذُرِّیات کو ، میرے جملہ احباب حاضرین و غائبین کو، میں اپنے غائب دوستوں کو بھی یاد رکھتا ہوں کہ میرے حاضرین احباب کو اور غائبین احباب کو اپنی رحمت سے اولیاء صدیقین کی منتہیٰ تک پہنچادیجئے یعنی ایسا ایمان و یقین عطا فرمادیجئے کہ ہماری ہر سانس آپ پر فدا ہو اور ایک سانس بھی ہم آپ کو ناراض نہ کریں۔ جو مانگا اﷲ نے قبول فرمایا اور جو دعا قبول نہیں ہوئی اس میں میرا دردِ دل نہیں تھا۔ جو دعا اﷲ تعالیٰ قبول فرمانا چاہتے ہیں اسی کی توفیق دیتے ہیں، یہ بات میں خاص بتارہا ہوں۔ جب ان کو قبول کرنا ہوتا ہے تب ہی توفیق بھی مانگنے کی دیتے ہیں ورنہ تو خیال بھی نہیں جاتا کہ اﷲ تعالیٰ سے یہ مانگو۔ اے خدا! ہم سب کو اولیاء صدیقین کی منتہیٰ تک پہنچا دے اور ہماری زندگی کی ہر سانس کو اپنی ذاتِ پاک پر فدا کرنے کی توفیق دے اور ایک سانس بھی آپ کی ناراضگی میں استعمال کرنے سے اپنا تحفظ عقلاً، شرعاً، طبعاً، تکمیلاً نصیب فرمائیے۔ اﷲ تعالیٰ یہ مقام اختر کو بھی اور آپ سب کو نصیب فرمائے اور آپ سب کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے اور مجھ کو، میرے مشایخ کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے اور یہ تمام عمل سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے بھی صدقۂ جاریہ بنائے کیونکہ امت کے نیک اعمال سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا درجہ بلند ہوتا ہے جس سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ہم سے خوش ہوں گے اور ہمارا کام بن جائے گا۔ ہمارے مدارس اور مساجد اور خانقاہوں کو اور دینی خدمتوں کو اﷲ قبول فرمائے اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی روحِ پاک کو اس کا ثواب عطا فرمادے۔ اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی روحِ مبارک کو ہم سب سے خوش فرمادے اور ہم کو ہمارے ماں باپ، اساتذہ و مشائخ کے لئے بھی اس کو صدقۂ جاریہ بنا۔ وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِِِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ملفوظات وعظ کے بعد حضرت مرشدی دامت برکاتہم مع احباب مولانا غلام حسن صاحب کے مکان پر تشریف لائے جہاں مولانا نے ناشتہ کا انتظام کیا تھا۔ حضرت والا نے حسبِ عادتِ شریفہ ناشتہ کے دوران ملفوظات ارشاد فرمائے جن میں سے بعض یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔ (مرتب) 37:38) مقصدِ زندگی ارشاد فرمایا کہ شیخ وہ ہے جو ہر وقت اﷲ پر فدا رہے، رفقاء شیخ کو بھی اﷲ پاک یہی مقام عطا فرمائے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ سے توفیق مانگتا ہوں کہ ہماری حیات مِن و عَن ہر سانس، ہر نَفَس مالک پر فدا رہے، ہمیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے پر فدا کاری کے لئے دنیا میں بھیجا ہے کیونکہ وہاں اسبابِ فداکاری نہیں تھے، سر نہیں تھا کہ سجدہ کرتے، پیٹ نہیں تھا کہ روزہ رکھتے، پیر نہیں تھے کہ طواف کرتے، زبان نہیں تھی کہ ذکر کرتے، دل نہیں تھا کہ ہر وقت قلب میں ان کو یاد رکھتے اور ان کی نافرمانی سے دل کو بچاتے۔ دل کو گناہوں کی لذت سے تحفظ کی فکر کرنا آسان نہیں ہے۔ شیطان کہتا ہے ارے ملا! ارے صوفی! اب آئندہ تو تو گناہ نہیں کرے گا مگر کم از کم پچھلے گناہوں کو یاد کرکے ان کا مزہ تو لوٹ لے اور گاڑی کو ریورس (Reverse)کرلے حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے دل میں گناہوں کے خیالات پکانے کو بھی حرام قرار دیا ہے یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْاَعْیُنِ وَمَا تُخْفِیْ الصُّدُوْر لیکن دیکھا آپ نے کہ شیطان کس طرح گاڑی ریورس کراتا ہے۔ 39:22) لاَ حَوْلَ وَ لاَ قُوَّۃَ الخ پڑھنے کی فضیلت ارشاد فرمایا کہ جب بندہ لاَ حَوْلَ وَ لاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاﷲ پڑھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں سے فرما تے ہیں کہ اے فرشتو سن لو! میرے بندے جو لاحول پڑھ رہے ہیں یہ سب کے سب فرماں بردار ہوگئے۔ حدیث کی عبارت ہے اَسْلَمَ عَبدِْی وَاسْتَسْلَمَ اس کی شرح کیا ہے؟ اَسْلَمَ عَبْدِیْ اَیْ عَبْدِیْ اِنْقَادَ وَ تَرَکَ الْعِنَادَ یعنی میرا بندہ فرماں بردار ہوگیا اور نافرمانی چھوڑدی لہٰذا جب لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃ اِلَّا بِاﷲِ پڑھو تو یہ مراقبہ کرو کہ اﷲ تعالیٰ فرشتوں سے میرے لیے فرمارہے ہیں کہ اے فرشتو سن لو! میرا یہ بندہ فرماں بردار ہوگیا۔ عَبْدِیْ اِنْقَادَ وَ تَرَکَ الْعِنَادَ اور وَاسْتَسْلَمَ کا کیا مطلب ہے؟ اَیْ فَوَّضَ عَبْدِیْ اُمُوْرَ الْکَائِنَاتِ بِاَسْرِہَا اِلَی اﷲِ عَزَّوَجَلَّ میرے بندے نے اپنی کائنات کی تمام ضروریات کو میرے سپرد کردیا۔ تو لاَحَوْلَ وَلاَ قُوْۃَ اِلاَّ بِاﷲِ کا ایک عظیم انعام یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارا ذکر فرشتوں سے فرماتے ہیں۔ مالکِ کائنات ہم غلاموں کو وہاں یاد فرمائیں کیا کرم ہے اُن کا! اس لئے جب لاَحَوْلَ وَلاَ قُوَّۃ اِلَّا بِاﷲِ پڑھو تو اس میں یہ مراقبہ بھی کرلیا کرو تاکہ ہمارا دل خوش ہوجائے کہ زمین والوں کا ذکر عرشِ اعظم پر ملائکہ مقربین اور ارواحِ انبیاء و مرسلین کے سامنے ہورہا ہے عِنْدَ الْمَلٰئِکَۃِ الْمُقَرَّبِیْنَ وَعِنْدَ اَرْوَاحِ الْاَنْبِیَآئِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ۔ 41:18) کھانے کے بعد کی دعا کی عجیب شرح فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں مجرمین کے لیے ارشاد فرماتے ہیں: {کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلاً اِنَّکُمْ مُّجْرِمُوْنَ} (سورۃ المرسلات، آیت:۴۶) اس لیے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہم سب کو مجرموں کے کھانے سے الگ فرمایا اور ہمیں یہ دعا سکھائی کہ جب تم کھانا کھاؤ تو یہ دعا پڑھ لیا کرو: {اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَ جَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ} (سنن الترمذی، باب ما یقول اذا فرغ من الطعام، ج:۲، ص:۱۸۴) اے اﷲ! تیرا احسان ہے کہ ہم مسلمین ہوکر کھا رہے ہیں۔ کھا پی تو کافر بھی رہے ہیں لیکن ان کا کھانا مجرمانہ ہے، اس دعا میں اس کا شکر ہے کہ ہمارا کھانا مسلمانہ ہے اور اگر کوئی پوچھے کہ مسلمین کے کیا معنیٰ ہیں تو مشکوٰۃ شریف کی شرح پیش کردو اَیْ مِنَ الْمَوَحِّدِیْنَ وَ الْمُنْقَادِیْنَ فِی جَمِیْعِ اَمْرِ الدِّیْنِ بظاہر تو یہ جملۂ خبریہ ہے مگر معنیٰ میں جملۂ انشائیہ ہے کہ توحیدِ کامل اور تمام اُمورِ شریعت میں پابندی کرنے کے بعد تم کو کھانا کھانا چاہئے ورنہ تمہارا کھانا غیر شریفانہ کھانا ہوگا۔ اور اگر نالائق ہو تو مستغفرین بن کر کھائو، اگر منقادین نہیں ہو تو کم از کم تائبین و مستغفرین تو بنو۔ 45:57) دُعائیہ پرچیاں ۔۔۔ دورانیہ 46:48 |