عشاء مجلس ۲۵ مئی ۴ ۲۰۲ء :قربِ عبادت اور قربِ ندامت ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔ بیان :عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 35:12) { اِنَّ اﷲَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَ} (سورۃُ التوبۃ، آیۃ:۱۱۱) علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ دل اور روح اچھا سودا تھا مگر اﷲ تعالیٰ نے اچھے سودے کا تذکرہ نہیں کیا اور جو خراب چیز تھی یعنی نفس اُس کی خریداری کا ذکر قرآن پاک میں نازل فرمایا، نفس خراب چیز ہے، امارہ بالسوء ہے، اﷲ تعالیٰ نے امارہ بالسوء کو خریدا جو کثیر الامر ہے، خطا کار ہے، نالائق ہے، خطائوں کا تعلق نفس سے ہے جبکہ مؤمن کا دل اور مؤمن کی روح بہت شاندار ہے، لیکن اﷲ تعالیٰ نے مؤمنین کا گھٹیا اور خراب مال خریدا ہے بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ لاَعَیْبَ فِیْہَا بعوض جنت کے جس میں کوئی نقص، کوئی عیب نہیں ہے یعنی جو چیزمیں خرید رہا ہوں وہ عیب دار ہے مگر میرا ثمن جس کے بدلے میں خرید رہا ہوں اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے کریم ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے کہ عیب دار سودا خرید رہے ہیں اس ثمن کے عوض میں، اس جنت کے بدلے میں جس میں کوئی عیب نہیں وہاں کوئی کالی، لنگڑی، لولی نہیں نہ وہاں کسی قسم کا کوئی غم، کوئی پریشانی ہے، وہاں عیب ہے ہی نہیں، وہاں گنہگار بھی جائیں گے تو وہ بھی بے عیب کردیئے جائیں گے یعنی ان کو گناہ کا وسوسہ بھی نہ آئے گا۔ غِلْمَانٌ لَّہُمْ کَاَنَّہُمْ لُؤْلُؤٌ مَّکْنُوْنٌ وہاں غلمان ہوں گے جو بچے ہوں گے اور ہمیشہ بچے رہیں گے اور ایسے ہوں گے جیسے چمکتے ہوئے موتی مگر کسی کو ان کے متعلق وسوسہ بھی نہیں آئے گا، ایسے ہی حوریں ہیں کہ کسی کی حور دوسرے کے سامنے آجائے تو معاصی تو درکنار معاصی کا خیال بھی نہیں آئے گا۔ 37:14) تو علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے کریم ہونے کی یہ بہت بڑی دلیل ہے کہ ایسی جنت جو لاَ عَیْبَ فِیْہَاہے عیب داروں کو عطا فرمارہے ہیں، کریم وہی ہے جو نالائقوں پر بھی مہربانی کرے، بندہ کے اندرکوئی کمال نہیں ہے مگر اُس کریم کا کمال ہے کہ بے کمالوں پر بھی مہربانی کرے، یہ اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے۔ اب مولانا عبدالحمید صاحب کی زبان سے ان کا خواب سنیے۔ مولانا عبدالحمید صاحب (سائوتھ افریقہ) نے مندرجہ ذیل خواب سنایا: ابھی ناشتہ کرنے کے بعد ہم لیٹے تو بیچ میں آنکھ کھلی پھر آنکھ لگ گئی تو دیکھا کہ حضرت مدظلہم کے ساتھ ہم مدینہ منورہ میں ہیں، تقریباً آٹھ بجے صبح ہم سب حضرت مدظلہم کے ساتھ مسجد نبوی گئے۔ حضرت والا کی مجلس کی جگہ مسجدِ نبوی کے بالکل درمیان میں ہے، حضرت مدظلہم روضۂ مبارک پر صلوٰۃ و سلام کے لئے حاضر ہوئے، مواجہہ شریف اور قدمین شریف کے بیچ کے کونہ پر حضرت مدظلہم تشریف فرما ہوئے اور صلوٰۃ و سلام اور درد و نالہ اور آہ و فغاں شروع کیا، حضرت کافی دیر وہاں رہے۔ پھر مسجدِ نبوی کے بالکل درمیان میں حضرت والا کی مجلس کی جو جگہ ہے وہاں ہم چند ساتھی بیٹھے ہیں، میں وہاں خواب ہی میں سوگیا۔ اور پھر اس خواب میں دیکھتا ہوں کہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور حضرت والا بہت خوشی اور وجد کے عالم میں صلوٰۃ و سلام عرض فرما رہے ہیں۔ 41:14) حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے فرمایا کہ دیکھو میرے اختر کو۔ پھر حضرت والا بارہ ایک بجے وہاں مجلس کے لیے تشریف لے آئے اور بہت مختصر مجلس ہوئی۔ پھر ہم سب دوست احباب مکہ شریف روانہ ہوئے تو حضرت والا کے لئے ایک خاص گاڑی لائی گئی جو کومبی سے کچھ بڑی اور بس سے کچھ چھوٹی تھی اور بہت آرام دہ تھی، اس میں حضرت والا بستر پر لیٹے ہوئے تھے اور خدام پائوں دبا رہے تھے اورمیں اور مولانا یونس پٹیل صاحب پائوں کی طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر کچھ احباب کہنے لگے کہ حضرت کا کیسٹ اب سعودیہ میں بکنے لگا ہے اور مارکیٹ میں آگیا ہے تو مجھے تعجب ہوا۔ میں کچھ سمجھا نہیں تھا۔ تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو میری کیسٹ اب یہاں بھی بکنے لگی ہے۔ میں نے مولانا یونس صاحب سے پوچھا یہ کون سی کیسٹ ہے؟ انہوں نے چپکے سے بتایا کہ ویسے تو حضرت کی کئی کیسٹیں آچکیں مگر یہ خاص مضمون تھا جو بہت ہی نمایاں تھا۔ مولانا یونس صاحب نے بتایا یہ بیان جو حضرت کا ہوا ’’روح البیان‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ (یہ سن کر حضرت والا نے فرمایا کہ آج فجر کے بعد جو بیان ہوا اﷲ تعالیٰ کا کرم ہی معلوم ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ اس کو قبول فرمائے۔) تو اس کا تأثر جو ہوا وہ یہ تھا کہ اب تصوف ممالکِ عربیہ میں مقبول ہے اور حضرت اس کا ذریعہ ہیں، اس کے فاتح ہیں۔ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَ الْمِنَّۃُ حضرت والا مدظلہم نے فرمایا کہ سب لوگ کہو اَللّٰہُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ تین مرتبہ فرمایا اور فرمایا سب درود شریف پڑھو۔ یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِماً اَبَداً عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِ الْخَلْقِ کُلِّہِم ماشاء اﷲ مولانا عبدالحمید اور مولانا یونس پٹیل سے فی الحال سلسلہ کاکام بھی زیادہ ہورہا ہے یعنی ان کے بھی مرید ہونے شروع ہوگئے اور ان کے بھی، میرے دل میں یہ بات رہتی ہے کہ جنوبی افریقہ میں ان دو عالموں کے ذریعہ میرا کام زیادہ ہورہا ہے۔ اﷲ تعالیٰ میرے سارے ہی احباب سے کام لے لے۔ میں چاہتا ہوں کہ حق تعالیٰ شانہ اختر کو، میرے سارے احباب کو بلااستثناء اپنے دردِ محبت کے لیے قبول فرمالے۔ سارے عالم میں ہر انسان اﷲ پر فدا ہوجائے۔ اس کی کوشش کی جائے کہ ایک انسان بھی ایسا نہ ہو جو اﷲ پر فدا نہ ہو۔ ہمارا کام کوشش کرنا ہے، اﷲ تعالیٰ کا کام قبول کرنا ہے اورہمارے ارادے کو مراد تک پہنچانا ہے۔ ہمارا کام اچھے ارادے کرنا ہے، ہمارے ارادے کو مراد تک پہنچانا مالک کا کام ہے۔ 43:56) میری جو خواہش ہے کہ ہم سب اور میری اولاد و احباب ایک سانس بھی اﷲ کو ناراض نہ کریں، بتائو میرا یہ جذبہ اور میری یہ خواہش اچھی ہے یا نہیں؟ دردِ دل سے کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری زندگی کی ایک سانس بھی ایسی نہ گذرے جس میں آپ کی ناخوشی کی راہ سے ایک ذرّہ خوشی ہم قلب میں استیراد، درآمد اور امپورٹ کریں، جس سے مالک ناخوش ہو ایسی باتوں سے، ایسے الفاظ سے، ایسے اعمال سے، ایسی حرکات سے، ایسے سکنات سے، ایسے لمحات سے، ایسے اوقات سے، ایسے لحظات سے اﷲ تعالیٰ ہم کو محفوظ فرمائے اور جو باتیں اﷲ تعالیٰ کو خوش کرنے کی ہیںمیری اور میری اولاد کی، میرے احباب کی زندگی اﷲ تعالیٰ کی انہی خوشیوں پر فدا ہوجائے اور اس کی ناخوشی کی راہوں سے بچنے کی منفی یاد بھی ہم کو نصیب ہوجائے کیونکہ یاد کامل جب ہوتی ہے کہ اپنے مالک کو ہم خوش کرلیں اور ان کی ناخوشی سے اپنے کو بچالیں۔ اگر خوشی والے اعمال ہم کرتے ہیں اور گناہوں سے نہیں بچتے تو ہم ذکرِ مثبت کرتے ہیں لیکن اگر ہمارا ذکرِ منفی کمزور ہے تو نیک عمل کرنے سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کا حق تو ادا ہوگا، مگر گناہوں کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوگا۔ نیک عمل اور عبادت اﷲ تعالیٰ کی محبت کا حق ہے اور گناہ سے بچنا اﷲ تعالیٰ کی عظمت کا حق ہے، اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کا حق ہے۔ بتائو اﷲ تعالیٰ کی خوشی کا کیا ذریعہ ہے؟ خالی محبت کا حق ادا کرتے رہو؟ حج، عمرہ، ملتزم پر چمٹنا، روضۂ مبارک پر صلوٰۃ و سلام پیش کرنا، تسبیح پڑھنا مگر نافرمانی سے نہ بچنا؟ محبت کا بھی حق ادا کرو، عظمت کا بھی حق ادا کرو۔ اﷲ تعالیٰ کی عظمت کا جو حق ادا نہیں کرے گا اس کو اﷲ تعالیٰ کا خاص تعلق نصیب نہیں ہوسکتا گو رائیگاں وہ بھی نہیں۔۔ 44:05) بس ہے اپنا ایک نالہ بھی اگر پہنچے وہاں گرچہ کرتے ہیں بہت سے نالہ و فریاد ہم یہ مطلب نہیں کہ کوئی نالہ، کوئی فریاد رائیگاں جائے گی، ثواب تو سب پر ملے گا بس ایک نالہ ایسا ہوجائے جو مالک کو قبول ہوجائے، اگر زندگی میں ایک حرکت یاسکوت، فعل یا قول قبول ہوجائے تو اﷲ کے یہاں جو مقبول ہوتا ہے تو بِجَمِیْعِ اَجْزَائِ ہٖ مقبول ہوتا ہے، ایسا نہیں کہ وقتی طور پر مقبول ہوگیا پھر نامقبول ہوگیا۔ اس کے تمام اعمال و اخلاق کی مقبولیت اﷲ تعالیٰ اپنے ذمہ لے لیتے ہیں، جس کو اپنا بناتے ہیں اس کو بِجَمِیْعِ قُلُوْبِہٖ وَقَوَالِبِہٖ وَ بِجَمِیْعِ اَقْوَالِہٖ وَ اَعْمَالِہٖ وَ اَخْلاَ قِہٖ اپنا مقبول بناتے ہیں، اگر وہ گناہ کرنا بھی چاہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو محفوظ فرماتے ہیں جیسے چھوٹا بچہ گندی نالی میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو ماں اس کے ایک ہلکا سا تھپڑ لگاتی ہے اور کھینچ کر نالی سے دور کردیتی ہے۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ ہم سب کی دودھ پیتے بچہ کی طرح گناہوں سے حفاظت فرمائے۔ 46:24) حدیث اَللّٰہُمَّ وَاقِیَۃً الخ کی شرح کی عجیب تمثیل حدیث شریف کی دعا ہے: {اَللّٰہُمَّ وَاقِیَۃً کَوَاقِیَۃِ الْوَلِیْدِ} (مجمعُ الزوائد) اگر بچہ نادانی سے کوئی مضر اور نامناسب کام کرنا چاہتا ہے تو ماں پہلا کام یہ کرتی ہے کہ اس کو اس کام سے بچالیتی ہے۔ اسی طرح اے اﷲ! اگر ہم کوئی نامناسب فعل کرنے کی جرأ ت کریں تو ہمیں اپنی رحمت سے کھینچ کر بچالے اور اگر بچہ کوئی غلط چیز زہر وغیرہ کھالے تو ماں اپنی انگلی اس کے منہ میں ڈال کر قے کرادیتی ہے۔ اسی طرح اگر بندہ سے گناہ ہوگیا تو اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا ہاتھ ہمارے گناہوں کو قے کراتا ہے بذریعہ اشکِ ندامت و آہ و زاری اور اشکباری پھر اس کے بعد اپنی یاری کو بحال کردیتا ہے۔ اور اگر زہریلا مادّہ بچہ کے جسم میں آگے بڑھ گیا ہے جہاں تک ماں کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا تو ڈاکٹر سے کہتی ہے کہ اس کو دوا دے دیجیے اور قے کرادیجئے، ماں کی انگلی تو صرف حلق تک جاسکتی ہے لیکن اﷲ تعالیٰ کا ہاتھ تو ہر جگہ پہنچا ہوا ہے، وہ مالک تو ایسے ہیں کہ جسم کے ذرّہ ذرّہ پر قادر ہیں۔ پس جو بندہ گناہوں کے زہر کا عادی ہوگیا تو اﷲ تعالیٰ اس کو روحانی ڈاکٹر یعنی مشایخ کے پاس جانے کی توفیق عطا فرماتے ہیں تاکہ اس بندہ کے گناہوں کی ظلمات کے پہاڑ اس اﷲ والے کے صدقہ میں اور اس کی برکت سے، اُجالے سے، انوار سے بدل جائیں۔ آج صبح کا جو بیان تھا امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس سے نہایت خوش ہوگئے ہوںگے۔ جیسے کسی کے دس بچے ہیں، کچھ لائق ہیں کچھ نالائق ہیں، ایک بچہ سب کو لائق بنانے کی فکر کرتا ہے اور سب کو سمجھاتا ہے کہ دیکھو بھائیو! ابا کو ناخوش کرنا اچھا نہیں ہے، تم سب ابا کا کام تو کرتے ہو مگر ان کی ناخوشی سے نہیں بچتے۔ دیکھو! ابا جس بات سے خوش ہوں وہی عمل کیا کرو اور جس بات سے ناخوش ہوں اے میرے بھائیو کتنا بھی مزہ آئے اس کام پر لعنت بھیجو، اپنے باپ اور پالنے والے کو ناراض نہ کرو تو ابا ایسے بچے سے خوش ہوں گے یا نہیں؟امید ہے کہ اختر کی اس تقریر سے اﷲ تعالیٰ بھی خوش ہوجائیں گے کہ میرا یہ بندہ میری خوشیوں کے اعمال پر بھی تقریر کررہا ہے اور میری ناخوشی سے بچنے کی بھی ترغیب دے رہا ہے۔ امید ہے کہ ربا ایسے بندہ سے خوش ہوجائیں گے جو ایک سانس بھی اپنے اﷲ کو ناراض نہ کرنے کی تعلیم دے رہا ہو اور سب کو ہر سانس اﷲ پر فدا کرنے کے لیے کوشش کررہا ہو۔ 46:52) بعض وقت شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ ہم تو بہت ہی نالائق ہیں ہمارے اوپر اﷲ کی رحمت اور فضل کی کیا صورت ہوگی؟ شیطان حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوس کرتا ہے۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ آفتابت برحد ثہامی زند لطفِ عام تو نمی جوید سند اے خدا! آپ کا آفتاب اور سورج جو دنیا کے آسمان پر چمک رہا ہے یہ جنگل میں گائے اور بھینس کے گوبر پر اور لید اور نجس گندگی پر اثر ڈالتا ہے، اپنی شعاعیں نہیں ہٹاتا کہ تم جیسے خبیث اور لید اور پائخانہ اور گوبر پر میں اپنی پاک شعاعیں کیوں ڈالوں؟ تو اے اﷲ! آپ کی رحمت کے آفتاب کا کیا ٹھکانہ ہے۔ اے آفتابِ کرم اگر آپ اپنی ایک شعاع ہم نالائقوں پر ڈال دیں تو ہماری نجاستیں پاکی سے اور ہمارے اخلاقِ رذیلہ اخلاقِ حمیدہ سے بدل جائیں گے۔ وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ |