عشاء مجلس   ۲۷             مئی      ۴ ۲۰۲ء     :شریعت و طریقت کی اساس اتباع سنت ہے

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔

بیان :عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

02:10) حسب معمول تعلیم۔۔

04:38) شیخ سے آج فائدہ کیوں نہیں ہوتا ..خود رائی اپنی رائے پر چلنا۔۔

07:30) شریعت و طریقت، تصوف و سلوک کی اساس اتباعِ سنت ہے۔

08:33) منازلِ قربِ الٰہی کی ابتدا بھی یہی ہے اور انتہا بھی یہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی محبت کی ابتدا بھی اتباعِ سنت پر موقوف ہے اور انتہا بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے لیے فَاتَّبِعُوْنِیْ کی قید لگادی کہ اگر تم مجھ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے نبی کی اتباع کرو اور جب تم نبی کی اتباع کروگے تو تمہیں کیا انعام ملے گا؟ یُحْبِبْکُمُ اللہُ میں تم سے محبت کرنے لگوں گا۔ معلوم ہوا کہ محبت کی ابتدا بھی سنت کی اتباع پر موقوف ہے اور اس کی انتہا یعنی محبوبیت عند اللہ بھی سنت کی اتباع کا ثمرہ ہے کیونکہفَاتَّبِعُوْنِیْپر یُحْبِبْکُمُ اللہُ کی ترتیب منصوص ہے، اس لیے سیّد الطائفہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے سلسلہ میں وصولی الیٰ اللہ (اللہ تک پہنچنا) اسی لیے بہت جلد ہوجاتا ہے کیونکہ اتباعِ سنت پر عمل کیا جاتا ہے۔ اگر آج اُمت سنت کے راستہ پر آجائے تو اس کی دوری حضوری سے تبدیل ہوجائے اور تمام مسائل حل ہوجائیں۔

12:38) اگر آج اُمت سنت کے راستہ پر آجائے تو اس کی دوری حضوری سے تبدیل ہوجائے اور تمام مسائل حل ہوجائیں۔ میرے اشعار ہیں ؎ مؤمن جو فدا نقش کفِ پائے نبی ا ہو ہو زیرِ قدم آج بھی عالَم کا خزینہ گر سنتِ نبوی کی کرے پیروی اُمت طوفاں سے نکل جائے گا پھر اس کا سفینہ اور اتباعِ سنت کی عظمت پر ایک شعر تو حق تعالیٰ نے احقر سے ایسا کہلوادیا جو بین الاقوامی شہرت یافتہ اور اکابر علماء کا پسندیدہ ہے۔ بعض احباب نے کہا کہ اتباعِ سنت پر اس سے زیادہ اچھا اور اثر انگیز شعر نظر سے نہیں گذرا اور ماریشس کے سفر کے دوران احقر نے دیکھا کہ وہاں کی جامع مسجد میں بھی لکھا ہوا تھا۔ میرا وہ شعر یہ ہے ؎

نقشِ قدم نبی ا کے ہیں جنت کے راستے اللہ ﷻسے ملاتے ہیں سنت کے راستے

14:57) اور اس بارے میں ایک بشارتِ عظمیٰ بھی ہے۔ ایک صالحہ عورت کو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی بہت سے افراد ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے احقر کو سب سے زیادہ اپنے قریب بٹھایا ہوا ہے اور ارشاد فرمایا کہ حکیم اخترؔ آپ کا یہ شعر بہت عمدہ ہے اور ہمیں بہت زیادہ پسند ہے۔ پھر آپ نے یہ شعر پڑھا۔ ایک دوست نے کہا کہ اس شعر کے پہلے مصرع میں ایک حدیث شریف کا اور دوسرے مصرع میں ایک آیتِ مبارک کا مفہوم ہے۔ گویا قرآن و حدیث کے مفہوم کا یہ شعر ترجمان ہے۔ وہ حدیث شریف یہ ہے: مَنْ اَحْیَاسُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ ترجمہ: ’’جس نے میری سنت کو زندہ کیا اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔‘‘

17:40) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہِ ترجمہ: جس نے رسول کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ پیشِ نظر رسالہ ’’پیارے نبی ا کی پیاری سنتیں‘‘ تقریباً بیس برس پہلے احقر نے تحریر کیا تھا جو الحمدللہ تعالیٰ خانقاہ سے ہزاروں کی تعداد میں مفت تقسیم ہوچکا ہے اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے جن میں فارسی، انگریزی، بنگلہ، برمی، گجراتی، پشتو، سندھی وغیرہ شامل ہیں اور عربی زبان میں ترجمہ ہورہا ہے۔

28:25) بیوع کے منہ میں ایک لقمہ ڈالنا بھی سنت ہے۔بیوی سے آپ کا ایک تعلق حاکمیت کا ہے تو دوسرا مُحِبّیت کا ہے اور اس کا آپ سے تعلق ایک طرف محکومیت کا ہے تو دوسری طرف محبوبیت کا بھی تو ہے۔ محبت کے حقوق بھی ادا کرو۔ گھر کی زندگی نہایت سکون اور چین کی ہوجائے گی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوش ہوں گے۔

حضرت مائی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعد عشا جب گھر میں تشریف لاتے تھے اس پر ان کے دو شعر ہیں۔ فرماتی ہیں: لَنَا شَمْسٌ وَلِلْاٰفَاقِ شَمْسُ وَشَمْسِیْ خَیْرٌ مِنْ شَمْسِ السَّمَائِ ایک میرا سورج اور ایک آسمان کا سورج ہے اور میرا سورج آسمان کے سورج سے بہتر ہے فَاِنَّ الشَمْسَ تَطْلَعُ بَعْدَ فَجْرٍ وَشَمْسِیْ خَیْرٌ طَالِعٌ بَعْدَ الْعِشَائِ کیونکہ آسمان کا سورج تو بعد فجر طلوع ہوتا ہے اور میرا سورج عشا کے بعد طلوع ہوتا ہے

37:09) خاص بندوں کی پہچان آپ کو کیسے معلوم ہو کہ یہ خاص بندے ہیں۔ جو اُمّت کے خاص بندے ہیں وہ ان کو خاص سمجھتے ہوں اور کسی بزرگ کی اس نے صحبت اٹھائی ہو۔ شریعت اور ُسنت پر چل رہا ہو۔ علمائے دین بھی اس کی تصدیق کر رہے ہوں۔ خالی عوام کا مجمع نہ ہو ورنہ اس زمانہ میں بعض ایسے نالائق بے وقوف اور محروم ہیں کہ جنہوں نے بزرگوں کو دیکھا تو ہے لیکن ان سے اپنی اصلاح نہیں کرائی نتیجہ یہ نکلا کہ ایک جاہل پیر کے چکر میں آگیا جو کمرہ میں اپنی تصویر لگائے ہوئے ہے اور وہ اس کو بزرگ سمجھ کر وہاں جاتا ہے حالانکہ ایک مسجد کا امام بھی ہے ۔

ذرا سوچئے عقل پر عذاب ہے یا نہیں ، کسی گناہ کے بدلے میں اس ظالم کی عقل سے نور چھین لیا گیا ہے ورنہ تصویر رکھنے والا کہیں ولی اﷲ ہو سکتا ہے ؎ گر ہوا پر اُڑتا ہو وہ رات دن ترک سُنّت جو کرے شیطان گِن اگرکوئی ہوا پر اُڑرہا ہو اور سنت کے خلاف ہو تو اس کو ولی اﷲ سمجھنے والا بھی زندیق ہے ، جو تارک سنت کو ولی اﷲ سمجھتا ہے وہ زندیق اور فاسق العقید ہ  ہے۔

دورانیہ 50:49

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries