عشاء  مجلس ۱۸       جون      ۴ ۲۰۲ء     : تقویٰ محافظِ نورِ سنت ہے                !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔

بیان :عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

04:49) مختلف لوگوں کی کتابیں پڑھنانصیحت۔۔۔

04:50) شیخ رہبر ہے۔۔۔

09:31) ہے عجم اس کا پھر مدینے میں ارشاد فرمایا کہ اے اہل عجم اگر ہم تقویٰ اختیار کر لیں تو سنت کی اتباع کی برکت سے ہمارا عجم بھی عرب ہو جائے میرا شعر ہے ؎ راہ سنت پہ جو چلے اخترؔ ہے عجم اس کا پھر مدینے میں جو لوگ سنت کے متبع ہیں سمجھ لو کہ ان کا عجم بھی مدینہ پاک میں ہے اور حضور صلی اﷲ علی ہوسلم ان سے خوش ہیں حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص روزانہ خواب میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت کر تا ہے لیکن زندگی سنت کے خلاف گذارتا ہے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے ناراض ہیں اور ایک شخص کو کبھی زیارت نہیں ہوتی لیکن ایک ایک سنت پر جان دیتا ہے اﷲ تعالیٰ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اس سے خوش ہیں محض زیارت سے کیا ہوتا ہے کیونکہ ابو جہل بھی تو دیکھتا تھا بیداری میں دیکھنے والوں کو کیا ملا جن کو اتباع نصیب نہیں ہوئی بس اس کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا کوئی عمل سنت کے خلاف نہ ہو۔

14:55) تقویٰ محافظِ نورِ سنت ہے ارشاد فرمایا کہ سنت کے اتباع سے نور پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ اس نور کا محافظ ہے لہٰذا جو تقویٰ کا اہتمام نہیں کرتا انوار سنت کو ضائع کرتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ٹنکی پانی سے بھرلی لیکن ٹونٹیاں کھلی چھوڑ دیں تو سب پانی ضائع ہوجائے گا اسی طرح سنت کے اتباع سے قلب انوار سے بھر گیا لیکن اگر آنکھوں کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دی، بدنظری کرلی، زبان کی ٹونٹی کھلی چھوڑدی یعنی غیبت کرلی، جھوٹ بول دیا وغیرہ، کانوں کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دی یعنی گانا سُن لیا وغیرہ اس نے اتباع سنت کے انوار کو ضائع کردیا۔ اس لیے انوار سنت کی حفاظت کے لیے گناہوں سے بچنا ضروری ہے۔

16:30) شیخ کو مقصود مت بنائیں مقصود اللہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے۔۔۔

22:28) سب سے بڑی سنت ارشاد فرمایا کہ ایک سب سے اہم سنت یہ ہے کہ کسی وقت اللہ کو ناراض نہ کیا جائے۔ تقویٰ سب سے بڑی سنت ہے۔ یہی تقویٰ ہے جو ہماری غلامی کے سر پر اللہ کی ولایت کا تاج رکھتا ہے

35:40) حضرت والا رحمہ اللہ کے 1971کےکچھ ملفوظات پڑ ھ کر سنائے۔۔۔

جو شخص اپنے آپ کو فنا کرتا ہے اور مرشد کی خوشی و ناخوشی کو پہچان لیتا ہے اور اس کا ہوش رکھتا ہے کہ وہ کس بات سے خوش اور کس بات سے ناخوش ہوتے ہیں، اس فنائیت کی برکت سے وہ اللہ کا مزاج شناس ہوجاتا ہے۔ یہی مادّہ پھر اللہ کی طرف منتقل ہوجاتا ہے، پھر اسے ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ کون سا عمل اللہ کو خوش کرتا ہے اور کس عمل سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔اصلاح کے باب میں پیر جو حکم دے اس کو یہ سمجھو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،جو شخص پیر سے یہ اعتقاد نہیں رکھے گا بلکہ اس کو عام انسانوں کی طرح مٹی کا ایک انسان سمجھے گا اسے اس راستہ میں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ایسے وقت میں بے ہوشی جرم ہے

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries