فجر مجلس۹ جولائی ۴ ۲۰۲ء :صراط مستقیم اور اتباع اکابر ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔ بیان :عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 03:15) صراطِ مستقیم اور اتباع ِاکابر میرے دوستو!بندے کی کامیابی بندہ بن کے رہنے میں ہے۔بندہ اگر بندہ بن کے رہے تو یہ کامیاب بندہ ہے،اگر قیدِ بندگی سے آزاد ہوگیا تو یہی ہلاکت ہے،یہی ضلالت ہے اور یہی دوزخ کا راستہ ہے۔اور بندہ بننے کے لئے ضروری ہے کہ اتباع ِشریعت اور اتباع ِسنت کا ذوق ہم اپنے اندر پیدا کریں۔جس کو یہ طبیعت حاصل ہوگئی، یہ مزاج اور ذوق حاصل ہوگیا کہ رضائے محبوب ِحقیقی کی تلاش اور فکر کا واحد طریق اس کے نزدیک اتباع ِشریعت ہے تو یقیناً یہ حق پر ہے۔ساتھ ہی یہ بھی شرط ہے کہ عمل وہ مقبول ہے جو علم کے موافق اور تابع ہو اور علم وہ معتبر ہے جو اکابرِ دین کے علم اور تحقیقات کے موافق ہو،کیونکہ اکابر ان کو کہتے ہیں جو علم میں بڑے ہیں،فہمِ دین میں بڑے ہیں،اتباع ِشریعت میں بڑے ہیں۔ 03:16) اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ پر علمِ عظیم حق تعالیٰ نے ہمیں دین کی فہم اور دین کی اتباع کے بارے میں قرآن و حدیث دے کر آزاد نہیں چھوڑ دیا کہ تمہیں قرآن دے دیا اور جو ہمارے پیغمبرﷺکے علوم ہیں، آزادی سے اس کی پیروی کرو بلکہ شروع ہی میں قرآن ِپاک کے اندر یہ سبق بتایا کہ کہو اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ اے اللہ!ہمیں سیدھا راستہ دکھائیے۔معلوم ہوا کہ ایک تو ’’راستہ‘‘ ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ اے اللہ!ہمیں راستہ بتلادیجئے تو جب اللہ تعالیٰ خود راستہ بتلائیں گے تو کیا غلط راستہ بتلائیں گے؟نہیں،لیکن خود ہی فرماتے ہیں کہ اَلصِّرَاطَ تک مت رُکو،کہو کہ اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ بالکل سیدھا راستہ ہمیں عنایت فرما دیجئے، اس کی ہدایت،اس کی فہم اور توفیق عطا فرما دیجئے۔سیدھا کا کیا مطلب ہے؟تُعْرَفُ الْاَشْیَاۗءُ بِاَضْدَادِھَا کسی چیز کی ضد سمجھ میں آئے تو وہ شے،اس کی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے کہ بھئی!پانی ٹھنڈا لائو۔اب ٹھنڈا کیا ہے؟جو گرم نہ ہو۔گرمی اور ٹھنڈک میں تضاد ہے،اگر ٹھنڈا ہے تو گرم نہیں،گرم ہے تو ٹھنڈا نہیں ہے۔تو سیدھا راستہ کیا مطلب؟ جس میں ٹیڑھا پن بالکل نہ ہو،ایسا راستہ جو بالکل محبوب ِپاک کی طرف لے جائے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی مقصود ہو،ان کی رضا،ان کا قرب ہی مقصود ہو اور کچھ بھی نگاہ میں نہ ہو 06:59) نگاہ میں کوئی نہیں صرف وہ محبوب ِپاک ہے۔توحید بڑی عجیب چیز ہے،انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے،تمام ظلمات اور گرد و غبار کو دور کرکے بالکل پاک و صاف کرکے نور ہی نور کے اندر پہنچا دیتی ہے۔ایمان اگر سینہ میں آگیا،دل میں اُتر گیا تو پھر انسان بالکل کامیاب ہے۔لیکن ہمارے ایمان کا کیا حال ہے،اللہ معاف فرمائے۔ایک بزرگ نے فرمایا تھا کہ اگر صحابۂ کرامy اس دور کے لوگوں کو دیکھتے تو کہنےپر مجبور ہوتے کہ کیا یہ لوگ مسلمان ہیں؟آج کے مسلمانوں کو دیکھ کر صحابہؓ یوں سمجھتے کہ یہ سب کفار ہیں اور اب کافروں کو مسلمان کہا جارہا ہے۔اور دنیا میں جو اس وقت مسلمان ہیں یہ اگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو دیکھ لیتے تو یہ کہنے پر مجبور ہوتے کہ یا اللہ !یہ سب دیوانے ہیں،صحابہؓ کو دیوانہ سمجھتے،کیا مطلب کہ دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں،دنیا کو جانتے ہی نہیں،ایسا حال تھا صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا۔ 09:40) تو حق تعالیٰ نے دین کی ہدایت کو آسان کرنے اور اس کو بالکل متعین کرنے کے لئے آگے یہ الفاظ نازل فرمائے کہ اَلصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِیْمَ تک کہنا کہ ہمیں دکھا دیجئے راہ سیدھی۔پھر فرمایا کہ یہاں تک بھی مت رُکنا بلکہ یہ بھی ساتھ کہو صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ منعم علیہم کے راستے پر ہمیں چلائیے،وہی راستہ ہمیں دکھائیے جن پر آپ خوش ہوگئے،جن کے عقائد سے،جن کے علوم سے آپ خوش ہیں، جن کے اعمال سے آپ خوش ہیں،جن کے انفاس ِحیات سے آپ خوش ہیں،ایسے منعم علیہم جن کی زندگی کا ہر لمحہ ایسا گزرا کہ ہر لمحہ موجبِ انعامِ حق ہے، موجبِ رضائے الٰہی ہے، اللہ کی نگاہ میں ان کے لئے سو فیصد رضا مندی ہے:﴿ یٰٓاَ یَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ﴾ (سورۃ الفجر:آیات ۲۷،۲۸) اللہ ان پر راضی وہ اللہ پر راضی،دونوں طرف سے رضا مندی؎ دونوں جانب سے اشارے ہوچکے ہم تمہارے تم ہمارے ہوچکے قسم بخدا!صرف ایسے ہی حضرات منعم علیہم ہیں اور انہی کا راستہ صراط ِمستقیم ہے۔معلوم ہوا کہ اکابرِ امت کا جو راستہ ہے وہی راستہ اللہ تک پہنچانے والا ہے،اللہ تک پہنچنے کے لئے اکابرِ امت کا علم اور تحقیقات ہی معتبر ہیں،اتباع کے لئے ان کا طریقۂ حیات ہی متعین ہے۔ 11:30) کشکولِ معرفت اتباعِ سنت کا انعام فرمایا کہ اتباعِ سنت کا اہتمام کیا کرو۔ کیا آپ کے باپ دادا میز کرسی پر کھاتے تھے؟ اب کیا ہوگیا ہے کہ آپ کو فرش پر سنت کے مطابق کھانے میں عار ہے؟ محمد علی جناح مرحوم کی انگریزی تقریر سے انگریز بھی شرماتے تھے کہ ہم ایسی نہیں بول سکتے، مگر آخر میں شیروانی پاجامہ ٹوپی پہنتے تھے اور ہمارے نوجوانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ کوٹ پتلون ٹائی اور ڈاڑھی صاف؟ معلوم نہیں ہوتا ہے کہ یہ مسلمان ہیں یا عیسائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب قیامت کے دن حاضری دوگے تو کیا پسند کرتے ہو کہ بابو بن کر کوٹ، ٹائی پتلون، ڈاڑھی مونچھ صاف، اس طرح سے پیش ہوکر کہوگے کہ یارسول اللہ! میں آپ کا اُمتی ہوں۔ ارے کس منہ سے کہوگے۔ جلدی اصلاح کرلو اور فرمایا کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، استنجا کرنے اور ہر کام میں سنت کا خیال رکھو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے ہماری کتاب اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرو۔ ایک ایک سنت کو اپنائو۔ اتباعِ سنت کو معمولی نہ سمجھو، اللہ تعالیٰ کا اتباعِ سنت پر وعدہ ہے ’’یُحْبِبْکُمُ اﷲُ ‘‘اللہ تعالیٰ تم سے محبت فرمائیں گے، عجیب انعام ہے۔ ہماری اتباعِ سنت ناقص ہوگی مگر اللہ تعالیٰ جب محبت فرمائیں گے تو کامل فرمائیں گے کیونکہ وہ نقص سے پاک ہیں، ان کا کوئی کام ناقص نہیں ہوسکتا۔ 13:59) صراطِ مستقیم اور اتباع ِاکابر اولی الامر میں فقہاء اور علماء بھی شامل ہیں ایک اور جگہ حق تعالیٰ نے قرآن ِپاک میں صاف فرمادیا: ﴿ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج﴾ (سورۃ النساۗء:آیۃ ۵۹) کہ ہم تم سے چاہتے ہیں کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور ہمارے اِس رسولﷺکی اطاعت کرو۔ اَلرَّسُوْلَ میں الف لام عہدِ خارجی ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء تو بہت ہیں،مرسلین تو بہت ہیں لیکن اس وقت آپ سے جو مطالبہ ہے کہ ہمارے اِس رسول یعنی محمدﷺکی اتباع کرکے ہمیں دِکھادو،یعنی ان کی اطاعت چاہئے۔تو دونوں اطاعت کے لئے الگ الگ لفظ نازل فرمایا اَطِیْعُوااللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ۔نیز یہ بھی فرمایا کہ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ کہ ہمارے رسولﷺکی اطاعت بالکل ہماری ہی اطاعت ہے، ایسا شخص بالکل کامیاب ہے۔اس سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آپﷺکے ارشادات پر جس نے عمل کیا تو اس نے حقِ توحید صحیح ادا کردیا،وہ بالکل رضائے محبوب ِپاک کے راستے پر قائم ہے،بالکل صراط ِمستقیم پر ہے۔لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اَلرَّسُوْلَ پر ایک عطف فرمایا:وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ اور اس میں مِنْکُمْ لگاکر بتا دیا کہ پوری امتِ مسلمہ میں سے جو اولوالامر ہیں ان کی بھی اطاعت کرو۔یہاں وائو جمع کے لئے ہے یعنی ہمارے رسولﷺکی بھی اطاعت کرو اور رسول کو معطوف علیہ قرار دے کر فرمایا کہ اطاعت میں اولوالامر کو بھی ہمارے رسول کے ساتھ جمع کرو۔ یہ ’’اولوالامر‘‘ کون لوگ ہیں؟بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ اولوالامر سے مراد فقہائے امت ہیں اور بعض نے دنیاوی حکام کو بھی اس میں شامل کیا ہے کہ حکام اگر شریعت کے موافق حکم کریں تو ان کی اطاعت بھی واجب ہے اور اگر شریعت کے خلاف حکم کریں تو ان کی اطاعت جائز نہیں ہے 16:30) تو حاصل یہ ہے کہ اللہ کی اور حضورﷺکی اطاعت مطلوب ہے لیکن کیا ہم اپنے فہم کے مطابق شریعت کی اتباع کریں گے؟نہیں!بلکہ فقہائے امت کی نگاہ میں شریعت کی جو تحقیق ہے اس کی اتباع ہمارے ذمہ لازم ہے،تب ہی یہ اللہ اور رسول ﷺکی اطاعت ہوگی، لہٰذا شریعت کے جو احکام ہیں وہ فقہائے امت سے معلوم کرنے ہیں۔ رحمٰن کے حقوق کو کسی باخبر سے پوچھو قرآن ِپاک میں حق تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِهٖ خَبِيْرًا﴾ (سورۃ الفرقان : آیۃ ۵۹) رحمٰن کے حقوق کو کسی باخبر سے پوچھو،حق تعالیٰ کی مرضیات کو کسی باخبر سے پوچھو۔ہر ایک سے پوچھنے کو نہیں بتلایا،نہ یہ فرمایا کہ جس طرح چاہو عمل کرو کہ بس قرآن آگیا،اس میں تمام باتیں صاف صاف بتلادی ہیں،اب اس پر عمل کرو۔نہیں!اگر اللہ تعالیٰ چاہتے تو کروڑوں انبیاء پیدا فرما دیتے،ہر محلے،ہر بستی کے لئے مستقل کوئی نبی آجاتا،ایسا بھی تو ہو سکتا تھا۔پھر تو ہر قوم دعویٰ کرتی کہ ہمارے پاس کیوں نبی نہیں بھیجا؟کیا امریکہ، آسٹریلیا والے کہہ سکتے ہیں کہ ایک نبی ہمارے یہاں بھی مبعوث ہوئے تھے؟یا پاکستان، بنگلہ دیش،انڈیا والے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری قوم میں بھی نبی آئے تھے؟اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کے لئے کتنے انبیاء بھیجے؟ایک کروڑ بھی نہیں،اچھا پچاس لاکھ ہی بھیج دیتے،ایسا بھی نہیں۔تو حق تعالیٰ جل شانہ نے یہ طریقہ مقرر فرمایا کہ جو ہمارے منتخب لوگ ہیں،انہی کی اطاعت کے ذریعہ سے ہماری اطاعت حاصل ہوگی،انہی کی بات ماننے سے،انہی کی ہدایت پر چلنے سے ہم راضی ہوں گے۔لہٰذا یہ دیکھو کہ میرے نبی ﷺکی زبان سے دین کی کیا شرح نکلتی ہے؟دین کا کیا طریقہ،وصول الی اللہ اور رضائے الٰہی کا کیا طریقہ ہمارے نبیﷺبتاتے ہیں؟بس وہی اختیار کرو،اس سے باہر قدم نہ رکھو۔اگر نبیﷺکی ہدایت کے باہر یا اس کے مخالف تم قدم رکھو گے،خواہ لاکھ ہماری ہی رضا کی نیت ہو،وہ غیر معتبر ہے،بالکل ضلالت اور جہنم کا راستہ ہے۔ 19:42) علماء صرف وہ ہیں جن کے دل میں خشیت ِالٰہیہ بھی ہو دیکھئے!قرآن ِپاک کی ایک آیت تو آپ نے سن لی،اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِهٖ خَبِيْرًا، اب سنئے کہ سرور ِعالم ﷺ کیا فرماتے ہیں: (( اَلْعُلَمَاءُ وَ رَثَةُ الْاَنْبِيَاءِ )) (مشکٰوۃ المصابیح:(قدیمی)؛کتاب العلم؛ ص ۳۴) علمائےدین انبیاء کے وارث ہیں یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کی جو امانت ِعلمی ہے وہ علمائے امت کے پاس موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گی،وہ امانت علمائے دین سے حاصل کرو۔ اچھا پھر علمائے دین کو بھی آزاد نہیں چھوڑا کہ وہ جو چاہے کریں: ﴿ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَماء﴾ (سورۃ الفاطر : آیۃ ۲۸) فرمایا کہ علماء صرف وہ ہیں جن کے اندر خشیتِ الٰہیہ ہو،ہر کام میں،ہر معاملہ میں،جملہ امور میں خشیتِ الٰہیہ جن سے ثابت ہو،جن کے دل میں اللہ کی عظمت ہو،ہر قدم اللہ کی مرضیات کے موافق جیتے ہوں،تب وہ عالمِ دین ہیں۔اگر علم تو سمندر برابر ہے لیکن خشیتِ الٰہیہ کا وجود نہیں ہے،یا کبھی ہے کبھی نہیں ہے تو اس آیت ِپاک کی روشنی میں وہ عالمِ دین نہیں ہیں کیونکہ ان کے اندر خشیتِ الٰہیہ کا فقدان ہے۔ 27:42) دین کی تمام محنتوں سے مقصود رضائے الٰہی ہے اسی لئے تمام صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ،تابعین،تبع تابعین اور تمام ائمہ مجتہدینs، تمام علمائے امت کا اس پر اجماع ہے یعنی اجماع ِمطلق ہے کہ جس کے اندر علم تو بہت ہو لیکن اتباع ِشریعت کے خلاف اس کی زندگی ہے تو شریعت کے نزدیک وہ عالم ہی نہیں ہے۔ صرف عربی زبان سیکھنے سے دین نہیں آتا،دین الگ چیز ہے۔حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ فرماتے تھے کہ اے علمائے دین!عربیت میں تم جتنے بھی ماہر ہوجاؤ لیکن یاد رکھو !ابو لہب اور ابو جہل کی طرح فصیح و بلیغ نہیں بن سکتے،وہ قریشی تھے اور پورے عرب میں قریش سب سے زیادہ فصیح و بلیغ ہوتے تھے لیکن ایسی فصاحت و بلاغت کے بعد بھی وہ جہنم میں ہیں اور ہمیشہ کے لئے مخلد فی النار ہیں۔لہٰذا اصل مقصود زبان نہیں ہے،اصل مقصود عربیت نہیں ہے بلکہ اصل مقصود ایمان ہے،اصل مقصود دین ہے،اصل مقصود رضائے الٰہی ہے۔ 32:29) شیخ سے حُسنِ ظن رکھنے کا فائدا۔۔۔ دورانیہ 35:32 |