فجرمجلس۱۱ جولائی ۴ ۲۰۲ء :شریعت کی پابندی پر نصرت الٰہیہ کا وعدہ ہے ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔ بیان :عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 08:02) صراطِ مستقیم اور اتباع ِاکابر بادشاہ عالمگیر حوض کے کنارے نہانے کے لئے منتظر تھے تو ایک ہندو راجہ کا لڑکا اپنی عرضی لے کر حاضر ہوا،عالمگیر نے اس کا امتحان لینے کے لئے اس کے دونوں بازو پکڑ کر ڈرایا کہ تجھے تالاب میں ڈبودوں؟ تو وہ زور سے ہنسا،شاہ ناراض ہوئے کہ جب میں نے ڈرایا تو اسے ڈرنا چاہئے تھا،اس نے آداب ِشاہی کےخلاف یہ کام کیا کہ اس طرح سے ہنستا رہا،یہ اچھی بات نہیں ہے۔تو اس لڑکے نے کہا کہ حضور!میری بات تو سنیں کہ میں کس لئے ہنسا؟بادشاہ نے پوچھا کہو کیا بات ہے؟اس نے کہا کہ میرا تو عقیدہ ہے کہ اگر آپ میری ایک انگلی بھی پکڑے ہوئے ہوں تو ہرگز میں ڈوب نہیں سکتا تو جبکہ میرے دونوں بازو آپ پکڑے ہوئے ہیں تو میں کیسے ڈوب سکتا ہوں،اس پر عالمگیر بہت خوش ہوئے۔ ارے میاں!بادشاہ عالمگیر پر ایک ہندو بچہ ایسا اعتماد رکھتا ہے کہ اگر بادشاہ ہاتھ پکڑے ہوئے ہوں تو ہرگز ڈوب نہیں سکتا،تو پیغمبرﷺ جب فرماتے ہیں کہ قیامت تک ایک جماعت رہے گی جس کی حق تعالیٰ شانہ خود دستگیری فرماتے رہیں گے، پھر یہ حضرات کیسے ڈوب سکتے ہیں؟کیسے ہلاک ہو سکتے ہیں؟گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے، ہمارا کام ہے حق پر قائم رہنا،اور حق پر جینا حق پر مرنا،سرِمُو اس سے نہ ہٹنا، ان شاء اللہ۔ 08:03) شریعت کی پابندی پر نصرت ِالٰہیہ کا وعدہ ہے آگے اور بھی تسلی فرمادی کہ لَا يَضُرُّهُمْ مَّنْ خَذَلَھُمْ خذلان کے کیا معنی ہیں؟ جو بھی ان کا ساتھ چھوڑ دے کہ ہم آپ کی کوئی مدد نہیں کریں گے،اس سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا خواہ پوری دنیا ان کی نصرت اور ساتھ چھوڑ دے،ایک سرِمُو ان کو ضرر نہیں پہنچا سکتے،حق تعالیٰ ان کے لئے کافی ہیں۔حق تعالیٰ نے قرآن ِپاک میں فرمایا: ﴿ وَ لَا تَهِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﴾ ( سورۃ اٰل عمرٰن: آیۃ ۱۳۹ ) یعنی حق تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے،بالکل فکر نہ کرو،صرف یہ ہے کہ ہمارا بن کر دِکھادو،پھر ہم نصرت کرکے دِکھا دیں گے،سارے عالم میں جہاں بھی تم ہوگے بس تم ہی تم ہوگے،اگر تم پابندِ شریعت ہو تو پھر دیکھ لینا کہ ہم کس طرح تمہاری نصرت کرتے ہیں،پوری دنیا میں کیسی تمہیں سربلندی عطا فرماتے ہیں۔حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ رحمہ اللہ فرماتے تھے؎ رستمِ خفتہ ہے تُو کَس بَل نہیں ہے کم ترا جاگنے کی دیر ہے پھر ہے وہی دَم خم ترا 14:31) تم چھپے رُستم ہو،تمہارے اندر ایمانی قوت ہے،طاقت ہے لیکن تم غافل ہو چکے ہو، دین سے ہٹ چکے ہو،اس لئے پھر دین کے ساتھ جاگ اُٹھو،اپنی غفلت کی نیند سے بیدار ہوجاؤ۔ تم سمجھتے ہو کہ تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے،حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ارے! میں خود تمہارے ساتھ ہوں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا آپﷺ نے فرمایا اے صدیق! گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کسی کنبے کسی پارٹی کسی فوج کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ ہمارے ساتھ ہے تو سب کچھ ہے، اللہ ہمارے ساتھ ہے تو ہم کامیاب ہیں، اللہ ہمارے ساتھ ہے تو ہماری ایسی حفاظت ہے کہ لاکھوں کروڑوں فوج سے بڑھ کر بڑی طاقت اور حفاظت کا انتظام ہمارے ساتھ ہے؎ دشمن چہ کند چو مہرباں باشد دوست مالک تعالیٰ کی نگاہِ کرم اور حفاظت جب ساتھ ہو تو پھر دشمن کیا کرسکتا ہے،خواہ دشمن کا کنبہ کتنا ہی بڑا ہو،اس کی پارٹی کتنی ہی بڑی ہو۔ 16:56) طلبہ ِ کرام کو کچھ خاص نصیحتیں۔۔۔ 21:00) صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین و تابعین رحمہم اللہ کی نظر میں خشیت ِالٰہیہ کا مقام اصل بات تو یہ ہے کہ شریعت سے ہم لوگ ہٹ گئے ہیں،یہ تاویل وہ تاویل، یہ مصالح وہ حکمت۔ایسے ایسے مصالح ہم لوگ سوچتے ہیں،ایسی ایسی حکمت سوچتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہیں،قرآن ِپاک کے خلاف ہیں،حدیثِ پاک کے خلاف ہیں، اکابرِ امت کی تحقیقات کے خلاف ہیں۔ یہ حکمت نہیں ہے،یہ سب جہالت کی باتیں ہیں، اتباع ِشریعت کے آگے ہم کچھ نہیں جانتے۔اب دیکھو کہ ایک آدمی بظاہر محدث، فقیہ،مفتی،مفسر ہے،ادیب،فصیح و بلیغ بھی ہے،سب کچھ ہے اور تمام امت کے اندر بہت ممتاز ہے لیکن عمل شریعتِ پاک کے خلاف ہے،نماز بھی ٹھیک سے نہیں پڑھتا،روزہ بھی نہیں رکھتا،یا نماز تو پڑھتا ہے اور سب اعمال شریعت کے موافق ہیں لیکن غیبت کا عادی ہے، شب و روز مستقل غیبت میں مبتلا رہتا ہے،یا بدنگاہی کی عادت بہت پختہ ہے، یا گھر میں پردہ شرعی نہیں ہے تو قسم بخدا!وہ عالمِ دین نہیں ہے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں، وہ عالمِ دین نہیں ہے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نگاہ میں،وہ عالمِ دین نہیں ہے حضرت عثمان و علی رضی اللہ عنہماکی نگاہ میں، وہ عالمِ دین نہیں ہے حسن بصری رحمہ اللہ کی نگاہ میں،یعنی وہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ،تابعین اور تبع تابعین رحمہم اللہ کی نگاہ میں عالمِ دین نہیں ہے،خشیت ِ الٰہیہ کا ایسا معاملہ ہے۔ 23:05) مقبولان ِامت کی تشریحات ِدین کی مخالفت صراط ِمستقیم نہیں ہے اس سے بڑھ کر ایک بات عرض کرتا ہوں کہ خشیتِ الٰہیہ بھی ہے،ہر کام شریعت کے موافق بھی ہے لیکن دین کی شرح،قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر اپنی سمجھ کے مطابق کرتا ہے لیکن وہ سمجھ اور وہ فہم صحابۂ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اور اکابر کے فہمِ دین سے ٹکراتی ہے یا تابعین و تبع تابعین کے فہمِ دین سے ٹکراتی ہے،بالکل اس کے مخالف اور معارض ہے، یعنی پوری امت کے نزدیک وہ سب طبقات جو شرحِ دین کے لئے مقبول و معتمد ہیں، ایسے مقبول طبقات کی تشریحِ دین کے خلاف اس کی شرحِ دین ہے تو ایسا شخص صراط ِمستقیم سے بالکل ہٹا ہوا ہے،خواہ اس کا علم ہزاروں سمندر کے برابر کیوں نہ ہو،اس کا اتباع صحیح نہیں، اس کو مقتدا بنانا صحیح نہیں۔ 23:29) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا قول ِزرّیں یہ بات ہمارے اکابر کی خصوصیات میں سے تھی کہ خواہ وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں لیکن اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے،اب دیکھو!امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ، برصغیر کے تمام علمائے دین جن کے عاشق ہیں،جن کے علم کے سامنے سو فیصد جھکتے ہیں اور اس کو باعث ِفخر سمجھتے ہیں،وہی امام شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں:اَنَا حُرٌّ مِّنَ الْحَنَفِیَّۃِ وَالشَّافِعِیَّۃِ وَلٰکِنْ حَنَفِیٌّ عَمَلًا اللہ تعالیٰ نے مجھے قرآن و حدیث کے علوم سے اس قدر نوازا ہے کہ مجھ پر نہ حنفی بننا واجب ہے اور نہ شافعی بننا واجب ہے لیکن باوجود اس کے میں عملاً حنفی ہوں،وہی عمل کرتا ہوں اور اسی پر عمل کی سب کو دعوت دیتا ہوں جو حنفیہ کے ہاں معتبر ہے،امام اعظم رحمہ اللہ کے ہاں جو معتبر ہے،ان کا جو طریق ہے،جو تشریحِ دین ہے،اسی کے سامنے میں سر جھکاتا ہوں۔اتنے بڑے عالم ِدین ہو کر اس طرح فرمانا ہمارے لئے کس قدر سبق آموز بات ہے۔ یہی حال ہمارے ائمۂ ثلاثہ کا تھا،امام محمد،امام ابو یوسف،امام زفر رحمہم اللہ اپنی اپنی جگہ پر کتنے بڑے محدث تھے، کتنے بڑے فقیہ تھے،لیکن امام اعظم رحمہ اللہ کی تحقیق کے سامنے بالکل سرِ تسلیم خم کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے حضرت امام اعظم رحمہ اللہ سے ایک حدیث کا مطلب پوچھا، حدیث ِقلتین کی شرح پوچھی تھی،امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جب اس کی شرح بتائی تو امام ابو یوسف رحمہ اللہ اتنے بڑے محدث ہوکر بھی اس قدر متاثر ہوئے کہ رونے لگے اور عرض کیا دَعْنِیْ اُقَبِّلُ رِجْلَیْکَ (اجازت دیجئے کہ میں آپ کے قدموں کو چوم لوں)۔ 25:42) امام بخاری رحمہ اللہ کا قبولیت کےدعویٰ سے بچنے کا اہتمام اب بعض لوگ اس طرح سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ساٹھ سال سے بخاری شریف پڑھا رہے ہیں تو کیا ہم کچھ دین نہیں سمجھتے؟ تو دوستو یہ بتائو!کیا ساٹھ سال سے بخاری شریف پڑھانا یہ فہم ِدین کی کوئی دلیل ہے؟یہ کوئی حجت ہے آپ جس کو پیش کر رہے ہیں؟آپ کا یہ دعویٰ کرنا خود دلیل ہے کہ آپ کے اندر کج روی موجود ہے،آپ کے فہم کے اندر قصور موجود ہے۔کیوں آپ سبق میں یہ نہیں بتاتے کہ یہ شرح جو میں نے پیش کی،یہ میری طرف سے نہیں ہے،ہمارے اکابرِ امت کی طرف سے ہے،اَلْاِسْنَادُ مِنَ الدِّیْنِ اپنے اکابر کی سند سے بات پیش کریں تو پھر وہ دین معتبر ہے،اپنی طرف سے بولنا تو یہ دعویٰ ہے۔ دیکھئے!امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس حدیثِ پاک کا ذکر کیا،مشہور حدیث ہے: (( اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِ یٍٔ مَّا نَوٰی)) تواس حدیثِ پاک کے اس جز کو افتتاح میں چھوڑ دیا: ((فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللہِ وَرَسُوْلِہٖ)) کہ جس نے ہجرت کی اللہ اور رسول ﷺکے لئے تو اس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئے ہے اور حدیثِ پاک کا جو دوسرا جز ہے،صرف اس کو ذکر فرمایا: (( فَمَنْ کَانَتْ ہِجْرَتُہٗ اِلٰی دُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوْ اِلٰی اِمْرَ أَ ۃٍ یَّنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَیْہِ)) (صحیح البخاری:(قدیمی) ؛باب کیف کان بدؤ الوحی ؛ج ۱ ص ۲ ) جس نے دنیا کے مقصد سے ہجرت کی یا کسی عورت کے مقصد سے ہجرت کی،بس اسی مقصد سے اس کی ہجرت ہے۔تویہ جو حدیثِ پاک کا دوسرا جز ہے اس کو تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے افتتاح کے موقع پر ذکر کیا اور اللہ کی رضا کے مقصد سے ہجرت کے پہلے جز کو انہوں نے چھوڑ دیا،ذکر ہی نہیں کیا،کیا وجہ ہے؟علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے شرح کی کہ جب کتاب لکھتے ہیں تو شروع میں مقدمہ کے اندر جو باتیں ہوتی ہیں وہ دعویٰ کے درجہ میں ہوتی ہیں کہ اس میں اتنے ابواب ہوں گے اور اتنے مضامین ہوں گے اور اس کو اتنے اقسام پر ہم تقسیم کریں گے،یہ سب تو دعویٰ ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ نےکتاب کے مقدمہ کے موقع پر جس حدیث کا ذکر کیا تو اگر وہ حدیث کے اس جز کو ذکر کرتے کہ جس کی ہجرت اللہ اور رسول کے لئے ہو،تو اس جز کے ذکر کرنے کا یہ مطلب ہوتا کہ ہم جو یہ کتاب لکھ رہے ہیں یہ اللہ اور رسول ہی کی رضا کے لئے کر رہے ہیں تو یہ دعویٰ ہوتا یا صورتِ دعویٰ ہی ہوجاتی کہ میں ایسا کروں گا،اس سے بچنے کے لئے امام صاحب نے اس جز ہی کو چھوڑ دیا۔ پھر اس حدیثِ پاک کو پوری کتاب میں کئی جگہوں پر تفصیل سے ذکر کیا لیکن شروع کتاب کے مقدمہ میں اس جز کو چھوڑ دیا کہ بھئی یہ دعویٰ ہو جائے گا۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کی تشریح کا جو بھی مقام ہو،وہ الگ بات ہے لیکن انہوں نے یہ شرح اس بناء پر کی کہ ہمارے اکابر اور اسلاف کا یہ شیوہ رہا ہے کہ دعویٰ سے ہمیشہ بچتے تھے،تو پھر یہ دعویٰ کرنا کہ ہم پچاس ساٹھ سال سے بخاری شریف پڑھا رہے ہیں،اب بھی کیا ہماری بات کا اعتبار نہیں تو کس کا اعتبار ہے؟یہ دعویٰ خود دلیل ہے کہ یہ غیر معتبر شخص ہے۔ 29:07) حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کی اپنے بڑوں کے سامنے خاکساری دورانیہ 33:01 |