فجر مجلس۱۵       جولائی       ۴ ۲۰۲ء     :بالطف زندگی کا حصول اتباع شریعت پر موقوف ہے         !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔

بیان :حضرت اقدس فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

10:08) صراطِ مستقیم اور اتباع ِاکابر حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کی شان ِتواضع تو میں عرض کر رہا تھا کہ حضرت حکیم الامت نور اللہ مرقدہ کے علوم و معارف کا مطالعہ صحیح فہمِ دین کے لئے اکسیر ہے۔اپنے علوم و معارف کے بارے میں خود حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وہ کام لیا کہ اب آئندہ سو سال تک اطمینان سے اسی کی روشنی میں تم لوگ چلو،دین کی تشریح کے لئے تمہارے واسطے یہی کافی ہے۔ یہ حضرت حکیم الامتؒ کی زبان سے کہلوایا گیا ہے،یہ دعویٰ نہیں ہے،کوئی آدمی ایسا دعویٰ کیسے کرسکتا ہے؟جبکہ خود حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ؎

تمہاری کیا حقیقت تھی میاں آہؔ یہ سب امدادؔ کے لطف و کرم تھے

اور یہ بھی فرمایا کہ؎

خودی جب تک رہی اس کو نہ پایا جب اس کو ڈھونڈ پایا خود عدم تھے

10:09) اللہ تعالیٰ سے اللہ والوں کی محبت مانگنی چاہیے۔۔۔حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ کا واقعہ۔۔۔

14:26) حضرت والا رحمہ اللہ کی اپنے شیخ سے محبت اور مجاہدے۔۔۔

17:02) ہمارے حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمہ اللہ کیا عجیب بات فرماتے تھے؎ ہمیں نقشِ قدم اشرف علی ملحوظ رکھنا ہے جو کچھ فرما گئے ہیں وہ اسے محفوظ رکھنا ہے اتنا کچھ ہونے کے باوجود مولانا تھانوی رحمہ اللہ کا یہ حال تھا کہ جب کوئی آپ کی تعریف کرتا تھا تو فرماتے تھے کہ فضائل و مدارج تو بڑے لوگوں کی باتیں ہیں،ہم کو تو جنتیوں کی جوتیوں ہی میں جگہ مل جائے یہ ہی بڑی دولت ہے۔ جو سچے اہل اللہ ہوتے ہیں ان کے سامنے لوگ تعریفیں کرتے ہیں تو وہ لوگ تحمل کرتے ہیں،اہل اللہ ابوالعیون ہوتے ہیں،ایک ہی بات کی مختلف طرز میں تشریح دیکھتے ہیں کہ بھئی ایک آدمی تعریف کر رہا ہے تو یوں سمجھتے ہیں کہ ’’من آنم کہ من دانم‘‘میں اپنے آپ کو جانتا ہوں کہ کون ہوں؟میں خباثت کا مجموعہ ہوں تو ایسے کی اگر کوئی تعریف کرے تو کیا فائدہ۔فَاحْثُوْا فِیْ وُجُوْهِهِمُ التُّرَابَ کا یہی مطلب ہے جو آپﷺ نے فرمایا: ((اِذَا رَاَيْتُمُ الْمَدَّاحِيْنَ فَاحْثُوْا فِيْ وُجُوْهِهِمُ التُّرَابَ۔رواہ مسلم)) (مشکٰوۃ المصابيح: (قدیمی) ؛ باب حفظ اللسان والغیبۃ والشتم؛ ص ۴۱۲)

19:07) باہر ملک جانے کے نقصانات۔۔۔

22:53) کوئی تمہاری تعریف کرے تو تم اس کے منہ میں مٹی ڈال دو،تو کیا آدمی جاکر ہر ایک کے منہ میں مٹی ڈالے؟یہ مطلب نہیں ہے،اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تعریف کو مٹی سمجھو،کچھ بھی نہ سمجھو،اپنے آپ کو ہرگز اس قابل نہ سمجھو۔لہٰذا اگر کوئی کسی کی تعریف کرتا ہے تو کیا غلط کرتا ہے؟ کیا وہ گالیاں بکے،دنیا بھر کی گالیاں دینے لگے؟بولو بھئی!یہ بھی تو شریعت ِپاک کو منظور نہیں، اس کی دلیل کیا ہے؟آپﷺ نے فرمایا حق تعالیٰ سے دعا مانگا کرو: (( اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّ فِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا)) (کنز العمال : (دارالکتب العلمیۃ) ؛ ج ۲ ص ۸۲ ؛ رقم الحدیث ۳۶۷۲ ) اے اللہ!مجھے میری نگاہ میں صغیر دِکھا دیجئے کہ میں چھوٹا ہوں اور لوگوں کی نگاہ میں مجھے بڑا دِکھائیے،آپ کے بندوں کی نگاہ میں باعزت بنادیجئے،عظمت والا بنادیجئے۔

میں اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھوں لیکن لوگ مجھے باعزت سمجھیں۔لیکن یہ دعا جو ہے یہ حسن لعینہٖ نہیں ہے حسن لغیرہٖ ہے،کیا مطلب؟بالذات اپنے آپ کو بڑا سمجھنا،اس مقصد سے یہ دعا نہیں ہے،بلکہ صرف اس مقصد سے کہ اے اللہ!لوگ اگر ہمیں گالیاں دیتے رہیں گے، ہمیں بدنام کرتے رہیں گے تو ہم اس کو تحمل نہیں کرسکیں گے،آپ کی عبادت کے راستے میں مخالفین کے اعتراضات و گالیاں رکاوٹ بن جائیں گی اور اس پریشانی میں ہم آپ کو یاد بھی نہیں کرسکیں گے۔تو اصل مقصد ہے یادِ الٰہی،اصل مقصد ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس دعا میں عبادت کے راستے کے موانع کو ہٹوانا مقصود ہے۔

25:34) بالطف زندگی کا حصول اتباع ِشریعت پر موقوف ہے تو اس بات کو سمجھ لیجیے کہ اہل اللہ کی مختلف جانب پر نگاہیں ہوتی ہیں،ایک طرف اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے،ہم بیکار ہیں،ہم تو سراپا نجاست ہیں،اگر دنیا والوں کو پتا چل جائے تو لوگ اتنے جوتے ماریں کہ دنیا میں رہنا ہمارے لئے مشکل ہو جائے، وغیرہ۔

27:00) دین پر چلنے والے کو وسوسے کیوں آتے ہیں؟۔۔۔

27:39) اس لئے اگر کوئی ان کی تعریف کرتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حق تعالیٰ کی ستاری ہے اور وہی ان کی زبان سے تعریف نکلوا رہے ہیں،یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے نعمت ہے، رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً میں حسنہ کی بہت سی تفسیریں ہیں،ان میں ایک ثناء الخلق بھی ہے کہ مخلوق اس کی تعریف کرتی ہو۔دوسری آیت میں حق تعالیٰ نے تو فرما بھی دیا: ﴿ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوۃً طَیِّبَةً ج﴾ (سورۃ النحل:آیۃ ۹۷) عملِ صالح کرو تو ہم تمہیں حیات ِطیبہ سے نوازیں گے یعنی تمہیں بالطف زندگی عطا کریں گے۔ اب ہر طرف سے اگر لوگ گوبر مار رہے ہوں،نعرے لگا رہے ہوں اے سور کے بچے!تو یہ بالطف زندگی کہاں ہوئی؟بالطف زندگی کا حصول موقوف ہے عمل ِ صالح پر اور عمل ِ صالح کیا ہے؟ اتباع ِ شریعت۔اور اتباع ِ شریعت کیا ہے؟ فرائض اور واجبات پر عمل پیرا ہونا، تمام معاصی کو چھوڑ دینا،حقوق العباد اور حقوق اللہ جو لازم ہیں ان کو پورا کرنا،حق اللہ کی بھی رعایت ہو،حق العباد کی بھی رعایت ہو،دونوںکا اہتمام ہو۔حقوق اللہ تو جب پورے ہوتے کہ قلب بھی اللہ کے لئے پاک و صاف ہوتا، اعضاء و جوارح بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور انقیاد سے مزین ہوتے،پھر حق اللہ پورا ہوتا۔ اور کیا حقوق العباد میں سے ہے یہ کہ دن و رات غیبت میں، لوگوں کی بدخواہی میں مبتلا ہو، جس کے ساتھ چاہو لڑو بھڑو،یہ کیا زندگی ہے، یہ منحوس زندگی ہے۔ انسانی زندگی تو اس کو نہیں کہتے۔انسان وہ ہوتا ہے جو مالک تعالیٰ پر ہمہ وقت فدا ہوتا ہے، پھر جا کر انسان انسان ہوتا ہے ورنہ صورتاً انسان ہے اور درحقیقت بالکل جانور ہے گر ز صورت آدمی انساں بدے احمد و بوجہل ہم یکساں بدے اگر شکل و صورت سے انسان انسان ہوتا تو پیغمبر احمدﷺ اور ابوجہل تو دونوں شکل و صورت میں انسان تھے،پھر تو نعوذباللہ برابر ہوتے۔

دورانیہ 31:00

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries