فجر مجلس۲۸         جولائی       ۴ ۲۰۲ء     :صحبتِ شیخ کی اہمیت پر تین بزرگوں کے واقعات    !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔

بیان :حضرت اقدس فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم حضرت شیخ العرب و العجم رحمہ اللہ کے لئے عشق میں ڈوبا ہوا ایک شعر مجھے اگر میرے شیخ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہ نہ ملتے تو ایسی باتیں ہمیں کہاں سے ملتیں، اس قلندر ِزمانہ سے یہ سب راز معلوم ہوئے،یہ اَسرار اوریہ حقائق معلوم ہوئے۔تمام اکابر کی دولتوں کو میرے شیخ نے پوری دنیا میں پہنچادیا، مشرق تا مغرب،سارے جہان میں گھوم گھوم کر اس امانتِ اکابر کو پہنچایا ہے اللہ کے اس بندے نے،خدا جانے ان کا اللہ کے یہاں قرب ِالٰہی کا کیا مقام ہے،پوری دنیا میں انہوں نے عشقِ الٰہی کی آگ لگا دی۔

ہمارے یہاں سلہٹ میں حکیم الاسلام حضرت قاری طیب صاحب رحمہ اللہ کے خلیفۂ خاص تھے مولانا اکبر علی صاحب رحمہ اللہ،حکیم الامت رحمہ اللہ کے صحبت یافتہ تھے،بہت بڑے بزرگ تھے،حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ شہر سلہٹ کے یہ قطب ہیں۔ دنیا سے بالکل ہی بےتعلق تھے،آہ!بہت بکّاء تھے،راستے سے جب گذرتے تھے تو لوگ ان کی دونوں جیبوں میں ہدایا ڈالتے رہتے تھے،انہیں کچھ خبر ہی نہیں ہوتی تھی،پیچھے اگر کوئی گاڑی آجاتی تو کسی کی مجال نہیں تھی کہ ان کو ہارن دیتا کہ راستہ چھوڑیئے،بلکہ گاڑیاں بھی ان کے پیچھے پیدل کی رفتار سے چلنے لگ جاتیں،یہ تماشا ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میرے شیخ نور اللہ مرقدہ جب بنگلہ دیش تشریف لاتے تھے تو یہ بزرگ میرے شیخ کی دعوت کرتے تھے، حضرت والا ان کی رعایت سے ہمیشہ ضرور تشریف لے جاتے تھے،دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق تھا، ان کی محبت قابل ِدید تھی۔

ایک مرتبہ میرے شیخ سلہٹ تشریف لے گئے اور وہاں بیان فرمایا۔سلہٹ میں ایک صاحب محی السنۃ چودھری نام کے تھے،ہمارے اکابر کے میزبان تھے،مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ،قاری طیب صاحب رحمہ اللہ،مولانا رفیع عثمانی صاحب،مولانا تقی عثمانی صاحب سب اکابر ان کے گھر پر ٹھہرتے تھے۔ میرے شیخ رحمہ اللہ کا بھی اسی گھر میں قیام ہوا،تو مولانا اکبر علی صاحبؒ میرے شیخ کی قیام گاہ پر تشریف لائے اور حضرت سے ملے، صوفے پر بیٹھے،میر صاحبh اور کافی لوگ سامنے حاضر تھے،میں بھی تھا،تو مولانا اکبر علی صاحب رحمہ اللہ نے اس وقت میرے شیخ کو مخاطب کرکے فرمایا

الا یا شمس تبریزی چرا مستی دریں عالم کہ جز مستی و مدہوشی دگر چیزے نمی بینم

اے شمس الدین تبریزی!پوری دنیا میں یہ آپ نے کیا آگ لگا دی،جس کو دیکھو عشقِ الٰہی کی آگ میں جل رہا ہے،جدھر دیکھو کیف و مستی ہے۔ صحبت ِشیخ کی اہمیت پر تین بزرگوں کے واقعات یہ ہمارے اکابر تھے،اگر نہ ہم ان بزرگوں کو دیکھتے تو دین کو کیسے سمجھتے،دین کیا سیکھتے؟اب لوگوں میں ایسا روگ اور بیماری پیدا ہوگئی ہے کہ اہل اللہ کے پاس جانے کے لئے فرصت ہی نہیں ملتی،سوچتے ہیں کہ وہاں جاکر کیا کریں گے؟وہ نہ بخاری شریف پڑھاتے ہیں، نہ فتح الباری سے کوئی عبارت سناتے ہیں نہ ابن عابدین شامی کی ردّالمحتار سے کچھ سناتے ہیں،نہ فقہی تحقیقات،نہ علومِ حدیث کی کچھ تحقیقات سناتے ہیں تو علماء وہاں کیوں اپنے اوقات ضائع کرنے کے لئے جائیں۔اس صحبت کو اضاعت ِ اوقات سمجھتے ہیں، حالانکہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند سے ۴۵ کلو میٹر پیدل چل کر مولانا گنگوہی رحمہ اللہ کے پاس گنگوہ جاتے تھے،جمعرات کو جاتے تھے اور جمعہ کی شام کو جب حضرت آرام فرماتے تھے اس وقت واپس آتے تھے۔ تو شیخ الہندؒ کس لئے جاتے تھے؟ پڑھنے تو نہیں جاتے تھے بلکہ پڑھاتے تو وہ دیوبند میں تھے،صرف حضرت کی صحبت اُٹھانے اور ان کی نگاہ کے انوار حاصل کرنے جاتے تھے،ان کی صحبت کے فیوض و برکات کے حصول کے لئے جاتے تھے تاکہ قلب عشقِ الٰہی سے معطر اور معمور ہوجائے۔

حضرت شاہ فضلِ رحمٰن گنج مراد آبادی رحمہ اللہ اپنے شیخ شاہ محمد آفاقh کی خدمت میں بار بار جاتے تھے۔کسی نے کہا کہ میاں کیا تم پاگل ہوگئے ہو جو پیر کے پاس اتنا زیادہ جاتے ہو تو فرمایا؎ دن میں سو سو بار واں جانا مجھے اس پہ سودائی کہے یا کوئی دیوانہ مجھے سوبار جائیں گے،سو بار خود کو اُن پر فدا کریں گے۔شاہ بھیک رحمہ اللہ شاہ ابو المعالی رحمہ اللہ کے مرید اور خادم تھے،اپنے شیخ پر سو جان سے فدا ہوتے تھے،ایک معمولی زندگی کے آدمی تھے،ان کو کیا رتبہ ملا اور کہاں سے کہاں پہنچ گئے،فرماتے ہیں بھیکا معالی پر واریاں دن میں سو سو بار کاگا سے ہَنس کیو اور کرت نہ لگی بار جو پہلے کاگا یعنی کوّا تھا،گُو کھاتا تھا،وہ ہَنس بن گیا،جو مردار خوری کا عادی تھا،طالب ِدنیا تھا، جو ظالم گدھ کی طرح سے دنیا پر مرتا تھا اس کو عشقِ الٰہی اور تجلیات ِالٰہیہ کی عادت پڑ گئی اور کچھ کام بھی زیادہ نہیں کرنا پڑا،آرام سے اپنے شیخ ابو المعالی کی برکت سے محبوب ِحقیقی تعالیٰ شانہ تک پہنچ گئے تو ہم کیوں نہ ان پر سو جان سے فدا ہوجائیں تُو نے مجھ کو کیا سے کیا شوق فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا جس نے اللہ کو چاہا اللہ اس کو ضرور ملا ہے اس لئے میرے دوستو!چلو،اس راستے پہ چلنے کی کوشش کریں،اس راستے پر پڑے رہیں،اسی پر جینا ہے اور مرنا ہے

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries