عشاء مجلس۴۔          اگست      ۴ ۲۰۲ء     : ہنسی مزاح سے متعلق علوم نافعہ       !          

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔

بیان :حضرت اقدس فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

01:21) بارش کے لیے عافیت کی دعا۔۔

03:28) زیادہ ہسنا دل کو مردہ کردیتا ہے ۔۔

12:55) ہنسی مزاح کے متعلق علوم نافعہ ارشاد فرمایا کہ حدیث پاک میں کثرت ضحک سے دل مردہ ہونے کی جو وعید وارد ہوئی ہے اس سے مراد وہ ہنسی ہے جو غفلت کے ساتھ ہو۔ کثرتِ ضحک سے بچوکیونکہ زیادہ ہنسنا دل کومردہ کردیتا ہے، اس سے مراد وہ ہنسی ہے جو غفلت قلب کے ساتھ ہو، اگر دل اﷲ سے غافل نہیں تو ہنسنے میں مضائقہ نہیں لیکن اس میں بھی اتنا غلو نہ کرو کہ ہر وقت ہنستے ہی رہو اور نہ اتنی کمی کرو کہ ہنسنا ہی بھول جائو لہٰذا اللہ والے دوستوں کے ساتھ تھوڑا ہنسنا بھی چاہیے کیونکہ یہ مقوی قلب اور مقوی اعصاب ہے، بالکل خاموشی سے اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں لہٰذا خاموشی میں بھی غلو نہ کرو، نہ ہر وقت ہنستے رہو نہ بالکل خاموش رہو بلکہ ہر چیز اعتدال میں ہو۔

18:08) ایک مرتبہ سرورِ کائنات صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ حاضر خدمت ہوئے، اتنے میں آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کسی بات پر ہنسی آگئی تو حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو دعا دی: اَضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ۱ اے اﷲ کے رسول! اﷲ آپ کو ہنستا ہی رکھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹوں کو بھی حق ہے کہ اپنے بزرگوں کو دعا دیں جیسا کہ ایک صحابی حضرت جریر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس میں تشریف لائے تو کہیں بیٹھنے کی جگہ نہ ملی، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے انہیں اپنی چادر عنایت فرمائی کہ اس پر بیٹھ جاؤ تو انہوں نے وہ چادر لے کر اس کو بوسہ دے کر واپس کردی اور آپ علیہ السلام کو دعا دی

20:48) آپ علیہ السلام کو دعا دی: اَکْرَمَکَ اللہُ یَا رَسُوْلَ اللہِ کَمَآ اَکْرَمْتَنِیْ۱ اے اﷲ کے رسول! اﷲ آپ کو عزت دے جیسا آپ نے مجھے عزت دی۔ معلوم ہوا کہ مرید اپنے شیخ کو، شاگرد استاد کو اور بیٹا باپ کو دعا دے سکتا ہے لہٰذا آپ علیہ السلام کے ہنسنے پر حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے دعا دی اَضْحَکَ اللہُ سِنَّکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ یہ حدیث بخاری شریف کی کِتَابُ الضِّحْکِ میں موجود ہے۔

22:02) اب اس پر ایک اِشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایک شخص برابر ہنستا رہے اورایک سیکنڈ بھی اس کی ہنسی نہ رکے تو ہم کو اور آپ کو اس کے بارے میں کیا خیال ہوگا کہ اسے کسی ڈاکٹر کو دِکھانا چاہیے، اس کو کیا ہوگیا ہے؟ تو ہر وقت ہنسنے سے کیا مراد ہے؟ محدثین نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ ہر وقت ہنسنے کی دعا نہیں ہے بلکہ اس کا معنی ہے: اَیْ اَدَامَ اللہُ فَرْحَکَ اے اﷲ کے رسول! اﷲ تعالیٰ آپ کی فرحت اور خوشی کو ہمیشہ قائم رکھے۔ ہمیشہ ہنسنے سے یہاں فرحت قلب مراد ہے کیونکہ جب فرحتِ قلب نہ ہوگی تو ہنسی کیا آئے گی تو دلالت التزامی سے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے دعادی کہ اَدَامَ اللہُ فَرْحَکَ اﷲ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے اور آپ کے قلب کی فرحتوں کو اﷲ تعالیٰ ہمیشہ قائم رکھیں۔ اسی لیے عر ض کردیا کہ بعض لوگ ایک حدیث دیکھ کر مفتی بن جاتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تبسم فرماتے تھے، ہنستے نہیں تھے، دوسری احادیث ان کے مطالعے میں نہیں تو جب کسی عالم کو ہنستے دیکھتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں کہ صاحب یہ کیا ہے؟ حالانکہ میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں کہ حضرت سعد بن وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے مامو ں تھے، انہوں نے جنگ بدر میں ایک مشرک کو تیر سے مار گرایا، وہ ننگا ہوگیا

24:20) فَضَحِکَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی نَظَرْتُ اِلٰی نَوَاجِذِہٖ۱ آپ علیہ السلام اتنا ہنسے کہ ڈاڑھیں مبارک نظر آنے لگیں، لہٰذا علم پورا ہونا چاہیے، اردو کی کتابیں پڑھ کر علماء کی اِصلاح مت کیجیے، مفتی نہ بنئیے۔

28:29) ہنسنے میں بھی دل اﷲ سے غافل نہ ہو غرض ہمارے بزرگ ہنستے بھی ہیں اور ہنساتے بھی ہیں لیکن ان کا دل اﷲ سے غافل نہیں ہوتا۔ ایک مجلس میں حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اﷲ علیہ خوب ہنسے اور مفتی شفیع صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور دوسرے پیر بھائیوں کو بھی خوب ہنسایا، بعد میں خواجہ صاحب نے پوچھا کہ سچ سچ بتائیں، ہنسی کی اس محفل میں کیا آپ کے دل اﷲ سے غافل تھے؟ تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ بوجہ ادب کے ہم سب خاموش ہوگئے، اس پر حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ الحمد ﷲ اس وقت بھی میرا دل اﷲ تعالیٰ کے ساتھ مشغول تھا اور پھر یہ شعر پڑھا

28:59) ہنسی بھی ہے گو لبوں پہ ہر دم اور آنکھ بھی میری تر نہیں ہے مگر جو دل رو رہا ہے پیہم کسی کو اس کی خبر نہیں ہے اﷲ والوں کی ہنسی اور اپنی ہنسی کو برابر مت سمجھو کیونکہ وہ بظاہر ہنس رہے ہوتے ہیں مگر ان کا دل پھر بھی رو رہا ہوتا ہے۔

30:05) اس پر میرا بھی ایک شعر ہے ؎ لب ہیں خنداں، جگر میں ترا درد و غم تیرے عاشق کو لوگوں نے سمجھا ہے کم اﷲ والا اگر کاروبار بھی کر رہا ہے، مخلوق میں بھی بیٹھا ہے، بات چیت بھی کررہا ہے اور ہنس بھی رہا ہے مگر اُس وقت بھی وہ خدا کے ساتھ ہے، جسم کے مرتبہ میں وہ آپ کے ساتھ ہے اور روح کے مرتبہ میں وہ اﷲ کے ساتھ ہے۔

31:21) اس مضمون کو اختر نے ایک اور شعر میں پیش کیا ہے ؎ دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ باخدا رہے یہ سب کے ساتھ رہ کے بھی سب سے جُدا رہے

32:48) نیک عمل سے فیضان علم میں ترقی ہوتی ہے۔۔

34:56) صاحب حق اپنا حق چھوڑ دے تین صورتیں بیان ہوئیں۔۔

37:34) فرماتے ہیں کہ اپنے شیخ کی شان میں گستاخی،اعتراض اور بدگمانی سے جیسی ظلمت پیدا ہوتی ہے، معصیت سے بھی ویسی نہیں پیدا ہوتی، یہ بات معصیت سے زیادہ اشد ہے، ایسا شخص باطنی نعمتوں سے محروم رہ جاتا ہے کیونکہ جب عام مومنین کے لئے ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِ خَیْرًا سورۃ الحجرات؛ج ۲۸ ص۱۱۰) کا حکم ہے(کہ ہر مومن کے ساتھ نیک گمان رکھو) تو پھر اس شخص سے جس سے اللہ مل رہا ہے بدگمانی کرنا! فیض بالکل منقطع ہوجاتا ہے۔

38:55) حضرت حاجی امداد اللہ مکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنے مربی سے جس طالب کو جس قدر حسن ِظن ہوگا، اسی قدر اس پر اللہ کا فضل متوجہ ہوتا ہے۔ پس اگر کوئی اپنے شیخ سے حسن ِظن رکھتا ہے کہ نہ جانے میرے شیخ کو کتنا عظیم مقامِ قرب حاصل ہے، نہ جانے اس کے سینہ میں درد کا کتنا دریا پوشیدہ ہے،تو چاہے اس شیخ میں وہ خوبیاں نہ ہوں لیکن اس کے حسن ِ ظن کی بدولت اس پر اللہ کا فضل مرتب ہوجاتا ہے۔

39:15) اعتراض پیدا ہونا علامت محبت کی کمی کی ہے ۔ شیطان کو اعتراض کیوں پیدا ہوا؟ کیونکہ عاشق نہیں تھا،اس کے بر عکس جب حضرت آدم علیہ السلام سے پوچھا کہ فلاں درخت سے کیوں کھایا ؟ عرض کیا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَآ۔بس کنجی اس راستہ کی یہی ہے ۔ دعا کرنا اور ہمت سے کام لینا،جب تک ہمت نہیں، گڑگڑاتے رہو اور شیخ سے دعا کراؤ ایں دعا ئے شیخ نے چوں ہر دعا ست (یعنی مربی کی دعا کوئی معمولی دعا نہیں ہوتی)کیونکہ مرید نے اپنا دین اس کے حوالہ کردیا ہے، اس لئے اس کی دعا مرید کے حق میں زیادہ مقبول ہوتی ہے ۔

40:52) یہ بھی یاد رکھیں کہ میدان ِمحشر میں کسی کے ساتھ حسن ِظن پر دلیل طلب نہیں کی جائے گی لیکن بدگمانی پر دلیل طلب کی جائے گی کہ تم نے فلاں شخص کے ساتھ فلاں وقت میں کیوں بدگمانی کی تھی؟ دلیل پیش کرو کہ کیوں کی تھی؟دلیل نہ ہونے پر پٹائی ہوگی۔ پس شیخ کے ساتھ بدگمانی کو حضرت نے بڑی سے بڑی معصیت سے اشد فرمایا ہے ۔لہٰذا اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا رہے کہ اے اللہ!اپنے حقوق،اپنے رسولﷺکے حقوق، میرے شیخ کے حقوق، بندوں کے حقوق کی حفاظت میں آپ میری مدد فرمائیے، آپ میرا راستہ طے کرادیجئے ۔اور حقیقت یہ ہے کہ راستہ تو اللہ تعالیٰ ہی طے کراتے ہیں، ان کا فضل نہ ہو تو کتنا بڑے سے بڑا پہلوان ہو چت ہوجاتا ہے، بغیر ان کے فضل کے کسی کا راستہ طے نہیں ہو سکتا۔ بس گڑگڑاتا رہے اور استعانت طلب کرتا رہے۔

42:40) اس مرتبہ مدینہ شریف میں حق تعالیٰ نے میری مدد فرمائی، ایک وقت آیا کہ حضرت ہردوئی دامت برکاتہم نے میری ایک معاملہ میں گرفت فرمائی،میرے نفس کو ذرا ناگواری ہوئی، میں نے فوراً حضرت کے پائوں دبانے شروع کردئیے اور نفس کو سزا سنا دی کہ اے نالائق! میرا شیخ دین کے معاملے میں تو کیا دنیا کے معاملے میں بھی بلکہ ناحق بھی اگر میرے مریدوں کے سامنے مدینے کی گلیوں میں سرِ بازار جوتے لگائے تو میرے شیخ کو بالکل اس کا حق ہے، تجھے سر جھکائے رہنا پڑے گا۔بیٹا چاہے کچھ بھی ہوجائے، باپ باپ ہی ہے۔ حق تعالیٰ نے اس آزمائش سے اپنے فضل سے پاس کردیا، حق تعالیٰ میرے شیخ کے قلب کو ہمیشہ مجھ سے خوش رکھے ۔

44:16) حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کو ڈانٹ اور اس پر ان کا شعر ۲۸ ؍شوال المکرم ۱۴۰۶؁ھ مطابق ۵؍جولائی ۱۹۸۶؁ء بروز ہفتہ آج صبح حضرت والا نے میر صاحب کو بعد فجر کسی بات پر سخت ڈانٹ لگائی، حتیٰ کہ حضرت والا نے طمانچہ تک لگا دیا جس سے میر صاحب کی ٹوپی نیچے گر گئی۔ اس پر حضرت میر صاحب نے معافی مانگی اور بعد میں اسی ڈانٹ پر ان کا ایک عجیب شعر ہوا؎ ہائے وہ خشمگیں نگاہ قاتلِ کبر و عجب و جاہ اس کے عوض دلِ تباہ میں تو کوئی خوشی نہ لوں

46:22) پھر سکھر والے قاری صاحب،حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے جو آج مولانا مظہر صاحب دامت برکاتہم سے حدیث پڑھی ہے،اور جو ذکر اللہ کیا ہے،اس کا ثواب آپ لے لیں اور اس طمانچے کا ثواب مجھے دے دیجئے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ میرا دل چاہتا تھا کہ حضرت والا کا طمانچے والا ہاتھ مبارک چوم لوں۔ان کی ثواب بدلنے والی بات پر حضرت میر صاحب نے ایک اور مصرع کہا؎ ذلتِ عشق کے عوض شانِ سکندری نہ لوں

47:24) میر صاحب نے فرمایا کہ یہ اشعار حضرت مرشدی مدظلہ کے فیض سے ہوگئے ہیں، میرا کوئی کمال نہیں۔پھر فرمایا؎ میں ہوں اس تقسیمِ ساقی پر دل و جاں سے فدا جامِ جم غیروں کا حصہ، جامِ غم میرے لئے

49:17) ضرورت ِشیخ ارشاد فرمایا کہ جب تک نفس کوذلیل نہ کیاجائے،یہ سیدھا نہیں ہوتا،اور ذلت اپنے ہاتھ سے نہیں ہوتی، دوسرے کے ہاتھ سے ہوتی ہے،وہ شیخ ہے۔

51:05) آدمیت اور شیطانیت کا فرق رات حضرت اقدس نے ایک غلطی پر بغرضِ اصلاح احقر کو ڈانٹا تھا۔ آج صبح احقر سے فرمایا کہ میری ڈانٹ سے کیا تجھے غم ہوتا ہے؟ احقر نے عرض کیا بہت غم ہوتا ہے یہ خیال کرکے کہ احقر حضرت والا کی راحت کے بجائے اذیت کاسبب ہوجاتا ہے۔ بوقت دوپہر کرم خاص فرمایا اور فرمایا کہ میری ڈانٹ سے گھبرایا نہ کرو میری ڈانٹ تمہاری اس یقین دہانی کی وجہ سے ہوتی ہے کہ تم میرے پاس سے بھاگ نہیں سکتے۔ پھر حضرت والا ہنسنے لگے اور فرمایا کہ یقین دہانی کا لفظ میں نے سیاسی استعمال کیا ہے نا؟احقر نے عرض کیا کہ مجھے تو اس میں محبت معلوم ہوتی ہے۔

حضرت ہنسنے لگے تھوڑی دیر بعد فرمایا کہ شیطان کو نکالا گیا توبھاگ گیا اور حضرت آدم علیہ السلام کو نکالا گیا تورونے لگے اور کہا رَبَّنَا ظَلَمْنَا دونوں کا اخراج صورتاً اگرچہ ایک ہے لیکن معناً زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک کے اخراج سے اس کی مردودیت کی تکمیل ہوئی اور دوسرے کے اخراج سے ان کی مقبولیت کی تکمیل ہوئی اور آپ زمین پر نبوت سے مشرف ہوئے۔اسی طرح اگر پیر کسی مرید کونکالے اور وہ بھاگ جاوے تو سمجھو کہ اس میں شیطانی مادہ تھا جبکہ وہ دعویٰ محبت بھی کرچکا ہے ہاں غیر کو نکالے اور غیر بھاگ جائے تو مضائقہ نہیں اور شیطان بھی ایک ہزار سال عبادت کرکے محبت کا دعویٰ کرچکا تھا اس کے بعد بھاگ نکلا جس سے معلوم ہوا کہ سالک محض تھا عاشق نہ تھا۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries