عشاء مجلس۶۔          اگست      ۴ ۲۰۲ء     : نور سکینہ کے حصول اور اس کی حفاظت کا طریقہ     !          

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔ بیان :حضرت اقدس فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

03:06) کسی کی تکلیف پر دیکھ کر ہسنا اور کسی پر اعتراض کہ بولنا نہیں آتا یہ کالا ہے وغیرہ الخہ اس پر اللہ ناراض ہوجائیں گے۔۔

04:45) کمہار کی مثال اور نصیحت۔۔

11:21) زبان و رنگ کا فرق اللہ کی نشانی ہے اگر کسی زبان کی حقارت لازم آئی تو سوء خاتمہ کا خطرہ ہے۔۔

13:40) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مؤمن کے دل پر سکینہ اس نازل کرتا ہوں ’’لِیَزْدَادُوْا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ‘‘ تاکہ ان کے سابق ایمان کے ساتھ ان کا ایمان اور زیادہ ہوجائے کیونکہ ایمان تو پہلے بھی تھا لیکن معلوم ہوا کہ سکینہ کا نور دل میں آنے کے بعد ان کے موجودہ ایمان پر مستزاد ایمان ہوجاتا ہے۔ اس کی تفسیر حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سکینہ کا نور عطا ہونے سے پہلے ان کا وہ سابق ایمان کیا تھا؟ اس کا نام تھا ایمانِ عقلی، استدلالی موروثی۔

21:29) یعنی ایمان عقل کی بنیاد پر تھا کہ عقل سے اللہ کو پہچانتا تھا اور استدلالی تھا کہ دلیلوں سے اللہ کو مانتا تھا، دلائل سے اللہ کے وجود پر استدلال کرتا تھا اور موروثی تھا کہ اماں ابا مسلمان تھے لہٰذا ہم بھی مسلمان ہیں۔ گائے کا گوشت کھاکر مسلمان بنے ہوئے ہیں لیکن جب سکینہ کا نور عطا ہوتا ہے تو یہ ایمانِ عقلی استدلالی موروثی، ایمانِ ذوقی حالی وجدانی سے تبدیل ہوجاتا ہے۔

24:11) ایمانِ ذوقی کیا ہے؟ یعنی دل میں مزہ چکھ لیتا ہے کہ میرا اللہ کیسا ہے۔ دل مزہ چکھنے لگتا ہے، اللہ کے قرب کی لذت کو دل چکھ لیتا ہے۔ ذوق معنی چکھنے کے ہیں اور ایمان حالی یہ ہے کہ ایمان دل میں اُترجاتا ہے۔

24:45) اللہ کو پہچاننے کے لیے اب اس کو کسی استدلال کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ ایمان دل میں حال ہوجاتا ہے، دل میں وہ اللہ کو محسوس کرنے لگتا ہے اور ایمان وجدانی نصیب ہوتا ہے۔ وجدان معنی پاجانا یعنی دل میں اللہ کو پاجاتا ہے۔ پھر عالمِ غیب اس کے لیے برائے نام عالمِ غیب رہتا ہے، وہ آنکھوں سے گویا ہر وقت اللہ تعالیٰ کو دیکھتا ہے۔

32:45) ھی نور یستقر فی القلب وبہٖ یثبت التوجۃ الی الحق سکینہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہر جاتا ہے اور پھر وہ قلب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتا ہے۔

37:42) شیخ سے متعلق مضامین جو چل رہے ہیں فرمایا دو آدمیوں سے مناسبت نہیں ہوتی ایک چالاک اور ایک متکبر۔۔

38:55) شیخ کا ایک اہم ادب۔۔۔حضرت والا دامت برکاتہم کا اپنا ایک واقعہ جو شیخ العرب والعجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ کی حیات میں سن 2000 کا واقعہ ہے۔۔

43:00) شیخ کا ایک اہم ادب خانقاہ میں جانے کے بعد اپنا وجود ہی نظر نہ آئے۔۔۔

43:59) ارشاد فرمایا کہ شیخ کا ادب یہ ہے کہ خانقاہ میں جانے کے بعد اپنا وجود ہی نظر نہ آئے کہ ہم کیا ہیں۔ سب مریدین اور معتقدین کو سمجھادو کہ شیخ کے سامنے میںشیخ نہیںہوں، شیخ کے سامنے میں شیخ کا غلام ہوں۔ لہٰذا یہاں کوئی میرا ہاتھ چومے گا یا نصیحت سننے کے لیے مجمع لگائے گا یا جوتے اُٹھائے گا تو میں سختی سے پیش آئوں گا، چاہے کوئی مرید ہو یا غیرمرید ہو سب کو ڈانٹ دو کہ مجھے برباد مت کرو اور بدنصیب مت بنائو کیونکہ اگر میں بے ادب ہوں گا تو بے نصیب ہوجائوں گا کیونکہ باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب ہوتا ہے۔

اسی طرح شیخ کے ساتھ سفر میں جائو تو خادم بن کر جائو، مخدوم بن کر مت جاؤ کہ مریدوں کے مجمع کو لے گئے، کوئی ہاتھ دبارہا ہے، کوئی پائوں دبارہا ہے، جب مخدوم بنوگے تو شیخ کی خدمت کیسے کروگے اور نفس کیسے مٹے گا۔ نفس کی چالیں بہت باریک ہوتی ہیں، مخلوق میں عزت دکھاکر نفس اندر اندر خوش ہوتا ہے۔ نفس بہت مشکل سے مٹتا ہے، شیخ کے سامنے ذلیل ہوجائو، اس کے پائوں میں خود کو خوب رگڑ والو۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ حُبِّ جاہ صدیقین کے سر سے بھی سب سے آخر میں نکلتی ہے۔

دورانیہ 46:36

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries