عشاء مجلس۹۔          اگست      ۴ ۲۰۲ء     :گناہ چھوڑنا اللہ کی رحمت کی دلیل ہے   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔

بیان :حضرت اقدس فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

07:47) جس کو شیخ اجازت دیتا ہے تو اس کو اس کی قدر شیخ کے وصال کے بعد ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے کیا دیا اس لیے شیخ کی زندگی ہی میں شیخ کو خوش کرنا چاہیے اور جو اجازت دی ہے تو دین کو آگے پھیلانا بھی چاہیے۔۔۔

07:48) جو شیخ کے ساتھ سفر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو خاص والی پلاتے ہیں۔۔۔

09:28) ((اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ)) (سنن الترمذی، کتاب الدعوات) اے اللہ مجھے وہ رحمت عطا فرمائیے جس سے میں گناہ چھوڑدوں۔ معلوم ہوا کہ گناہ چھوڑنا اللہ کی رحمت کی دلیل ہے اور نفس کے شر سے وہی بچ سکتا ہے جو اللہ کی رحمت کے سائے میں ہوگا۔ لیکن ’’اِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّیْ‘‘جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں رہے گا وہ نفس کے شر سے محفوظ رہے گا۔ لہٰذا جس کو دیکھو کہ نفس کے شر سے محفوظ ہے، گناہوں میں مبتلا نہیں تو سمجھ لو کہ یہ سایۂ رحمتِ الٰہیہ میں ہے اور اس سایہ میں آپ بھی بیٹھ جائیے ؎ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھائوں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے مطلب یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت میں رہو کیونکہ وہ لوگ سایۂ رحمتِ الٰہیہ میں ہیں۔ دلیل وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی کہ وہ لوگ نفس کے شر سے محفوظ ہیں اور اگر کبھی بربنائے غلبۂ بشریت ان سے خطا ہوجائے تو ان کی ندامت اور استغفار کا بھی وہ مقام ہوتا ہے کہ عوام الناس اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ جو مقرب ہوتے ہیں، عظیم الشان قرب جن کو عطا ہوتا ہے ان کی ندامت بھی عظیم الشان ہوتی ہے، ان کے آنسو بھی عظیم الشان ہوتے ہیں، جس مقام سے وہ استغفار و توبہ کرتے ہیں عوام کو اس کی ہوا بھی نہیں لگ سکتی، اللہ کے حضور میں وہ جگر کا خون پیش کرتے ہیں ؎ در مناجاتم ببیں خون جگر مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جب میں روتا ہوں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں تو اے اللہ میری مناجات میں آپ میرے جگر کا خون بھی تو دیکھیے، شہیدوں کے خون کے برابر ان گنہگاروں کے آنسو وزن ہوں گے ؎ کہ برابر می کند شاہ مجید اشک را در وزن با خون شہید اور شہید کے خون کے برابر کیوں وزن کیا جائے گا؟ کہاں یہ پانی اور کہاں شہید کا خون! مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ندامت کے یہ آنسو پانی نہیں ہیں یہ جگر کا خون ہے جو خوفِ خدا سے پانی ہوگیا ہے۔

21:05) نہیں ناخوش کریں گے رب کو اے دل تیرے کہنے سے اگر یہ جان جاتی ہے خوشی سے جان دے دیں گے مبارک ہے وہ جان جو اللہ پر فدا ہو، مبارک ہے وہ جوانی جو خدا پر فدا ہو، مبارک ہیں وہ آنکھیں جو اللہ کے خوف سے اشکبار ہیں۔ باقی جتنے کام خدا کی مرضی کے خلاف ہیں وہ مومن کے لیے خسارہ ہیں۔ بس میری سارے عالم میں یہی صدا ہے کہ اللہ کے لیے اللہ کو خوش رکھو اور ایک لمحہ بھی اپنے مالک کو ناخوش کرکے حرام خوشی اپنے قلب و نفس میں نہ لائو۔ یہ غیرتِ بندگی کے بھی خلاف ہے، حیا کے بھی خلاف ہے، شرافت کے بھی خلاف ہے۔

23:17) اسے سالکین کرام! تم جو اللہ کو ڈھونڈ رہے ہو اور اولیاء اللہ سے مُرید ہورہے ہو اللہ کی تلاش میں ہو اگر تم نے ننانوے گناہ چھوڑدئیے لیکن صرف ایک گناہ سے توبہ نہ کی کہ اگر یہ گناہ بھی چھوڑ دیا تو زندگی بے مزہ ہوجائے گی تو اگر ایک گناہ میں بھی مبتلا رہو گے تو پھر تمہیں دوزخ کی تلاش کی ضرورت نہیں، پھر تمہاری ذات خود دوزخ ہوجائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہِ کرم سے وہ دل محروم ہوجاتا ہے جو اللہ کو ناراض کرکے حرام لذت کو درآمد کرتا ہے۔۔۔

24:27) حضرت والا رحمہ اللہ کی اہم نصیحتیں۔۔۔ یاد رکھو کہ زبان تب اثر کرتی ہے جب دل بھی ساتھ ہو۔ میرا شعر لندن میں ہوا تھا: اس طرح دردِ دل بھی تھا میرے بیاں کے ساتھ جیسے کہ میرا دل بھی تھا میری زباں کے ساتھ اور دوسرا شعر ہے جس کو چاہے لوگ اپنے منہ میاں مٹھو کہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حقیقت بھی یہی ہے: اس درجہ حلاوت ہے مرے طرزِ بیاں میں خود میری زباں اپنی زباں چُوس رہی ہے یعنی جب منہ میں مٹھاس زیادہ ہوتی ہے تو آدمی زبان کو چُوستا ہے اور لائن کلیئر کرتا ہے کہ دوسری مٹھائی کھاسکتے۔۔۔

38:20) حضرت نفیس شاہ صاحب رحمہ اللہ کے اشعار باہر ممالک سے متعلق۔۔۔

39:52) کون رخصت ہوا گلے مل کے شامیانے اُجڑ گئے دل کے

41:54) خواجہ صاحب اس وقت ڈپٹی کلکٹر تھے اور اپنے شیخ کے عاشق تھے حکیم الامت جب بھی کانپور تشریف لے جاتے اور جب واپس ہونے لگتے تو خواجہ صاحب ان کے تانگے کے پیچھے پیچھے ننگے پیر دوڑتے تھے، ڈپٹی کلکٹر شیخ کی محبت میں جوتا پہننا بھول جاتا تھا، تانگا آگے آگے جارہا ہے اور وہ زار و قطار روتے ہوئے بچوں کی طرح پیچھے پیچھے دوڑے جارہے ہیں کہ ہائے میرا شیخ آج مجھ سے جدا ہورہا ہے ؎ دلرُبا پہلو سے اُٹھ کر اب جدا ہونے کو ہے کیا غضب ہے کیا قیامت ہے یہ کیا ہونے کو ہے کرتے جاؤ آرزو پوری کسی ناشاد کی اک ذرا ٹھہرو کوئی تم پر فدا ہونے کو ہے

43:39) ہمارے دادا پیر حضرت حاجی صاحب ؒ کے دو شعر ہمارا دادا پیر حضرت حاجی صاحب ؒ نے اپنے احباب و رفقاء کے انتقال کے بعد جو اپنا غم بیان فرمایا ہے،اس کا نام درد نامۂ غمناک ہے ،اس کے دوشعر مجھے یاد ہیں ،جن کو یکھ کر حضرت حاجی صاحب ؒ کی عبدیت اورفنائیت کا پتہ چلتاہے فرماتے ہیں ؎ جو تھے نوری وہ گئے افلاک پر مثل تلچھٹ رہ گیا میں خاک پر بلبلوں نے گھر کیا گلشن میں جا بوم ویرانے میں ٹکراتا رہا

48:21) کوئی مزا مزا نہیں کوئی خوشی خوشی نہیں تیرے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں

49:38) شیخ کے حقوق : شیخ جب کوئی مضمون بیان کررہا ہو تو لقمہ نہ دو کہ حضرت فلاں وقت آپ نے یہ بھی بیان کیا تھا۔ شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں بھی بعض مرتبہ ایسی باتیں ہوتی تھیں کہ کسی وقت کچھ بیان ہوا ،کسی وقت کچھ بیان نہیں ہوا لیکن ہم لوگ خاموش رہتے تھے، ایک دفعہ یاد دلایا تو ڈانٹ پڑ گئی، فرمایا کہ بولا مت کرو! جو اوپر سے آئے، اس میں دخل اندازی مت کرو، جو آئے اسے پی لو، جو جام و مینا اُس میکدۂ ازل سے، اُس عالمِ غیب سے آئے اُس جام و مینا کو پی لو، اس وقت یہ مت کہو کہ پہلے آپ نے یہ پلایا تھا، اس کی یاد بھی مت دلاؤ! اگر اعلان کیا جائے کہ دس بجے سے گیارہ بجے تک فلاں سبق ہوگا، تو اس کا مزہ الگ ہے اور ایک یہ ہے کہ کوئی مضمون مقرر نہیں ہے، چلتی پھرتی درسگاہ، چلتا پھرتا مدرسہ، چلتی پھرتی خانقاہ، تو یہ خانقاہ انتظام و ترتیب کے تابع نہیں ہوتی، اس کا مزہ الگ ہے، اس زمین کا خاص تعلق اوپر سے ہوتا ہے۔ جب آجائے بیان کردیا جب نہیں آئے کچھ بیان نہیں کرتا، آسمان کی گرم گرم زیادہ مزیدار ہوتی ہے۔

52:21) دُعا کی پرچیاں۔۔۔

دورانیہ 51:14

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries