عشاء مجلس۱۴ اگست ۴ ۲۰۲ء :وساوس کا علاج ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بمقام :مسجد اخترنزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔ بیان :حضرت اقدس فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 05:04) ایک مضمون اہم جس سے لوگ پریشان رہتے ہیں وہ ہے وسوسہ۔۔ 09:09) پانی کا وسوسہ ناپاکی پاکی کا وسوسہ کسی کو کافر ہونے کا وسوسہ آرہا ہے اس کا علاج کیاہے؟ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے کیا عمدہ جواب دیا کہ شیطان کے پیچھے مت لگو اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھو اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں لگے رہو، اللہ کی یاد میں لگے رہو، شیطان کا زیادہ تذکرہ بھی مت کرو، ہم دشمن کے تذکرہ کے لئے نہیں پیدا ہوئے ہیں، ہم برائے ذکر ِدوست ہیں۔ 11:27) ایک شخص نے حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کو لکھا کہ میرے دل میں کفر کے وسوسے آتے ہیں کہ نعوذ باللہ ،خدا ہے یا نہیں ہے۔ تو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آپ کو ان وسوسوں سے خوشی ہوتی ہے یا غم ہوتا ہے؟ اس نے لکھا کہ حضرت! اتنا غم ہوتا ہے کہ بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہوں۔ تو حضرت نے لکھا کہ جب تک آپ کفر کے وسوسوں سے ناراض ہیں، غمگین ہیں، آپ کا ایمان سلامت ہے کیونکہ دنیا میں کوئی کافر اپنے کفر سے غمگین نہیں ہے، دنیا میں جتنے بھی کافر ہیں کسی کو بھی اپنے کفر کا غم نہیں ہے، اگر کفر کا غم ہوتا تو اسلام نہ لے آتے؟ لہٰذا جو شخص بھی فسق سے یا کفرسے ناراض ہے، دل سے برا سمجھتا ہے، ایسے شخص کے بارے میں سمجھ لو کہ اس کا سوفیصد ایمان ہے۔ 13:19) حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ اب دوسرا وسوسہ یہ ہوتا ہے کہ بزرگوں کے پاس جاکر ایمان میں ترقی ہوجاتی ہے اور جب اپنےاپنے گھروں میں، بال بچوں میں جاتا ہے تو پھر دل کی کیفیت بدل جاتی ہے تو آدمی سمجھتا ہے کہ میرا آنا جانا بیکار ہے لہٰذا یہ واقعہ ایک حدیث کے اندر موجود ہے کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لَقِیَنِیْ اَ بُوْ بَکْرٍ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مجھ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے پوچھا كَيْفَ اَنْتَ يَا حَنْظَلَةُ؟تمہاراکیاحال ہے؟ تومیں نے کہا نَافَقَ حَنْظَلَۃُ حنظلہ تو منافق ہوگیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا سُبْحَانَ اللّٰهِ مَا تَقُوْلُ؟ سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حضرت حنظلہ رضی اللہ نے عرض کیاکہ جب ہم رسول اللہ e کے پاس ہوتے ہیں اور حضور ﷺ ہم سے جنت اور دوزخ کا تذکرہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسا یقین ہوتا ہے کہ ہم جنت اور دوزخ کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں لیکن جب ہم اپنے گھروں کو جاتے ہیں : 15:25) ہم اپنی بیویوں، اپنی اولاد ، اپنے مال ومتاع وسامان کے پیچھے لگ جاتے ہیں تو نَسِيْنَا كَثِيْرًا تو ہم سب بھو ل بھال جاتے ہیں، دنیا میں مشغول ہوجاتے ہیں یعنی ویسا ایمان نہیں رہتا جیسا کہ حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں عطا ہواتھا۔ قَالَ اَ بُوْ بَكْرٍ: فَوَ اللّٰهِ اِنَّا لَنَلْقٰى مِثْلَ هٰذَا توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں بھی اپنے کو ایسے ہی پاتا ہوں۔ لو بھئی!حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی فرما دیا کہ میرا بھی یہی حال ہے۔ پس دونوں حضرات حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا روحانی مرض اپنے معالج سید الانبیاء ﷺکی خدمت اقدس میں پیش کیا۔ توآپ ﷺ نے فرمایا: 15:45) ہ ہرگز نفاق نہیں ہے، دونوں مؤمن ہیں اور ایسا ہونا ہی چاہیے کبھی کوئی حالت تو کبھی کوئی حالت، نبی کی صحبت میں کچھ اور کیفیت اور کبھی کچھ درجہ کمی۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، اگر تم لوگوں کا ہروقت یہی حال رہے جیسا میری خدمت میںاورمیری صحبت میں رہتا ہے ، میری صحبت میں تمہارا ایمان و یقین ایسا ہوتا ہے کہ اللہ کی ذات، قیامت، جنت ودوزخ سب سامنے رہتا ہے، اتنا یقین اگرہر وقت رہے تو تمہارا کیا حال ہوگا؟ تمہارے بچھونوں پر اور تمہاری گلیوں میں جہاں سے تم گزرو گے، فرشتے تم سے مصافحہ کریں گے۔ 20:34) کیفیات میں تبدیلی کی وجہ اس کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اس مضمون کو بیان کیا کہ اگر ایسی حالت رہے گی تو فرشتے تم سےتمہارے بچھونوں پر اور تمہاری گلیوں میں مصافحہ کرنے لگیں گے، تو پھر کیا حال ہوگا؟ مطلب یہ ہے کہ پھر تم دنیا کے کام کے نہیں رہو گے، سارا نظامِ عالم معطل ہوجائے گا، لہٰذا یہ تبدیلی جو میرے پاس سے جا کر بال بچوں میں ہوتی ہے، اس کی و جہ سے تم منافق نہیں ہوئے ہو۔ 21:08) یعنی جس وقت تمہارے قلب پر اللہ تعالیٰ کی حضوری کا غلبہ ہو، نبی کی صحبت سے یا نبی کے غلام کسی اللہ کے ولی کی صحبت سے تو اس وقت اللہ کے حقوق ادا کرنے کی تمہاری قابلیت بڑھ جاتی ہےاور جب اس میں کچھ کمی آجائے تو بال بچوں کے حقوق ادا کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، اگر ہر وقت وہی حالت ہوتو تم اللہ تعالیٰ کا حق تو ادا کرلو گے لیکن بال بچوں کے لئے روٹی کی فکراور بال بچوں کے لئے دکان کھولنا مشکل ہوجائے گا۔ یہ ہے اعتدال، اسی لئے جن لوگوں کے اوپر بال بچوں کی ذمہ داری نہیں تھی وہ مجذوب ہوگئے بلکہ ان کے منہ سے اَ نَا الْحَقُّ نکل گیا۔ 28:03) ایک بات اور عرض کردوں کہ ہم لوگ جب جمع ہوتے ہیں توگپ شپ لگاتے ہیں، تاریخی باتیں کرتے ہیں، سیاسی باتیں کرتے ہیں، تجارت کی باتیں کرتے ہیں لیکن اللہ کا ذکر نہیں کرتے۔جہاں چند لوگ جمع ہوجائیں اور اللہ کے ذکر کے بغیر وہ مجلس ختم ہوئی تو مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے : 28:19) سمجھ لو کہ اس دستر خوان پر مرا ہوا گدھا پڑا تھااور اس سے وہ لوگ اٹھے ہیں،مردہ گدھے کو کھا کر اٹھے ہیں۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے تین وجہ سے مردہ گدھے کے ساتھ تشبیہ دی ہے، نمبر ایک اگدھا سب سے کمینہ اور خسیس جانور ہے جو ہم لوگوں سے زیادہ قریب رہتا ہے اور دوسری وجہ ہےیہ سب جانوروں میں بے وقوف جانور ہے لہٰذا بے وقوف کو گدھاکہتے ہی ہیں،اتنا بے وقوف ہے کہ اس سے مثال دی جاتی ہے اور تیسری وجہ یہ ہے کہ اس کی شیطان سے دوستی ہے، اسی لئے جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگنے کا حکم ہے اور جہنمیوں کی آواز گدھے کی طرح ہوگی۔ 29:17) خاصانِ خدا بدون ذکر اللہ زندہ نہیں رہ سکتے اس لئے دوستو! جہاں بھی کہیں بیٹھو اﷲ کا ذکر ضرور کرلیا کرو، کثرتِ ذکر انسان کی اللہ تعالیٰ سے محبت کی علامت ہے۔ بقول ہمارے ایک بزرگ شاعر کے ؎ جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں کوئی محفل ہو تیرا رنگ محفل دیکھ لیتے ہیں آہ! اس شعر کو میں نے جب ہم ہدایۃ النحو پڑھ رہے تھے اس وقت مولانا ابوالوفاءصاحب جونپوری سے جو ہندوستان کے زبردست مقرر تھے،سنا تھا۔ انہوں نے یہ شعر سنا مولانا شاہ محمد احمد صاحب دامت برکاتہم کی زبان سے اور اس وقت مولانا شاہ محمد احمد صاحب یہ واقعہ پیش کررہے تھے کہ حضرت عمر t مکہ سے جاکر شام کی منڈی میں گندم خریدکر اونٹوں پر لدوا رہے تھے اور شام کے بازاروں میں اللہ تعالیٰ کی محبت پر بیان کررہے تھے، آنحضرت e کی رسالت پر مضمون بیان کررہے تھے۔ کیا شان تھی کہ تجارت کو اپنی غفلت کا ذریعہ نہیں بنایا، مچھلی کب پانی کے بغیر رہ سکتی ہے؟اگر ایمپریس مارکیٹ میں مچھلی کو دیکھو کہ کسی شیشے کے شوکیس میں ہےیاکسی تاجر کے یہاں مچھلیاں نظر آرہی ہیں تو یقین کرلینا، میں بقسم کہتا ہوں کہ اس کے اندر پانی کا کچھ تھوڑا ذخیرہ ضرور ہوگا کیونکہ مچھلیاں پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتیں لہٰذا مؤمن اور اللہ تعالیٰ کےجو خاص بندے ہیں وہ بھی بغیراللہ کے زندہ نہیں رہ سکتے لہٰذا جہاں بھی رہو اپنا پانی ذکر اللہ کا ساتھ رکھو ورنہ اگر پانی نہ رہے تو مچھلی مرجائے گی اور ذکر اللہ چھوڑو گے تو دل بھی مردہ ہوجائے گا ۔مؤمن کی شان یہ ہونی چاہئے کہ جہاں جائو،سسرال جائو،تجارت خانوں میں جائو،دفتروں میں جائو، کسی کام سے جائو، کسی بھی بہانے سے اللہ کا تذکرہ چھیڑ دو 34:50) اصل مسلمان۔۔۔ 42:25) ادب کی عظیم الشان تعلیم ارشاد فرمایا کہ سوءِ ادبی کی ظلمت کبائر (کبیرہ گناہوں) کی ظلمت سے زیادہ سنگین اور اشد ہوتی ہے اور اپنے ماں باپ، اکابر اور استاد و شیخ کا بے ادب ہمیشہ پریشانیوں کی وادیوں میں مبتلا رہتا ہے لہٰذا اپنے بڑوں کے ساتھ ہمیشہ باادب رہے اور حق تعالیٰ سے ادب کی توفیق مانگتا رہے 48:25) اپنے بڑوں سے اگر کوئی تکلیف بھی پہنچے تو اس کو اپنی سمجھ کا قصور سمجھے اور یہ سمجھے کہ ہم سے ان کے حقوق ادا نہ ہوسکے، ہمارے اندر انہوں نے کوئی کمی محسوس کی، ہماری وفاداری ان کے نزدیک غیر معتبر ہوئی، مستقبل کے لیے وہ ہم کو اپنے لیے مفید نہیں سمجھتے اس لیے ہم کو خدمت یا ملازمت وغیرہ سے الگ کر رہے ہیں۔غرض اپنی فہم کا قصور سمجھے اگرچہ ان کی بشری کمزوری ہو مگر طالب یہی حسنِ ظن کرے کہ میرے فہم کی کمزوری ہے، ان کی عقل جس بلند مقام سے یہ معاملہ کر رہی ہے ہم وہاں تک پہنچ نہیں سکتے کیونکہ بلند مقام والا جو کچھ دیکھتا ہے نیچے مقام والے کو وہ نظر نہیں آسکتا۔ 49:39) ان کی طرف سے اذیت کو اپنی ناسمجھی سمجھ کر ان کے سابقہ علمی، دینی یا دنیوی احسانات کے پیش نظر حسنِ اسلوب سے الگ ہوجائے تاکہ دوبارہ اذیت نہ پہنچے اور خدانخواستہ غیبت کا دروازہ کھلے یا معافی مانگ کر ان کے حکم سے ان کی خدمت میں رہے، کسی دیندار فہم والے سے مشورہ کرلے۔ مشائخ کی اولاد کے ساتھ بھی یہی معاملہ رکھے کہ اگر ان کو اذیت دی تو سخت باطنی ضرر ہوگا۔ ایک بزرگ کی اولاد کو ان کے خلیفہ سے اذیت پہنچ گئی تو ان بزرگ نے فرمایا اَوْلاَدُنَا اَکْبَادُنَا ہماری اولاد ہمارے جگر کے ٹکڑے ہیں۔ اگر عمل کم ہو اور ادب زیادہ ہو تو یہ کامیاب ہوجائے گا اور عمل زیادہ ہو اور ادب کم ہو تو یہ خطرہ میں رہے گا۔ |