فجر   مجلس۱۷           اگست      ۴ ۲۰۲ء     :صحبت ِ اہل اللہ سے متعلق بزرگوں  کے ارشادات      !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام :مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرت اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

04:49) حضرت خواجہ معصوم باللہ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد یہ سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قرب خاص جس کا نام نسبت ہے یہ چیز اس عالم اسباب میں حضرات صوفیہ ہی کے طریق پر چلنے سے حاصل ہوسکتی ہے۔ چنانچہ ان بزرگوں نے حق تعالیٰ کی محبت میں نہ اپنے کو دیکھا اور نہ غیر کو بلکہ سب سے یک لخت خالی ہوگئے (اور جس سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور جس سے بغض رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رکھتے ہیں) اور جب تک نسبت مع اللہ قلب میں خوب راسخ نہ ہوجائے مرشد سے دوری اور جدائی اختیار نہ کرے ورنہ نسبت مع اللہ میں کمزوری پیدا ہوجاوے گی اور اس کمزوری کے سبب معصیت اور گناہ کا ارتکاب ہوگا جس سے دل تاریک اور اندھیرا ہوجاوے گا۔

04:50) علامہ سیّد سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد حضرت فرماتے تھے کہ حق تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لیے اہل اللہ کی محبت اور صحبت سے بڑھ کر کوئی تدبیر مؤثر نہیں۔ ان سے ملنے کی ہے یہی اِک راہ ملنے والوں سے راہ پیدا کر اور اپنے دعویٰ کی دلیل میں علامہ موصوف نے یہ حدیث پیش فرمائی: ((اَللّٰہُمَّ إِنِّیْٓ أَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَالْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ)) (جواہرُ البخاری، ص:۵۷۲) اے اللہ! میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کی محبت کا اور آپ کے عاشقین کی محبت کا اور اس عمل کا جو آپ کی محبت سے قریب کرنے والا ہو۔ علامہ موصوف نے فرمایا کہ اللہ والوں کی محبت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال سے مقدم فرماکر یہ تعلیم بھی ہم کو فرمادی کہ اعمال کی توفیق اور ہمت اہل اللہ ہی کی صحبت سے نصیب ہوتی ہے۔

10:15) حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد بے عنایاتِ حق و خاصانِ حق گر ملک باشد سیہ ہستش ورق حق تعالیٰ کی عنایات کے بغیر اگر کوئی فرشتہ بھی ہوجاوے اس کا نامۂ اعمال سیاہ ہے۔ بے عنایات حق پر خاصانِ حق کی عنایات کا عطف، عطف تفسیری اور عطف بیانی ہے۔ مولانا نے عنایاتِ حق جو عالمِ غیب سے متعلق غیرمحسوس اور غیرمبصر نظری ہے اس پر خاصانِ حق کو عطف فرماکر اس نظری کو بدیہی اور مبصر بنادیا۔ کیا علوم ہیں! عالمِ غیب کو مولانا نے عالمِ شہادت بنادیا۔ یعنی جس بندے پر دیکھو کہ اہل اللہ کی عنایاتِ خاصہ ہیں تو سمجھ لو کہ اس پر عنایاتِ حق مبذول ہیں۔ اور اگر روئے زمین کے تمام اہل اللہ کسی مرد کو مردود کردیں تو سمجھ لو کہ یہ شخص خطرہ میں ہے۔

12:34) شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد شیخ فرماتے ہیں کہ ہمارے والد ماجد نے ہم کو تحریر فرمایا کہ مُلّائے خشک و ناہموار نہ باشی۔ اے بیٹے! خشک مُلّا اور بدون تربیت نہ رہنا۔ شیخ نے اس نصیحت کے بعد باضابطہ تعلق مرشد سے قائم کرکے اپنی تربیت و اصلاح کا اہتمام فرمایا۔

12:52) حضرت مُلّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد محدث عظیم شارح مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ مرید اپنے شیخ کو کبھی حقارت کی نظر سے نہ دیکھے۔ اگرچہ اپنی عبادت کی مقدار زیادہ پائے اور جو اعتراض کرے گا اپنے شیخ پر کبھی فلاح نہ پائے گا۔ جس مٹکے کو سمندر سے تعلق خفیہ حاصل ہو اس کے سامنے بڑے بڑے دریا شاگرد ہوجاتے ہیں کیونکہ اس مٹکے کا پانی خشک نہ ہوگا اور دریا خشک ہوسکتے ہیں۔

13:27) ارشادِ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اسی حقیقت کو حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ وہ عالم جو اہل اللہ کی صحبت میں تکمیل سلوک کرکے صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے اور عالم ظاہر غیرصاحبِ نسبت کے علوم میں فرق کی ایسی مثال ہے جیسے ایک حوض کا پانی ہے جو خشک ہوجاتا ہے اور ایک اس چشمہ کا پانی جس کے اندر نیچے تک گہرا کھودا گیا اور سَوتا نکل آیا تو اس کا پانی کبھی ختم نہ ہوگا۔ پس یہ دوسری مثال عالم صاحبِ نسبت کے علم کی مثال ہے اور اوّل مثال عالم ظاہر کے علم کی ہے ؎

قطرئہ علمے کہ دادی توز پیش

متصل گرداں بدر یاہائے خویش

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries