مرکزی بیان ۲۲ اگست ۴ ۲۰۲ء :اسلام میں ستر پوشی اور لباس کی اہمیت ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں مقام :مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی بیان:عارف باللہ حضرت اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 06:21) بیان کے آغاز میں اشعار پڑھے گئے۔۔ 06:37) بیان کا آغاز ہوا۔۔ 09:20) صبر و شکر پر خواتین کو نصیحت ایک معاملہ میں۔۔ 11:28) شکر اور صبر دونوں کا حاصل گناہ نہ کرنا ہے۔۔ 12:14) اختیاری اور غیر اختیاری۔۔ 26:03) آیت رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا کا ترجمہ وتفسیر اے ہمارے پروردگار! ہمارے دلوں کو ٹیڑا نہ کیجئے اللہ تعالیٰ نے سکھایا کہ یوں کہو رَبَّنَا لَاتُزِغُ قُلُوْبَنَا اے ہمارے پالنے والے! ہمارے دل کو ٹیڑھا ہونے سے بچایئے 28:55) ایک صاحب اپنے بیٹے کو لائے ابھی عصر بعد ایسی حالت تھی بیٹے کی بہت غم ہوا پتا چلا کہ سمارٹ فون کی وجہ سے یہ اسکی حالت ہوئی ہے۔۔ 32:31) ﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً ج اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (سورۃ اٰل عمرٰن : آیۃ ۸) اے ہمارے رب! ہمارے دل کو ٹیڑھا نہ ہونے دیجئے بعد اس کے کہ ہمیں ہدایت مل چکی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ دل میں ٹیڑھا ہونےکی خاصیت ہے اور ہدایت کے بعد بھی دل ٹیڑھا ہوسکتا ہے، اس لیے اس کی پناہ کے لیے سرکاری مضمون نازل ہوا، اس مضمون سے جو دعا کرے گا تو ان شاء اﷲ ضرور قبول ہوگی کیونکہ سرکاری مضمون کبھی رد نہیں کیا جاتا، اگر بادشاہ دار الخلافہ سے کسی مجرم کو معافی کا کوئی مضمون بھیج دے کہ اگر اس عنوان سے مانگو گے تو میں قبول کرلوں گا تو پھر بادشاہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں قبول نہیں کروں گا کیونکہ بادشاہ تو خود بھیج رہا ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے استقامت، دین پر قائم رہنے اور ایمان پر مرنے کی نعمت ِعظیمہ کے لیے یہ آیت نازل فرمائی، جس کو یاد نہ ہو وہ یاد کرلے۔ 35:09) رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا……الخ کی شرح رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا اے ہمارے رب! ہمارے دل کو ٹیڑھا نہ کیجئے یعنی گمراہ نہ ہونے دیجئے، بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا بعد اس کے کہ آپ نے ہمیں ہدایت کے راستے پر لگادیا۔ وَهَبْ لَنَامِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اور مجھےیہ رحمت ہبہ کردیجئے یعنی اپنے خاص فضل سے یہ رحمت مجھے نصیب فرمادیجئے۔ 36:01) مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے گویا یہ بتادیا کہ ایمان پر مرنا اور دین پر قائم رہنا اتنی بڑی نعمت ہے اور دوزخ کے عذاب اور پٹائی سے بچ جانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اے ایمان والو! تم اس نعمت کا معاوضہ ادا نہیں کرسکتے لہٰذا تم لوگ ہم سے اس نعمت کو ہبہ کے عنوان سے مانگو کیونکہ ہبہ معاوضہ سے بالاتر ہے، تم اَسّی برس کی نماز و روزہ پر ہمیشہ کی جنت کیسے لے سکتے ہو؟ اسّی برس کی اطاعت پر اسّی برس جنت کی زندگی لے لو اور اسّی برس کے بعد جنت سے گیٹ آؤٹ (Get Out) ہوجاؤ، جس کی جتنی عمر ہے مثلاً کسی نے ستّر سال نماز روزہ کیا تو وہ ستّر سال جنت میں رہ لیتا اور جب ستّر سال پورے ہو جائیں تو وہاں سے نکلنا پڑتا۔اصل ضابطہ تو یہ تھا لیکن ہمیشہ کے لیے جنت مل جانا رابطہ ہے، فضل ہے، رحمت ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہبہ کا لفظ نازل فرمایا کہ اس کو ہم سے ہبہ مانگو، وَهَبْ لَنَامِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اس رحمت کو ہبہ سے مانگو۔ 37:03) مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ ہبہ اختیار فرما کر دنیائے انسانیت کو قیامت تک کے لیے بتا دیا کہ : ہمیں ایمان پر موت دینا اللہ پر واجب نہیں ہے، اللہ کی یہ نعمت محض اس کی رحمت سے ملتی ہے، یہ نعمت دینا اللہ پر واجب نہیں ہےنہ اللہ نے کسی شخص کا کوئی قرضہ کھایا ہے، لفظ ہبہ بتارہا ہے کہ تم اﷲ تعالیٰ کو اس نعمت کا معاوضہ نہیں دے سکتے،یہ بھی ان کے کریم ہونے کی ایک شان ہے کہ درخواست کا مضمون خودبتارہے ہیں کہ جنت اور ایمان پر خاتمہ ہبہ سے مانگ سکتے ہوروزہ نماز کے ذریعہ سے تم یہ دونوں نعمتیں نہیں پاسکتے ہو لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیںکہ تم روزہ نماز چھوڑ کر صرف یہی دعا کرتے رہو۔ 37:59) اتنا تو کام کرو جتنا بتایا گیا ہے، اس کے بعد جو تمہارے اختیار میں نہیں ہے اس کے لیے لفظ ہبہ نازل فرمایا ۔ اب اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ اتنا ہبہ کہاں تک کریں گے؟ کہیں ان کے پاس ہبہ کا خزانہ ہی نہ ختم ہو جائے ، اﷲ میاں اتنا مال اور خزانہ کہاں سے دیں گے؟ تو اس کے لیے آگے سِکھا دیا اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ کہ اگر شیطان وسوسہ ڈالے یا خود تمہارے دل میں سوال پیدا ہو کہ اللہ میاں اتنا ہبہ کیسے دیں گے ؟تو تم کہو اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ اے اللہ! ہم اس لیے آپ سے ہبہ مانگتے ہیں کہ لِاَنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ یہ جملہ ٔتعلیلیہ ہے، یہ آیت علت بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، تفصیل کے لئےروح المعانی دیکھئے۔(روح المعانی :(رشیدیہ)؛ ج ۳ ص ۱۲۱) تو چونکہ آپ واقعی بہت بڑے داتا ہیں، خالی واہب نہیں ہیں بلکہ وَهَّابُ ہیں اس لیے میں آپ سے ہبہ مانگ رہا ہوں۔ 43:31) جسمانی غذا کی تکرار سے عجیب استدلال تو ایک قصہ تو اچانک یہ یاد آگیاتھا۔بالکل اچانک،جب یہاں بیٹھا ہوں تب بھی اس قصہ کو بیان کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا،خطبہ پڑھتے ہوئے خیال آیا۔ دوسرا قصہ جوسنانا ہے ہو سکتا ہے وہ آپ پہلے سن چکے ہوں لیکن اگر کوئی کہے کہ یہ ایک بات کو بار بار بیان کرتے ہیںتو میرا اس سےایک سوال ہے، اگر آپ کا مجھ پر اعتراض ہے تو میرا بھی آپ پر اعتراض ہے۔ آپ اس کا مجھے جواب دیں کہ آپ بار بار انڈا کیوں کھاتے ہیں؟ بار بار کباب کیوں کھاتے ہیں؟ ایک دفعہ تو کھا چکے ہیں۔ تو جب تکرارِ غذائے جسمانی آپ کے نزدیک محبوب ہےتو تکرارِ غذائے روحانی پر کیوں اعتراض ہے؟ غذائے روحانی کو بھی بار بار کھاؤ، اب تو شاید اشکال ختم ہوگیا ہوگا،جہاں اشکال ہونا چاہیے وہاںتو ہم بچتے نہیں ہیں۔ ارے! اِشکال شکل سے ہے، ان شکلوں سے بچو یعنی حسینوں سے بچو، 44:07) یہ شکل مشکل میں ڈال دے گی، میری رات دن یہی نصیحت ہے کہ صورت پر ستی سے بچو، جو اس عذاب سے بچ گیا بس ان شاء اللہ تعالیٰ پھر اللہ کا راستہ صاف ہے ورنہ یہ پر قینچ ہیں،یہ صورتیں روح کے پَر کاٹ دیتی ہیں، اگر مٹی کی شکلوں میں پھنسو گے تو زمین پر دھرے رہو گے، آسمان والے مولیٰ سے محروم ہو جاؤ گے، جو حلال ہے مثلاً بیوی حلال ہے، بچے حلال ہیں، حلال روزی کماؤ اور حلال چیزیںکھاؤ، مرنڈا بھی پیو،انڈا بھی کھاؤ مگر ڈنڈے سے بچو، شیطان کا ڈنڈا یہی حسینوں کے جال ہیں جو سڑکوں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ 52:45) آج یوٹیوب اور فیس بک پر یہودی چھائے ہوئے ہیں مسلمان بھی اس میں گرتے جارہے ہیں۔۔ 55:24) مٹ کر رہیں شان بنا کر رہنا طالب علم اس کی اپنے اپنے شیخ سے اصلاح کرائیں۔۔ 58:12) عبادات شب برات وعظ مواعظ اختر سے بیان متقین اور فاسقین کی حیات میں فرق اب دونوں زندگیوں میں کیا فرق ہے؟ ایک بے نمازی، اللہ سے غافل، سنت کے خلاف زندگی گذارنے والا، شریعت کے خلاف اپنی زندگی گزارتاہے اور ایک ولی اللہ ہے، اللہ کی مرضی پر چلتا ہے، سنت کے مطابق زندگی گذارتا ہے، اپنی صورت اور سیرت کو اللہ کی مرضی کے مطابق بنانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اس فرق کو حکیم الامت مجدد الملت مولانااشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ والوں پر جب مصیبت آتی ہے تو ان کی مصیبت میں بدحواسی اور پریشانی نہیں ہوتی، ان کے قلب میں چین رہتا ہے اور نافرمانوں پر جب مصیبت آتی ہے تو وہ ہوش و حواس سے محروم ہوجاتے ہیں، بدحواس ہوجاتے ہیں، ان کے دل میں چین نہیں ہوتا، کوئی سہارا نہیں ہوتا، ان کے دل پر سکینہ نازل نہیں ہوتا۔اللہ والوں پر جب مصیبت آتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتے بھیجتے ہیں جونزول ِحوادث کے وقت قلب کو سہارا دیتے ہیں، اسی لئے جب سے زمین وآسمان پیدا ہوئے ہیں یہ ثابت نہیں ہے کہ کسی اللہ والے نے خودکشی کی ہو، تاریخ اس کی شہادت نہیں دے سکتی لیکن اس کے برعکس دنیا کےبڑے بڑے عیش کرنے والوں نے، بڑے بڑے گناہوں کی موجوں میں رہنے والوں نے خود کشیاں کی ہیں کیونکہ اللہ کی نافرمانی کے بعد قلب کی طاقت کمزور ہوجاتی ہے، دل کو سہارا دینے والے فرشتے ان کے پاس نہیں آتے۔ 01:01:03) نزول ِملائکہ کے تین مواقع حضرت تھانوی رحمہ اللہ تفسیر بیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ: ﴿تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا﴾ تین مواقع پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔(۱)اللہ کے فرمانبرداروں کے دل میں،اللہ والوں کے دل میں اچھی اچھی باتیں، اچھے اچھے ارادے ڈالتے ہیں، جیسے دل چاہتا ہے کہ تہجد پڑھ لیں، اشراق پڑھ لیں تو یہ ارادے کون ڈالتا ہے؟ اللہ تعالیٰ ڈالتے ہیں بواسطہ ملائکہ کے،جس کا نام ہے الہامِ عزائم ِرشد، ہدایت کے ارادے دل میں ڈالتے ہیں۔(۲) نزول ِحوادث کے وقت سکینہ اور سہارا دیتے ہیں تاکہ بندہ زیادہ گھبرانے نہ پائے۔(۳) مرتے وقت خوشخبری دیں گے کہ آپ کو جنت کی بشارت ہو،یہ بشارت ان کو نظر آجاتی ہے، جنت کی بشارت مرنے سے پہلے دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ 01:03:28) بعض اوقات نیک لوگوں کو انتقال کے وقت دیکھا گیا کہ ان کے آس پاس خوشبو ہوجاتی ہے حالانکہ وہاں عطر لگا ہوانہیں تھا۔ خو د میرے بہنوئی ضلع رائے بریلی کی مسجد میں آخر ی عمر میں امامت کرتے تھے،اس سے پہلے گورنمنٹ کے محکمے میں ا نسپکٹر،بڑے افسر تھے۔بعد میں جب انہوں نے پنشن لے لی تو ماشاء اللہ بالکل تہجد گذار اور ذکر و فکر میں مشغول رہتے تھے، جب ان کا انتقال ہوا تو وہاں خوشبو پھیل گئی۔اسی طرح بعض لوگوں کو مرتے وقت مسکراتے ہوئے دیکھا گیا، ہنس رہے ہیں،ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے کوئی آرہا ہے۔ وہ فرشتے ہوتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟ یہ وہی بشارت ہے: ﴿وَاَ بْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے ان پیارے بندوں کو اس جنت کی بشارت ہےجس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔ 01:10:16) درد بھری خواتین کے لیے نصحتیں کہ چھوڑو اس سمارٹ فون شیخ مرنے کے قریب پہنچ گیا لیکن موبائل چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اس موبائل نے کہاں تک پہنچادیا۔۔۔ 01:14:02) لباس کے بارے میں بیان ہوا کہ کیسا لباس ہونا چاہیے۔۔اپنی اولاد کو بچپن سے یہود و نصاری کا لباس پہنا کر برباد نہ کریں۔۔ لباس انسان کی زندگی اور طرز عمل پر بہت اثر کرتا ہے ۔۔ |