اتوار مجلس یکم ستمبر      ۴ ۲۰۲ء     :محبت بہت بڑی نعمت ہے       !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام :مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرت اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

15:59) بیان کے آغاز میں اشعار کی مجلس ہوئی اور پھر تعلیم ہوئی۔۔

23:03) بیان کا آغاز ہوا۔۔

23:47) دو راستے ہیں ایک جذب اور ایک سلوک۔۔جذب کے سہارے پر گناہ کرنا یہ روحانی موت ہے اور بغیر جذب کے کوئی اللہ والا بن بھی نہیں سکتا کوئی سلوک کا راستہ طے کرتا ہے پھر اللہ کے راستے کا جذب نصیب ہوتا ہے۔۔

27:35) آرزوئیں خون ہوں یا حسرتیں پامال ہوں اب تو اس دل کو ترے قابل بنانا ہے مجھے

29:43) شیطان گناہوں کو اﷲ تعالیٰ کے خزانۂ مغفرت سے بڑا دِکھا کر مایوس کرتا ہے کہ تم تو گناہوں کی آلودگیوں اور گندگیوں میں مبتلا ہو،تم اﷲ کے قرب کی فالودگیوں کو کیسے پاسکتے ہو،تم اﷲ کے راستے کے قابل ہی نہیں ہو حالانکہ اﷲتعالیٰ کے غیر محدود راستہ ومنازل ومسالک کے قابل کون ہوسکتا ہے۔ قابل تو وہ ہی ہوسکتا ہے جو غیر محدود ہو اور اﷲ کے سوا کو ئی غیر محدود نہیں۔

30:39) انبیاء بھی محدود ہیں، مخلوق ہیں۔اسی لیے سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ وَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ)) اے اﷲ !ہم آپ کو پہچان نہ سکے، جیسا کہ آپ کو پہچاننے کا حق تھا اور آپ کی عبادت نہ کرسکے جیسا کہ آپ کی عبادت کا حق تھا کیونکہ آپ کا نبی بھی مخلوق ہے اس لیے محدود ہے اور محدود غیر محدود ذات کی معرفت وعبادت کا حق کیسے ادا کرسکتا ہے ۔ پس اﷲ کے راستہ کے قابل کون ہوسکتا ہے ۔ اﷲ کا راستہ اﷲ تعالیٰ کے کرم اور ان کے جذب سے طے ہوتا ہے

32:32) یہ کرم ہے اُن کا اخترؔ جو پڑا ہے ان کے در پر کوئی زخم ہے جگر پر غمِ شام ہے سحر پر میری زندگی کا منظر ذرا دیکھنا سنبھل کر مراغم خوشی سے بہت بہتر مرا خار گل سے خوشتر مری شب قمر سے انور غمِ دل ہے دل کا رہبر غمِ رہنما کا منظر ذرا دیکھنا سنبھل کر

34:49) ہٰذا ہرگز مایوس نہ ہوں، یہ راستہ مایوسی کا نہیںہے، امیدوں کے سینکڑوں آفتاب یہاں روشن ہیں۔ جس دن جذب عطا ہوگا آپ اپنے ارادوں کی پستیوں ، ہمتوں کی بربادیوں اور گناہوں کی تباہ کاریوں کو بھول جائیں گے ۔

37:24) پھر آپ کو خود تعجب ہوگا کہ یہ مجھے کیا ہورہا ہے کہ دنیا بھر کی دلکشیاںاور رنگینیاں مجھے اپنی طرف نہیں کھینچ پارہی ہیں۔ غیر محدود طاقت کا کھینچا ہوا سارے عالم کی محدود طاقت اور محدود جذب اور محدود دلکشیوں سے کیسے کھنچ سکتا ہے۔ جذب جاذب کے اختیار میںہے مجذوب کے اختیار میں نہیں ہے،کھینچے ہوئے کے اختیار میں کھنچنانہیں ہوتا لہٰذا یہ نہ کسی اور طرف کھنچ سکتا ہے اور نہ کسی اور کو اپنی طرف کھینچ سکتاہے۔اﷲکا کھینچاہوا اﷲہی کا ہو کر رہتا ہے۔ بس کوشش کرو، اﷲ کا ہونے کے لیے جان کی بازی لگادو اور رو رو کے اﷲ کا جذب مانگو۔

41:15) ’’ابکوا‘‘ روئو تاکہ تم نے جو حرام مزہ گناہوں سے اُڑایا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ابکوا فان لم تبکوا فتباکوا روئو لیکن اگر رونا نہ آئے، کبھی دل میں گناہوں کی وجہ سے سختی آجاتی ہے

55:25) ہٰذا کیسی ہی حالت ہو، اﷲ تعالیٰ سے امید لگائے رہو۔ ناامیدی اسی لیے کفر ہے کہ اس شخص نے حق تعالیٰ کی غیر محدود ذات وصفات کو اپنی احمقانہ عقل کے دائرہ میں محدود سمجھ کر عظمت غیر محدود کی ناقدری کی اور حق تعالیٰ کے دائرہ مغفرت کی غیر محدود یت کو اپنے محدود گناہوں کی اکثریت سے چیلنج کیا کہ میرے محدود گناہوں کی اکثریت کو معاف کرنے پر آپ کی مغفرت نعوذباﷲ قاصر ہے حالانکہ ہر محدود اپنی اکثریت کے باوجود غیر محدود کے سامنے اقلیت میں ہو تا ہے اور دنیا کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق بھی کسی اقلیت کو حق نہیں کہ اکثریت کو چیلنج کرے۔

اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے ناامیدی کو کفر قرار دیا کہ یہ شخص اپنے گناہوں کی محدود اکثریت سے اﷲتعالیٰ کی غیر محدود صفتِ مغفرت کو للکاررہا ہے اور غیر محدود مغفرت کو اپنے محدود گناہوں کے لیے ناکافی سمجھ رہاہے جبکہ اﷲ تعالیٰ لَاتَقْنَطُوْا فرمارہے ہیں اور میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲعلیہ فرماتے تھے کہ ناامیدی کو کفر قرار دینے میں بھی حق تعالیٰ کی انتہائی رحمت پوشیدہ ہے کہ ڈرا دھمکا کر اور دوزخ کا ڈنڈا دکھا کر اپنی رحمت کا امیدوار بنارہے ہیںجیسے بچہ اگر باپ سے ناامید ہوکر بھاگنے لگے تو باپ اس کو پکڑ کر کہتا ہے کہ نالائق کہاں بھاگتا ہے میں تیرا باپ ہوں مجھ سے کیوں نا امید ہوتاہے۔ اگر ناامید ہوا تو میں ڈنڈے سے تیری پٹائی کروں گا۔پس حق تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ خبردار میری رحمت سے مایوس نہ ہونا ورنہ دوزخ میں ڈال دوںگا۔ بتاؤکیا یہ رحمت نہیں ہے؟اگر سزا دینے میں اﷲ تعالیٰ کو دلچسپی ہوتی تو ناامیدی کو کفر قرار نہ دیتے بلکہ فرماتے کہ اچھامرنے دو، مجھے کیا سب کو دوزخ میںڈال دوںگا لیکن ناامیدی کو کفر قرار دے کر اﷲ تعالیٰ نے بندوں کو اپنی رحمتِ بے پایاں سے نوازا ہے۔

56:18) دل کی سختی دور کرنے کا وظیفہ۔۔۔

01:14:33) ضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس ایک عورت آئی،اس نے کہا کہ میرا دل سخت ہوگیا ہے، نہ تلاوت میںجی لگتا ہے، نہ نماز میںجی لگتا ہے۔ آپr نے فرمایا کہ جائو اورموت کو کثرت سے یاد کرو، تمہارا دل نرم ہوجائے گا۔ بس وہ گئی،موت کویاد کیا، پھر ہنستی ہوئی آئی اور کہا کہ اب خوب رونا آرہا ہے، موت کے مراقبے سے، بار بار سوچنے سے کہ ایک دن قبر میں لیٹنا ہے، یہ گال اور کالے بال اور ان ساری چیزوں کا پتا بھی نہیں ہوگا، ہڈی بھی تلاش کرنے سے نہیں ملے گی، گرمیوں میں چوبیس گھنٹوں کے بعد اور سردیوں میں بہتّر گھنٹوں کے بعد لاش پھٹ کر سڑ جاتی ہے، چھ ماہ کے بعد جاؤ گے تو ہڈی بھی نہیں ملے گی۔

01:16:50) یٰس شریف سن کر ایک نادان آدمی کا نیت توڑ کر بھاگنا تو دل کی سختی دور کرنے کے لئے موت کا مراقبہ بہت مفید ہے لیکن آپ یہ نہ سمجھئے کہ اگر ہم روزانہ موت کو یاد کریں گے تو کہیں موت جلدی نہ آجائے، کہتے ہیں نا کہ میں نے آپ کو یاد کیا تھا اس لئے آپ جلدی آگئے۔دہلی کا واقعہ آپ لوگوں نے نہیں سنا ہوگا، میں سناتا ہوں۔رمضان شریف میںدہلی کی جامع مسجد میں تراویح ہورہی تھی تو جس دن امام صاحب نے سورۂ یٰس پڑھی تو ایک شخص نیت توڑ کر بھاگ گیا ۔سب لوگ اس کے گھر گئے کہ کیا ہوا بھئی! کیا دل کا دورہ پڑ گیا یاکیا بات ہوئی؟کہا کہ دورہ وورہ کچھ نہیں ہوا،امام روح نکالنے والی سورت پڑھ رہا تھا،اس لئے میں بھاگ آیاکہ مجھے باپ دادا نے اور محلہ والوں نے بتایا ہوا ہے کہ جب کسی کی روح نہ نکلے تو سورۂ یٰس پڑھ لوتو آج اس ظالم امام نے روح نکالنے والی سورت پڑھناشروع کی تو میں ڈر گیا کہ میں نے ابھی مرنے کے لئے تیاری نہیں کی ہے، میرے بچے ابھی چھوٹے چھوٹے ہیں،مجھے ان کی فکرکرنی ہے۔ تو یہ نادانی ہے، موت کی یاد سے حیات نصیب ہوتی ہے، دل میں زندگی پیدا ہوتی ہے، اللہ یاد آتا ہے۔

01:19:07) اخلاق پر جو بیان چل رہا ہے تیرہ صفحات پر پہنچے ہیں پچھلے اتوار بھی بیان ہوا تھا اب آگے بیان ہوا۔۔

01:20:12) محبت بہت بڑی نعمت ہے دشمن بھی ہو تو اس سے بھی سلام دعا کرلو، اس کی دشمنی کا جوش کم ہوجائے گا اور دوستوں کی دوستی میں اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں قادیانیت کے جو بھنگی بنے ہوئے ہیں اُن کو سلام کریں یا دوستی کریں ایسے سے تو مشرق مغرب کا فاصلہ ضروری ہے۔۔

اَلتَّوَدُّ دُ اِلَی النَّاسِ نِصْفُ الْعَقَلِ لوگوں سے محبت کرنا آدھی عقل ہے اور تَوَدُّ دُباب ِتفعل سے ہے جس میں تکلف کی خاصیت ہوتی ہے یعنی اگر کسی سے مناسبت نہ ہو، دل نہ چاہے تب بھی بہ تکلف تم اس سے محبت و خوش اخلاقی سے پیش آؤ، یہ آدھی عقل ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries