عشاءمجلس یکم ستمبر      ۴ ۲۰۲ء     :ملاقاتِ دوستاں       !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام :مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرت اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

03:49) ملاقاتِ دوستاں اتنی اہم ہے کہ جنت میں بھی سب سے پہلا حکم ہوگا فَادخُلِی فِی عِبَادِی کہ اے جنت والو! پہلے جنت کی نعمتوں میں مشتغل مت ہو، جنت کی نعمتوں کو ابھی استعمال مت کرو۔ پہلے اِن اللہ والوں کی زیارت کرو،پہلے میرے عاشقوں سے ملو، ’’وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ‘‘ جنت کا درجہ ثانوی رکھو، کیونکہ جنت حاملِ نعمت ہے اور میرے اولیاء اللہ نعمت دینے والے کو دل میں لیے ہوئے ہیں، یہ حاملِ منعم ہیں، پہلے ان کی زیارت کرو۔

06:17) نعمت دینے والے کا درجہ نعمت سے زیادہ ہوتا ہے۔ پس حامل تجلیات منعم ہونے کے سبب اہل اللہ جنت سے افضل ہیں۔ اسی لیے علامہ آلوسی ’’فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْن‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ذکر کو اللہ تعالیٰ نے مقدم کیوں کیا اور شکر کو مؤخر کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فَاِنَّ حَاصِلَ الذِّکْرِ اَلْاِشْتِغَالُ بِالْمُنْعِمِ ذکر کی حالت میں آدمی نعمت دینے والے کے ساتھ مشتغل رہتا ہے

07:58) اور علامہ آلوسی نے باب افتعال استعمال کیا کہ ارادہ کرکے وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ ایک شخص نے حکیم الامت کو لکھا کہ ایسا وظیفہ بتائیے کہ ہر وقت بلا ارادہ زبان سے اللہ اللہ نکلتا رہے۔ فرمایا کہ توبہ کرو اس بات سے۔ اس لیے کہ بے ارادہ زبان سے اللہ نکلنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ مجبور ہوگئے اور ثواب ملتا ہے اپنے اختیار سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے سے۔ جب مجبوراً اللہ کہوگے اور تمہارا اختیار ہی نہ رہے گا تو ثواب کیا ملے گا ذکر کا۔ تو ذکر کا حاصل ہے نعمت دینے والے کے ساتھ مشغول ہونا فَاِنَّ حَاصِلَ الذِّکْرِ اَلْاِشْتِغَالُ بِالنِّعْمَۃِ اور شکر حاصل ہے نعمت کے ساتھ مشغول ہونا۔ فَالْمُشْتَغِلُ بِالْمُنْعِمِ اَفْضَلُ بِالْمُشْتَغِلِ بِالْنِّعْمَۃِ جو منعم کے ساتھ مسغول ہے وہ نعمتوں میں مشغول ہونے والے سے افضل ہے، اس لیے ذکر کو مقدم فرمایا۔ اسی لیے جنت میں مشغولی سے پہلے اللہ والوں سے ملنے کا حکم ہوا۔ یہ تفسیر روح المعانی ہے۔ معلوم ہوا کہ جو لوگ اللہ والوں سے گھبراتے ہیں، ان کے جنتی ہونے میں خطرہ ہے۔ ان کو ذوقِ جنت حاصل نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں پہلے میرے عاشقوں سے ملو۔

25:49) علم بے شک سر آنکھوں پر مگر صحبت کی قیمت زیادہ ہے اور اس کی دلیل غارِ حرا سے دیتا ہوں۔ اسی غارِ حرا میں نبوت عطا ہوئی ہے جس پر اختر کا شعر ہے ؎ خلوتِ غارِ حرا سے ہے طلوع خورشید کیا سمجھتے ہو تم اے دوستو! ویرانوں کو نبوت کا آفتاب غارِ حرا سے طلوع ہوا اور جس ویرانے میں اللہ مل جائے آہ! اس ویرانے کو کیا سمجھتے ہو۔

36:02) مسجد کے خدام کی محنتوں اور لگن کا ذکر کہ کتنی یہاں کے ماحول کی قدر کرتے ہیں الخہ۔۔

36:55) جہاں مناسبت ہو وہاں بس جڑ جائے اور اصلاح کرائیں۔۔

38:43) اس غارِ حرا میں ایک آیت نازل ہوئی: اقرأ باسم ربک الذی خلق، اس وقت جو ایمان لائے ان کا درجہ سب سے اعلیٰ ہے، ان کو سابقون الاولون قرار دیا گیا اور جو تیس پارے نازل ہونے کے بعد ایمان لائے ان کو متأخرین قرار دی اگیا۔ وہ بھی مقبول ہیں لیکن درجہ میں ان سے پیچھے ہیں جو اقرأ نازل ہوتے ہی ایمان لائے تھے۔ بتائیے! تیس پاروں کا علم زیادہ ہے یا ایک آیت کا؟ یہی دلیل ہے کہ صحبت کی قیمت علم سے زیادہ ہے کیونکہ جو پہلے ایمان لائے ان کو نبی کی صحبت زیادہ ملی، اس لیے ان کا درجہ ان سے بڑھ گیا جو تیس پاروں کے بعد ایمان لائے۔ یہ ہے صحبت کی اہمیت اور جو شیخ اور مربی جتنا قوی النسبت ہوگا اس کے صحبت یافتہ بھی اتنے ہی قوی النسبت ہوں گے۔

43:29) یہی وجہ ہے کہ چونکہ سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جیسا نہ کوئی پیدا ہوا اور نہ آیندہ پیدا ہوگا اس لیے آپ کے صحابہ بھی امم سابقہ کے صحابہ سے افضل ہیں اور اب قیامت تک کوئی بڑے سے بڑا ولی ایک ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا لیکن نسبت قیامت تک سینوں سے سینوں میںمنتقل ہوتی رہے گی۔

50:16) صحبتِ اہل اﷲ روح کی کلیوں کے لیے نسیمِ سحری ہے یعنی کلیوں میں جو خوشبو پنہاں ہے تو نسیمِ سحری یعنی صبح کی ہوا ان کلیوں سے کہتی ہے کہ تمہارے اندر جو خوشبو بند ہے وہ کب تک بند رہے گی، اب تیار ہوجاؤ اور میرے جھونکوں کی آغوش میں آجاؤ جو تمہاری مہر توڑ دیں گے اور پھر تم بھی ہمارے ساتھ سیر کو چلو، خود بھی مہکو اور سب کو مہکاؤ، ذاتی خوشبو کو متعدی کر لو۔ ہماری روح کی کلیوں میں اللہ کی محبت کی جو خوشبو پوشیدہ ہے، اللہ والوں کی صحبتوں کی نسیم سحری کے جھونکوں سے وہ مہر ٹوٹ جاتی ہے ورنہ لوگ اللہ کی محبت کی امانت کو لیے قبروں میں چلے جاتے اور وہ خوشبو اُجاگر نہیں ہوتی، دل کے اندر ہی اندر دفن ہو کر رہ جاتی ہے، نہ خود مہکتی ہے نہ دوسروں کو مہکاتی ہے۔

53:39) دیسی اور لنگڑے آم کی مثال اور صحبت اہل اللہ کی دلیل۔۔۔ اسی طرح دیسی آم جب لنگڑے آم کی صحبت میں لنگڑا آم بن گیا تو اس کو اب دیسی آم نہ کہو ورنہ ہتکِ عزت کا مقدمہ تم پر چل جائے گا۔ اب یہ لنگڑا آم ہے۔ میرے شیخ شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ دیسی آم لنگڑے آم کی صحب تسے لنگڑا آم بنتا ہے لیکن دیسی دل اللہ والوں کی صحبت سے لنگڑا دل نہیں تگڑا دل بنتا ہے اور ایسا تگڑا دل بنتا ہے کہ خود بھی استقامت سے رہتا ہے اور دوسروں کی استقامت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہر وقت خوش رکھتا ہے، اللہ کی ناخوشی سے بچنے کے لیے اپنی خوشیوں کا خون کرتا رہتا ہے اور خوش رہتا ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries