عشاء مجلس ۱۳ ستمبر      ۴ ۲۰۲ء     :کیفیتِ احسانیہ اہل اللہ کے سینوں سے ملتی ہیں        !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجد ِاختر نزد سندھ بلوچ سوسا ئٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

06:20) دُنیا کی حقیقت:دُنیا نام ہے اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کا۔۔۔

06:21) دوسری شادی سنت نہیں ہے مباح ہے۔۔۔

12:32) ایک لطیفہ اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی نصیحت کہ گھر میں جوچیزیں ہیں ان پر ہر ایک کا نام لکھ لیں اور ان کی جگہ ایک ہی مقرر کریں تاکہ اندھیرے میں بھی ہاتھ رکھیں تو وہی چیز ہاتھ لگے۔۔۔

16:08) تزکیہِ نفس فرض ہے اس کی فکر کریں۔۔۔

20:21) دنیاکی فنائیت پرانگور کے کیڑے کی مثال: آپ کو کمیاتِ شرعیہ تو کتابوں اور مدارس سے مل جائیں گی لیکن یہ کیفیاتِ احسانیہ اہل اللہ کے سینوں سے ملیں گی، بغیر کیفیت ِاحسانی کے آدمی کا نہ ایمان حسین ہے، نہ اسلام حسین ہے۔ جب سالک دل میں اللہ کو پاجاتا ہے یعنی اسے یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے تو اس کا ایمان اور اس کا اسلام حسین ہو جاتا ہے اور صرف حسین نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کے ایمان اور اسلام کو بھی حسین کرتا ہے۔

24:33) احسان باب اِفعال سے ہے، باب اِفعال میں متعدی شان ہوتی ہے یعنی آگ لگی بھی ہے اور لگاتا بھی ہے، دیوانہ بھی ہے دیوانہ سازی کرتا بھی ہے، جو دیوانہ دوسروں کو دیوانہ نہ بناسکے وہ دیوانہ کہاں ہے؟ روحانی بالغ وہی ہے جس کی صحبت سے دوسرے لوگ بھی بالغ ہوجائیں، دیوانہ وہ ہےجو دوسروںکو دیوانہ بنادے، ایسا اس کادردِ دل ہو جس کے سامنے دنیا کی لیلائیں نظروں سے گر جائیں،سارا عالم نگاہوں سے گر جائے، جو اللہ کی محبت کی تقریر اگر دردِ دل سے کردے تودنیا کی ساری لیلائیں نگاہوں سے گر جائیں گی، اِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ کا نقشہ سامنے آجائے گا۔اللہ اللہ ہے بھئی، ان سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے؟ظالم ہیں وہ جنہوں نے دنیا کی زندگی سے فائدہ نہ اٹھایا، امپورٹ ایکسپورٹ آفس بنے رہے، کھاتے رہے اور لیٹرین میں نکالتے رہے، اِدھر کھایا اُدھرنکال دیا، حسینوں کے چکر میں رہے، مُردوں سے لپٹے رہے۔

33:39) آہ ! یہ کیا زندگی ہے؟یہ وہ انگور کے کیڑے ہیں جو انگورکےپتے پر جان دے دیتے ہیں اوراوپر جوانگور کا پھل ہوتا ہے وہاں نہیں جاتے،انگور کا کیڑا ہرےپتوں کو انگور سمجھ کر زندگی غارت کردیتا ہے، اگر یہ ظالم ان ہرے پتوں سے باز آجاتا اور آگے بڑھ جاتا تو انگور پاجاتا، ایسے ہی جن لوگوں نے ان حسینوں سے دل لگایا وہ انگور کے کیڑے کی طرح انگور کے پتوں میں لگے رہے، ان ظالموں نے انگور کا پھل نہ کھایا،کاش اللہ والوں سے ملتے تو کچھ اور ہی عالم ہوتا۔

36:15) اللہ کے عشاق کا تجلیات ِجذب کا کرنٹ: میر صاحب سے کہتا ہوں کہ اگر آپ نے میری آہ کی قدر نہ کی تو مجھے انتہائی غم ہوگا کیونکہ آپ سارے عالم میں میرے ساتھ دسترخوان پر سموسے اور ہری مرچ اور برف کا پانی پی رہے ہیں لیکن جس نے ہری مرچ اور سموسہ پیدا کیا ہے اگر اس حاصل ِرفاقت کو نہ پایا تو مجھے انتہائی غم ہوگا۔ اس لئے اپنے دوستوں سے عرض کرتا ہوں کہ ساتھ رہو تو اللہ تعالیٰ سے دل و جان کو ایسا چپکاؤ کہ سارا عالم آپ کو ایک اعشاریہ اﷲ سے الگ نہ کرسکے اور اسی مضمون کی دعا بھی مانگو کہ اےاللہ! ہمارے قلب و جاں کو اپنی ذاتِ پاک کے ساتھ اس طرح چپکا لے کہ حسن کا عالم، صدارت کا عالم، وزارت کا عالم، سلطنت کا عالم، چاند و سورج کی روشنی کا عالم، لیلاؤں کا عالم، کوئی بھی عالم ہمیں ایک بال کے برابر آپ سے الگ نہ کرسکے بلکہ ہم کو ایسا کرنٹ دے دیجئے کہ جو ہمیں چُھولے وہ بھی آپ سے چمٹ جائے، جو ہم کو دیکھ لے وہ بھی آپ سے چمٹ جائے، جو ہماری بات سن لے وہ بھی آپ سے چمٹ جائے، جو ہماری تصنیف دیکھے وہ بھی آپ سے چمٹ جائے۔ بجلی کا کرنٹ کسی کو لگ جائے تو اس کو چھونے سے تو آدمی مرجاتا ہے مگر آپ کے عاشقوں میں آپ کی محبت کا جو کرنٹ ہےدوسرے اس سے حیات پاجاتے ہیں۔

40:45) کہئے مولانا ایوب صاحب !بتائیے! یہ دعا کیسی ہے کہ اے اﷲ! ہماری رگوں میں آپ اپنی تجلیاتِ اجتبائیہ اور شانِ جذب کی تجلی ایسی سما دیجئے کہ جو ہمیں دیکھ لے وہ بھی آپ سے چپک جائے، جو ہماری بات سن لے وہ بھی آپ سے چمٹ جائے، جو ہماری تحریردیکھ لے وہ بھی آپ سے چمٹ جائے، جو ہمارے مصلّےپر نماز پڑھ لے وہ بھی آپ سے چمٹ جائے،جو ہماری پڑھی ہوئی تسبیح پر انگلی رکھ دے، ذکر کرے ،وہ بھی آپ کا بن جائے۔

41:29) قربِ حق کی لذت کو دنیا کی کوئی لغت بیان نہیں کر سکتی: آہ!اب آخر میں جب میں اس مقام پر پہنچتا ہوں جہاں لغت اور الفاظ ہاتھ جوڑتے ہیں کہ اب ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں، اب تم اللہ کی محبت کے بارے میں دعا ہی کرو، اللہ ہی دل میں ڈال دیں گے تو کام بن جائے گا، یہ ہے وہ مقام جہاں میری زبان قاصر ہوجاتی ہے، جہاں مولانا رومی کی زبان قاصر ہوگئی جو بلاغت کے امام تھے ،فرماتے ہیں ؎ بوئے آں دلبر چوں پرّاں می شود ایں زبانہا جملہ حیراں می شود

44:57) عشق جب بے زبان ہوتا ہے: دیکھئے! میں بار بار لذت کی بات کررہا ہوں، میں خشک شریعت پیش نہیں کرتا ہوں، میںساری لیلاؤں سے زیادہ اپنے مولیٰ کی لذت پیشکرتا ہوں، بتاؤ! یہ طریقہ خاص ہے یا نہیں؟ اس دور میں ان شاء اللہ، ابھی آپ دیکھئے گا ، میری زندگی کی دعا کرو، ابھی اوربہت کچھ نظر آئے گا ان شاء اللہ،کہ سارے بڑے بڑے اہل ِعلم کی خدمت کی سعادت اختر کو ان شاء اللہ نصیب ہوگی اور اپنی محبت کو جس سطح سےحق تعالیٰ میری زبان سے بیان کروارہے ہیں ان شاء اللہ آپ اس کو بے مثل پائیں گے، کیونکہ اﷲ کی ذات بے مثل ہے، ان کے نام کی لذت بھی بے مثل ہے، وہ غیر محدود ہیں، ان کی لذتِ ذکر بھی غیر محدود ہے لہٰذا آخر میں یہی کہتا ہوں؎ عشق جب بے زبان ہوتا ہے رشکِ صدہا بیان ہوتا ہے

50:06) عشق جب بے زبان ہوتا ہے رشکِ صدہا بیان ہوتا ہے یہ میرا ہی شعر ہے، جب عشق مجبور ہوجاتا ہے یعنی بے زبان ہوجاتا ہے، اسے لغت نہیں ملتی، الفاظ نہیں ملتے کہ اب کیسے بیان کروں تو سمجھ لو کہ پھر اللہ تعالیٰ کی مدد آجاتی ہے کہ میرا بندہ اپنی لغت سے ہار گیا۔حق تعالیٰ جو چاہتا ہے کہ میرے اور میرے دوستوں کے دل میں مولیٰ آجائے تو پھر اللہ تعالیٰ میری مدد کرکے میرے دوستوں کے دل میں نسبت ِخاصہ عطا فرما دیں گے ان شاء اللہ۔

51:18) مولانا فقیر محمد صاحب رحمہ اللہ کا حرم میں دیکھا ہواخواب: مولانا فقیر محمد صاحب رحمہ اللہ نے خانہ کعبہ میں ایک خواب دیکھا تھاجو حضرت نے خود مجھ سے بیان فرمایا۔حضرت کی حیات پر میرا ایک شعر ہے جو آپ کی سوانح میں ایک پورے صفحہ پریہی شعر لکھا ہوا ہے؎ ہے زباں خاموش اور آنکھوں سے ہے دریا رواں اللہ اللہ عشق کی یہ بے زبانی دیکھئے چھاپنے والے نے اس پورے صفحہ پر کوئی اور چیز نہیں لکھی،یہ شعرمولاناکی سوانح کا ایک جغرافیہ ہے کیونکہ وہ روتے بہت تھے، سب کو معلوم ہے۔جب کراچی نیوٹاؤن کی مسجد میں رونے کی آواز آجاتی تھی تو سب سمجھ جاتے تھے کہ

مولانا فقیر محمد صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں۔اسی لئے کہتا ہوں کہ یہ اصلی مزہ لے لو،دنیاوی لیلاؤں میںیہ مزہ تھوڑی ہے۔مولانا فقیر محمد صاحب نے جہاں نماز کا سلام پھیرا اور رونا شروع کردیا جیسے بچہ اپنی اماں سے روتا ہے ایسے روتے تھے۔ اسی لئے حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ان کا لقب ’’بَکّاء‘‘ رکھا تھا یعنی بہت رونے والا اورآپ کورونق ِخانقاہ فرماتے تھے کہ آگیا میری خانقاہ کی رونق، بس اللہ کی یاد میں ان کی عجیب کیفیت تھی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس بڑی شخصیت نے جب وہ حج کے لئے مکہ آئے ہوئے تھے تومجھ سے فرمایا کہ آج میں نے تجھے خواب میں دیکھا ہے کہ تو بہت لمبا ہے، سفید لباس پہنے ہوئے ہے اور کعبہ شریف میں،اللہ کے گھر میں تیرا بیان ہورہا ہے اورایک مجمع ِ غفیر لگا ہوا ہے اور جب تو نے مجھےدیکھا تو تقریر بند کرکے مجھ سے معانقہ کیا۔میں نے عرض کیاکہ اس کی دو تعبیرہیں: نمبر ایک، سارے عالم میں ان شاء اللہ اختر کی آہ وفغاں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نشر ہوگی کیونکہ خانہ کعبہ مرکز ِکائنات ہے اور ساری دنیا کے عشاق وہاں حاضری دینے آتے ہیں۔ نمبر دو یہ کہ میں اپنے بزرگوں کا ادب بھی رکھوں گا، یہ نہیں کہ آدمی جوشِ تقریر میں سب بھول جائے ،آدابِ اکابر کابھی پاس رہے گا ان شاء اللہ۔ الحمدللہ میں نے کعبہ شریف میں بھی مثنوی کا درس دیا اور قونیہ میں مولانا رومی کی خانقاہ میں اور قبر ِمبارک کے سامنے بھی اختر نے مثنوی کا درس دیا۔

56:01) دُعائیہ پرچیاں۔۔۔

دورانیہ 58:55

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries