فجر مجلس۹۔ اکتوبر۴ ۲۰۲ء     :غیر اللہ سے کٹ کر اللہ سے جڑ جاؤ       !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

06:16) اب سنئے! مسائل تصوف بزبان تفسیر مظہری، یہ تفسیر حضرت مظہرجان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کی نہیں ہے، قاضی ثناء اللہ صاحب کی لکھی ہوئی ہے لیکن اپنے شیخ کے نام سے منسوب کردی۔ ذکر اسم ذات کا ثبوت: حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’وَاذکُرِ اسْمَ رَبِّکَ۔‘‘ اپنے ربّ کا اسم مبارک لو۔ ربّ کا اسم مبارک کیا ہے؟ اللہ فرماتے ہیں کہ اسم ذات کا ثبوت اسی آیت سے ہے۔ صوفیاء کا ذکر اللہ اللہ جو ہے اسی آیت سے ثابت ہے۔

حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بوادر النوادر میں لکھا ہے صحابہ کے زمانہ میں ذکر کا ثبوت موجود ہے۔ جب وہ قران پاک یاد کرتے تھے تو ایک ایک لفظ کا رسوخ و تکرار کرتے تھے۔ تکرار لفظ سے ذکر راسخ ہوجاتا تھا۔ وہ زمانہ تو عہد نبوت کا تھا۔ نبوت کی ایک نظر سے وہ صاحب نسبت ہوتے تھے اور نسبت بھی ایسی کہ قیامت تک آنے والا بڑا سے بڑا ولی ایک ادنیٰ صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اب زمانہ عہدِ نبوت سے بعد کا آگیا لہٰذا صوفیاء نے یہ طریقہ نکالا کہ جیسے صحابہ ایک ایک لفظ کی تکرار کرکے قرآن یاد کرتے تھے۔ اسی طرح ہم بار بار اللہ اللہ کہتے ہیں تاکہ اللہ دل میں یاد ہوجائے، یاد تو ہے لیکن دماغ میں ہے، دلا میں جب اُترے گا جب بار بار ہم اللہ کہیں گے۔

06:17) حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ میں رب کیوں فرمایا جبکہ وَاذْکُرِ اسْمَ اللہِبھی ہو سکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ پالنے والے کی محبت ہوتی ہے، پالنے والے کو آدمی محبت سے یاد کرتا ہے۔ بتائیے ماں باپ کی یاد میں مزہ آتا ہے یا نہیں۔ تو یہاں رب اس لیے نازل فرمایا کہ میرا نام محبت سے لینا۔ خشک ملائوں کی طرح میرا ذکر مت کرنا، عاشقانہ ذکر کرنا کہ میں تمہارا پالنے والا ہوں جس طرح اپنے ماں باپ کا محبت سے نام لیتے ہو، ماں باپ کا نام لے کر تمہاری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، کیا تمہارا اصلی پالنے والا میں نہیں ہوں؟ ماں باپ تو متولی تھے، تمہارا اصلی پالنے والا تو میں ہوں، رب العالمین ہوں۔ اس تربیت کی نسبت سے میرا نام محبت سے لینا۔

17:40) آگے فرماتے ہیں وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا اور غیر اللہ سے کٹ کر اللہ سے جُڑ جائو یعنی اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ غیر اللہ سے کٹنے اور کنارہ کش ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا مخلوق کو چھوڑ کر جنگل میں نکل جائو؟ ہر گز نہیں! مطلب یہ ہے کہ قلب کے اعتبار سے مخلوق سے کٹ جائو، جسم بستی میں رہے مخلوقِ خدا کے ساتھ ہو لیکن دل اللہ کے ساتھ ہو، رہبانیت حرام ہے ایک تبتل شرعی ہے، ایک غیر شرعی ہے۔ تبتل غیر شرعی جوگیوں اور سادھوئوں کا ہے ہندوستان کے پنڈتوں اور ہندوئوں کا ہے کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں نکل گئے، بدن پر راکھ مل لی اور درخت کے نیچے آنکھ بند کر کے بیٹھ گئے اور تبتل شرعی مسلمانوں کا ہے، اولیاء اللہ کا ہے وہ کیا ہے کہ تعلقاتِ دنیویہ پر علاقۂ خداوندی غالب ہوجائے ، دنیاوی تعلقات پر اللہ تعالیٰ کا تعلق ،اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہو جائے اس حقیقت کو جگر مراد آبادی نے یوں تعبیر کیا ہے ؎ میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگر ؔ وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا

19:11) ان آیات کی تقدیم و تاخیر سے حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تصوف کا ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیٹی کی شادی ہو جائے، مکان بنا لوں، تھوڑا سا کاروبار جمالوں ، ذرا دنیوی فکروں سے چھوٹ جائوں پھر میں اللہ والوں کے پاس جائوں گا، اللہ کی یاد میں لگ جاؤں گا اور بالکل صوفی بن جائوں گا، حضرت فرماتے ہیں کہ آیت کی ترتیب بتا رہی ہے کہ جس فکر میں ہو، جس حالت میں ہو فوراً اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کر دو۔

23:59) لیکن کسی اللہ والے سے مشورہ کرکے ذکر کرو۔ جب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات فرمائی تو خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اشکال پیش کیا کہ حضرت! یہ اللہ والوں کی قید آپ کیوں لگاتے ہیں؟ آدمی خود ہی ذکر کرلے۔ کیا ذکر سے ہم اللہ تک پہنچ سکتے۔ اب حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کا جواب سنئے۔ فرمایا کہ بے شک اللہ کے ذکر ہی سے ہم اللہ تک پہنچیں گے۔ جس طرح کاٹتی تو تلوار ہی ہے مگر جب کسی سپاہی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ کاٹے گی تو تلوار ہی، کاٹ تو تلوار ہی سے ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ کسی کے ہاتھ میں ہو۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries