عشاء   مجلس ۱۵ جنوری ۲۵ء:تکبر کا علاج    !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

02:57) حسبِ معمول حضرت والا رحمہ اللہ کی کتاب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنتوں سے تعلیم ہوئی۔۔۔

02:57) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنا چاہیے اور اپنے گھروں میں بھی اس کا اہتمام کرانا چاہیے!

05:16) جناب مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے کچھ اشعارپڑھے!

06:40) مولانا منیر احمد علوی صاحب کی کتاب جمالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سےآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ سے متعلق تھوڑا مضمون پڑھ کرسنایا!

13:29) تکبّرکی وجہ سے انسان ماراجاتا ہے!

14:18) شکر اور کبر جمع ہونا محال ہے ارشاد فرمایا کہ ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ بہت لوگ میرے مُرید ہورہے ہیں کہیں میرے دل میں بڑائی نہ آجائے۔ میں نے کہا جب بہت زیادہ مُرید ہوں یا لوگ آپ کی تعریف کریں تو فوراً کہو ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُکْرُ‘‘کہ اے اللہ! تمام تعریفیں آپ کے لیے ہیں۔ شکر ہے آپ کا۔

15:19) غم دُکھ اور پریشانی یہ سب ہمارے ہی فائدے کے لیے ہیں!

19:31) ہم تو مٹی ہیں بس آپ کے کرم کے سورج کی شعاعیں پڑگئیں جو یہ مٹی چمک رہی ہیں یہ تو آپ کا کمال ہے ہمارا کیا ہے۔ اگر مٹی چمکتی ہے۔ سورج کی شعاعوں سے تو یہ مٹی کا کمال نہیں ہے یہ سورج کی شعاعوں کا کمال ہے۔ اگر مٹی کو ناز ہوجائے اور سورج اپنا رُخ پھیرلے تب پتا چلے گا کہ مٹی میں کیا چمک ہے۔ لہٰذا تکبر کا بہترین علاج یہی ہے کہ جب کبھی کوئی تعریف کرے تو فوراً پڑھو ’’اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ وَلَکَ الشُّکْرُ‘‘ شکر سے قرب ہوتا ہے اور تکبر سے دوری ہوتی ہے یعنی شکر سبب قرب ہے اور کبر سبب بعد ہے اور سبب قرب اور سبب بعد کا جمع ہونا محال ہے۔

24:25) لہٰذا اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہی تکبر بھاگ جائے گا جیسا کہ ایک مچھر نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا کہ جب اپنا پیٹ بھرنے کے لیے میں خون چوستا ہوں تو ہوا مجھے اُڑاکر لے جاتی ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ دونوں کا موجود ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا تم مدعی ہو میں ابھی مدعا علیہ کو بلاتا ہوں اور ہوا کو حاضر ہونے کا حکم دیا۔ جب ہوا آئی تو یہ بھاگ گیا اور کہا کہ میں بھاگا نہیں ہو بھگایا گیا ہوں کیونکہ ہوا کے سامنے میں ٹھہر نہیں سکتا۔

25:01) مومن کامل کون ہے؟ مومنِ کامل وہ ہے جو ہر مسلمان سے اپنے کو کمتر سمجھے فی الحال اور کافروں اور جانوروں سے کمتر سمجھے فی المآل۔

27:06) مومنِ کامل وہ ہے جو ہر مسلمان سے اپنے کو کمتر سمجھے فی الحال اور کافروں اور جانوروں سے کمتر سمجھے فی المآل۔ یہ حکیم الامت تھانوی کا ارشاد ہے کہ تمام مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال یعنی موجودہ حالت میں تمام مسلمانوں سے میں کمتر ہوں کیوں کہ کوئی مسلمان بے نمازی ہے، ڈاڑھی منڈاتا ہے لیکن ممکن ہے کہ اس کا کوئی عمل ایسا ہوگیا ہو جو اللہ کے یہاں قبول ہوگیا ہو اور اس کی وجہ سے اس کام کام بن جائے اور ہمارا کوئی عمل ایسا ہوگیا ہو جو اللہ کو ناپسند ہوگیا ہو اور اس کی وجہ سے ہماری پکڑ ہوجائے یا نعوذ باللہ سوء خاتمہ ہمارے لیے مقدر ہوگیا ہو، ایمان نام ہے بین الخوف والرجا کا۔ خوف اور امید کے درمیان میں رہو، دعویٰ مت کرو کہ ہم بڑی اچھی چیز تقریر کرتے ہیں، ہم بڑے مصنف ہیں رے اندر یہ اور وہ خوبیاں ہیں اللہ ہم کو ضرورت جنت دے گا اللہ سے ڈرو، دعویٰ نہ کرو، خوف اور امید کے درمیان میں رہو۔

32:31) یاد رکھو کہ کسی قابلیت، کسی کا حسنِ تقریر یا حسن تحریر اور ہر کمال اللہ کی عظمتوں کے سامنے ہیچ ہے۔ اپنی عبادت کو نعمت تو سمجھو کہ اللہ نے نے توفیق دی، اللہ کا شکر ادا کرو لیکن ناز نہ کرو کہ میں نے بڑا کام کردیا۔ اللہ کی عظمت کے سامنے ہماری کسی عبادت، کسی خوبی، کسی تقریر، کسی تحریر کی اتنی نسبت بھی نہیں جتنی سمندر کے سامنے قطرہ کو ہے۔

36:11) پس اگر ایمان سلامت لے جانا ہے تو یہ عقیدہ راسخ کرلو کہ میں تمام مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال اور کافروں اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل۔ اسی عقیدہ پر اللہ تعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخٰر ہوجائے۔ آمین ثم آمین۔ اور مغفرت عمل سے نہیں ہوگی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سب بخشے جائیں گے حتی کہ انبیاء علیہم السلام بھی۔ جب نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ سب کی بخشش اللہ کی رحمت سے ہوگی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی آپ کی بھی؟ فرمایا ہاں میری بھی رحمت ہی سے بخشش ہوگی کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت غیر محدود ہے۔ ہماری طاقتیں محدود ہیں چاہے نبی ہو چاہے امتی ہو لہٰذا اللہ کی عظمت کا حق کیسے ادا کرسکتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ کچھ کام لے لیں، نام ہمارا کردیں کام خود بنادیں اور اپنی رحمت سے بخش دیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفت غفور اور صفتِ رحٰم کے صدقے میں ہماری بخشش ہوگی۔

42:19) للہ والوں سے اور اللہ والوں کے غلاموں سے یہی فنائیت سیکھی جاتی ہے۔ ورنہ شیطان نفس کے سامنے کمالات دکھاتا ہے کہ تم نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایسی عمدہ تقریر کی، فلاں کالج میں ایسی کی، فلاں رسالہ میں ایسا مقالہ لکھا، غرض تمہارے سامنے اعمال پیش کرتا ہے اور اللہ کی عظمتوں کو نظروں سے روپوش کرتا ہے تاکہ یہ دھوکہ کھاجائے اور اس کے دل میں بڑائی آجائے۔ اپنے کو مٹانے کی یہ دولت صرف اللہ والوں کے پاس جانے سے ملتی ہے۔

دورانیہ 45:29

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries