;

 ۱۱۔اپریل  ۲۰۲۱ عشاء :طریق ِ اکابر اور صراط مستقیم  !  

حضرت مولانا عبدالمتین صاحب مدظلہ کا بنگلہ دیش سے براہ راست خانقاہ غرفۃ السالکین میں بیان

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

00:01) اللہ والوں اور اکابر امت کا راستہ صراط مستقیم ہے

02:57) جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اراشادات پر عمل کیا اس نے اللہ تعالیٰ نے حکم پر عمل کیا

05:01) حکام اسلام کا ادب بھی لازمی ہے، یہ اتباع شریعت میں داخل ہے، اگر حکام سے شریعت سے خلاف کوئی بات ہوجائے تو شریعت کے دائرے میں ان کو تنبیہ کرنی ہے

06:15) اللہ کی اطاعت مطلوب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت مطلوب ہے! اطاعت علماء کرام سے پوچھ کر کی جائے گی، الرحمن فسئل بہ خبیرا۔

09:01) علمائے دین وارث انبیاء ہے، یہ امانت قیامت تک موجود رہے گی ان سے ملے گی اور علمائے دین کو بھی فرمایا کہ خشیت الٰہیہ کا اہتمام رکھیں ، اگر علم تو ہے لیکن خشیت الٰہی کا موجود نہیں ہے تو وہ عالم دین نہیں ہے۔ اس پر اجماع ہے کہ جس کے اندر علم تو بہت ہو لیکن اتباع شریعت کے خلاف اس کی زندگی ہے تو شریعت کی نگاہ میں عالم نہیں ہے! گناہوں سے نہیں بچتے تو وہ عالم دین نہیں ہیں اکابر امت کی نگاہ میں، اب اگر خشیت الٰہیہ بھی ہے اور ہر کام شریعت کے مطابق ہے، لیکن اپنی سمجھ کے مطابق دین کی شرح کرتے ہیں اور اکابر دین کے شرح سے ان کی شرح ٹکراتی ہے تو وہ بھی صراط مستقیم پر نہیں ہے بالکل ہٹا ہوا ہے! اس کا بھی اتباع اور مقتداء بنانا صحیح نہیں ہے! یہ بات ہمارے اکابر کی خصوصیات میں سے ہے!

14:46) ہمارے اکابر کی شان فنائیت ہمارے لیے سبق آموز ہے، اب کیا حال ہے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اتنے عرصے سے پڑھارہےہیں یہ دعویٰ کرنا ہی کج فہمی ہے، دین میں اسناد کی اہمیت ہے، اپنی طرف سے بولنا تو دعویٰ ہے!

19:53) ہمارے اکابر دعویٰ سے بہت بچتے تھے، یہ ہمارے اکابر کا شیوہ رہا ہے۔۔، دعویٰ کرنا خود دلیل ہے کہ یہ شخص غیر معتبر ہے۔ اس پر حضرت حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا عمل کہ اپنے بارے میں فتویٰ دوسرے اہل فتاویٰ سے پوچھتے تھے اپنی فہم پر عمل نہیں کرتے تھے۔

22:45) جب تک ہم اکابر دین کے تابع رہیں گے اس وقت تک ہم حق پر رہیں گے۔دارالعلوم دیوبند کا نصاب جامع شریعت و طریقت ہے! بچپن ہی اللہ کی محبت کا درس شروع ہوجائے۔ درس عشق الٰہی شروع ہی ہو۔ اللہ کی محبت کا ذوق پیدا ہوجائے۔ کیا عجیب نصاب بنایا اکابر دیوبند نے!!

27:39) آج شروع میں عربی پڑھ کر براہ راست قرآن پڑھنے کا رواج ہورہا ہے! صحیح نہیں ہے! ہم کو اپنے اکابر کے نصاب پر اعتبار نہیں رہا۔ اس پر ایک مثال بیان فرمائی بادشاہ نے کہا کہ میرے پیٹھ پر شیر کی تصویر بناؤ! جب وہ بنانے لگا سوئی لگائی تو بادشاہ چیخا کیا بنارہے ہو۔۔۔ چھوڑو سر نہ بناؤ!۔۔۔ پھر کان بنانے لگا تو روکا کہ کان بھی چھوڑو۔۔۔ پھر دم بھی چھوڑو!۔۔۔ پھر ٹانگ بھی چھوڑو!۔۔۔ اب یہ شیر کیسا شیر ہوگا بھئی۔۔۔ اب ہمارا یہی حال ہے کہ اکابر کے نصاب میں فلاں جگہ پر کلام ہے ، اس کو حذف کرو اُس کو حذف کرو۔۔۔ یہی حال ہے! ہمت کیسے ہوتی ہے اکابر کے نصاب میں تبدیلی کرنے کی ! حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ مست ہوکر فرماتے تھے ؎ ہمیں نقش قدم اشرف علی ملحوظ رکھنا ہے بس جو فرماگئے اسے محفوظ رکھنا ہے حضرت حکیم الامت جامع المجددین تھے، دین کے ہر شعبے پر حضرت کی دلائل کے تصانیف موجود ہیں ایسا عظٰم الشان اللہ تعالیٰ نے کام لیا

36:33) چاروں آئمہ دین کا تذکرہ! یہ توسمجھاتے ہیں بس اس کو سمجھ جاؤ! خبیرا سے سمجھ لو بس! یہی طریقہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا تھا! صحابہ کا اتباع ضروری ہے! کیونکہ وہ امت میں افضل ترین ہیں! اسی سے ہے کہ ہر زمانے میں امت میں جو دین کے اعتبار سے افضل ہوں ان کا اتباع کرنا ہے۔ صحابہ کرام ؓ کے جو متبعین ہوں گے ان سے بھی اللہ تعالیٰ راضی ہوں گےاگر اتباع کرو گے!

41:53) اتباع شریعت کا پکا ارادہ کرو اور اتباع شریعت کے لیے اتباع تحقیقات ِ اکابر! اگر ہم اس بات پر پکے نہ ہوں ۔۔۔یہیں سے گمراہی کا راستہ کھلتا ہے کہ جب ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خود صحیح سمجھتے ہیں اکابر کی ضرورت نہیں۔۔۔ اکابر دین کا دامن تھامنا دین کی حفاظت کا ذریعہ ہے! یہی اکابر کی یہی شان تھی کہ کسی کو اپنا بڑا بنایا!

44:59) نفس کی غلامی سے بچیں ، اتباع ہوا( حرام خواہشات) سے بچنا ہم پر واجب ہے! جذبات کو خیالات کا اتباع نہیں بلکہ شریعت کا اتباع لازم ہے!

46:40) اکابر کے طریقے پر مرنا جینا ضروری ہے! فہم دین بڑی نعمت ہے! صحابہ سب بڑے عالم نہ تھے، سب کچھ صحبت سے پایا، صحابہ ؓبالکل عین دین پر قائم رہتے تھے، صحابہ کی شان یہ تھی کہ پاک و صاف دل رکھتے تھے ، دین کا گہرا علم رکھتے تھے۔۔۔عالم اس کو کہتے ہیں کہ جس کو فرض علم سے زیادہ علم حاصل ہو!

53:12) جس سے اپنے آپ کو کچھ سمجھا وہ ہلاکت کے راستے پر چل رہا ہے! حضرت حکیم الامت ؒ کی شان فنائیت کا بیان 54:51) حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی شان علمی اور حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کا ادب ! حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی شان ِ فنائیت ، فرماتے تھے کہ خدا کی قسم میرے اندر علم کا ایک حرف بھی نہیں! اب ہمارا کیا حال ہے کہ ہم کو کیا علم حاصل ہوگیا کہ ہم اکابر کی تحقیقات کو چھوڑ کر خود اکابر بن رہےہیں، اللہ کسی کو خود اکابر بنادے وہ تو دوسری بات ہے لیکن خود سے ایسی کوشش!!

01:03:55) حدیث پاک :قیامت تک ایسی جماعت رہے گی جو حق پر قائم رہے گی! ساری دنیا ان کوچھوڑ دے تو اس سے ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، حق تعالیٰ ان کے لیے کافی ہیں!گھبرانے کی کوئی بات نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہیں!

01:06:15) خیالات کی اتباع نہیں کرنی بلکہ احکامات الٰہیہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنی ہے، اور شریعت کو علمائے حق سے سمجھنا ہے! ہر کسی سے دین نہیں سیکھنا ! آئمہ دین ، فقہائے دین کو اپنا مقتدا ء سمجھنا چاہیے، کسی واعظ اور مقرر کی اتباع نہیں کرنی ! ۔ اکابرین امت کی ہدایات پر بس ہم جیتے رہیں اور مرتے رہیں ؎ کوئی جیتا اور مرتا ہی رہا عشق اپنا کام کرتا ہی رہا ہدایت اکابر دین کے طریق میں ہے

01:16:47) درد بھری دعا

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries