;

۱۳ جون ۲۰۲۱ بعد عشاء  :اکابر کی دعاؤں سےایمانی زندگی عطا ہوتی ہے   !  

حضرت مولانا عبدالمتین صاحب مدظلہ کا بنگلہ دیش سے براہ راست مسجد اختر  میں بیان

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

جس پر مالک خوش ہوتے ہیں، خوشی کی کرنیں دل میں محسوس بھی ہوتیں ہیں۔ کسی کی آشنائی ایسی ہوتی ہے کہ وہ دنیا سے ناآشنا ہو جاتا ہے۔ جہاں بھی ہوتا ہے حق تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے، انکی یاد میں وہ مست رہتا ہے۔

02:10) تیرا ذکر ہے میری زندگی + تجھے بھولنا میری موت ہے۔ یہ ہزاروں تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ حضرت حکیم الامت رح نے فرمایا کہ ہم نے کتب بینی سے کہیں زیادہ قطب بینی کری ہے۔ تین میرے قطب ہیں (گریہ و زاری) سے فرمایا حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رح، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رح اور حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رح۔ ان اکابر کی برکت ہے یہ سب۔ تیری کیا حقیقت تھی میاں آہ + یہ سب امداد کے لطف و کرم تھے۔

06:29) اپنے اکابر کی دعاؤں سے زندگی عطا ہوتی ہے، یہ دعائیں دین ہیں ایمان ہیں۔ احکام دین کے مطابق زندگی بناؤں اپنے اکابر کی نگاہ میں جانچ کر۔ ورنہ کافر تو نہ ہوگا مگر ایمان کی برکت سے محروم، علم دین کی برکت سے محروم۔ محنتیں بھی ہوں اور اکابرین کی صحبت کا بھی اہتمام ہو۔

09:34) حضرت حکیم الامت رح فرماتے تھے کہ غیر صحبت یافتہ عالم سے بڑھ کر دین اور فہم دین انکے پاس ملے گا جو عالم نہیں مگر اکابر کے صحبت یافتہ ہیں۔

11:22) علم کا اتنا انہماک ہونا اور (الله والوں کی) صحبت کا اہتمام نہ ہونا، یہ خطرہ کی چیز ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد الباری ندوی کا حضرت حکیم الامت رح کی مجلس میں جانا اور پھر یہ حال ہوا کہ مجلس بعد یہ کہتے تھے، جانے کس انداز سے تقریر کی، پھر نہ پیدا شبہ باطل ہوا۔ آج ہی پایا مزہ قرآن میں، جیسے قرآن آج ہی نازل ہوا۔

15:34) حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رح فرمایا کرتے تھے کہ قلب پر قرآن کی تفسیر وارد ہوتی ہے۔ کسی نے اپنے بے پایا کرم سے، مجھے خود کر دیا روح المعانی۔ جو دل پر ہم انکا کرم دیکھتے ہیں، تو دل کو بہ از جام و جم دیکھتے ہیں۔

17:28) الله کا نام جب لیتا ہوں تو ہر بن منہ شہد کا دریا بن جاتا ہے۔ گناہوں کو تو چھوڑ دیں، نفس و شیطان کے ساتھ لڑائی اور مجاہدہ کرکے گناہوں سے بچنا اور دوسرا کام صحبت اہل الله۔ پھر دنیا ہی میں جنت کا مزہ مل جائے گا ان شاءاللہ۔ جیسی چوٹ ہو ویسا ہی ہلدی کا دام ہوتا ہے۔ زخم جتنا گہرا ہوتا ہے اتنا ہی گہرا تعلق مع اللہ عطا ہوتا ہے۔ ایک گلِ تر کے واسطے ہم نے چمن لٹا دیا۔

21:34) اس راستے میں الله تعالیٰ کے حضور فنائیت اور احتیاجی ہی ضروری ہے۔ مولانا علی میاں ندوی رح کے خاندان کی ایک خاتون کا شعر ہے: کب سے لیے کھڑی ہوں کاساءِ گدائی، اب تک ملا نہ مجھ کو اور شام ہونے آئی۔ جو انکا نام لیتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کا پیار برس جاتا ہے۔

24:14) حضرت حکیم الامت رح نے اس قصے کو لکھا ہے۔ ایک ہندو نے نوے سال تک صنم صنم کہا اور ایک مرتبہ صمد (الله کا نام) نکل گیا تو آواز آئی لبیک عبدی۔ پھر مسلمان ہوا اور الله والا بن گیا۔

26:23) اگر حضرت والا (مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب) رح کی صحبت نہ ملتی تو یہ راز کہاں سے ہمیں ملتے۔

27:32) مولانا اکبر علی صاحب کے بارے میں محی السنۃ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رح فرماتے کہ شہر سلہٹ کے یہ قطب تھے اور حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رح کے خلیفہ خاص تھے اور حکیم الامت رح کے صحبت یافتہ تھے۔ دنیا سے بلکل ہی بے تعلق۔ وہ راستے میں چلتے جاتے تھے اور لوگ انکی جیبوں میں ہدیہ ڈالتے تھے اور انکو پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ ہم نے دیکھا یہ سب تماشا۔

31:28) کچھ مسائل اور احکامات کا سیکھنا اور بات ہے مگر جو دین کے حقائق ہیں وہ اہل الله کی صحبت سے ملتے ہیں۔ مولانا گنگوہی رح نے فرمایا ہم اسلیے گئے (اپنے شیخ) حاجی صاحب کے پاس کہ جو معلومات ہیں وہ معمولات بن جائیں۔ زندگی الله والی بن جائے۔ معلومات کا ڈھیر لگ جائے اگر عمل میں نہ ہو تو کیا فائدہ۔ علم نہ بود الا علم عاشقی۔ زندگی رضا محبوب حقیقی والی ہو۔

35:27) ہمارا پورا نام طالب علم و عمل۔ اب صبح و شام علم کے طالب۔ قرآن مجید میں بالطف زندگی کا وعدہ ہے عمل صالح پر ہے۔ حقوق الله اور حقوق العباد کی بھی رعایت ہو۔

37:27) انسان جو مالک تعالیٰ پر ہمہ وقت فدا ہو وہ انسان ہے، ورنہ صورتِ انسان ہے حقیقت میں نہیں۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ الله تعالیٰ نے انسان بنایا ہے، انسان کی طرح جینا چاہیے۔ جانور کی طرح نہیں جینا چاہیے۔

39:36) الله والوں کے پاس جانے کو بعض لوگ اوقات کا ضایع کرنا کہتے ہیں، نہ فقہی تحقیقات سکھاتے ہیں، نہ ابن شامی کی کوئی روایت سناتے ہیں۔ وہاں کیوں جائیں۔ حضرت شیخ الہند رح دارالعلوم سے 35 میل گنگوہ پیدل شیخ کے خدمت میں جاتے تھے۔ پڑھنے تو نہیں جاتے تھے، صرف صحبت اٹھانے جاتے تھے۔

41:41) کاگا سے ہنس کیو اور کرک نہ لاگی بار + بھیکا معالی پر واریاں دن میں سو سو بار۔ کوا تھا اے شیخ آپ نے ہنس بنا دیا اور کچھ کرنا نہیں پڑا۔ جو گناہوں پر مرتا تھا اسکو عشق الٰہی کی عادت پڑھ گئی۔ مجھے سہل ہوگئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے + تیرا ہاتھ ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ کے جل گئے۔

44:43) الله والوں کے پاس خاموش بیٹھے بھی رہو تب بھی انکے قلب سے انوارات منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ جو چپ بیٹھوں تو کوہِ گراں معلوم ہوتا ہوں + جو کب کھولوں تو دریائے رواں معلوم ہوتا ہوں۔ در رازِ شریعت کھولتی ہے + زبان عشق جب کچھ بولتی ہے۔

46:40) اندریں را ایں تراش و می خراش۔ اگر اس راستے پر پڑے رہو گے تو فضل الٰہی ہو ہی جائے گا۔ حضرت حکیم الامت رح نے قسم اٹھائی کہ جس نے اللہ کو چاہا انکو الله ضرور ملا ہے۔

47:41) میں مدرسہ کے اساتذہ اور طلباء سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ لوگ اتنی مشقتیں کرتے ہیں کس لیے؟ الله کو اگر نہ پایا تو کس کام کی محنت۔ اگر اللہ مل گیا تو سب کچھ مل گیا۔ جو تو میرا تو سب میرا فلک میرا زمین میری۔ ہمارے سب اکابر دیوبند ایسے تھے کہ عالم بھی تھے الله والے بھی تھے۔ دارالعلوم دیوبند میں ایک زمانے میں دربان سے شیخ الحدیث تک سب الله والے تھے۔ صرف محقق بننے سے کیا ہوگا جب الله تک نہیں پہنچے۔ بدنظری میں مبتلا، عشق مجازی میں مبتلا، یہ محقق نہیں پکے جاہل ہیں۔ الله تعالیٰ ہمیں اپنا بنائیں۔

50:34) الله کا نام لینا کتنی بڑی دولت ہے۔ ہزار بار مشک و گلاب سے زبان کو دھوئیں تب بھی ہماری زبان اسکے قابل نہیں ہو سکتی کہ ہم انکا نام لیں۔ مزہ مقصود نہیں، انکا نام لینا مقصود ہے، انکی رضا و خوشی مقصود ہے۔ مزہ یعنی لطف تو فرمایا عبد اللطف نہیں بنو، عبد اللطیف بنو۔

55:57) الله کا راستہ چالبازی کا راستہ نہیں۔ گروپ بازی مقصود نہیں۔ عبدیت و فنائیت ہونی چاہیے۔ جو الله والے ہوتے ہیں انکی چال ڈھال نگاہ بدل جاتی ہے۔ اب وہ زمان نہ وہ مکاں نہ وہ زمین نہ آسماں + تو نے جہاں بدل دیا آکر میری نگاہ میں۔ (سوچیں کہ) میری نگرانی کون کرے گا، مجھ پر ذمہ داری ہے کہ اپنی نگرانی خود کروں۔ دل کے داغ دھّبے سب دھل جائیں۔

59:07) حسن فانی ہے عشق فانی ہے، کون کہتا ہے ہے جاویدانی ہے۔ داغ حسرت سے دل سجائے ہیں تب کہیں جا کر انکو پائیں ہیں۔ ان حسینوں سے دل بچانے میں ہم نے غم بھی بڑے اُٹھائے ہیں۔ ساری چیزیں ضروری ہیں۔ آہ زاری، مجاہدات، صحبت اہل الله۔ تو لے الله کا نام تیرا سب بنے گا کام

01:01:41) حضرت جنید بغدادی رح ہاتھ میں تسبیح رکھتے تھے، (جب کہ خود سراپا ذکر بن گئے تھے) فرماتے تھے کہ اسی کی برکت سے الله کا نام لینے کی توفیق ہوئی تھی، اسکو کیسے بھول جاؤں۔ ہمیں بھی تسبیح ہاتھ میں رکھنی چاہیے تاکہ ذکر الله کی توفیق ہو، کرنا یاد رہے۔

01:03:18) آؤ ان پر زندگی فدا کریں، اپنے محبوب پاک کو راضی کریں۔ مدرسہ کے مدرسین و طلباء یہ تین کام کریں: گناہ تو نہیں کریں گے، صحبت اہل الله کا اہتمام کریں اور اکابر کے طریق پر جینا اور مرنا۔ بس کوئی پہچانے یا نہ پہچانے، شاہوں سے بڑھ کر ان کا مقام ہے۔

01:07:09) مولانا سید سلیمان ندوی رح نے حضرت حکیم الامت رح کی مجلس بعد فرمایا: جانے کس انداز سے تقریر کی، پھر نہ پیدا شبہ باطل ہوا۔ پھر لوگوں کو پکارا: جی بھر کے دیکھ لو یہ جمالِ جہاں فروز، پھر یہ جمال نور دکھایا نہ جائے گا۔ چاہا خدا نے تو تیری محفل ک ہر چراغ، جلتا رہے گا یونہی بجھایا نہ جائے گا۔ اہل الله دنیا میں بہت زیادہ نہیں ہوتے جیسے آفتاب و مہتاب زیادہ نہیں ہوتے۔ قدر کرنے والے قدر کر جاتے ہیں۔ وہ چلے جاتے ہیں تو ان کا بدل ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نہ ہر گوہر درہ تاج شد، نہ ہر مرسلے اہل معراج شد، برائے سر انجام کار ثواب، یکے از ہزاراں شود انتخاب۔

01:11:09) اولیاء دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک ولی اور دوسرا ولی گر، جن کے ہاتھ پر صالحین پیدا ہوتے ہیں۔ بس جب ولی گر مل جائے تو انکی خوب قدر کرنی چاہیے۔

01:12:03) دعا، عارفِ کامل، صدیقیں، صادقین بنائیں

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries