سفر پاکستان بیان۱۶ ۔نومبر ۲۰۲۴ء :مدارس دینیہ کا مقصد دین دار اللہ والا بنانا ہے ! خیر المدارس ملتان قطب زماں عارف باللہ حضرت مولانا شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکاتہم | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں --- شیخ الحدیث حضرت مولانا شاہ عبد المتین صاحب دامت برکاتہم---- عنوان: - - مدارس دینیہ کا مقصد دین دار، اللہ والا بنانا ہے۔ بیان سے قبل جامعہ خیر المدارس کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ناظم اعلی جناب مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب دامت برکاتہم العالیہ ( مولانا حنیف جالندھری صاحب، حضرت مولانا خیر محمد صاحب جالندھری صاحب رحمہ اللہ ( خلیفہ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ) کے پوتے بھی ہیں ) انہوں نے حضرت والا مولانا شاہ عبد المتین بن حسین صاحب دامت برکاتہم کو خوش آمدید کہا اور بہت ہی مسرت کا اظہار فرمایا اور اس سلسلے میں مختصر تعارف بھی کروایا اسکے بعد عارف باللہ حضرت شاہ فیروز میمن صاحب دامت برکاتہم نے اشکبار آنکھوں سے اپنے شیخ و مرشد دامت برکاتہم کا تعارف کروایا اور تصویر کشی کی ممانعت کے حوالے سے اعلان فرمایا ۔ ماشاء اللہ جامعہ خیر المدارس بہت قدیم مدرسہ ہے، یہاں بڑے بڑے اکابر تشریف لاتے رہے ہیں،حضرت والا کی آمد سے جامعہ کی رونق دوبالا ہوگئی ، ان اعلانات کے بعد حضرت والا دامت برکاتہم نے بیان شروع فرمایا۔ بیان کیا تھا علوم و معارف کا بہتا ہوا سمندرمعلوم ہوتا تھا،ماشاء اللہ اس قدر علوم معارف کی واردات تھیں کہ بار بار مضمون کہیں سے کہیں نکل جاتا، کثیر تعداد علماء کرام خطباء کرام طلباء کرام اور دیگر سامعین حاضر تھے، سب مست و بیخود تھے، ماشاء اللہ! سبحان اللہ! کے نعرے بلند ہورہے تھے۔ حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کی یہ عجیب کیفیت ہو بہو شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس شعر کی ترجمانی کر رہی تھی۔ لغت تعبیر کرتی ہے معانی محبت کہتی ھے دل کی کہانی کہاں پاؤ گے صدراں بازغاں میں نہاں جو ہم ہے دل کے حاشیہ میں غرض یہ کہ حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کے کیفیتِ بیان کو لفظوں میں ظاہر کرنا ممکن نہیں، اُن سے پوچھیے تو جو اُس وقت وہاں موجود تھے؎ جنت کی مے پیے ہوئے ساقی تھا مستِ جام ساغر تھا ، دورِ مے تھا، مقابل میں ہم بھی تھے تقریباً دو گھنٹہ بیان جاری رہا۔ وقت کا احساس تک نہ ہوا۔ حضرت والا کے دل میں عشقِ الٰہیہ کی جو آگ لگی ہوئی ہے وہ بےچین و مضطر رکھتی ہے کہ اسقدر تھکن اور بیماری کے باوجود طویل بیان فرمایا ،دورانِ بیان ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حضرت والا دامت برکاتہم اپنے ہاتھ سے کندھا دبا رہے تھے لیکن بیان مسلسل روانی سے فرماتے ہی رہے۔ یہ کیا ہے ! کیا چیز بے چین رکھتی ہے، آہ جیسے بڑے حضرت والا رحمہ کا حال تھا؎ اخترؔ کو کیا ہوا کہ عالم میں ہرطرف پھرتا ہے اپنا چاک گریبان کیے ہوئے پہلے ڈھاکہ سے ۱۸ گھنٹے کا طویل سفر کراچی تک فرمایا اور پھر کراچی سے پنجاب کے مختلف شہروں کا سفر فرمایا، طویل بیانات فرمائے؎ پھرتا ہوں دل میں درد کا نشر لیے ہوئے صحرا و چمن دونوں کو مضطر کیے ہوئے آج ان شاء اللہ تعالیٰ بعد عصر کراچی کی طرف واپسی ہے، جہاں مزید چھ دن قیام رہے گاان شاء اللہ تعالیٰ؎ ذیل میں اس عظیم الشان بیان کا خلاصہ لکھا جاتا ہے: بیان کے شروع میں ہی تصویر اور ویڈیو کے حوالے سے اعلان فرمایا کہ اللہ کے واسطے کوئی بھی تصویر اور ویڈیو نہ بنائے، اس کے میرا دل بہت مکدر ہوجاتا ہے پھر بیان نہیں ہوپاتا، اللہ کےلیے مجھ پر رحم کریں تاکہ دینی باتیں ہوسکیں ۔ حضرت ہردوئی رحمہ اللہ فرماتے تھے ہمارا نام تھا طالب علم و العمل! اب دوسرا حصہ عمل کا چھوٹ گیا ہے، صرف طالب علم رہ گئے۔۔جو علم دین کے لیے نکلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اتنا پیار آتا ہے کہ اس کےلیے جنت کے راستے آسان فرمادیتے ہیں۔ حضرت محی السنہ حضرت ہردوئی کا مقام ولایت ۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ! تعلق مع اللہ بڑی چیز ہے، بعض لوگوں کو یہ نسبت حاصل ہوتی نہیں بس سناتے رہتے ہیں جیسے کہ ان کو حاصل ہے۔ اہل اللہ جو ہوتے ہیں وہ اپنے نور کو چھپا نہیں سکتے۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کی تمام مسلمانوں کو وصیت کہ جہاں رہو اللہ کےلیے بے چین رہو۔ اہل اللہ کے قلوب اسرارِ الٰہیہ کے قبرستان، خرانے ہوتے ہیں۔ صحبتِ اہل اللہ سے ان کے دلوں میں چھپی ہوئی محبتِ الٰہیہ منتقل ہوجاتی ہے، چاہے وہ کچھ بھی نہ بولیں جیسے رات کی رانی کا پھول تقریر نہیں کرتا لیکن خوشبو دور دور تک پہنچ جاتی ہے۔ کوئی اللہ والا کسی بستی سے گذر جائے تو وہاں کے لوگ ان کی برکات سے محروم نہیں رہتے۔ ایک لاکھ سال کی ذاتی نفلی عبادات سے بڑھ کر ایک لمحے صحبتِ اہل اللہ ہے ۔ شیخ العرب والعجم رحمہ اللہ درد بھرا تذکرہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں دو چیزیں جس کے اندر ہوں حب شیخ اور اتباع شریعت و سنت سن لو اس کے ظلمات بھی سب انوار ہیں۔ اللہ ہمیں اولیاء اللہ کی قدر کرنے والا بنائے۔ جس کو دین عطا ہوتا ہے اس کو زبردست خیر مل جاتی ہے۔ میرے دوستو خدا کی قسم وہ طالب علم اور وہ عالم دین جو گناہوں سے بچتا ہے اور تقوی والی زندگی اس کی زندگی ہے تو اس کے علم کے اندر نور پیدا ہوگا۔ علم تو ایک نور ہے۔ طلبہ اور علماء کو حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی نصیحت : طلباء کرام اور علماء دین کو ایک وصیت کرتا ہوں کہ میرے علم پر مغرور نہ ہوں، اس کا کار آمد ہونا موقوف ہے اہل اللہ کی خدمت، صحبت اور نظر عنایت پر اللہ والوں کو خوش کردو، ان کے دل میں جگہ بنالو! بس تمہارا کام بن جائے گا۔ اپنے استاذ مولانا ہدایت اللہ صاحب ( صحبت یافتہ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ ) کا تذکرہ اکابر کی اتباع کی اہمیت: قران پاک میں اللہ تعالی نے خود فرمایا کیا ہے کہ جو میرے ہیں وہ ان کا اتباع کرو وہ جو پوری زندگی کے اعمال یہ شہادت پیش کریں کہ یہ بالکل ہی میرے ہیں، صبح دیکھو شام دیکھو رات دیکھو دن دیکھو تو ہر وقت وہ میرے ہیں۔ الفاظِ علم اور نورِ علم میں فرق۔جوگناہوں میں ملوث ہو کر علم سیکھتا ہے خدا کی قسم اس کو معلومات تو حاصل ہوں گی ، لیکن علم ہرگز حاصل نہیں ہوگا، علم تو نور ہی نور ہے۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کا تذکرہ کہ جو کتاب دیکھ لیتے تھے کہ یاد ہوجاتی تھی، اس کے باوجود حافظ قرآن نہیں تھے، اس بارے میں حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے حضرت کو خط لکھا ان کا جواب آیا کہ میرا حافظ قران نہ ہونا قران پاک کے معجزات سے ہے، یہ قران پاک کا اعجاز ہے ، اس کی وضاحت کیا ہے جب بھی وہ قرآن پاک کا پڑھتے لگتے توغیر محدود سمندر ِعلوم میں ڈوب جاتے تھے، آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ عجیب و غیرب معاملات تھے ہمارے اکابرِ دین کے! علم جو علم کا نور جب کہ قلب کے اندر آتا ہے تو وہ ایک ثقلِ عظیم اس کو محسوس ہوگا چاہے وہ قرآن مجید ہو، بخاری شریف پڑ ھائے، چاہے وہ نورانی قاعدہ پڑھائے۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ جب گناہوں سے انسان الگ ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کے قلب کے اندر الگ انکھیں عنایت فرماتے ہیں ،ایک تو ظاہری انکھیں ہوتی ہیں اور ایک باطنی انکھیں ہوتی ہیں۔ کسی بزرگ نے خوب فرمایا کہ نگاہ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے انہیں! خرد کے سامنے اب تک حجابِ عالم ہے۔ دیوانۂ حق سے کیا مراد ہے: اتباع شریعت کے راستے سے دیوانگی!! سنت کے راستے سے دیوانگی !اور مختصر کر دوں کہ فرائض واجبات، سنن موکدہ کا انتظام ہو ،گناہوں سے اجتناب ہو اور نفس کے ہر حرام خواہش کی مخالفت ہو یہ دیوانگی ہے۔ ہمارے حضرت حکیم الامت تھانوی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں اللہ کا ولی بننے کے لیے دو چیزیں چاہیے ایمان اور تقوی ۔ اللہ کےلیے شیخ کی والہانہ محبت: حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ کا والہانہ تذکرہ، بزرگان دین فرماتے جیسی محبت شیخ سے سے ہوگی اتنی ہی محبت اللہ کی ذات سے ہوگی۔ عارفین کاملین کو اللہ تعالی کی معیت کا خاص احساس ہوتا ہے۔ بیان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے، اس پر حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کا واقعہ کہ ایک بار بیان کے لئے کھڑے ہوئے لیکن کچھ بھی مضمون نہیں آیا۔ مدارس دینیہ کا مقصد یہ مفسر بننا نہیں ہے محدث بننا نہیں ہے نا وہ سب بنانا نہیں ہے بلکہ دیندار بننا اللہ والا بننا مقصد ہے، بس جو جو دین دارہو گیا اس کا کام بن گیا۔ حضرت علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کس طرح اپنے شیخ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ پر فدا ہوئے اور پہلے کیا حال تھا، اس واقعہ کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا تقویٰ اور احتیاط کا تذکرہ۔ کہ اپنے شاگر د کے فتنہ حسن کی وجہ سے احتیاط فرمائی۔ میر دوستو اللہ کو ناراض کرنے کے بعد پھر ہمارا کون ہے؟،اللہ تعالی ناراض ہو گئے خدا کی قسم پھر کچھ بھی نہیں ہے! اس لیے زبان کی حفاظت ضروری ہے! ضروری ہے! اور دل کی حفاظت بھی ضروری ہے ۔ حضرت کعب بن احبار رضی اللہ عنہ کا قول کہ علماء کون لوگ ہیں ، فرمایا کہ علم وہی ہے،عالم وہی ہےکہ جس کو علم پر عمل کی توفیق ہو گئی۔ نسب جب عطا ہوتی ہے تو کیا حال ہوتا ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ کا مقامِ ولایت اکابر ثلاثہ ٔ ہند کا تذکرہ: البرکہ مع اکابرکم حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاپگڑہی کا تذکرہ محبت، اور ان کی کرامت کا ایک واقعہ بعض اللہ کے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جس بات پر قسم کھا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی لاج رکھ لیتے ہیں اور ویسا ہی فرمادیتے ہیں، اس پر دو صحابہ رضی اللہ عنھم کا واقعہ بیان فرمایا۔ حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ کا شعر ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی! میرے دوستو جب کسی کامل کے ہاتھ سے تربیت ہوئی تو پھر دل دل بن جاتا ہے، دل کس کو کہتے ہیں کہ جو حامل درد دل ہو، دل وہ ہے جو اللہ پر فدا ہو جائے ۔ خانقاہ تھانہ بھون چھوٹی سی جگہ تھی لیکن اس کا فیض سارے عالم میں پھیل گیا، اس پر حضرت مفتی شفیع صاحب کے اشعار ۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اللہ کا ولی بننا فرض عین ہے! فرض کیوں نہ ہو اور اللہ کے ولی بنیں گے جبکہ گناہوں کو چھوڑ دیں گے۔ لہذا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی رعایت ضروری ہے۔ طلبہ کرام کے صوفیاء کرام جیسے اشغال نہیں ہیں، ان کا کام ہے اصلاح اخلاق! حضرت کو نورانی قاعدہ پڑھانے والا استاذ کا درد بھرا تذکرہ۔ طلبہ کو نصیحت کہ اپنے اساتذہ کا خوب احترام کریں تو پھر علم دین ملتا ہے۔ مولانا حنیف جالندھری صاحب سے بہت محبت کا اظہار فرمایا کہ ان سے بہت محبت ہوگئی اور ان کو بہت محبت ہے۔اور اس کی مجھے بہت خوشی ہے کہ یہاں خانقاہ بھی ہے اس پر حضرت حکیم الامت کا ملفوظ سنایا کہ نام ہو مدرسے کا ، کام ہو خانقاہ کا۔ حاصل تصوف کیا ہے؟ درد بھری دعا۔ |