سفر پاکستان بیان۱۸ ۔نومبر ۲۰۲۴ء :رخ زیبا کی زیبائش ! قطب زماں عارف باللہ حضرت مولانا شاہ عبدالمتین صاحب دامت برکاتہم | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بمقام: مسجد اختر گلستانِ جوہر بلاک ۱۲ کراچی ترجمان اکابر ، عارف باللہ ، لسان اختر ، شیخ الحدیث، شیخ العلماء حضرت مولانا شاہ عبد المتین بن حسین صاحب دامت برکاتہم عنوان: رُخِ زیبا کی زیبائش! —- اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ حدیث پاک کا مضمون : جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ کو مانتا ہے اور اللہ کو ناراض نہیں کرتا،اللہ کے شہروں میں پوری دنیا میں جہاں بھی وہ رہے گا سکون و اطمینان اور امن میں رہے گا ۔ میرے دوستو اللہ کی یاد میں اللہ کی محبت میں اور اللہ کی اطاعت میں جو مزہ ہے کہیں بھی نہیں ۔ میرے شیخ عارف اللہ مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ تعالی ہر وقت اللہ کی یاد میں مست رہتے تھے، سرشار رہتے تھے، آنکھوں میں ایک نشہ رہتا تھا،محبتِ الٰہیہ میں ڈوبے رہتے تھے۔ دل کو اللہ سے لگانا ہر زندگی کو اللہ تعالی کی مرضیات کے ذریعے سے سنوارنا یہ ضروری ہے، خدا بھی قسم اپنے نفس کی بری خواہشات کو توڑنا اور فنا کرنا یہ ضروری ہے اپنے محبوب پاک کی خوشی کے لیے ان کی رضا و قرب کے لیے ۔ حرام خواہشات تو پیدا ہوں گی لیکن اس کوپورا نہیں کرنا ہے، اسی طریقے سے حرام خواہشات کا قلب کے اندر پیدا ہونا یہ کچھ بھی برا نہیں ہے لیکن اس کے مقتضی پر عمل کرنا یہ برا ہے۔ نفس کہتا ہے کہ عورتوں کو دیکھو ، لیکن اس نے دیکھا نہیں، ایسے ہی خواتین جو ہیں کہ دل میں آیا کہ یہ غیر مرد جارہا ہے، حسین بھی ہےتو اس کو دیکھ لو لیکن پھر دیکھا نہیں! تو اللہ تعالی اس پر خوش ہے راضی ہیں اس کے قلب کے اندر نور آ گیا۔ اللہ تعالی جس کو ناراض ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالی کی خوشی کا رخ بدل جاتا ہے نا پھر زندگی اس کی دوبھر ہو جاتی ہے پریشانی اور غم اس کو گھیرلیتا ہے نا ہر طرح ہر قسم کی پریشانی اور رسوائی اور ذلت ہے نا جب کہ اللہ تعالی کی نظر رحمت ہٹ جاتی ہے پھر کہاں یہ ظالم سکون پائے گا۔ میرے دوستو اسی لیے خدا کے دیوانوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ حرام خواہشات کے راستے چاہے کتنے ہی لذیذ ہوں، دلکش ہو ہے نا ا کتنا ہی بظاہر پیارا معلوم ہو لیکن وہ اس کو توڑ دیتے ہیں اور پرواہ ہی نہیں کرتے ۔ اس لیے میرے دوستو یہ ہمت کرنا ضروری ہے کہ ہم تو ان کو ناراض نہیں کریں گے اپنے مالک کو خوش کریں گے۔ میرے شیخ رحمہ اللہ کثرت سے فرمایا کرتے تھے خون تمنا سے اللہ ملتا ہے اللہ اکبر مختصر ترین بات میں خدا کی قسم سلوک کی تمام راستے بیان فرما دئیے۔ اپنے استاد مولانا ہدایت اللہ صاحب کا تذکرہ کہ ہر وقت ذکر زبان پر جاری رہتاتھا۔ یاد الہی سےزبان ہمیشہ ذاکر ہوا کرتی تھی، مسلمان تو مسلمان ، غیر مسلم بھی ان کا ادب کرتے تھے۔ جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ کو خوش رکھتا ہے اللہ کو ناراض نہیں کرتا تو مخلوق خدا پرخدا اثر ڈال دیتا ہے ان کو دیکھ کر مخلوقات کے دلوں میں ان کی طرف ایک کشش پیدا ہو جاتی ہے۔ حدیث قدسی کا مضمون: اللہ تعالی جس سے محبت فرماتے ہیں تو جبرائیل امین سے فرماتے ہیں کہ میں زمین کے اس بندے سے محبت رکھتا ہوں اپ بھی اس سے محبت رکھنا۔۔۔آسمان والے جب محبت کرتے ہیں تو اس کا اثر زمین والوں پر پڑتا ہے کہ کہ تمام زمین والے پھر اس بندے سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ کسی کو اللہ کی خوشی کے راستے میں اگر کوئی ناراضگی ہوتی ہے اس کی کیوں پرواہ کرے! اپنی خوشی کو بھی آگ لگا دیں اور ناجائز راستے میں دوسروں کی خوشیوں کو بھی آگ لگا دے۔ جو اللہ کی ناراضگی سے پرہیز کرتے ہیں وہ بندے پرہیزگار بن جاتے ہیں۔ متقی کے معنی ہے ڈرنے والا تو کیا ڈرنا ہے کہ اللہ تعالی کی عظمتوں کا اثر دل میں ہوتا ہے۔ میرے شیخ نے سلوک و طریقت کے راستے کو عجیب و غریب انداز سے بیان فرمایا ہے۔بالکل واضح بالکل روشن اور بالکل اسان فرما دیا ہے۔ اکابر دین سے ٹکرانا نہیں چاہیے اللہ کی محبت کے راستے میں جو چست ہوتا ہے دنیا کے جو کچھ کام ہے وہ اللہ تعالی بنا دیتے ہیں ہے نا اللہ تعالی اس کو اسان فرما دیتے ہیں رزق بھی اللہ تعالی اپنے ذمے میں لے لیتے ہیں۔ اولیاء کے جو دشمن ہوتے ہیں وہ بہت زیادہ مصیبت میں پھنس جاتے ہیں لیکن نادانوں کو عقل نہیں ہے کہ سمجھتے نہیں ہیں ۔ خدا کی قسم اور یہ اہل اللہ کے ساتھ دشمنی اور حسد کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے ان کا سکون چھن جاتا ہے ہے ، خدا کے دیوانوں کے ساتھ گستاخی اور بے ادبی اور ان کو ستانا یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ سبحان اللہ وہ قسمت والے لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کا ادب کرتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی خدمت کرتے ہیں ان سے دعا لیتے ہیں ۔چاہے بظاہر ابھی شرعی حلیہ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ فضل فرماہی دیتے ہیں اس پر ایک صاحب کا واقعہ بیان کیا جو تمام بڑے بڑے اکابرکے میزبان ، خادم ،عاشق بھی تھے لیکن داڑھی نہیں تھی۔۔ پھر دیکھا گیا کہ زندگی کا اخیر میں انہوں نے بالکل سنت کے مطابق داڑھی رکھ لی اور بزرگوں کی تعلیمات سے جو پہلے ہی سے بہت زیادہ مستفید ہو چکے تھے زندگی بہت ہی کامیابی کے راستے پر تھی بس ایک کمی تھی اللہ تعالی نے تو اس کو پورا کر دیا۔ جو اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے جہنمی نہیں ہوتے اور محروم القسمت نہیں ہوتے بلکہ سعادت مند ہوتے ہیں جنتی ہی ہوتے ہیں۔ حدیث قدسی کا مضمون اکابر دین کی اتباع کی اہمیت بعضے محروم القسمت ہوتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے ساتھ رہ کر بھی گناہوں کی ملوث رہتے ہیں اپنی من مانی زندگی گزارتے ہیں۔ تصویر کشی اور ویڈیو پر بہت سخت تنبیہ بہت جوش سے دیر تک ارشادات فرماتے رہے، فرمایا کہ بہت سے لوگ مولوی ہیں لیکن دن رات تصاویر کا مشغلہ ہے !(جوش سے فرمایا) میں ان لوگوں سے خدا کی قسم لے کر پوچھتا ہوں یہ تصویر جو تم بناتے ہو خدا کی قسم کے ساتھ کہو اللہ کی رضا کے لیے اللہ کے قرب کے لیے جنت الفردوس میں جانے کے لیے اپنے اکابر دین کے طریق پر جینے کے لیے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر جینے کے جذبے سے!!!!! خدا کی قسم یہ صرف نفسانی نفسانی ہوتا ہے اس میں صرف نفس ہے تو پھر ا س سے توبہ کرنی چاہیے کہ نہیں؟ کیا کرتے ہو میرے دوستو اپنے بزرگوں کے ساتھ تعلق کے باوجود تصاویر سے تعلق رکھتے ہیں اس میں سوائے لعنت کے اور اللہ کی ناراضگی کون سی چیز ہے ؟ دل سے فتوی پوچھو ظالم !میں تجھ سے کہتا ہوں کہ خدا کی قسم تو اپنے دل سے تو پوچھ تیرا دل تو یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالی کی خوشی کا راستہ یہ تصاویر کا راستہ ہے؟ جانداروں کی تصاویر کا راستہ ہے؟ دل تیرا یہی کہتا ہے اگر تیرے دل میں ایمان کا نور ہے دل نے کیسے کہا کہ اس راستے پر تم چلو ! اکابر دین کس طرح تصاویر کی لعنت سے بچتے تھے اس پر حضرت ہردوئی اور حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمہ اللہ کاواقعہ! مفتی اعظم ہند حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہ اللہ کی کس نے تصویر نکالی تو فرمایا کہ ابھی ڈیلیٹ کرو ، ورنہ میں ابھی بددعا کرتا ہوں! اتنے بڑے مفتی مفتی اعظم دارالعلوم کے اور اتنے زبردست عالم دین فقیہ اور اتنے بڑے عارف باللہ وہ جس کام کے لیے بددعا کرتے ہیں وہ اپ کو بھاتا ہے اور آپ کو اچھا لگتا ہے اور اس کے لئے فتوی طلبی میں اور مصروف ہوتے ہیں یہ اپنے نفس کی خواہشات اور جذبات کو پورا کرنے کے لیے ہے یا کہ اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پسند اور مرضیات کو پورا کرنے کے لیے ہے! یہ کون سا دین کا کام ہے کہ دن رات تصویر لے رہے ہیں، کھانا کھا رہے ہیں تو تصویر۔ ہر وقت تصوی میرے شیخ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ تحریر میں نے خود پڑھی ہے جو میراخلیفہ ہے اگر کوئی جاندار کی تصویر لیتے ہیں تو ان کی خلافت منسوخ سمجھی جائے گی لہذا کوئی خلیفہ جو اگر خلیفہ ہے اور وہ جاندار تصویر لیتا ہے یا تصویر کھینچتا ہے یا کھینچواتا ہے تو پھر وہ حضرت والا کا خلیفہ بالکل نہیں ہے۔ بات سمجھ میں آئی میرے دوستو اولیاء اللہ کی ارواح سے بھی نہیں ٹکرانا چاہیے اگر قسمت اچھی بنانی ہو تو اولیاء اللہ اگر سو بھی گئے ہیں قبر میں لیکن وہ ان کا خدا اب بھی زندہ ہے ۔ڈرو اللہ تعالی سے میرے دوستو ! خدا کی قسم جان دینا ہےاور جان لڑا کر ان پر جان دینا ہے نا اللہ کی مرضیات کے خلاف راستے میں جان لڑا کر اپنے مالک پر جان دینا ہے۔ انسانی اور حیوانی حیات میں فرق اللہ والے مجاہدات کے سمندر سے گذرتے ہیں پھر اس کی برکت سے جو سکون سے ان کو زندگی ملتا وہ ہمیشہ خوش رہے اور ان کی صحبتوں میں ا کر دوسروں پہ مست ہو جاتے ہیں۔ الحمدللہ ہمارا اکابرین کیسے تھے پوری دنیا کے لیے ایک ایک شخصیت بالکل کافی ہے۔ وہ لوگ کہ جو شریعت پاک کے تقاضے کو اچھا نہیں سمجھتے بلکہ اپنے تقاضے کو پیارا سمجھتے ہیں اور ایک وہ بندے ہیں جو شریعت مطہرہ کے تقاضے کو پیارا اور پسندیدہ سمجھتے ہیں تو وہ اچھے بندے ہیں سچے بندے ہیں پیارے بندے ہیں کامیاب بندے ہیں جنتی بندے ہیں اولیاء اللہ اور علماء ہیں جو سچے نائب رسول ہیں اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ: کی دوتفسیر ۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ بندہ مجھے زمین پر یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو آسمان پر یاد کرتا ہوں اور وہ اگر وہ مجمع میں انجمن میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی ملائکہ میں اس کو یاد کرتا ہوں انجمن ارواح اولیاء اس کی یاد کرتا ہوں بہترین محفل میں یہاں سجاتا ہوں پھر اس کو یاد کرتا ہوں ، دیکھیے جو میرا چاہنے والا ہے اس کی ایسی محبت داری ہوتی ہے، میرے دوست اس قدر دانی پر کیوں نہ ہم مریں کیوں نہ فدا ہو جائے ہی نا ہم اپنے نفس کی چاہت پر پر کیوں فدا ہوں ! دوستو یہ تصویروں میں ، بدنگاہی میں ہے نا اور ناجائز تعلقات میں کون سی وفاداری ہے اللہ کی محبت کے راستے میں بولو میرے دوستو ہے نا کچھ بھی وفادار ہی نہیں! جوش سے فرمایا سینے پر ہاتھ رکھ کر سر پہ قران رکھ کر کہو یہ جو میں غیبت کرتا ہوں یہ خدا کی قسم یہ وفادار ی ہے!جو ہے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور سر میں قران رکھ کر کہو یہ جو مجھے حرام کمائی کی عادت ہے یہ میری وفاداریاں اللہ کی محبت کے راستے میں، سینے پر ہاتھ رکھ اور سر پہ قران رکھ کر کہو یہ جو میں تصویر کھینچتا ہوں کھنچواتا ہوں اور ویڈیو بناتا ہوں خدا کی قسم اس میں اللہ تعالی کی وفاداری ہے بولو! اللہ تعالی کے دیوانوں کے تذکرے میں اکابرین کی اور اولیاء اللہ کے تذکرے میں ہی اللہ تعالی نے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما ئے، یہ بہت مستی کی زندگی ہے ۔ جس کو اللہ والوں کے تذکروں میں خوشی ہوتی ہو یہ یہ علامت ہے کہ یہ شخص بہت ہی سعادت مند ہے اور اس کے لیے اللہ تعالی کی رحمت خاصہ اور جنت الفردوس منتظر ہے ۔ حالیہ سفر پنجاب کا تذکرہ فرمایا کہ لاہور جامعہ اشرفیہ اور پھر ملتان خیرالمدارس میں حضرت مولانا حنیف جالندھری صاحب کی محبت کا تذکرہ بہت محبت سے فرمایا۔حضرت مولانا حنیف جالندھری صاحب ائیرپورٹ کے اندر تک رخصت کرنے آئے اور بوقت رخصت عجیب درد بھرا شعر بھی سنایا: صبر ایوب کیا، گریہ ٔیعقوب کیا ہم نے کیا کیا نہ تیرے ہجر میں محبوب کیا ایسی عجیب محبت دی ما شاء اللہ، اللہ تعالیٰ ان کو خوش رکھے، گلشن خانقاہ سے جب میں واپسی کے لئے رخصت ہوتا تھا تو حضرت والا رحمہ اللہ کا یہی معمول تھا کہ نے مجھے یہ فارسی شعر سنایا کرتے تھا دیدۂ اختر و دل ہمراہ۔۔ ، جس کا مطلب کہ جاؤ! اختر کی انکھیں اور دل تمہارے ساتھ ہیں۔ آہ! درد بھری دعا اس درد بھرے بیان کے بعد حضرت شاہ فیروز عبد اللہ میمن صاحب دامت برکاتہم نے تفصیل سنائی کہ یہ بیان 16 ممالک میں 215 جگہ سنا گیا ، اس کے علاوہ ہزاروں لوگ یہ بیان جگہ جگہ بھیجتے ہیں، اور ابھی شرعی پردے سے تقریباً 170 خواتین نے یہ بیان مرکز تربیت خواتین میں سناہے ۔ ماشاء اللہ! ہم حضرت سے درخواست کرتے ہیں کہ آئندہ چالیس دن کے لیے تشریف لائیں تاکہ ہمارا چلہ اس طرح پورا ہوجائے۔ مسجد اختر مکمل طور پر احباب کرام سے بھری ہوئی تھی، بیان کے بعد غرفۃ السالکین اپنے حجرہ میں تشریف فرماہوئے اور آج کے بیان کا نام خود تجویز فرمایا کہ رُخِ زیبا کی زیبائش! |