مجلس۲۳ اکتوبر۲۰۱۳ء۔عزت ِنفس، عظمتِ دین ، ہدیہ کے بہت اہم آداب

مجلس کی جھلکیاں

آج الحمد للہ طویل مجلس تقریبا ۴۳ منٹ کی ہوئی اور حضرت اقدس حضرت میر صاحب دامت برکاتہم شروع ہی  سےمجلس میں رونق افروز تھے۔

حضرت والا کے حکم پر  ممتاز صاحب)خلیفہ حضرت والا رحمہ اللہ (نے کتاب خزائن معرفت و محبت صفحہ نمبر ۳۳۴  سے بہت ہی اہم  ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔

آج کی مجلس کا رنگ ہی کچھ اور تھا بہت ہی مفید اُصول  ہدیہ اور قرض لینے دینے کے متعلق حضرت والا  رحمہ اللہ تعالی کے ارشاد ات  پڑھ کر سنائے گئے، بیچ میں حضرت والا میر صاحب تشریح فرماتے جاتے تھے۔

ایک صاحب ثروت جو حضرت والا سے اصلاح کا تعلق تو نہیں رکھتے تھے لیکن محبت رکھتے تھے جنوبی افریقہ کے سفر میں ساتھ ہوگئے۔ ڈربن میں وہ بازار گئے اور کچھ سامان خریدا اور میزبان نے قیمت ادا کر دی اور ان صاحب نے انکار نہیں کیا اور خاموشی سے قبول کر لیا۔ حضرت والا کو اطلاع ہوئی تو مندرجہ ذیل نصائح ارشاد فرمائے۔)جامعیعنی حضرت میر صاحب دامت برکاتہم)

ارشاد فرمایا : جو دوست بھی میرے ساتھ چل رہا ہے وہ مجھ سے اس کی اجازت لے کہ آپ کے ساتھیوں کو ہدیہ دینا چاہتاہوں۔ میری اجازت کے بغیر کوئی کسی ساتھی کو ہدیہ نہ دے اور نہ میرا کوئی ساتھی بغیر میری اجازت کے ہدیہ لے۔ اگر میرے ساتھیوں میں سے کسی کو ہدیہ دینا ہے تو پہلے مجھ سے اجازت لیں اور میرے ساتھی بھی مجھ سے اجازت لیں کہ کیا میں قبول کر لوں۔

اس کی تشریح میں حضرت والا میر صاحب نے فرمایا کہ " ہدیہ کے بعض آداب ہیں ، بہت اہم ہیں آج کل اسی چیز سے خرابی پیدا ہورہی ہے کہ شیخ کے خُدام ہوتے ہیں وہ بالابالا )اوپر اوپر سے یعنی شیخ کے علم میں لائے بغیر(ہدیہ وغیرہ لے لیتے ، اور بعض دفعہ اس سے بڑھ کر قرضہ لے لیتے ہیں۔۔۔۔

حضر ت نے مزید فرمایا " پہلے شیخ سے پوچھے اول تو قرضہ لینا ہی نہیں چاہیے، بہت ہی مجبوری کی بات ہو وہ الگ ہے۔۔۔۔پہلے شیخ کو اطلاع کریں جو ہدیہ یا قرض دے رہا ہےاور جو  لے رہا ہے اور اجازت لے۔

اور اگر کسی کو شیخ نے اجازت دے دی تو ہر کوئی اُس کی نقل نہ کرے ، پہلے شیخ کو اطلاع اور اجازت لے۔

پھرحضرت میر صاحب دامت برکاتہم نے حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک واقعہ نقل فرمایا کہ کس طرح حضرت والا نے  ادب کا معاملہ کیا کہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی دعوت ایک جج صاحب کے ہاں تھی ۔ ۔۔۔

حضرت والا رحمہ اللہ نے حضرت پھولپوری سے غرض کیا: حضرت آپ مہمان ہیں، میں تو مہمان نہیں ہوں، میں طفیلی بن کر کھانا نہیں کھانا چاہتا، میں نے آپ سے اﷲ کے لیے تعلق کیا ہے، دنیا کے مال اور دسترخوان پر مرغی اڑانے کے لیے نہیں کیا ہے۔ لہٰذا میں ہوٹل میں کھانا کھا کر ابھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہوں۔

میری اس بات سے شیخ کو وجد آگیا۔ فرمایا شاباش حالانکہ حضرت سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور میری اٹھارہ برس کی جوانی تھی۔ پھر فرمایا اچھا! ٹھہر جاؤ۔ اور جج صاحب سے الگ لے جا کر کہا کہ ان سے دعوت کی درخواست کرو۔ جج عبدالجلیل صاحب حضرت تھانوی ؒ کے مجازِ صحبت تھے۔ انہوں نے مجھ سے بڑی لجاجت سے کہا کہ آپ دعوت قبول کر لیجیے۔

میں نے کہا کہ میں آپ کی دعوت ہر گز قبول نہیں کرسکتا جب تک میں اپنے شیخ سے اجازت نہ لے لوں۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ جج صاحب مجھے دعوت دے رہے ہیں کیا آپ کی اجازت ہے؟ حضرت نے اجازت دے دی اور میرے اس عمل سے حضرت بہت زیادہ خوش ہوئے۔

فرمایا : کہ بعض مشایخ کے پاس ایسے خدام ہوگئے کہ بالا بالا ہی ہدیہ وغیرہ لینے لگے اور امیر ہوگئے ، آئے تو اللہ کو پانے تھے سیٹھ بن کر نکلے۔مگر اس سے کیا فائدہ دُنیا مل جائے گی دین نہیں ملے گا۔

حضرت تھانوی  رحمہ اللہ کا اُصول اول تو قرضہ ہی نہ لے اگر لے تو کسی صالح سے لے اور اگر وہ خانقاہ سے متعلق ہے تو شیخ سے پہلے پوچھے۔

طریقت و سلوک کی عظمت بڑی چیز ہے۔ مومن کی آبرو کتنی بڑی چیزہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کا پیوند لگا کپڑا پہن کر سفر پر جانا اور حضرت پیرانی صاحبہ کی سمجھدداری کا واقعہ۔

کسی شیخ اور عالم کے لیے جائز نہیں ہے کہ کسی دکان پر یوں کہے کہ یہ چیز کیا بھاؤ ہے؟ ماشاء اللہ! کپڑا بہت اچھا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دکاندار بے چارہ معتقدتھا، کہا حضرت! قبول کرلیجیے۔

ہمارے بزرگوں نے کچھ اصول بتائے ہیں کہ جو لوگ سفر پر ساتھ چلیں کسی کا ہدیہ قبول نہ کریں جب تک اپنے دینی مربی سے اجازت نہ لے لیں۔ اگر کوئی براہِ راست دیتا ہے تو ہرگز قبول نہ کریں کہ ہم بغیر امیر کی اجازت کے نہیں لے ۔

حضر ت والا میر صاحب نے اس موقع پر حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک واقعہ بیان فرمایا کہ جنوبی افریقہ ڈربن کے سفر میں حضرت کو گرم کپڑوں کی ضرورت محسوس ہوئی ۔۔۔۔سوئیٹر پسند فرمایا لیکن  دوکان والا معتقد تھا اس نے پیسے لینے سے انکار کردیا ۔۔۔ حضرت والا میں فرمایا کہ " اس کی جو قیمت ہے وہ ضرور دوں گابغیر قیمت تو نہیں لوں گا"۔اس نے کہا کہ یہ ہدیہ لے لیجئے۔

حضرت نے اس پر فرمایا " ہدیہ یہ ہے کہ میرے سوال کیے بغیر خود اللہ تعالی آپ کے دل میں ڈالتے اور مجھے لاکر دے دیتے لیکن یہ جو میں آپ نے سوال کرلیا اب یہ ہدیہ نہیں ہے اب یہ سوال ہے " اُن صاحب نے بہت اصرار کیا لیکن حضرت نہیں مانے وہی اصل قیمت ادا کی سوئیٹر کی اور دوکان سے باہر تشریف لے گئے۔ باہر حضرت کے پیر بھائی ہنسنے لگے حضرت نے پوچھا کیا بات ہے ؟  تو انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ پہلے ایک عالم اسی دوکان پر آئے تھے اور دوکان والے نے خود اصرار کیا کہ آپ کو جو پسند ہو لے لیں تو انہوں نے اُس کی دوکان کی جان ہی نکال لی اور قسطوں میں چیزیں اپنے رہائش پر لے گئے ، بعد میں وہ دوکان والا خود گالیاں دیتا تھا کہ سب کچھ لے گیا حالانکہ کہ خود اصرار کیا تھا۔

مارکیٹ میں یہ بھی ظاہر مت کرو کہ پیسے کم پڑ گئے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا سوال ہے کیونکہ میزبان دیکھتا ہے کہ ان کو کوئی چیز پسند تھی، پیسوں کی کمی سے نہیں لے رہے ہیں تو وہ مجبوراً کہہ دیتا ہے کہ آپ خرید لیں پیسوں کی فکر نہ کریں۔

ہم اپنی عزت نفس کے خلاف کیوں رحم کی بھیک مانگیں، ہم ایسا سودا ہی نہیں لیتے جس کی استطاعت نہ ہو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو دیکھیں کسی قسم کی صورتِ سوال ہو یا حقیقت ِ سوال ارشاد فرمایا کہ اللہ اس میں برکت نہ دے۔ اللہ کے نبی کی بددعا والی چیز کو مت قبول کرو۔ آپ بتائیے کہ جس کو نبی کی بددعا لگ جائے تو اس کا کیا حال ہوگا۔

فرمایا : کہ کتنی ہی اچھی چیز لیکن کبھی فرمائش نہ کرو نہ اشارتاً نا کنایۃً

دوستو! پیٹ پر پتھر باندھ لو لیکن عزتِ نفس اور عظمتِ دین کے خلاف کوئی کام نہ کرو۔

ہاں! بعضے تعلقات مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ اس معاملے میں شیخ کی نقل مت کرو۔ بعض لوگ شیخ کی نقل کرتے ہیں۔ اگر شیخ کسی سے فرمائش کردے تو وہ بھی فرمائشیں شروع کر دیتے ہیں حالانکہ شیخ کی نیت دوسری ہوتی ہے کہ مرید کا دل خوش ہوجائے۔

دوستو! یہ بہت مہذب راستہ ہے۔ جتنا عظیم الشان اللہ ہے اتنا ہی اس کا راستہ عظیم الشان ہے اور راستے کے رہبر عظیم الشان ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی عظمت کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق دے ۔

بس کسی سے ایک فرمائش بھی مت کرو تاکہ یہ محسوس نہ ہو کہ اللہ والے چاہتے ہیں کہ ان کے چیلے چاپلوسی سے فرمائشیں کرتے پھریں۔ ایسا کرنے سے دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اخلاص عطا فرمائے، اللہ مل جانا ہی کیا کم ہے؟

آخر میں حضرت والا حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ "جو میرے خاص احباب ہیں اُن سے کہتا ہوں کہ کسی سےیہ فرمائش نہ کروکہ فلاں چیز کم ہوگئی وہ لادیں، مجھے تو پتہ ہوتا نہیں اور کوئی اگر آپ سے پوچھتا بھی ہےتو پہلے آپ مجھ سے آکر پوچھیں کہ یہ چیز منگانی ہےیہ اس چیز کو کہہ رہے ہیں، چاہے وہ چھوٹی سے چیز ہو، اس سے پہلے پوچھو تاکہ مجھے علم ہو کہ انہوں نے خود کہا ہے کوئی سوال نہیں کیا گیا اور اپنے طور پر تو کبھی سوال کرو ہی نہیں ، اللہ تعالی نے اتنا دیا ہوا ہے ہر چیز ہے ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ، اس لیے مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔شیخ کی ہر بات کی نقل مت کرو)یعنی  کسی کو اگر شیخ نے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ چیزیں لادیا کرے تو دوسر ے نقل نہ کریں (، یہاں تک کہ شیخ  کے معمولات میں بھی نقل نہ کروکیونکہ وہ جس مقام پر ہے اور معمولات ادا کررہا ہے اس کا آپ کو تحمل نہیں ہوگا۔بس وہ شیخ بتا دے وہ کرو۔

آخر میں حضرت نے فرمایا کہ بہت قیمتی ملوظات ہیں یہ، کیسا خزانہ جو حضرت والا جمع کرگئے ہیں۔ پوری زندگی ہر لمحہ انہی تذکروں میں گزرتا تھا حضرت والا کا۔ کبھی کوئی بات دُنیا کی حضرت کی زبان سے سنی نہیں کہ سیاست کیا چل رہی ہے آٹے دال کا کیا بھائو ہے۔

حضرت میر صاحب نے فرمایا : " حضرت والا کی چھوٹی بڑی کتابیں اور مواعظ ایسے مفت تقسیم ہوتے ہیں کہ اس کی مثال ہندوستان پاکستان میں نہیں ملتی، بڑے سے بڑے عالم کی چھوٹی  کتابیں  بھی اس طرح مفت تقسیم نہیں ہوتیں جس طرح یہاں موٹی موٹی کتابیں پانی کی طرح مفت تقسیم کی جاتی ہیں۔یہ اللہ کی طرف سے انتظام تھاحضرت والا کے علوم کی نشر و اشاعت کا۔

حضرت والا فرماتے تھے کہ کتب خانہ مظہری کو اللہ تعالی انٹرنیشنل کتب خانہ بنا دے کہ سارے عالم میں میری کتابیں نشر ہوجائیں۔

آج کی پرنور مجلس تقریبا ۴۳منٹ پر مشتمل رہی ، آخر میں حضرت نے مختصر دُعا فرمائی۔

محفوظ کیجئے

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries