مجلس۲۵ اکتوبر۲۰۱۳ء۔ اصل سرمایہ اللہ کا نام ہے

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

آج حضرت والا بوجہ عذر مجلس میں تشریف نہیں لاسکے، ممتاز صاحب نے  حضرت کے حکم پر اس دفعہ کے ماہنامہ الابرار  ذی الحجہ ۱۴۳۴ سے  بہت اہم ملفوظات پڑھ کر سنائے۔

اصل سرمایہ : ہر روز اگر ۵روپے بچاتے ہو تو کتنی خوشی ہوتی ہے کہ آج ہم نے ۵روپے بچالئے پھر اگلے دن ۵روپے اور جمع کرتے ہو تو کتنے خوش ہوتے ہو کہ آج دس جمع ہوگئے، پھر اگلے دن اور ۵جمع کر تے ہو تو اور خوشی ہوتی ہے کہ آج پندرہ ہوگئے، اسی طرح جتنے روپے بڑھتے جاتے ہیں، خوشی بڑھتی جاتی ہے۔ اے میرے دوستو، اس فانی چیز کے جمع کرنے پر تو اتنے خوش ہوتے ہو، حالانکہ یہ روپیہ زمین کے اوپر ہی رہ جائے گا قبر میں ساتھ نہیں جائے گا۔

لیکن اللہ کا نام جمع کرنے میں کیوں خوش نہیں ہوتے کہ آج ہم نے ۵۰۰دفعہ اللہ کا نام لیا، کل ۵۰۰دفعہ جب اور نام لوں گا تو ایک ہزار ہوجائے گا، تیسرے دن ڈیڑھ ہزار ہوجائے گا، اس طرح ساٹھ سال کی زندگی میں لاکھوں دفعہ اللہ کا نام لے لوگے اور یہ اصل سرمایہ ہے۔

پس دوستو، سب سے بڑا سرمایہ تو یہی اللہ کا نام ہے، روپیہ کی فکر نہ کرو، اس نام کو جمع کرنے کی فکر کرو۔

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے سلوک کی ابتدا جبرئیل علیہ السلام کے انتہائی مقام سے ہوئی

حضرت والا  رحمہ اللہ نے شیخ ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ غلام بھیک کا قصہ بیان فرمایا :

ایک مرید نے شیخ کی دعوت کی تھی، اور شیخ کے گھر فاقہ تھا۔

حضرت کے مرید بھیک شاہ نے میزبان سے کہا کہ شیخ کو تو کھلا رہے ہو اور شیخ کے گھر میں فاقہ ہے بھیک شاہ وہاں سے شیخ کے گھر والوں کے لئے کھانا لے کر رات کو ۱۶میل کے فاصلہ پر آئے، پھر ۱۶میل واپس آئے اور تہجد میں شیخ کی خدمت کی۔

شیخ کا میزبان کے گھر چند دن قیام تھا، بھیک شاہ روزانہ اسی طرح کھانا لاتے اور واپس جاکر تہجد میں شیخ کی خدمت کیا کرتے ۔ جب شیخ گھر واپس ہوئے اور یہ قصہ معلوم ہوا تو انہوں نے شاہ غلام بھیک کو سینہ سے لگا لیا اور فرمایا کہ جو کچھ میرے سینہ میں تھا آج تجھے سب دے دیا۔

شیخ کا سینہ سے لگانا تھا کہ شاہ غلام بھیک کی روح بھی اسی مقام پر فائز ہوگئی، جس پر شیخ کی روح تھی۔ میرے شیخ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ سینہ سے لگانے سے ایسا کیوں ہوا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ اللہ کی عطا ہے، ایساہوتا آیا ہے، غارِ حرا میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سینہ سے لگایا تھا۔

حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سینہ سے لگا کر تین بار دبایا رتو آپ کی روح مبارک اس مقام پر فائز ہوگئی جو سید الانبیاء کے لئے خاص تھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سلوک کی ابتداء مقام جبرئیل سے ہوتی ہے یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی ولایت کا جو انتہائی مقام تھا وہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی الف ب شروع ہوئی۔

اس کے بعد ۲۳برس تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مزید ترقی ہوتی رہی، یہاں تک کہ تیرہ برس کے بعد معراج میں وہ مقام بھی آیاکہ جب آپ سدرۃ المنتہیٰ کے قریب پہنچے۔

حضرت جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا : یا رسول اللہ، اب اگر میں سرِ مو بھی آگے بڑھوں گا تو میرے پر حق تعالیٰ کی تجلیات کا تحمل نہ کر سکیں گے اور جل جائیں گے لیکن ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہی تجلیات میں آگے بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان صرف دوکمان کا فاصلہ رہ گیا، اتنے قریب سے اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو فرمائی۔

اس پر حضر ت ممتاز صاحب نے فرمایا کہ :  شیخ سے جتنا حسن ظن ہوتا ہے اتنا ہی نفع کامل ہوتا ہے۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے : جو شخص اپنے شیخ کے علاوہ کسی دوسرے شیخ کو استقادہ کی نظر سے دیکھتا ہے وہ ایسا ہے جیسے فاحشہ عورت جو اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے مردوں پر نظر کرتی ہے۔ ایسا کرنے والا شخص محروم رہتا ہے۔

حضرت والا حضر ت میر صاحب کے تعلق مع اللہ کا واقعہ بیان فرمایا۔

محبت کا جواب محبت ہے:  حضرت والا رحمہ اللہ کی بے پناہ محبت ہمارے شیخ و مرشد حضرت میر صاحب دامت برکاتہم کے لئے۔۔۔

محبت کا جواب محبت ہے:  فرمایا کہ تمہارا یہاں بیٹھنا مجھے اس دوا سے زیادہ عزیز ہے، آپ میرے پاس بیٹھئے، دوا میں کسی اور سے منگوا لوں گا۔

جو شخص اخلاص کے ساتھ اللہ کو چاہے گا اور اس کو تڑپ اور بے چینی کے ساتھ یاد کرے گا تو اللہ بھی اس کو اپنے پاس سے بھگائے گا نہیں، جب انہوں نے اپنے غلاموں میں یہ رحمت رکھ دی کہ وہ محبت کا جواب محبت سے دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ تو سر چشمۂ رحمت ہیں، مرکزِ محبت ہیں، وہ اپنے بندوں کی محبت کو ٹھکراتے نہیں۔

اس لئے اس کو صرف اپنے لئے منتخب فرمالیتے ہیں اور اسے سارے جہاں کے کاموں سے بے کار کردیتے ہیں اور دوسروں کو اس کے کام میں لگا دیتے ہیں، جو اس کے دنیاوی کام انجام دیتے ہیں اور یہ اپنے اللہ کے پاس رہتا ہے۔

ہر وقت ایک کیفیتِ حضوری اس کی جان کو نصیب ہوتی ہے اور یہ ساری دنیا سے بے نیاز ان کے کاروبارِ محبت میں مشغول رہتا ہے۔

اسلام میں سادگی کی تلقین اور اس کی وجہ:سادگی ایمان کا حصہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ محبت محب کو محبوب کے علاوہ کسی اور چیز میں مشغول نہیں ہونے دیتی اور صرف محبوب کو دیکھنے میں مصروف رکھتی ہے، اس وجہ سے عاشق اپنی زینت و آرائش سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور سادگی پر مجبور ہوجاتا ہے، اس کی نظر صرف محبوب کے خد و خال پر مرکوز ہوتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت دیکھو کہ آپ اپنے غلاموں کو کنگھی کا حکم بھی فرما رہے ہیں، کیونکہ آپ جانتے تھے کہ اگر میں یہ حکم نہ دوں گا تو میری امت میں ایسے ایسے عاشقین ہوں گے، جو اللہ کی محبت میں بالکل دیوانے ہوجائیں گے۔

بقدرِ ضرورت آرائش پر بھی مطلق التفات نہ کریں گے، جس کو دیکھ کر دنیا ہنسے گی، اس لئے آپ کی رحمت کو یہ گوارا نہ ہوا کہ میرے غلاموں پر دنیا کے لوگ ہنسیں اور ان کی بے عزتی کریں، اس لئے آپ نے معمولی اور بقدرِ ضرورت زینت کا حکم دے دیا۔

نفس کو مٹانے کا طریقہ اور اس کی برکات و لذات: نفس دریائے قرب کے کنارے کی دیوار ہے، پس اگر کوئی پیاسا دریائے قرب سے پانی پینا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اس دیوار کو گرا دے اور یہ دیوار ایک دن میں نہیں گرتی، رفتہ رفتہ گرتی ہے، آج اگر تم نے ایک گناہ چھوڑ دیا تو گویا تم نے اس دیوار کی ایک اینٹ گرادی، کل دوسرا گناہ چھوڑ دیا تو گویا دوسری اینٹ گرادی، اس طرح ہر روز یہ دیوار پست ہو رہی ہے اور آپ پانی سے قریب ہو رہے ہیں۔

یہاں تک کہ جس دن یہ دیوار پوری گرجائے گی دریائے قرب تمہیں اپنی آغوش میں لے لے گا اور تم ماہیِ قعرِ دریائے جلال اور ماہیِ بحرِ پاکِ کبریا ہوجائو گے، یعنی جیسا تعلق مچھلی کو پانی کے ساتھ ہوتا ہے کہ ایک لمحہ کے لئے وہ پانی سے علیحدہ نہیں ہوسکتی ایسا ہی تمہاری جان کو اللہ سے تعلق ہو جائے گا کہ اللہ کے بغیر تمہیں چین ہی نہیں آئے گا۔

ایک عمر مجاہدات و ریاضات اور خواہشات نفسانیہ کی مخالفت کے بعد اللہ والوں کو غلبۂ حضور حق اور اتنہائے قربِ ولایت نصیب ہوجاتا ہے کہ کسی وقت اللہ سے دوری و غفلت نہیں ہوتی اور جان کو ایسا عیش نصیب ہوتا ہے کہ دنیا ہی میں جنت کا مزہ ملنے لگتا ہے۔

آخر میں ممتاز صاحب نے درد بھری دُعا فرمائی اور یوں یہ مجلس اختتام کو پہنچی۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries