مجلس۲۷ اکتوبر۲۰۱۳ء۔ بدنظری کی نحوست اور بے پردگی کی تباہ کاریاں

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

شروع میں اطلاع تھی کہ حضرت والا Diaylsisکی وجہ سے شاید آج تشریف نہ لا سکیں ، پھر جب حضرت ممتاز صاحب تشریف لائے تو فرمایا کہ حضرت بیدار ہوگئے ہیں اُمید ہے جلد تشریف لے آئیں گے۔ شروع میں کچھ باتیں ممتاز صاحب نے فرمائیں اتنے میں اطلاع آئی کہ ہمارے پیارے مرشد حضرت والا میر صاحب تقریباً ۳ دن کے بعد دوبارہ رونق افروز ہورہے ہیں ۔

حضرت صوفے پر تشریف فرماہوئے تو سامنے کچھ دور ایک صاحب کی طرف اشارہ کر کے سوال کیا آپ کہاں سے آئے ہیں اور کیا کرتے ہیں اُن صاحب نے کہا گلشن معمار سے آیا ہوں ،اما م مسجد ہوں ۔ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ مونچھیں بھی تو امام مسجد جیسی ہونی چاہیے۔۔ پھر بہت ہی مفید باتیں مونچھوں کو باریک رکھنے پر فرمائی اور اس کے خلاف بڑی بڑی مونچھوں رکھنے  پر ۴ چار قسم  کےعذاب کی وعید بھی بیان فرمائی۔

فرمایا :حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لمبی لمبی مونچھیں رکھے گا)یعنی جس سے ہونٹوں کی لالی چھپ جائے(۔۔۔۱۔۔۔اُس کو میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی)اور جب شفاعت نصیب نہیں ہوگی تو سمجھ لو نجات بھی نہیں ہوسکتی۔۔۔۲۔۔۔ اور نہ حوض کوثر پر وہ آنے پائے گا )جب کہ سوا نیزے پر سورج ہوگا کیسی پیاس ہوگی، اللہ تعالی ہم سب کو حوض کوثر کا پانی پلائیں۔۔۔۳۔۔۔ اور منکر نکیرکو اللہ تعالی حالت غضب میں بھیجے گا )یعنی غصے میں آئیں گے(۔۔۔۴۔۔۔اور قبر میں اُس کو سخت عذاب دیا جائے گا۔

تھوڑی تھوڑی مونچھیں رکھنا جائز تو ہےلیکن افضل یہی ہے کہ مونچھوں کو صاف کرادے۔ حضرت والا سے سنا حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ اپنی مونچھیں اتنی صاف کرتے تھے کہ سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔

حدیث پاک میں بھی ہے ڈارھی کو بڑھائو ۔۔۔ مونچھوں کو کٹائو۔دُنیا کے معاملے میں تو چیز اعلی ہوتی ہے اُس  پسند کرتے ہو اور دنیا کو عارضی ہے۔۔۔۔اور ہمیشہ رہنے والی زندگی آخرت کے لیے کتنی فکر کرنی چاہیے۔

استرے اور بلیڈ سے صاف کرنا بعض علماء کرام کے نزدیک بدعت ہے لہذا کینچی یا آج کل جو مشین جس میں بلیڈ ہوتے ہیں اُس سے صاف کرلے۔

اور حضرت والا نے ہنستے ہوئے فرمایا کہ مونچھیں صاف کروانے سے بیویوں کو بھی راحت ہوتی ہے کیونکہ تمہاری مونچھیں اُن کو تکلیف دیتی ہیں۔۔۔ اور حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک ری یونین کے مرید کو مونچھیں صاف کروانے کا قصہ بیان فرمایا۔

فرمایا:  جو مونچھیں جائز بھی رکھتا ہےکبھی بے دھیانی میں زیادہ ہوگئی اور ہونٹوں کا کنارا چھپ گیا تو وہ وعید میں داخل ہوگیااور اسی وقت سے گناہ میں لکھا جانے لگا۔۔۔ پھر بہت پیار سے فرمایا:  تو ایسا کام کیوں کریں۔۔۔ اسباب گناہ کے قریب کیوں رہیں۔۔اس لیے جو افضل ہے اُس پر عمل کریں۔

پھر حضرت والا نے نہایت درد سے فرمایا: اللہ کا زیادہ پیار حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔ یا   ۔۔۔کم؟  سب حضرات نے باآواز بلند کہا زیادہ۔تو فرمایا : بس اگر زیادہ پیار حاصل کرنا چاہتے ہو تو زیادہ اُن کو راضی رکھیں۔اپنی مرضی کو فنا کردیں اللہ کی مرضی کو غالب کرلیں ہر معاملہ میں دین کےبس یہی پورا خلاصہ دین کا ہے۔

اس کے  حضرت کےحکم پر ممتاز صاحب نے کتاب خزائن معرفت و محبت سے ملفوظات پڑھ کر سنانے شروع کیے:

حسینوں کو دیکھنا بھی بت پرستی ہے:  جہاں دیکھنے سے اﷲ تعالیٰ ناخوش ہوں ایسی صورتوں کو مت دیکھو چاہے کتنا ہی عمدہ ڈیزائن ہو اس کو فوراً ریزائن دو، ڈیزائن کو ریزائن کر دو تو اﷲ تعالیٰ کے قرب کے خزائن برسیں گے اور اگر تم نے ان کے ڈیزائن کو دیکھا تو رام نرائن ہوجاؤ گے۔

اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو اپنی بری خواہش پر عمل کرتا ہے یہ بھی بت پرست ہے، غیر الٰہ پرست ہے، اس نے لا الٰہ کا حق ادا نہیں کیا۔ اب یہ آیت دیکھئے: اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ھَوَاہٗ(سورۃُ الجاثیۃ، آیت:۲۳)اے محمد! صلی اﷲ علیہ وسلم کیا آپ نے دیکھا کہ انہوں نے اپنی نفس کی خواہش کو الٰہ بنایا ہوا ہے، اپنا معبود بنایا ہوا ہے، نفس کی وہ خواہش جو اﷲ کی مرضی کے خلاف ہو وہ الٰہ ہے

بعض لوگ گناہ کرنے کے لیے، قصداً اﷲ کو بھلانے کے لیے دماغ سے نکالتے ہیں کہ ابھی اس وقت خدا یاد نہ آئے تا کہ میں اس گناہ سے حرام مزہ لوٹ لوں اور تسبیح بھی جیب میں رکھ لیتے ہیں اور جلد توبہ بھی نہیں کرتے کہ ابھی تو اور ٹیڈیوں کو دیکھنا ہے۔

اس پر حضرت نےتشریح میں فرمایا:  کہ  حضرت والا رحمہ اللہ فرمارہے ہیں کہ جو اللہ کو بھلا کر جو بتوں کو دیکھ رہا ہے یہ بھی ایک طرح سے بت پرستی سے مشابہ ہے۔۔۔ اگرچہ کفر نہیں ہے۔لیکن خاتمہ بہت سو کا اسی یعنی بدنظری کی وجہ سے کفر ہی پر ہوگیا۔ پھر دو ۲بہت ہی عبرت ناک واقعات۔۔ بدنظری کے مریضوں کے کفر پر خاتمے کے ارشاد فرمائے۔

اللہ تعالی نے بدنظری سے بچنے کا حکم الگ الگ نازل فرمایاتاکہ عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ یہ حکم ہمارے لیے نہیں ہے۔اور اس کے اس  حکم کی اہمیت بھی واضح ہوگئی۔

پھر بدنظری اور بے پردگی کی تباہ کاریوں  اور شرعی پردے کا مطلب اور طریقہ بیان فرمایا۔

فرمایا: کہ لڑکیوں کا کالجوں میں پڑھانا ہمارے بزرگوں سے پسند بھی نہیں کیا۔۔بس اپنے گھر پر ہی تعلیم دی، حضرت والا کی صاحبزادی کو حضرت نے تعلیم  یعنی قرآن پاک بہشتی زیور گھر پر ہی دی۔

حضرت نے فرمایا : "کالج کے لڑکے آکر کہتے ہیں" ہمیں کالج کی پڑھی ہوئی لڑکی شادی کے لئے نہیں چاہیے گھر داری والی چاہیے جس نے کالج کا منہ بھی نہ دیکھا ہو"کیوں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ کالج کی مخلوط تعلیم میں کبھی یہ ایک لڑکے سے مذاق کررہی ہے کبھی دوسرے کے ساتھ پھر رہی ہے۔

حضرت نے فرمایا:پردہ کرنے والی لڑکیوں کو رشتے جلدی مل رہے ہیں اور یہ بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہورہی ہیں اور رشتے نہیں آرہے۔ پھر نہایت درد سے فرمایا :  کیا جو دین پر عمل کرے گا تو اللہ اُس کو ایسے ہی چھوڑ دیں گے"ورنہ یہ جو رابعہ بصریہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور جوبڑی بڑی اولیاء اللہ خواتین گزری ہیں۔۔۔۔۔وہ کس کالج میں پڑھیں تھیں؟۔۔۔۔۔کس یونیورسٹی میں پڑھیں تھیں۔۔۔۔ کون سا انہوں نے درس نظامی کا کورس کیا تھا۔۔۔۔۔جو ولایت اُن کوحاصل ہوئی۔۔۔ کیا یہ صرف درس نظامی پڑھنے والیوں کو حاصل ہے؟ ؟؟

یہ جو مدرسہ البنات قائم ہوئے۔۔۔ کتنی رابعہ بصریہ بن کر نکلیں؟؟۔۔۔ حکیم الامت تھانوی  رحمہ اللہ  سے کسی نے عرض کیا کہ میں مدرسہ البنات )لڑکیوں کا مدرسہ (کھولنا چاہتا ہوں تو آج سے ۱۰۰سو سال پہلےحضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ :مدرسہ البنات کھولو گے ۔۔۔ تو ۔۔۔ سر پکڑ کر روئوں گے" وہ سر پکڑ کر رونااپنی آنکھوں سے ہم نے دیکھا۔۔ یہاں بھی ، جنوبی افریقہ میں بھی۔۔۔ انڈیامیں بھی ۔ حضرت والا رحمہ اللہ جب  وہاں تشریف لے گئےاور وہاں کے حالات پتہ چلے کہ کیا کیا حالات پیدا ہورہے ہیں۔۔ یہ تربیت عاشقان خدا نے بہت سے خطوط شائع ہوئےہیں۔

کہ کیسے کیسے دین کی تعلیم حاصل کررہی تھیں اور کیا ہوگیا۔۔۔ یہ تو حضرت سے اصلاحی تعلق تھا کہ اُن کی اصلاح ہوگئی۔۔ ورنہ یہاں تک میں نے سناکہ ۔۔۔ کالج میں لڑکیاں مرد استاد کو جو سبق دیتی ہیں اُس میں پرچہ عشق و عاشقی کے خط کا ہوتا ہے ۔۔ اوراستادوں کو پیغام دیا جاتا کہ فلاں پارک میں ملنا۔۔ اور بہت سو ں نے شادیاں کر لیں۔۔۔ اس طرح خرابی خرابی ہے۔

حضرت والانے مزید ارشاد فرمایا:  مجھے بتائیں کتنے ایسی ہیں جو بہت تعلیم یافتہ ایم اے، بی اے وغیرہ ۔۔کتنی لڑکیا ایسی ہیں جن کو رشتے ملے ہیں؟ ۔۔ اور جن کو ملے ہیں کتنی مشکل سے ملے ہیں۔۔۔ اور اُن کے شوہر اُن سے کتنا خوش ہیں؟۔۔ سب سے بڑی چیز یہ ہے۔وہ لڑکیاں شوہر کو خاطر میں بھی نہیں لاتی۔اگر شوہر ان کے مقابلے میں کم پڑھا لکھا ہے تو سمجھتی ہیں کہ یہ تو جاہل ہے۔

ایسی ہی جو عالمہ ہوجاتی ہیں۔۔۔ اور اللہ والوں سے اصلاح کا تعلق نہیں ہے۔۔۔تو وہ اپنے کو ساری حقوق یاد کرلیتی ہے۔۔ اور شوہر بے چارہ اپنے حقوق کو جانتا نہیں ہے۔۔تو شوہر کو ایسی لڑکیاں کھٹ پتلی بنا دیتی ہیں، اپنے حقوق گنا  دیتی ہیں۔۔ کہ میرا یہ حق ہے یہ حق ہے۔۔ اور شوہر بےچارہ کم علم ہوتا ہے وہ یہ نہیں کہتا کہ میرے بھی تو حقوق ہیں۔

حضرت والا رحمہ اللہ نے دین لڑکوں کو تواس کی اجازت دی کہ کالج میں پڑھ لیں نگاہ کی حفاظت کرو ،لڑکیوں سے نہ ملو،جتنی احتیاط ہوسکتی تھی وہ کرو۔۔۔لیکن۔۔۔لڑکیوں کے لئے کبھی بھی نہیں فرمایا کہ مخلوط تعلیم حاصل کروائو۔۔۔ کالج میں داخل کرو۔۔بلکہ حضرت نے فرمایا  ہمارے بزرگوں نےلڑکیوں کی دُنیاوی تعلیم پراتنی توجہ نہیں دی۔۔ ہاں۔۔۔ گھر پر خوب پڑھایا اور اللہ تعالی نے اس کی برکت سے سب کی قسمتیں اچھی کیں

تمام حاضرین حضرت کے ایسی قیمتی ملفوظات سُن کر بہت خوش ہوگئے۔ پھر ممتاز صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا: نفس کی تعریف:حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے پوچھا کہ نفس کی تعریف کیا ہے؟ قرآنِ پاک میں جگہ جگہ نفس کا تذکرہ ہے اور بزرگ بھی کہتے ہیں کہنفس کی اتباع مت کرو تو یہ نفس ہے کیا چیز؟ تو حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں مرغوباتِ طبعیہ غیرِ شرعیہ یعنی طبیعت کی وہ رغبت، وہ خواہش جس پر عمل کرنے کی اﷲ تعالیٰ کی اجازت نہ ہو اسی کا نام نفس ہے۔

اس پر حضرت نے ایک فلسفی کا اعتراف کا قصہ بیاں فرمایا کہ حضرت والا رحمہ اللہ کے پاس ناظم آباد میں ایک فلسفی بہت بین الاقوامی ڈگریاں لئے ہوئے آئے تھے ، ہاتھ پرچہ تھا نفس کی تعریف ۔۔۔اُس فلسفی کا کہا کہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ علم نفسیات کے امام تھے اور بڑے بڑے فلسفی آپ  رحمہ اللہ کے اس جواب کے سامنے بچے ہیں۔۔ یہ واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا۔

اور فرمایا کہ حضرت تھانوی مجدد تھے اور مجدد کا کام ہی یہی ہوتا کہ وہ دین کو غیر دین سے الگ کردیتا ہے۔اور جس چیز کو امت بھلا بیٹھی ہےوہ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت کے سامنے کردیتا ہے۔

جیسے ہمارے حضرت والا رحمہ اللہ کا تجدیدی کارنامہ عشق مجازی ،بدنظری،حسن پرستی کا علاج ہے۔۔۔ کہ جس کو لوگ اہم ہی نہیں سمجھتے تھے۔۔ یہ حضرت والا سے پتہ چلا کہ یہ بھی کبیرہ گناہ ہے۔۔۔اور اس سے ایمان تک زائل ہوجاتا ہے۔۔۔ قرآن و حدیث سے حضرت والا نے ثابت فرمایا۔۔ پھر ایک ہی عنوان کو حضرت والا بیان فرماتے ہیں لیکن ایک ہی طریقہ نہیں ہوتا۔۔۔آپ کتابیں پڑھیں۔۔ ہر مضمون میں عنوان بدل جاتا ہے  )یعنی بات ایک ہی ہوتی تھی انداز بیان ، سمجھانے کا طریقہ  ہر دفعہ بدل جاتا تھا(۔۔ اس لئے حضرت کی کتاب پڑھنے سے دل نہیں بھرتا ۔۔ ہر دفعہ نیا مزا آتا ہے۔

یہاں پر یہ طویل بہت ہی مفید مجلس عجیب عجیب علمی اور اصلاحی باتوں کے ساتھ اختتام پر پہنچی ، کئی حاضرین مجلس نے حضرت والا سے عرض کیا کہ بہت بہت فائدہ ہوا " حضرت یہ سُن کر آبدیدہ ہوجاتے تھے۔ ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries