مجلس۲۸ اکتوبر۲۰۱۳ء۔ توفیق توبہ ہمارے اختیار میں نہیں۔۔۔

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس: آج الحمد للہ طویل مجلس تقریبا ۴۵منٹ کی ہوئی اور حضرت اقدس حضرت میر صاحب دامت برکاتہم شروع ہی  سےمجلس میں رونق افروز تھے۔آج کی مجلس بہت مفید تشریحات ، علمی مضامین پر مشتمل تھی، نفس کے اقسام اور ان کی تعریف  بیان ہوئی ،توفیق توبہ کا بیان ہوا  کہ یہ بندے کے اختیار میں نہیں ۔۔۔ اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔۔۔ اور دل کا سکون اللہ کے  ذکر میں ہے۔۔دُنیا کے عارضی مال و متاع میں نہیں۔۔۔۔اللہ تعالی کے مراحم خسروانہ کی دلنشین تشریح ۔۔۔۔ اور دیگر عجیب الہامی ملفوظات اور تشریحا ت بیان ہوئیں۔

 ممتاز صاحب نے حضرت کے حکم پر خزائن معرفت و محبت سے ملفوظات پڑهے ،یہ حضرت والا رحمہ اللہ کےتقریبا ۴۴سال پرانے ملفوظات ہیں جو ہمارے حضرت والا  حضرت میر صاحب دامت برکاتہم نے مرتب بھی  فرمائی ہے۔

ممتاز صاحب نے فارسی کا ایک شعر پڑھا حضرت نے اُس کی تشریح فرمائی۔

نفس اور شیطان کی دُشمنی کا فرق۔۔ان دونوں دشمنوں میں فرق کیا ہے؟ نفس وہ دشمن ہے جو اصلاح کے بعد ولی اﷲ بھی ہوسکتا ہے لیکن شیطان وہ دشمن ہے جو مردودِ دائمی ہے، یہ کبھی ولی اﷲ نہیں ہوسکتا۔ دونوں دشمنوں کا یہ فرق اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمایا۔

نفس کو اتنا مسٹنڈا مت کرو، اتنا مرغ وماہی مت کھلاؤ کہ جس سے نفس تم پر سواری کرلے، سواری پر سوار ہونا چاہیے نہ کہ سواری ہی سوار پر سوار ہوجائے، تو جو نفس کی بات مانتا ہے اور اﷲ کی نافرمانی کرتاہے یہ دلیل ہے کہ نفس کی سواری اس پر سواری کررہی ہے۔

گھوڑے اور سوار کی عجیب مثال بیان فرمائی ۔۔۔۔ پھر ارشاد فرمایا: ۔ تو جو لوگ گناہ میں نفس کی لگام ہلکی رکھتے ہیں وہ گناہ کر بیٹھتے ہیں اور اﷲ کے قہر اور عذاب کے گڈھے میں نفس بھی گرتا ہے اور خود بھی گرتے ہیں۔

نفس کی تعریفو ں کا  بیان۔۔۔۔۔نفس ابتدا تا انتہا پورا پورا اندھیرا ہے اور نفس کے اندھیروں کے لیے روشنی کا چراغ کیا ہے؟ تو فیق خداوندی۔

توفیق کی تین قسمیں ہیں:نمبر۱: تَسْھِیْلُ طَرِیْقِ الْخَیْرِ وَتَسْدِیْدُ طَرِیْقِ الشَّرِّبھلائی اور نیکی کے راستے سامنے آجائیں اور برائیوں کے راستوں کو اﷲ بند کردے۔

 نمبر۲: تَوْجِیْہُ الْاَسْبَابِ نَحْوَ الْمَطْلُوْبِ الْخَیْرِبھلائی اور نیکی کے اسباب سامنے آجائیں۔

اور توفیق کی تیسری تعریف ہے خَلْقُ الْقُدْرَۃِ عَلَی الطَّاعَۃِاﷲ عبادت کی طاقت پیدا کر دے اور سستی اور کاہلی دور کر دے یعنی فرمانبرداری کی طاقت دے، پست ہمتی، ضعف ہمتی اور لومڑیت ختم ہوجائے۔

اس کی توفیق کی تشریح میں حضرت والا نے فرمایا:  جیسا ایک شخص گناہ کرنا چارہا ہے ۔۔تو اُس میں مشکلات پیش آنے لگیں۔۔۔ اور اُس کو آسانی نہ رہے ۔۔۔ کبھی کوئی تکلیف پیدا ہوجائے ۔۔ بدنامی کا خطرہ ہوجائے۔ تو ان وجوہات کی وجہ سے گناہ سے بچ جاتا ہے ۔او ربھلائی کے راستے اُس کے لئے کُھل جائیں۔یعنی خیر کے کاموں کے لئے اسباب پیدا ہوجائیں۔۔۔اور جو عبادتیں اور فرماں برداری اُس کو مشکل  کام معلوم ہوتی تھی پھر وہ کام آسان معلوم ہونی لگے۔۔۔ اگر یہ چیزیں حاصل ہیں تو فبہاورنہ اس کو مانگنا چاہیے۔۔۔کہ یا اللہ ان سب چیزوں کی توفیق عطا فرمادیں۔۔۔ توفیق اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔

ایک عبر ناک واقعہ ناظم آباد میں دو باورچیوں کا بیان فرمایا کہ ایک حضرت والا رحمہ اللہ کے پاس آنے جانے  کی  برکت سے  نیک ہوگیا دوسرا گناہ پر اصرار کرتا رہاہے ، اس کا دوست اس کو سمجھاتا تھا  تو وہ کہتا تھا  کہ جلدی توبہ کرلیں گے ابھی کیا ہے۔۔ بہت وقت پڑا ہے  یہاں تک  مرض الموت میں پہنچ گیا ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔۔۔ جب توبہ کا کہا گیا تو کہنے لگا سب الفاظ نکلتے ہیں لیکن ت  و ب  ہ = توبہ یہ نہیں نکلتا، حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ یہ چار لفظ تھے اس پر کس نے پہرا لگا دیا۔۔۔بس توفیق سلب ہوگئی۔۔۔ اور اُسی حالت میں مر گیا۔

ابوجہل کا گھمنڈ اور جہالت کا قصہ بیان فرمایا ۔۔۔ بکواس کرتا تھا اور گستاخی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم  سےکہتا تھا کہ " تمہارے رب نے تو خود ہی کہہ دیا ہے جو چاہے استقامت حاصل کرے ۔۔ جو چاہے استقامت حاصل نہ کرے ہمیں تو اختیار دے دیا"  کیا مطلب نکالا اُس نے ۔۔۔ اللہ تعالی نے اس کے جواب میں آیت نازل فرمائی۔۔۔۔ حضرت نے فرمایا اس لیے گناہوں پر کبھی جراءت نہیں کرنی چاہیے۔۔۔

فرمایا کہ جو اللہ والوں سے تعلق رکھتے ہیں اگر وہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو وہ دل سے یہی سمجھتے ہیں کہ یہ میں اچھا نہیں کررہا ۔

مانگنے سے چیز ملتی ہے، اس لیے جو بات سنیں عمل کے لیے اللہ سے مانگیں کہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے دیجئے۔

اللہ تعالی نے عرش اعظم پر یہ لکھو ا رکھا   ہے سبقت رحمتی غضبی۔۔۔ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔ حضرت والا نے فرمایا کہ یہ لکھوانا مراحم خسروانہ ہے  یعنی یہ اللہ تعالی کا شاہی رحم ہے کہ جس کو چاہیں گے بخش دے گےتو حضرت والا نے فرمایا تھا کہ یہ مراحم خسروانہ کو اللہ تعالی سے ابھی سے مانگ لودُنیا ہی میں مانگ لو

بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھ میں نظر بچانے کی ہمت نہیں ہے۔۔۔۔ کوئی شخص کسی لڑکے یا لڑکی کو دیکھ رہا ہے اچانک وہاں کالا سانپ نکل آیا، اب کیوں دُم دبا کے بھاگتے ہو؟ تو معلوم ہوا کہ سانپ کا خوف ہے کیونکہ جان کی محبت ہے، جب اﷲ کی محبت ہوگی تو ان شاء اﷲ تعالیٰ گناہ سے اسی طرح بھاگوگے اور روؤگے کہ اے خدا ہمیں لومڑیانہ مزاج سے نجات عطا فرما۔

گناہ کا نقطۂ آغاز اﷲ تعالیٰ کے عذاب کا نقطۂ آغاز ہوتا ہے۔

حضرت نے اس کی تشریح میں فرمایا :  کہ جتنے بھی لوگ نافرمان ہیں یہ چین سے نہیں ہیں، ان کے دلوں کو چین نہیں ہے ۔۔ ائیر کینڈیشن جسم ٹھنڈا کرتا ۔۔ دلوں کو ٹھنڈک نہیں پہنچا سکتا۔

فرمایا : گناہوں کے تقاضوں  سے اس طرح مقابلہ کرو  جیسے کوئی آپ کو جان سے مارنے کے لئے حملہ آور ہوتا ہے ۔۔۔ تو کیسے اُس کا مقابلہ کرو گے۔۔۔اُسی قوت اور ہمت سےایمان بچانے کے لئے کرو۔

پُرلطف حیات پانے اور مُعذَّب حیات سے بچنے کا نسخہ:جو اللہ کو ناراض کرتا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں اُس کی زندگی تلخ کردی جائے گی یہاں تلخی کی نسبت اللہ تعالی نے اپنی طرف نہیں اور جب فرمایا کہ فَلَنُحْیِیَنَّہ، حَیٰوۃًطَیِبَّۃً  تو اس پاکیزہ زندگی اطمینان والی زندگی  دینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔۔ حضرت والا کا علم عظیم اس میں عظمتِ الٰہی ہے کہ جو سارے عالم کو شکر دیتا ہے وہ کڑوی بات کی نسبت اپنی طرف نہیں کرے گا۔ اﷲ تعالیٰ نے اختر کو یہ علمِ عظیم عطا فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے یہاں زندگی کو کڑوی کرنے کی نسبت اپنی طرف نہیں کی۔

حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم نے تشریح میں فرمایا: اصل بادشاہ تو اللہ تعالی ہیں لیکن دُنیا کے بادشاہوں کا یہ مزاج ہے کہ معافی خود دیتا ہے اور سزا دوسروں سے دلواتا ہے۔ مزید فرمایا کہ اس آیت سے یہ نکتہ کہیں نہیں دیکھا جو حضرت والا رحمہ اللہ نے بیان فرمایا۔

تقریباً ۴۵ منٹ پر مشتمل یہ اصلاحی مجلس حضرت کی دُعا کے ساتھ ختم ہوئی۔۔ ۔

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries