مجلس۱ نومبر۲۰۱۳ء۔ ہر وقت نظراللہ پر رہے۔

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:آج حضرت والا کی تشریف آوری میں تاخیر تھی  ۔۔۔ ممتاز صاحب نے ملفوظات خزائن معرفت محبت صفحہ نمبر ۳۶۸ سے  ملفوظات پڑھنا شروع کیے ۔۔۔۔ گذشتہ روز مشورے کے حوالے سے ملفوظات پڑھے گئے تھے آج اس سلسلے کے مزید ملفوظات پڑھے گئے۔۔۔۔مشورہ دینے کے بعد انتظار کرنا اپنے دین کی بربادی ہے۔۔۔مشورہ دینے کا اہل کون شخص ہے؟۔۔۔۔مشورہ پر عمل واجب نہیں۔۔۔مشورہ پر عمل نہ ہونے کے باوجود اپنی عبدیت کا توازن قائم رکھو۔۔۔۔مشورہ کی حقیقت کو جانو۔۔۔۔ مشورہ دینے کا حق صرف بالغ کو ہے نابالغ کو مشورہ دینے کا حق نہیں اور بالغ کون ہے اور کون نابالغ ہے؟۔۔۔اِنتظامی اُمور میں مشورہ دینے کی شرط۔۔۔حضرت والا کی تشریف تقریباً ۴۲ منٹ کے بعد ہوئی ۔۔۔ شیخ کی ایسی محبت جس سے دین کے کام کو پس پشت ڈال دے یہ مناسب نہیں ہے۔۔۔۔علماء کا چندہ مانگنے  پر ارشادات۔۔ ۔۔حضرت والا رحمہ اللہ مخلوق سے نہیں بلکہ  اپنے خالق اور مالک سے دو ، دو نفل حاجت کے پڑھ کر مانگتے تھے۔۔حضرت والا رحمہ اللہ کی شان استغناء  کے چند واقعات بیان فرمائے۔۔ ۔ ۔ طویل ترین مجلس ڈیڑھ گھنٹے کی ہوئی۔۔۔۔

حضرت والا کے تشریف لانے میں تاخیر کی بناء پر ممتاز صاحب نے معرفت محبت صفحہ نمبر۳۶۸سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔۔۔

مشورہ دینے کے بعد انتظار کرنا اپنے دین کی بربادی ہے: مشورہ بھی دے دے اور پھر ذہن کو فارغ کر لے، یہ انتظار نہ کرے کہ میرے مشورہ پر عمل ہوا۔ اگر مشورہ پر عمل کا انتظار کرتا ہے تو سمجھ لیجیے کہ اپنا دین برباد کرتا ہے اور دین کی بڑی شخصیتوں سے بھی اس کو فیض نہیں مل سکتا۔

مشورہ دے کر اس پر عمل کیے جانے کا انتظار کرنا خودرائی، خودبینی اور خودنفسی ہے۔

مشورہ دینے کا اہل کون شخص ہے؟۔۔۔یاد رکھو! وہی شخص مشورہ دینے کا اہل ہے جو مشورہ دے اور اس کے بعد بھول جائے کہ مشورہ پر عمل ہوا یا نہیں۔ اس کو دماغ ہی سے نکال دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو اس کو ایسی محفل میں یا ایسے بزرگوں کے پاس نہیں جانا چاہیے کہ جن کو مشورہ دینے کا خیال پیدا ہو۔۔۔۔

۔۔۔۔۔میں یہ وہ باتیں نہیں کہہ رہا ہوں جو ایک مبتدی کہتا ہے یا جو متوسط کہتا ہے۔ یہ باتیں وہی بتا رہا ہوں جو منتہی اور کاملین کہتے ہیں۔ اور جو میں نے اپنے بزرگوں سے سنی ہیں جو منتہی اور کامل تھے۔

مشورہ پر عمل نہ ہونے کے باوجود اپنی عبدیت کا توازن قائم رکھو: آج کل کیا حال ہے کہ اگر کوئی کسی بزرگ کو چند رقمیں اور چندہ دے دے یا کوئی اور نیک کام کردے تو اپنے مشورے کو واجب العمل سمجھتا ہے۔ اور جب اس کے مشورے پر عمل نہیں ہوتا تو سمجھتا ہے کہ یہاں تو دال ہی نہیں گلتی، یہاں تو مشورہ دینا اپنے مشورہ کو ضائع کرنا ہے۔

اپنے مشورہ کو اتنی اہمیت مت دو کہ نعوذ باﷲ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم سے ہٹ جائو۔ اکثر چندہ دینے والے تمام علمائے دین کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ اگر کوئی مولوی صاحب ان سے مشورہ نہ کریں تو سیٹھ صاحب ناراض ہوجاتے ہیں۔ علماء کو چاہیے کہ ایسے متکبرین کا چندہ قبول ہی نہ کریں

مشورہ کی حقیقت کو جانو۔۔۔ اس لیے میں سیٹھ لوگوں کو ہوشیار کرتا ہوں کہ اپنی بندگی کو قائم رکھو، سنت نبوی کی پونجی اپنی نادانی اور ناسمجھی سے ضائع نہ کرو۔۔

اور یہ سمجھ لیں کہ مشورہ دینے کا حق صرف بالغ کو ہے نابالغ کو مشورہ دینے کا حق نہیں اور بالغ کون ہے اور کون نابالغ ہے؟۔۔۔اور وہ بالغ ہی نہیں ہے جو خواہشاتِ نفس سے مغلوب ہے۔۔ اگرچہ وہ ظاہری طور پر بالغ ہو اور پچاس سال کا بڈھا ہو وہ نابالغ ہے۔۔

۔ تمام مخلوق بچے ہیں سوائے مست خدا کے۔ جو خدائے تعالیٰ کے مست ہیں، وہی بالغ ہیں اور جو خدائے تعالیٰ کے مست اور عاشق نہیں ہیں، اپنی نفسانی خواہشات میں مبتلا ہیں، وہ نابالغ بچے ہیں

اب بتائو! میں نے بالغین کے ساتھ اپنی عمر گذاردی تو میں نابالغوں کی بات کیسے مانوں؟ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ بالغین کے بھی استاد تھے۔ اُن پر اللہ کی محبت اس قدر غالب تھی کہ کچھ نہ پوچھو۔ مشورہ دینے کے لیے بالغ ہونا ضروری ہے لیکن بالغین کو نابالغ لوگ سمجھانے لگیں تو کیا ہوگا؟۔۔۔

طبیعت پر عقل کو اور عقل پر شریعت کو غالب رکھو۔۔۔

جو شخص عقل پر شریعت کو غالب رکھے گا اس کو ان شاء اللہ کوئی وسوسہ نہیں آئے گا۔ یہ بہت قیمتی جملہ ہے۔۔۔۔مشورہ پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے رنجیدہ نہ ہوں۔۔۔ذرّہ برابر بھی فرق نہ آنے پائے اور اگر دل جل رہا ہے کہ میرے مشورہ پر عمل نہیں کیا تو کام خراب ہوگیا۔

پی- آر- ایف ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر نصیحت۔۔۔علم کی دو قسمیں ہیں ایک ’’علم الابدان‘‘ اور دوسرا ’’علم الادیان‘‘۔ ’’علم الابدان‘‘ جس کی بنیاد پر یہ میڈیکل سینٹر قائم ہوا ہے، یہاں بدن کی بھی حفاظت رہے گی اور دین کی بھی حفاظت رہے گی۔ ’’علم الابدان‘‘ ’’علم الادیان‘‘ کے تابع ہے کیونکہ علم الابدان اگر علم دین کے تابع نہ ہو تو وہ آخرت میں وبال ہے۔

اگر اللہ ایسی خدمت سے ناراض ہوتا ہے تو ایسی خدمت سے باز آجائو، ہر صورت سے ہمارا مقصود آخرت ہے لہٰذا ہر طرح سے دیکھنا چاہیے کہ ہماری آخرت بھی صحیح ہے یا نہیں۔۔۔۔

بس یہ ہسپتال اس بنیاد پر قائم ہو رہا ہے کہ سب کام شریعت کے مطابق ہوں۔ عورتوں کو عورتیں دیکھیں گی، مردوں کو مرد دیکھیں گے۔ اس لیے ہم کو خوشی بھی ہے۔ اب اس کے بعد دعا کرلیجئے کہ اللہ تعالی اس کو جس نیت سے بنایا ہے اس نیت کے مطابق کام لیں ۔۔۔۔ دُعافرمائی

یہاں پر اطلاع آئی کہ حضرت تشریف لارہے ہیں۔۔۔حضرت نشست پر تشریف فرما ہوئے۔۔۔چند منٹ کے بعد مائیک اپنے ہاتھ میں لے کر خُدام کو ایک تنبیہ فرمائی:

۴۶ منٹ پر : اپنا ایک واقعہ بیان فرمایا:ایک بارحضرت والا کی طبیعت ناساز تھی تومیں عرض کیا حضرت والا آج بیان نہ کیجئے۔۔ آرام فرمائیں۔۔ حضرت والا نے فرمایاکہ شیخ کی ایسی محبت کہ جس سے دین کے کام کو پس پشت ڈال دےیہ مناسب نہیں ہے۔۔۔ یہ تو اللہ تعالی کی محبت پر اُس کو غالب کرنا ہے۔۔۔اور فرمایا کہ تھوڑا سا بخار نزلہ ہوگیا۔۔۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے تودین کی خاطر اپنا خون بہایا ہے۔۔۔ہم اپنا پسینہ بھی نہ بہائیں۔

پھر حضرت والا میر صاحب نے خدام کو پیار بھری تنبیہ فرمائی۔۔۔کہ مجھے اگر Dialysisکے دوران نیند بھی آجائے تو مجھے مجلس کے لئے بیدار کردیاکریں۔۔۔میرے آنکھ لگ جاتی ہے۔۔۔تو یہ لوگ مجھے سوئے رہنے دیتے ہیں۔۔۔ اس لیے آج سے میں کہہ دیا ہے کہ مجھے وقت پر اٹھائیں۔۔۔اور جس دن مجھے نیند کی ضرورت ہوگی میں خود ہی کہہ دوں گا کہ آج مت اٹھانا۔۔حضرت والارحمہ اللہ کی طبیعت جب ناساز بھی ہوتی تھی لیکن کبھی مجلس میں ناغہ نہیں کرتے تھےکسی نہ کسی صورت سے تشریف لے آتے تھے۔۔ایک دفعہ تیز بخار تھا   ۱۰۴ اُس وقت بھی حضرت والا تشریف لائے  اور  ایک درد بھراجملہ فرما کر تشریف لےگئے ۔۔ کہ یا تو گناہ چھوڑ دو ۔۔ یا مجھے قتل کردو۔۔

پھر ممتاز صاحب نے حضرت کے حکم پر ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔۔۔صفحہ ۳۷۳  خزائن معرفت و محبت  ملفوظات شروع کیے ۔

مشورہ پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے رنجیدہ نہ ہوں:حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ عقل کیا چیز ہے۔ شریعت کا یہ حکم ہے، بس چپ چاپ دُم دباکر بیٹھو، اگرچہ دُم نہیں ہے مگر دم دباسکتے ہیں۔ کیسے دباسکتے ہیں کہ خاموش رہیں اور طبیعت کو عقل پر اور عقل پر شریعت کو غالب رکھیں اور ہنستے بولتے رہیں، تعلقات پہلے جیسے ہی خوشگوار رہیں۔ ذرّہ برابر بھی فرق نہ آنے پائے اور اگر دل جل رہا ہے کہ میرے مشورہ پر عمل نہیں کیا تو کام خراب ہوگیا۔

۔ اور یہ کہہ بھی دیا کہ میرے مشورہ پر عمل نہ کر کے آپ نے مجھ کو غمگین اور رنجیدہ کیا۔ رنجیدگی ظاہر کرنا، منہ پھلانا، غصہ کرنا یا لوگوں کو ڈانٹنا سب شریعت کے خلاف ہے۔

پی- آر- ایف ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر نصیحت: علم کی دو قسمیں ہیں ایک ’’علم الابدان‘‘ اور دوسرا ’’علم الادیان‘‘۔ ’’علم الابدان‘‘ جس کی بنیاد پر یہ میڈیکل سینٹر قائم ہوا ہے، یہاں بدن کی بھی حفاظت رہے گی اور دین کی بھی حفاظت رہے گی۔

کیونکہ علم الابدان اگر علم دین کے تابع نہ ہو تو وہ آخرت میں وبال ہے کیونکہ جس کام کا نتیجہ مرنے کے بعد اچھا نہ ہو وہ کام بالکل بے کار ہے۔ یہاں دنیا میں بہت واہ واہ ہوئی اور مرنے کے بعد پٹائی شروع ہوگئی تو ایسا کام کس کام کا ہے۔۔۔

ہر کام میں آخرت کو دیکھنا چاہیے جو کام یا قدم اٹھائے سب سے پہلے آخرت کو دیکھے کہ ہماری آخرت اس سے بنے گی یا بگڑے گی۔

۵۸ منٹ پر : حضرت والا نے علم الادیان کے معنی دین کا علم اور علم الابدان کے معنی فرمائے ۔ بد ن کے متعلق جو معلومات ہیں۔۔ فرمایا  : جو روحانیت سے متعلق چیزیں ہیں وہ علم دین سے متعلق ہیں ۔۔ اور جو بدن سے متعلق ہیں وہ مادی چیزیں ہیں۔۔۔لیکن بد ن کی جو خدمت ہو ۔۔ وہ دین کے تابع ہو۔۔ تب تو وہ مقبول ہے۔۔اور اگر وہ اُس کے تابع نہ ہوئی ۔۔مثلاً میڈیکل سینٹر قائم کرلیا۔۔۔ لیکن پردے کا انتطام نہیں کیا۔۔۔ اور شریعت کا پاس نہیں۔۔ تو  یہ بجائےنفع کے ۔۔ اس پر پکڑ ہوجائے گی۔۔۔کہ قانون شریعت کو ، دین کو تم نے غالب نہیں رکھا۔۔ بس بدن کے مفاد پر ہی نظر گئی۔۔۔بد ن کی فلاح تو دوسروں کو مل سکتی ہے۔۔لیکن جو اس کا قائم کرنے والا ، چلانے والا ہے۔۔اس کی پکڑ ہوجائے گی۔۔اسی کو حضرت فرما رہے ہیں کہ نیت کو درست کرلو۔۔ اور دین کو غالب رکھو۔۔۔ اور دین میں نیت کی درستگی رکھو ۔۔۔ اگر نیت درست نہیں ہوگی۔۔تو دین کی خدمت بھی قبول نہیں ہوگی۔۔۔

ایسا کام اچھا نہیں ہے کہ آپ یہاں دنیا میں تو بہت بڑے بڑے کام کر رہے ہیں، سب کچھ کر رہے ہیں، مگر آخرت میں آپ کو کچھ نہیں ملا۔ ہرکام میں دیکھنا ہے کہ یہ مطلوبہ کام آخرت کے لیے بھی ٹھیک ہے یا نہیں، مگر دونوں میں نیت درست ہو۔ ۔۔۔

اگر اللہ ایسی خدمت سے ناراض ہوتا ہے تو ایسی خدمت سے باز آجائو، ہر صورت سے ہمارا مقصود آخرت ہے لہٰذا ہر طرح سے دیکھنا چاہیے کہ ہماری آخرت بھی صحیح ہے یا نہیں۔

ا گھنٹہ ۵۰ سیکنڈ پر :  حضرت والا نے تشریح فرمائی: یہ جو حضرت نے فرمایا  چھوٹا سا جملہ ہے کہ "ہر خدمت سے ہمارا مقصودآخرت کی فلاح ہے۔ ۔۔ اس لیے جو  خدمت آخرت کے لئے مفید ہے ۔۔۔ اس کی تو اجازت ہے۔۔۔اور جو آخرت کو تباہ کروالی ہے ۔۔ تو ایسی خدمت مردود اور بالکل بے فائدہ ہے۔۔قابلِ ترک ہےاس لیے فرمارہے ہیں کہ یہ جو میڈیکل سینٹر قائم ہورہا ہے اس میں شریعت کا پاس رہے۔۔۔اس طرح آخرت کی فلاح ہے۔۔اور اگر ان چیزوں کا لحاظ نہ کیا۔۔تو وہ فلاح کے بجائےہلاکت ہے۔۔۔

لہٰذا یہ قاعدہ کلیہ ہے جو قدم اُٹھائیں اس میں دیکھیں کہ اللہ تعالی ہم سے راضی ہے یا نہیں۔

جس کام سے اللہ ناراض ہو اس کام سے آپ بھی راضی نہ ہوں، جس کام سے اللہ راضی ہو اس سے آپ بھی راضی ہوں لہٰذا اپنی آخرت کو مقدم رکھیے۔ جو کام بھی کیجئے یہ دیکھئے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ہے۔ اگر ناجائز ہے تو ہم ہرگز نہیں کریں گے، مرجانا پسند کرلیں گے لیکن ناجائز کام نہیں کریں گے۔

دیر سویر سب کو مرنا ہے، لاکھ ڈاکٹر ہی کیوں نہ ہوں، ڈاکٹر خود کیوں اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، دل کے ڈاکٹر بھی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ بہرحال مسلمان کو ہر قدم پر یہی سوچنا چاہیے کہ ہم جو قدم اٹھا رہے ہیں کیا ہمارا مولیٰ اس سے راضی ہے یا نہیں؟ یہ نہ دیکھو کہ دنیا کا فائدہ ہے یا نہیں۔۔۔اتنا ہی کماؤ جس میں اللہ تعالی بھی راضی ہوں اور اتنا ہی رفاہی کام کرو جس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوں۔

دُعا ئے صلوٰۃِ حاجت کی عجیب عاشقانہ تشریح سنائی گئی۔۔

اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری نظروں کو مجاریِ قضا کی طرف متوجہ کیا ہے یعنی جہاں سے فیصلے ہوتے ہیں عطائوں کے، سزائوں کے وہاں نظر رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

۱ گھنٹہ ۷ منٹ پر: یہاں حضرت والا نے مجازی قضا کا مطلب ارشاد فرمایا: مجازی معنی جاری ہونے کی جگہ اور قضاء معنی فیصلہ ۔ ۔۔ اللہ تعالی کے فیصلے جہاں سے جاری ہوتے ہیں۔۔۔یعنی عرش اعظم سے ۔۔ یعنی جو کچھ مقدر میں لکھ دیا گیا۔۔۔اس لیے جس کی نظر اس پر ہوتی ہے کہ دُنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے ۔۔ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔۔یہ فیصلہ وہاں کا ہے۔۔تو ہر مصیبت اُس کے لیے آسان ہوجاتی ہے، ہر تکلیف برداشت کرنا آسان ہوجاتی ہے۔

اور جس کی نظر صرف یہ ہوتی ہے۔۔۔کہ ایسا کیوں ہوگیا۔۔بس زمین تک ہی نظر رہتی ہے۔۔۔تدبیر اور اسباب تک ہی نظر رہتی ہے۔۔۔۔ تو پریشان رہتا ہے۔۔۔

پھر حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں کو معاف کرنے کا واقعہ سے سبق ارشاد فرمایا: حضرت یوسف علیہ السلام کو معلوم تھا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے تھا۔۔۔تو انبیاء علیہم السلام سے بڑھ کر کون اللہ کا عارف ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔کیوں کہ اللہ تعالی ہی اس کی حکمت جانتے ہیں۔۔۔بس اللہ تعالی کی طرف سے تھا اس لیے حضرت یوسف علیہ السلام مطمئن رہے۔۔۔اور بھائیوں کو معاف فرما دیا۔۔

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا ستایا گیا۔۔۔لیکن جب فاتح ہو کر مکہ شریف میں داخل ہورہے تھے تو ایک انگریز مصنف لکھتا ہے۔۔کہ دُنیا کا کوئی بادشاہ اس طرح داخل نہیں ہواجس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے ۔۔۔جس سے معلوم ہوا کہ آپ بادشاہ نہیں نبی تھے۔۔۔جس وقت مکہ شریف میں آپ کی اونٹنی داخل ہورہی تھی۔۔۔تو آپ کا سینہ ء مبارک اونٹنی کے کجاوے سے لگ گیاتھا عبدیت کے غلبے سے۔اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔۔اوربالکل پست ہو کر داخل ہوئے۔۔۔اور جتنے بھی مخالفین تھے۔۔۔سب کو معاف فرما دیا۔۔۔جنہوں نے عمر بھر آپ سے لڑائی کی۔۔۔اور فرمایا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کو بھی معافی ہے۔حالانکہ اُس وقت ابوسفیان ایمان نہیں لائے تھے اور دشمن تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان کو بڑے ٹیلے پر کھڑا کردینے کا واقعہ بیان فرمایا ۔۔۔ انہوں نے مسلمانوں کے لشکر کی شان و شوکت دیکھی۔۔۔۔

لہٰذا جب کوئی غم یا پریشانی آئے تو پہلے دو رکعت صلوٰۃ حاجت پڑھ لیں، پھر حمد و ثناء کریں جیسے سورئہ فاتحہ یا تیسرا کلمہ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پھر درود شریف پڑھیں، پھر یہ دُعا پڑھیں:

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اَسْأَلُکَ مُوْجِبَاتِ رَحْمَتِکَ وَعَزَاۗئِمَ مَغْفِرَتِکَ وَالْغَنِیْمَۃَ مِنْ کُلِّ بِرٍّ وَالسَّلَامَۃَ مِنْ کُلِّ اِثْمٍ لَّا تَدَعْ لِیْ ذَ منْبًا اِلَّا غَفَرْتَہٗ وَلَا ہَمًّا اِلَّا فَرَّجْتَہٗ وَلَاحَاجَۃً ہِیَ لَکَ رِضًا اِلَّا قَضَیْتَہَا یَآاَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ(سنن الترمذی، باب ماجاء فی صلٰوۃ الحاجۃ،ج:۱، ص:۱۰۸-۱۰۹),

 نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے جو حلیم و کریم ہیں۔ (حلیم ہے وہ ذات جو سزا دینے میں جلدی نہ کرے اور کریم وہ ذات ہے جو بدون استحقاق اور قابلیت عطا کرے) پاک ہے اللہ جو عرشِ اعظم کا ربّ ہے، ہر قسم کی تعریف اللہ ربّ العالمین کے لیے خاص ہے۔ اے اللہ! میں سوال کرتا ہوں آپ کی رحمت کے موجبات کا اور آپ کی مغفرت کے ارادوں کا اور ہر نیکی کے مالِ غنیمت کا اور ہر بُرائی سے سلامتی کا، ہمارے کسی گناہ کو نہ چھوڑیئے مگر بخش دیجیے اور نہ ہمارا کوئی غم باقی رکھیے مگر اُس کو دور فرمادیجیے اور ہماری ہر حاجت کو جس سے آپ راضی ہوں اس کو پوری کردیجیے، اے ارحم الراحمین۔

ہر دُعا کے قبل اور بعد درود شریف پڑھ لینا دُعا کی قبولیت کا نہایت قوی ذریعہ ہے۔پھر حضرت والا رحمہ اللہ صلوۃ حاجت کی دُعا کی الہامی تشریح پڑھی گئی۔۔۔۔

آخر میں حضرت والا رحمہ اللہ کی شان استغناء کے حالات حضرت والا میر صاحب نے بیان فرمائے۔۔۔

ا گھنٹہ ۳۲ منٹ پر :  فرمایا جو اللہ کی رضا کو آگے کرتا ہے اور مخلوق کی پراوہ نہیں کرتا تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالی اُس کے لیے کافی ہوجاتے ہیں۔۔

اس ملفوظ کے بیان کے بعد حضرت والا نے فرمایا کہ مجلس برخاست  کی جاتی ہے۔۔یوں یہ اب تک کی طویل ترین مجلس تقریباً ایک گھنٹے ۳۴ منٹ کے دورانیہ پر مشتمل رہی۔ ۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries