مجلس۴ نومبر۲۰۱۳ء۔ حضرت والا کی شانِ استغناء

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:ممتاز صاحب نےخزائن معرفت ومحبت صفحہ نمبر۳۹۹سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔۔۔ رنگون کے ایک مولوی صاحب کا واقعہ اور حضرت تھانویؒ کا جواب۔۔۔حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کاطرزِ عمل۔۔۔بعض مہتمم حضرات کے طرزِ عمل پر نکیر۔۔۔مالداروں سے استغناء کے حوالے مفید ملفوظات ۔۔۔ حضرت والا کے شان استغناء کے واقعات۔۔۔بہت مفید مجلس ہوئی ۔ الحمدللہ !۔۔۔

حضرت والا شروع ہی کے مجلس میں رونق افروز تھے ۔۔۔۔ حضرت کے حکم سے حضرت ممتاز صاحب نے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔۔۔ خزائن معرفت ومحبت صفحہ نمبر۳۹۹سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے

رنگون کے ایک مولوی صاحب کا واقعہ اور حضرت تھانویؒ کا جواب:   حجرے میں دو رکعت پڑھ کر روتے تو اللہ تعالیٰ غیب سے انتظام کرتے اور اگر عزت نفس اور عظمت دین سے کام نہ ہو تو ہر گز دین کا کام مت کرو۔۔۔

الحمدللہ کوئی یہ بات ثابت نہیں کرسکتا کہ اختر یا اس کی اولاد کسی کی دکان پر گئے ہوں۔ بتاؤ دین کا کام ہو رہا ہے یا نہیں؟ یہ میں نے اپنے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھا ہے۔

۲ منٹ پر: یہاں پر حضرت مرشدی و مولائی  میر صاحب دامت برکاتہم نے حضرت والا رحمہ اللہ کا دل نواز تذکر ہ۔۔۔ ایسا چھیڑا کہ ۔۔۔سناتے ہی چلے  گئے۔۔ تقریباً ۲۲ منٹ تک صرف حضرت والا ہی کی باتیں ارشاد فرماتے رہے ۔۔۔

فرمایا: حضرت والا رحمہ اللہ کے زمانے میں جو یہاں تعمیرات ہوئیں۔۔۔دین کا کام ہوا اور جو مسجد سندھ بلوچ میں بنی۔۔۔ حضرت والا نےکبھی ایک پیسے چندے کی اپیل نہیں کی۔۔ ایک پیسے کی بھی ۔۔ کوئی ثابت نہیں کرسکتا۔۔ سوائے اس کے اپنے خاص لوگوں سےحضرت فرما دیتے تھے۔۔۔۔ کہ جتنی تمہاری حیثیت ہے۔۔اس میں ڈال دو۔۔یہاں تک کہ یہ فرمایا کہ جس کہ پاس جتنا ہو چاہے ایک روپیہ ہی ڈال دے۔۔ایک تھیلا بنوایا کہ اس میں مٹھی بند کر کے ڈال دیں اور جس کے پاس کچھ نہ ہو۔۔۔وہ خالی مٹھی بند کر کے ڈال دے تاکہ یہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ اس نے چندہ نہیں دیا۔۔۔)کتنی جذبات کی رعایت فرمائی(

اور یہ فرمایا کہ یہ جو میں کررہاہوں آپ لوگوں کے فائدے کے لیے کررہا ہوں۔۔کہ آپ کا دین کے کام میں حصہ لگ جائے۔۔۔ورنہ آپ بھی جانتے ہیں میں بھی جانتا ہوں کہ اس سے مسجد اور مدرسے کی تعمیر نہیں ہوسکتی۔۔۔ لیکن آپ کا حصہ ڈالنے کے لئے کررہا ہوں۔۔

اور یہ بھی فرماتے تھے۔۔کہ پتہ نہیں کس بندے سے کس اخلاص سے دیا۔۔اس کے اخلاص کی برکت سےقبول ہوجائے۔۔۔اُس کے بعد کسی سے یہ نہیں فرماتے تھے۔۔کہ ضرورت ہے ۔۔صرف اطلاع کردی وہ بات اور ہے۔۔کہ یہاں تعمیر ہورہی ہے۔۔۔لیکن اپیل چندے کی کسی سے بھی نہیں کی۔۔اور کبھی بھی نہیں کی۔

حضرت والا میر صاحب نے مزید ارشاد فرمایا: " کہ ۴۵ لاکھ کا قرضہ حضرت کے اوپر ہوگیا تھا۔۔ٹھیکے دار احمد دین تھا وہ بہت خوشامد کرکے تعمیرات کردیتا تھا کہتا تھا کہ حضرت پیسے کی فکر نہ کیجئے۔۔۔میں بنا دیتا ہوں۔۔عجیب شخص تھے اللہ تعالی اُن کی مغفرت فرمائے۔۔۔کیونکہ وہ یہ بھی جانتے تھے یہاں سے پیسہ کہیں جائے گا نہیں۔۔۔ضرور حضرت ادا فرمائیں گے۔

مگرجب کبھی وہ ٹھیکے دار ملاقات کے لیے آتے تھے تو حضرت والا فرماتے تھے کہ " مجھے دل پر بوجھ ہوتا ہے۔۔کہ اس کا میرے اوپر قرضہ ہے۔۔مجھے ادا کرنا ہے۔۔ اگرچہ وہ اپنی زبان سے کچھ نہیں کہتا تھا۔۔لیکن اُس وقت کی سختی کے باوجود کبھی حضرت والا نے کسی سے اشارہ تک نہیں دیا۔۔۔۔ یہاں تک کہ  مجھ تک کو خبر نہیں تھی۔۔۔کہ ۴۵لاکھ کا حضرت پر قرض ہے۔۔۔

اس کے بعد ایک فون آیا۔۔۔ ری یونین سےایک تاجر صاحب کا جو خود بزرگ بھی تھے نقشبندی سلسلے کے۔۔حضرت سے محبت رکھتے تھے۔۔۔انہوں نے کہاکہ حضرت مجھے دل میں سخت تقاضا اور تنبیہ ہورہی ہے۔۔کہ آپ کی مدد کروں اور جلد ازجلد کروں۔۔۔۔اور بہت لجاجت سے کہا کہ اللہ کے لئے مجھے بتائیے کہ آپ کو کتنی رقم چاہیے۔۔۔حضرت والا نے فرمایا رقم تو بہت بڑی ہے۔۔جتنی آپ کی گنجائش ہو اتنی دی دیجئے۔۔۔باقی اللہ پاک انتطام فرما دیں گے۔۔انہو ں نے عرض کیا کہ حضرت آپ اس کی فکر نہ کیجئے۔۔۔جتنی رقم ہے آپ مجھے بتائیے۔۔۔میں سب ادا کروں گا۔۔تو حضرت نے فرمایا ۴۵ لاکھ ہے۔۔انہوں نے کہا کہ حضرت یہ ۴۵ لاکھ روپے میں کل ہی روانہ کررہا ہوں ۔۔۔اس میں آپ کسی اور کو شریک نہ کریں۔۔۔ تو یہ کیا تھا ۔۔۔ یہی تھا کہ دو  دو رکعت پڑھ کر اللہ سے مانگو۔

حضرت والا نے بعد میں مجھ سے آبدیدہ ہو کر  فرمایا تھا۔۔یہ میرے بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔۔یہ تین چار مہینے مجھ پر بہت سخت گزرےہیں۔۔۔لیکن ایک حرف بھی میں نے کسی سے نہیں کہا۔۔۔حتی کہ میں جو دن رات ساتھ خدمت میں رہتا تھا۔۔۔مجھے بھی خبر نہیں تھی۔۔۔کہ حضرت والا پر ۴۵ لاکھ کا قرضہ ہے۔۔۔

اور فرمایا تھا کہ میں نے ایک حرف بھی کسی سے نہیں کہا۔۔دو نفل پڑھ روزانہ پڑھتا تھا اور اللہ کے سامنے رو لیتا تھا۔۔۔کہ یا اللہ اس کا غیب سے انتظام فرمادیجئے۔۔۔میری تو قدرت میں نہیں ہے۔۔۔اس کی ادائیگی۔۔۔مگر آپ اس کا انتظام فرمادیجئے۔۔۔

تو مخلوق سے صرف ِ نذر کر کے جو حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ حجرےمیں مصلہ ڈال کر دو رکعت نفل پڑھ کےدُعا کرلے۔۔حضرت والا نے عملاً اس کو کر کے دکھایا۔۔کبھی کسی سے اشارہ بھی نہیں فرمایا۔۔کہ ہمیں یہ چیز چاہیے۔۔اس مدرسے کے لیے اتنی رقم کی ضرورت ہے۔۔

حضرت والا کا سفر جنوبی افریقہ ۔۔ اور حاسدین نے یہ اُڑا دیا کہ چندے کے لیے گئے ہیں نعوذباللہ۔۔حضرت والا کے شان استغناء ، عزت نفس، عظمت دین کی شان  ظاہر ہوئی۔۔۔۔ حضر ت نے یہ بات سن کر وہاں فرمایا :  اچھا  یہ لوگ سمجھتے تھے کہ میں یہاں چندہ کرنے آیا ہوں ۔۔۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ " جائو آج کے بعد سے جہاں جہاں میرے تقریر ہوگی۔۔پہلے یہ جا کر اعلان کرو۔۔"میں یہاں آپ سے چندہ وصول کرنے نہیں آیا۔۔میں نے اللہ کی محبت جو اپنے بزرگوں سے سیکھی ہے۔۔وہ سکھانے آیا ہوں۔۔آپ سے کچھ لینے نہیں آیا ۔۔۔ آپ کو دینے آیا ہوں"۔۔

 اس کا ایسا زبردست اثر پڑا کہ وہاں کا سب سے بڑا تاجر جس نے حضرت والا کو دعوت دی تھی۔۔اس کی دکان ایسی تھی کہ جیسے ائیرپورٹ ہوتا ہے۔۔۔۔ہر طرح کا سامان اُس کی دکان پر موجود تھا۔۔۔اُس نے حضرت سے عرض کیا۔۔کہ حضرت والا کہ جو چیز آپ کو پسند ہو وہ آپ لے لیجئے مجھے بہت ہی زیادہ خوشی ہوگی۔۔تو حضرت والا نے فرمایا کہ "مجھے آپ کی چیز یں نہیں پسند مجھے تو آپ پسند ہیں۔۔آپ میری مجلس میں آجائیں۔۔۔اور دین کی ،اللہ کی محبت کی بات سنیں۔۔۔ تو ایک دُکان نہیں میں یہ سمجھو گا کہ ساری تجارت آپ نے میرے نام کردی۔۔تو وہ اتنا متاثر ہوا

پھر شام کو وہ تاجر حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔۔اور حضرت کے پائوں دبا رہا تھا۔۔جب وہ پائوں دبا کر چلا گیا۔۔۔ بہت سے لوگوں نے حضرت سے عرض کیا۔۔۔بڑے بڑے علماء یہاں آتے ہیں۔۔آج تک ہم نے کسی کے پائوں دباتے ہوئے نہیں دیکھا۔۔۔یہ آپ کے پائوں کیوں دبا رہا ہے۔۔حضرت والا نے فرمایا کہ کیونکہ میں اس کی جیب نہیں دبائی اس لیے یہ میرا پائوں دبا رہا ہے۔۔تو یہ شان تھی حضرت والا کی۔۔۔ عجیب غریب واقعہ۔۔۔۔۔۔

سندھ بلوچ میں واقعہ مسجد مدرسہ خانقاہ کی تعمیر ۔۔ حضرت والا کی دُعاوں کا  ثمرہ ہے اس پر فرمایا کہ ۔۔ حضرت نے پورے مدرسے کا پلاٹ ایک دم سے نہیں خریدا بلکہ ایک ایک کر کے لیتے رہے ۔۔ جو مل گیا لے لیا۔۔ایسا اللہ پر بھروسہ تھا ۔۔۔یہ بھی نہیں سوچا کہ بیچ میں اگر کوئی دوسرا مکان ہوا تو حائل ہوجائے گا مدرسے کی بلڈنگ میں ۔۔۔بس دعاوں سے ایک ایک کر کے پلاٹ ملتے گئے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی بڑا پلاٹ خریدا تھا۔

بس حضرت کا کام یہی تھا کہ مغرب کے بعد حضرت سندھ بلوچ کے پلاٹ پر تشریف لے جاتے تھے۔۔وہاں دو نفل پڑھ کر کے دُعا فرماتے تھے۔۔۔کہ یا اللہ یہ جو زمین ہے ہمیں دلوا دیجئے۔۔حضرت کو ایسی پسند آئی تھی وہ زمین۔۔اُسی دعا کی برکت سے یہ جامعہ قائم ہے۔۔۔اور یہ مسجد قائم ہے۔۔ اُس وقت کوئی بظاہر وسیلہ نہیں تھا ۔۔۔ بس حضرت نے ارادہ فرمایا لیا تھا۔۔مجھ سے فرمایا تھا کہ یہ پلاٹ ہم خریدیں گے اور مسجد یہاں بنائیں گے۔۔

حضرت والا کی ایک مرید رئیسہ عورت تھی۔۔اس کو پتہ چلا تو اُس کا فون آیا حضرت والا کے پاس اس نے عرض کیا " یہ حضرت یہ مسجد میں بناوائوں گی۔۔تو بغیر کسی فرمائش کے۔۔۔ بغیر کسی اشارے کےخود اُس نے پیشکش کی۔۔۔

حضرت والا فرماتے تھے کہ مخلوق سے کیوں مانگتے ہو۔۔۔مخلوق تو عاجز ہے۔۔اللہ سے مانگو۔۔جو مخلوق کے دلوں کو پھیر دیتا ہے۔۔۔ان ہی سے کام لے گا۔۔۔غیب سے انتظام فرمائے گا۔۔۔وہی اپنی آنکھوں سے دیکھا ہم نے۔۔۔

حضرت نے فرمایا تھا کہ میری مسجد میں ایک پیسہ بھی محلہ نہ نہیں لگاہوا۔۔۔کیونکہ برابر والوں کو شبہ تھا کہ یہاں چندے ہوں گے۔۔ہمارے چندوں میں کمی آجائے گی ہمارا پیٹ کٹ جائے گا۔۔۔لیکن ایک پیسے کا چندہ نہیں ہوا۔سب اللہ کا غیبی انتظام ہوا۔۔

اسی طرح جنوبی افریقہ میں بہت سے لوگوں سےکہا  اور ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت آپ کے مدرسے کا ہمیں معلوم ہے کہ بن رہا ہے۔۔۔لیکن آپ نے منع کررکھا ہے کہ کسی سے مت کہیں۔۔لیکن میرے دو بچپن کے دوست ہیں۔۔اور سیٹھ ہیں۔۔ وہ دونوں  ایسے تھے کہ لنیشیا ء سونے کی کانوں کا شہر  ہے اس جیسے دو شہر خرید سکتے تھے ۔۔۔اتنے امیر ہیں۔۔۔۔۔ حضرت والا میر صاحب نے فرمایا کہ میرے دل میں بھی خیال آیا اس میں تو حرج معلوم نہیں ہوتا کیوں کہ تیسرا شخص کہہ رہا ہے۔۔ شاید حضرت راضی ہوجائیں۔۔۔لیکن حضرت ولارحمۃ اللہ علیہ نے فوراً فرمایا۔۔آپ کو اس کام کی اجازت نہیں ہے۔۔۔وہ جانتے ہیں کہ میں آپ کے ہاں کبھی کبھی رات میں آکر آرام کرتا ہوں۔۔تو وہ یہ سمجھیں گے۔۔کہ مولوی صاحب خود تو خاموش ہیں لیکن انہوں نے اپنے ایجنٹ چھوڑ دئیے ہیں۔۔۔پھر وہ میری دین کی بات میں کوئی اثر نہیں رہے گا۔۔۔اور فرمایا " میں دین کی قیمت پر مدرسہ قائم نہیں کرسکتا"۔

اور فرمایا کہ " مدرسہ میں نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے کھولا ہے۔۔پیٹ کےلیے نہیں۔۔۔جس دن مجھے یہ معلوم ہوگا۔۔کہ اس مدرسے میں اللہ کی رضا نہیں ہے۔۔تو میں خود تالا ڈال دوں گا۔۔وہاں جنوبی افریقہ میں کسی کو اجازت نہیں دی ایک پیسہ چندہ کرنے کی۔۔

حضرت میر صاحب دامت برکاتہم نے مزید ارشاد فرمایا کہ " یہ جو فرمایا کہ ہم دین کا کام کرےگے جنگلوں میں کریں گے درخت کے نیچے کریں گے۔۔۔ تو شروع شروع میں یہی تھا۔۔۔ناظم آباد میں حضرت والا موسی کالونی تک تشریف لے جاتے تھے۔۔۔چھونپڑیاں تھیں۔۔ وہاں بنگلہ دیشی حضرات تھے۔۔۔وہاں حضرت نے اُن غریبوں میں کام کیا۔۔۔

جہاں بھی حضرت والا بیٹھ جاتے وہیں خانقاہ ہوجاتی تھی۔ حضرت چلتی پھرتی خانقاہ تھے۔۔۔جنوبی افریقہ میں بھی یہی حال تھا۔۔۔جنگل میں حضرت ٹہلنے جارہے ہیں۔۔۔اور وہیں کھڑے کھڑےبیان فرمانا شروع کردیا۔۔۔آدھا آدھا گھنٹہ۔۔پون گھنٹہ۔۔بیان کیا پھرآگے بڑھ گئے۔۔۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد رُک گئے۔۔۔پھر بیان شروع کردیا۔۔۔جیسے کہ کوئی مضمون وارد ہوتا تھاحضرت والا کے قلب پر۔۔پھر حضرت والا دیر نہیں فرماتے تھے۔۔۔

حضرت والا کچھ سوچ کر بیان نہیں فرماتے تھے۔۔۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوا۔۔۔کہ حضرت خاموش رہے۔۔۔ایک ایک گھنٹے تک کچھ نہیں بولا۔۔۔کچھ بیان نہیں فرمایا۔۔۔فرمایا کہ ابھی دل میں کچھ نہیں جب بادل آتے ہیں تب برستے ہیں۔۔بادل آئے نہیں تو میں خودبخود کیسے برسوں ۔۔۔ مگر یہ تو بہت کم ہوا۔اکثر بیشتر یہی تھا کہ جہاں بیان فرماتے تھے۔۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے بارش ہوتی ہے الہام کی۔۔ایسے مضامین حضرت بیان فرماتے تھے۔۔۔

توفرمایا کہ مجھے خانقاہ کے لیے جو میں نے بنوائی ہے۔کسی اینٹ اور گارے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔حضرت کی ذات خود خانقاہ تھی۔

تو وہ اللہ والا صاحب نسبت  ہوجاتا ہے۔۔پھر وہ ضبط نہیں کرسکتا۔۔جو اُس کے دل میں اللہ تعالی کی محبت ہوتی ہے۔۔اُس کا جو جوش ہوتا ہے۔۔وہ اُس کو دبا نہیں سکتا۔۔۔وہ اُس کو نشر کرکے رہے گا۔۔

اللہ تعالی پھر انہی سے کام لیتے ہیں۔۔۔جب یہ کیفیت ہوجاتی ہے۔۔۔کہ اللہ کے دین کےلیے اور اُس کے بندوں کے لیے ہر وقت فکر میں رہیں۔۔

سب سے پہلے اپنی تو فکر ہوتی ہی ہے۔۔پھر یہ فکر ہوجاتی ہےکہ کوئی اللہ کا بندہ ضایع نہ ہوجائے۔۔

حضرت والا تو کافروں تک کے لیے دُعا کرتے تھے کہ ان کو ایمان دے دے۔اے اللہ یہ آپ کے بندے ہیں۔۔ان کو ان کے اعمال کی وجہ سے عذاب ملے گا ۔۔ آپ ان کو توفیق دے دیجئے۔۔۔کہ یہ اپنے کفر سے توبہ کرلیں۔۔۔اور ان کوایمان دے دے۔

حضرت والامچھلیوں، جانوروں ، پرندوں تک کے لیے دُعا فرماتے تھے۔۔۔۔مچھلیوں کو سمندر میں۔۔دریائوں میں ۔۔۔اور جانوروں کو جنگلوں میں۔۔۔اور پرندوں کو فضائوں میں۔۔۔سب پہ یا اللہ اپنی رحمت نازل فرما۔۔۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ یہ جو خانقاہ میں نے بنوائی ہے اس لیے کہ لوگ یہاں آکر ٹھہریں اور دین کی بات سنیں۔۔ کیونکہ اگر ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہوگی۔۔۔تو کیا ہوگا۔۔۔ خانقاہ تھانہ بھون میں اس ہی لیے قیام کا انتطام تھا تاکہ مہمان آکر ٹھہریں گے۔اس لیے عمارت کی ضرورت ہوئی ۔۔ لیکن اصل رُوح وہی ہے ۔۔۔کہ جس جگہ نکل جائیں اُن کی ذات خود ہی خانقاہ ہو۔۔۔۔حضرت کی شان یہی تھی۔۔

یہاں حضرت والا رحمہ اللہ کی یادوں کا تسلسل ختم ہوا ۔۔۔ یہ تقریباً ۲۳ منٹ پر مشتمل مکمل بیان تھااور ایسی ایسی باتیں حضرت والا کے شان ِ استغناء سے متعلق بیان ہوئیں جو امت کو معلوم نہیں ، یہ یقیناً ہمارے شیخ و مرشد حضرت میر صاحب کا احسان عظیم ہےکہ اپنے خزانہ ء دل سے ایسے قیمتی جواہر پارے عطا فرماتے رہتے ہیں ۔۔ ہمارےحضرت میر صاحب صدیق شیخ بھی ہیں اور  راز دارِشیخ بھی ۔۔۔ جتنی حضرت والا کی باتیں حضرت میر صاحب دامت برکاتہم کےعلم میں ہیں اُتنی کسی کے پاس نہیں ۔۔حضرت  ۴۶ برس شب و روز حضرت والا رحمہ اللہ کی صحبت  میں رہے ہیں، اور جیسی محبت حضرت والا رحمہ اللہ ہمارے شیخ و مرشد سے فرماتے  تھے ایسی کسی سے نہیں تھی خود حضرت والا رحمہ اللہ نے ایک موقع پر فرمایا تھا۔۔۔ "اس کا سب کچھ میں ہی ہوں اس کی ساری محبتیں ماں باپ کی سب میرے اندرلئے ہیں"  اور فرمایا تھا: " عشرت مجھ سے سب سے زیاہ محبت کرتا ہے" یہ بھی فرمایا تھا: " ۔۔۔ لیکن میں کیا کروں یہ مجھے چھوڑنے پر قادر نہیں ہے اور راز کی بات بتاتا ہوں کہ میں بھی اس کو چھوڑنے پر قادر نہیں"

پھر دوبارہ ممتاز صاحب نے پڑھنا شروع کیا۔۔حضرت مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوریؒ کاطرزِ عمل

میرے شیخ عجیب وغریب حالات تھے یہاں تک کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کہنا پڑاکہ اے پھولپور والو! مولانا کے مدرسے کو چندہ دو، ان کانام عبدالغنی ہے۔ یہ کسی سے نہیں کہیں گے کہ تم چندہ لاؤ۔ لیکن یاد رکھو اگر تم لوگوں نے چندہ نہ دیا تو تمہاری گردن قیامت کے دن پکڑی جائے گی۔۔۔۔

۲۵ منٹ ۵ سیکنڈ: یہاں پر حضرت اقدس میر صاحب نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت والا رحمہ اللہ ایسےشیخ کے تربیت یافتہ تھے۔۔۔تو وہی رنگ کیسے نہ منتقل ہوتا۔۔۔حضرت نے اتنا مٹایا اپنے کو شیخ کے سامنے کہ وہ رنگ۔۔۔ مٹنےہی سے۔۔۔ چڑھ جاتا ہے۔۔حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کا پورا رنگ ہمارے حضرت والا کے اندر تھا۔۔۔

مولانا بشارت علی صاحب جو کہ  حضرت پھولپوری رحمہ اللہ اور حضرت ہردوئی رحمہ اللہ کے خلیفہ تھے وہ  حضرت والا سے فرماتے تھے کہ " ہم لوگ تو ایسے ہی رہ گئے۔۔۔سارا مال حضرت پھولپوری   کا آپ نے لوٹ لیا" تو جس کی تربیت ایسی شیخ ِ کامل سے ہوئی ہو تو اُن پر کسی استغناء کی شان نہ ہوگی۔۔

ممتاز صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔۔جہاں پستی ہوتی ہے پانی اسی جگہ آ جاتا ہے اس لئے جو تواضع سے رہتا ہے اسی کو اللہ ملتا ہے اور جو اکڑ کر رہتا ہے، اہل اللہ سے مستغنی رہتا ہے اس کو اللہ نہیں ملتا۔

واقعی میں نے ساری زندگی دیکھا کہ کبھی کسی سیٹھ سے سوائے دردِ دل اور اﷲ کی محبت کی باتوں کے ان کی زبان سے پیسے کانام نہیں سنا۔اگر کوئی اس زمانے کا شمس الدین تبریزی ہو سکتا تو وہ شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ ہوتے۔

۲۸ منٹ ۳۰ سیکنڈ: یہاں پر حضرت اقدس میر صاحب نے نہایت جذب آبدیدہ لہجے میں فرمایا: "ہمارےحضرت والا اس دور کے شمس الدین تبریزی بھی تھے ،مولانا رومی بھی تھے،فرید الدین عطار بھی تھے۔۔مولانا گنگوہی بھی تھے۔۔۔حضرت تھانوی بھی تھے۔۔۔ تمام اولیاء اللہ کامجموعہ تھے۔۔۔ابھی ہم لوگوں سے پہچانا نہیں۔۔۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا۔۔۔تب لوگوں کو پتہ چلے گا۔۔۔اور حسرت ہوگی۔۔۔کیسی عظیم شخصیت ۔۔۔ہمارے درمیان سے گزر گئی۔۔۔اور ہمیں پتہ بھی نہ چلا۔۔۔پھر یہ مصرع پڑھا؛

ایسی چنگاری بھی یارب میرے خاکستر میں تھی ۔۔۔ اور فرمایاچنگاری کیا وہ تو آگ کا دریاتھے۔۔۔امت جو اس وقت بالکل خاک ہوچکی۔۔۔اس میں سے کتنا عظیم الشان بندہ اللہ تعالی نے پیدا فرمایا۔۔۔بقول مولانا عبد الحمید صاحب کے" ہزار سال پہلے اولیاء اللہ کا قافلہ جا رہا تھا۔۔ وہ گزر گئے۔۔اور انہوں نے ایک اپنا نمایندہ چھوڑ دیا۔۔۔جو تھا تو ہزار سال پہلے کا ۔۔۔۔لیکن اس زمانے میں آیا۔

گویا ہزار سال پہلے کے جو اولیاء اللہ تھے۔۔۔اُس کی حضرت مثال تھے۔۔۔بالکل وہی تقوی ، وہی ولایت ، وہی خشیت، وہی خوف۔۔۔ جو ہزار سال پہلے اولیاء اللہ میں ہوتا تھا۔۔۔وہ حضرت والا کے اندر تھا۔۔۔اس زمانے کے حضرت آدمی ہی نہیں تھے۔۔۔حضرت والا تو ۱۴۰۰ برس پہلے کے آدمی تھے۔۔۔کوئی سرِ مو  )یعنی ذرا برابر(  انحراف شریعت کے اصولوں سے کسی مصلحت کی خاطر کبھی بھی نہیں کیا۔۔۔شریعت کے ادنی سے ادنی حکم کوکبھی حضرت والا نے نظر انداز نہیں فرمایا۔۔

حالانکہ حضرت والا پراستغراق اور کیف و مستی کی کیفیت رہتی تھی ۔۔ اللہ کی محبت میں ڈوبے رہتے تھے۔۔  جب خاموش بھی ہوتے تھے۔۔۔اُس وقت بھی ایسا معلوم ہوتا تھا۔۔۔کہ گویا حضرت اللہ تعالی کے سامنے بیٹھے ہیں۔۔اور دیکھ رہے ہیں۔۔

پھر حضرت والا میر صاحب نے ایک دودھ والے کا  واقعہ بیان فرمایاکہ وہ جمعہ کی اذان کے بعد دودھ دے گیا ۔۔۔تو۔ حضرت والا نے اُس کو تنبیہ فرمائی تھی ۔۔۔

یعنی دین کے معاملے میں اس قدر چاک و چوبند اور بیدار اور ویسے اللہ تعالی کی یاد میں غرق۔۔ یہ حضرت والا کی شان تھی۔۔

ممتاز صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔۔بعض مہتمم حضرات کے طرزِ عمل پر نکیر:

جتنی چادر ہے اتنے پاؤں پھیلاؤ، جتنی استطاعت ہے اس کے بقدر دین کا کام کرو۔ یہ کیا کہ طلباء سے مدرسہ بھر لیا اور چندے کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں، جو مالدار آیا اس سے کہا:دیکھو! اس سال طلباء زیادہ لے لئے ہیں، بجٹ میں پیسے بھی نہیں ہیں ذرا مدرسہ کا خیال رکھنا، یہ کیا ہے؟ اگر دل میں نسبت مع اﷲ نہیں ہے تو بجائے اللہ کی محبت کے درد کے تمہاری زبان سے طلبِ زر اور مال کی طلب نکلے گی۔۔۔

بس۔ دوستو ہم نے تواپنے شیخ سے یہ سیکھا ہے کہ پیٹ میں چٹنی روٹی ڈال لو مگر اہلِ مال سے مستغنی رہو۔ میں واللہ کہتا ہوں جو مہتمم کتنا ہی بڑا خلیفہ ہو لیکن اگر کبھی اس نے مالداروں سے چندہ کے لیے کہا تو اس سے دین کی بات لوگ نہیں سنیں گے،بلکہ صورت دیکھتے ہی ڈر جائیں گے کہ آگئی کالی بلا، یہ پھر کچھ مانگے گا۔

بس اللہ کی محبت سکھا نے کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردو، شعبہ تزکیہ نفس بہت حساس مضمون ہے۔ اللہ کی محبت سکھا نابہت حساس مضمون ہے یہ اتنا نازک مضمون ہے، یہ اتنا مبارک مضمون ہے کہ اس کے ساتھ چندہ اور طلب زر جمع نہیں ہو سکتے۔

بتائیے اگر دن بھر کوئی چندہ مانگے اور کسی رئیس سے کہے کہ میر ا بیان کراؤ تو رئیس سنے گا اس کی بات؟ رئیس تو کیا عوام بھی ایسے مولوی کی بات نہیں سنتے۔

۳۴ منٹ ۴۸ سیکنڈ پر: یہاں پر حضرت والا نے ازراہ شفقت ارشاد فرمایا کہ "بس اب مجلس برخاست ۔۔۔ خواتین آتی ہیں دور سے ،۸ بجے سے بھی پہلے بعضی آجاتی ہیں۔۔۔بہت دیر ہوجاتی ہے۔۔۔  بیچاری تھک جاتی ہیں ۔۔۔بس اُن کی رعایت سے مجلس جلدی ختم کرنے کا ارادہ ہے۔"

یہاں پر یہ پر نور مجلس اختتام کو پہنچی.

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries