مجلس۵ نومبر۲۰۱۳ء۔ اصل وفاداری خونِ آرزو ہے

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے شروع میں حضرت والاکے اشعار سنائے۔۔۔حضرت والا نے اشعار کی تشریح فرمائی۔۔۔پھر ممتاز صاحب نےخزائن معرفت ومحبت صفحہ نمبر۴۰۲سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔۔ایک عالم کا افسوسناک واقعہ۔۔۔علمائے کرام کے لیے آبِ زر سے لکھنے کے قابل بات۔۔۔اِستغناء کی برکات کا واضح ثبوت۔۔۔۔اﷲ والوں سے چندے کی سفارش کرانے کی قباحت۔۔۔اہل اﷲ کی اصل میراث اُن کا دردِ دل ہے۔۔۔۔سارا عالم حضرت والا کے دردِ دل کا قدر دان ہے۔۔۔شیخ کے ساتھ معاملہ کا ایک سبق۔۔۔۔حضرت والا کی شانِ استغناء۔۔۔مدرسۃ البنات سے متعلق ضروری ہدایات۔۔۔۔مجلس تقریبا ۵۵ منٹ کی بہت مفید ہوئی اور شروع میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار اور ہمارے حضرت والا دامت برکاتہم کی عاشقانہ تشریح اور حضرت والا کی ایمان افروز   شیرانہ زندگی کی جھلک نے اس مجلس کو یادگار بنادیا۔۔!

الحمدللہ حضرت والا دامت برکاتہم شروع ہی سے مجلس میں رونق افروز تھے ۔۔۔خُدام نے عرض کیا کہ مولانا ابراہیم کشمیری صاحب موجود ہیں۔۔۔حضرت والا نے اُن کو اشعار سنانے کا حکم دیا۔۔۔ حضرت کے حکم پر انہوں نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار سنانے شروع کیے، ساتھ ساتھ حضرت والا تشریح بھی فرماتے جاتے تھے۔۔۔

مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے حضرت والا کا دوسرا مجموعہ ء  کلام" آئینہ محبت" سے یہ اشعار باعنوان"مقام اہل دل کو آہ کب ناداں سمجھتے ہیں" پڑھنا شروع کیے۔

دل گریہ ہے سینے میں تو کیوں خنداں سمجھتے ہیں

مقام ِ اہلِ  دل  کو   آہ   کب   ناداں   سمجھتے   ہیں

۲ منٹ ۵ سیکنڈ: حضرت والا نے مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا: " یعنی اہل اللہ کے لبوں  پر مسکراہٹ ہوتی ہے وہ بھی ہنستے ہیں۔۔۔مگر میں دل ہر وقت اللہ تعالی کی محبت سے جلتا رہتا ہے۔۔۔ہنسی بھی اُن کو اللہ نے غافل نہیں کرتی۔۔۔لیکن جو لوگ اُن کے مقام کو نہیں پہچانتے ۔۔۔ وہ نادان ہوتے ہیں۔۔۔یعنی کم عقل لوگ  جو اللہ کے راستے سے واقف نہیں۔۔۔اللہ کی محبت سے واقف نہیں۔۔۔تو وہ اُس کو نہیں پہچانتے اور سمجھتے ہیں کہ جو یہ ہنس رہے ہیں یہ بھی ہماری طرح ہنس رہے ہیں ۔۔۔جیسے ہم کھاتے ہیں یہ بھی کھاتے ہیں۔۔حالانکہ اُن لوگوں کی ہنسی میں ۔۔ حضرت والا کا یہ مصرع ہے " ذاکر کی ہنسی اور ہے غافل کی ہنسی اور۔

جو اللہ کو یاد کرتا ہے ہنسی میں بھی   یعنی اُس وقت بھی اس کو اللہ تعالی کا دھیان رہتا ہے۔۔۔ غافل نہیں ہوتا

پھر حضرت والا کی حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ انہوں  حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خلفاءکرام کو ایک بات پر خوب ہنسایا۔۔ پھر اچانک پوچھا ۔۔۔۔اس وقت کس کا دل سے غافل ہوگیاتھا ۔۔۔ سب ادب کی وجہ سے خاموش رہے تو حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا: "خدا کی قسم اس وقت بھی میرا دل اللہ سے غافل نہیں تھا۔۔۔

اللہ والو ں کا دل اللہ کی محبت میں سینے میں تو۔۔۔ رو  رہا ہے ۔۔۔ لیکن ہونٹ اُن کے ہنس رہے ہیں۔۔تو کیوں یہ نادان لوگ یہ سمجھتے ہیں ۔۔۔۔کہ یہ بھی ہماری طرح ہنس رہے ہیں۔۔۔اوریہ بھی اللہ نے غافل ہیں۔۔۔

اہل اللہ کے مقام کونادان لوگ نہیں جانتے۔۔۔اہل اللہ کو اہل اللہ ہی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ جیسے کوئی بہت بلند مقام پر ہے۔۔۔صاحب نسبت ہے۔۔۔دوسرا اُس مقام پر نہیں ہے۔۔۔لیکن کچھ نہ کچھ اُس کو خوشبو مل جاتی ہے۔۔۔لیکن جو غافل ہے اللہ سے۔۔ اللہ کی محبت کو جانتے ہی نہیں۔۔۔اُن کو کچھ پتہ نہیں چلتا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جیسے ہماری ہنسی ایسی ہی اِن کی ہنسی ہے۔۔۔ہم کھاتے پیتے ہیں ، ایسے یہ بھی کھاتے پیتے ہیں۔۔۔

اس کو مولانا رومی فرماتے ہیں اشقیا را دیدۂ بینا نبود ۔۔۔۔ بدبختوں کی آنکھ میں جو   ابوجہل   ابولہب تھے دیدہ بینا نہیں تھی۔۔۔یعنی اُن کے دل کی بصیرت اندھی تھی۔۔اور    نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود ۔۔۔اچھے اور بُرے اُن کو دونوں ایک ہی جیسے نظر آئے۔۔۔

اللہ تعالی ہم سب کو عقل عطا فرمائے کہ اہل اللہ کوپہچاننے کی توفیق دے۔۔۔۔ہمیں بھی اُن کا یہ مقام نصیب فرمائیں۔۔۔کہ دل کبھی اللہ سے غافل نہ ہو۔۔نہ ہنسی میں ۔۔۔نہ مذاق میں ۔۔۔نہ بازار میں۔۔نہ گھر میں۔۔نہ بیوی بچوں میں۔۔۔

حضرت والا کی عاشقانہ تشریح کے بعد مولانا ابراہیم کشمیری نےدوبارہ اشعار پڑھنے شروع کیے۔۔دل گریہ ہے سینے میں تو کیوں خنداں سمجھتے ہیں۔۔۔

۶ منٹ ۲۰ سیکنڈ: حضرت والا نے دوبارہ ارشاد فرمایا: "گریہ معنی رونے کے ہیں۔۔ اور خنداں معنی  ہنستا ہوا یعنی  جب روتا ہوادل سینے میں ہے۔۔تو اُسے کیوں ہنستا ہوا سمجھتے ہو؟۔۔۔

مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نےدوبارہ اشعار پڑھنے شروع کیے۔۔

کرے جو یاد  کو   تازہ   اڑا دے   خواب ِغفلت   کو

تو  ایسے  درد کو  ہم  حاصلِ درماں  سمجھتے  ہیں

۸ منٹ ۱۶ سیکنڈ: حضرت والا نے مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا: درماں معنی علاج۔یہ درد کا عکس ہے ایک  درد ہوتا ہے۔۔مرض ہوتا ہے۔۔اور ایک اُس کا علاج ۔۔۔ اُس کو درماں کہتے ہیں۔۔

تو ایسا درد کسی کے دل میں پیدا ہوجائے۔۔اور مرض لگ جائے۔۔۔۔ جو اللہ کی یاد کو تازہ کردے۔۔۔بندہ اللہ کو یاد کرنے لگے۔۔اور خواب غفلت مطلب یہ نہیں کہ رات میں غفلت میں سوتا ہوا آدمی۔۔۔۔۔۔  خواب ِ غفلت یہ ہے کہ جو اللہ سے غافل ہے۔۔۔ایسی نیند میں ہے جو اللہ سے غافل کرتی ہے۔۔وہ اگر جاگتا ہوا بھی ہے۔۔تو بھی خواب ِغفلت میں ہی ہے۔۔یعنی اللہ کو بھول گیا ہے۔۔۔۔

حضرت فرماتے ہیں  کہ جو اللہ کی یاد کو زندہ کردے۔۔۔ ایسا دردِ دل پیدا ہوجائے۔۔۔۔اورایسا جس کو کہتے ہیں کہ۔۔ یہ پاگل ہوگیا ہے ۔۔پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔تو بظاہر اہل دُنیا کی نظر میں پاگل ہو ۔۔۔ لیکن وہ پاگل نہیں ہوتا۔۔بلکہ اصل ہوشیا ر اور عقل مند وہی ہوتا ہے۔۔۔ جو اللہ کو پہچاننے والا ہوتا ہے۔۔

تو ایسا درد کسی کے دل میں پیدا ہوجائے جو دل میں اللہ کی یاد کو پیدا کردے۔۔۔اور خواب غفلت کودور کردے۔۔اور خواب غفلت سے بیدار کردے۔۔یعنی اللہ تعالی کو بھلانے والی چیزوں سے علیحدہ کردے۔۔تو یہ ایسا مرض ہے جس کو ہم سینکڑوں علاجوں کا علاج سمجھتے ہیں۔۔۔کہ حاصل ہے وہ علاجوں کا ۔ کیونکہ یہی وہ درد ہے۔۔۔جو لاکھ داوئوں سے بہتر ہے۔۔۔

مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نےدوبارہ اشعار پڑھنے شروع کیے۔۔

وفا داری کرے  جو پیش  اپنے خون ِ ارماں  سے

تو اُس کے قلب کوخورشید سے تاباں سمجھتے ہیں

۱۱ منٹ ۴۷ سیکنڈ: حضرت والا نے مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا:" اللہ تعالی کے ساتھ اصل وفاداری صرف تلاوت و ذکر، تہجداور اشراق نہیں ہے۔۔ثواب کا کام ہے۔۔لیکن اصل وفاداری کیا ہے؟۔۔۔ ذکر و تلاوت میں۔۔۔۔ تہجد اور نوافل میں تو نفس کو بھی مزا آتا ہے ۔۔۔ دل کو بھی مزا آتا ہے۔۔اللہ کے سامنے سر رکھنے میں ۔۔۔اللہ کو یاد کرنے میں ۔۔۔لیکن اصل وفاداری کیا ہے؟۔۔۔کہ جب دل کوئی خواہش ایسی پیدا ہو۔۔کہ جو اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف ہو۔۔۔اور وہ اُس کا خون کردے۔۔ ارمان  اُسی کو کہا۔۔یعنی آرزو۔۔اُس آرزو کو جو اللہ کی مرضی کے خلاف تھی۔۔۔اُ س کو خون کیا ۔۔۔ تو یہ اُس نے اصل وفاداری پیش کی۔۔

اصل وفاداری یہ ہے ۔۔۔ اللہ کی مرضی کے خلاف جو خواہشات و آرزوئیں اور تقاضے دل میں پیدا ہوئےان کو کچل ڈالا ذبح کرڈالااور غم اٹھالیا اُس کا۔۔۔ تو فرماتے ہیں کہ اُس کے قلب کو خورشید سے تاباں سمجھتے ہیں" خورشید معنی سورج۔۔

جس وقت سورج نکلتا ہے۔۔طلوع ہوتاہے۔۔تو پہلے پورا افق لال ہوجاتا ہے۔۔تو فرمایا اسی طرح۔۔جب اللہ تعالی ملتے ہیں۔۔۔تو پہلے خون آرزو سےاُس کے قلب کا مطلع ۔۔۔اُس کے قلب کا افق کو لال کردیتے ہیں ۔۔پھر اللہ تعالی کے قرب کا آفتاب اُ س سے طلوع ہوتا ہے۔۔۔)سب حاضرین نے زور سے سبحان اللہ کہا(۔۔۔اس پر حضرت والا نے نہایت فنائیت اور تواضع سے فرمایا" سب باتیں حضرت والا سے سنی ہیں۔۔حضرت والا کی ہیں۔۔۔ہم تو صرف نقل کررہے ہیں۔۔۔ہمیں بھی اللہ یہ نصیب فرمائے۔"

مزید ارشاد فرمایا: اللہ والوں کا دل تو خورشید سے بھی تاباں ہوتا ، سورج تو صبح کو طلوع ہوا پھر شام کوغروب ہوجاتا ہے۔۔لیکن اللہ والوں کے دل میں جو سورج  خون ارماں، خون ِ آرزو سے طلوع ہوتا ہے۔۔یہ کبھی غروب نہیں ہوتا ۔۔۔بندے اپنے دل میں لے کر قبر میں جاتا ہے۔۔اور قبر بھی نور سے بھر جاتی ہے۔۔اور اُس سے اگے جتنے منازل ہیں سب میں نور ہی نور پھیل جاتا ہے۔۔۔

مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نےدوبارہ اشعار پڑھنے شروع کیے۔۔

گناہوں میں تو ذلت اور رسوائی  کا  خطرہ  ہے

مگر تقوی کی نعمت کو تو ہم آسان سمجھتے ہیں

۱۶ منٹ ۲۶ سیکنڈ: حضرت  میر صاحب دامت برکاتہم  نے مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا: حضرت والا نے فرمایا کہ گناہوں کا ماضی حال اور مستقبل سب پریشانی سے گھرا ہوا ہوتا ہے۔۔۔ہر گناہ جو ہے اُس کا ماضی بھی پریشان کن ۔۔۔ اُس کا حال بھی پریشان کن ۔۔او  راُس کا مستقبل بھی پریشان کن۔

ماضی یہ کہ جس وقت وہ گناہوں کی اسکیم بناتا ہے۔۔کہ میں فلاں یہ گناہ کروں گا۔۔۔تو اُسی وقت دل میں کھٹک پیدا ہوجاتی ہے۔۔کہ ممکن ہے پکڑا جائوں۔۔ممکن یہ جو میں اسکیم بنارہا ہوں اس میں کامیابی نہ ہو۔۔جوتے پڑ جائیں۔۔۔اور حال میں بھی یہ خطرہ رہتا ہے۔۔۔کہ جس وقت وہ گناہ کرتا ہے۔۔تو یہ خطرہ ہوتا ہے۔۔ کہ کوئی دیکھ نہ لے۔۔۔اس کے وارثین  کو خبر نہ ہوجائے کہ اس نے ایسی بری حرکت کی ہے فلاں کے ساتھ۔۔۔

جس وقت گناہ کرتا ہوا ہوتا ہے۔۔۔اُس وقت بھی دل پریشان ہوتا ہے۔۔اور جب گناہ کرچکتا ہے۔۔پھر مستقل میں پریشان رہتا ہے۔۔۔کہ ممکن ہے کوئی مجھ سے آکر انتقام نہ لےلے۔۔۔بس اسی خوف میں وہ رہ جاتا ہے۔۔

تو گناہوں میں تو ذلت اور رسوائی کا خطرہ ہے۔۔۔۔ہر گناہ میں ذلت اور رسوائی چھی ہوئی ہے ۔۔ اُس کی بنیاد میں ذلت اور رسوائی ہے۔۔۔اگر اللہ تعالی پردہ پوشی نہ فرمائیں۔۔۔تو گناہوں کے عادی پر کوئی تھوکنا بھی پسند نہ کرےاور پتھر ماریں۔۔

یہ تو اللہ تعالی پردہ پوشی فرماتے ہیں۔۔۔اس سے ہم لوگ بچے ہوئے ہیں۔۔۔لیکن ہر گناہ اپنے اندر رسوائی رکھتا ہے۔۔۔اور ہر وقت خطرہ ہوتا ہے۔۔۔

اور تقوی کی نعمت ایسی ہے۔۔کہ جو تقوی سے رہتا ہے وہ خوش بھی رہتا ہے۔۔ اور آسان اُس کی زندگی ہوتی ہے۔۔۔نہ کوئی کھٹک۔۔ نہ کوئی خطرہ۔۔۔نہ کوئی غم۔۔اللہ تعالی کی تجلیات میں مست ہوتا ہے۔۔اس لیے کہ  وہ کوئی جرم نہیں کرتا ۔

اور جو جرم کرتا ہے۔۔اس کو انگریزی میں کہتے Guilty Conscience یعنی وہ اپنے آپ کو خود قصور وار اور مجرم سمجھتا ہے۔۔اُس کے لاشعور میں یہ بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔کہ میں نے بُرا کام کیا ہے۔۔اس سے وہ ڈرتا رہتا ہے۔۔۔ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔۔ کہ یہ جو فلاں شخص آرہا ہے۔۔ممکن ہے کہ مجھ سے انتقام لے لے۔

اور تقوی کی نعمت ایسی ہے۔۔کہ آدمی بے غم اور مست رہتا ہے۔۔۔اُسے کوئی غم نہیں ہوتا۔۔۔کیونکہ اُس کو Guilty Conscienceنہیں ہوتا۔۔ جو گناہ نہیں کرتا ہے۔۔۔اس لیے اُس کے دل میں اطمینان ہوتا ہے۔۔

أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ   اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔۔اور جو بات ذکر کے خلاف ہووہی گناہ ہے۔۔اُس میں چین کہاں مل سکتا ہے۔۔وہ تو عکس ہے اس کا۔

جو  گناہ کر ے گا۔۔۔بے چین رہے گا۔۔اور جو اللہ تعالی کو یاد کرے گا۔۔۔اللہ تعالی کی فرماں برداری کرے گا۔۔چین سے رہے گا۔۔۔اللہ تعالی کا وعدہ ہے قرآن پاک میں۔۔۔

اس عاشقانہ تشرِیح کے بعد  مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نےاشعار کا تسلسل  دوبارہ جوڑا۔

خوشی کو چھوڑ دے اپنی اگر ہونا خوشی اُن کی

تو اس  ہمت  کو  اختر  ہمتِ شیرا  سمجھتے  ہیں

۲۳منٹ: فرمایا کہ یہ مندرجہ حضرت والا کی زندگی کی تاریخ ہے۔پوری زندگی حضرت والا نے نفس کے ساتھ جنگ و جدل میں گزار دی۔۔۔ کہ جہاں بھی اللہ تعالیِ کی مرضی کے خلاف کوئی بات ہوئی۔۔وہاں اپنی خوشی کو قربان کردیا۔۔یہ دن رات دیکھتے تھے۔۔۔

آپ خود سوچئے۔۔سائوتھ افریقہ کے سفر میں حضرت والا نے فرمایا تھا۔۔۔۔ حالانکہ یہ باتیں نکلتی نہیں ہے اہل اللہ کے زبان سے لیکن حب اللہ تعالی چاہتے ہیں تو نکلوادیتے ہیں تاکہ لوگوں کی آنکھیں کھل جائیں۔

تو حضرت والا نے فرمایا تھا۔۔۔کہ مجھے جو کچھ ملا ہے۔۔نظر کی حفاظت سے ملا ہے۔۔اور حضرت نے فرمایا کہ نظر کی حفاظت میں ہر سانس دل کا خون ہوتا ہے۔۔۔

اور حضرت والا نے فرمایا تھا کہ میرا مزاج بچپن ہی سے عاشقانہ تھا۔۔۔اور حسن پرستی کا مادہ بچپن ہی سے تھا میرے اندر ۔۔۔ لیکن حضرت والا نے فرمایا کہ اس عاشقانہ مزاج کے باوجودمجھ سے کبھی زندگی میں ایک دفعہ بھی لغرش نہیں ہوئی۔۔۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔۔۔ کہ جس کا مزاج اتناعاشقانہ ہو۔

ابھی حضرت والا بالغ بھی نہیں ہوئے تھے بچپن ہی سےاللہ تعالی کو یاد فرمانے لگے۔۔۔اُسی وقت سے اللہ تعالی کی یاد میں بے چین رہنے لگے۔۔۔کہ یہ زمین وآسمان کس نے بنائے ۔۔۔ یہ چاند و سورج کس نے بنائے۔۔اور یہ جو خواہشات تھیں توشیخ کا دامن پکڑلیا۔۔اور ۱۶ سال جنگل میں۷۰ سالہ شیخ کے ساتھ زندگی گزاری۔۔اور اپنے نفس کی خواہشات کواس طرح حضرت والا نے دبایا ہے۔۔

اور یہ جو فرمایا کہ   " ہم اس کو ہمت شیراں سمجھتے ہیں" حضرت والا واقعی اللہ کے شعر تھے۔۔۔کبھی ایک لمحے کو بھی اللہ سے غافل نہیں ہوئے گناہ تو بڑی چیز ہے۔۔اتنی عرصے حضرت کے ساتھ رہا ایک لمحے کو بھی ۔۔ حضرت کو اللہ تعالی سے غافل نہیں دیکھا۔۔۔بلکہ یہی پایاکہ جو خواجہ صاحب نے فرمایا تھا

جو اُ ن کی خوشی ہے وہی اپنی بھی خوشی ہے

جا دل تجھے چھوڑا کہ جدھر وہ ہیں  اُدھر  ہم

جس طرف اللہ تعالی کی خوشی ہے اُدھر ہم بھی ہیں۔۔دل کی خواہشات کا خون کرنا۔۔یہ آسان نہیں ہے۔۔

حضرت والا کی برکت یہ میرا یہ شعر ہوگیا تھا۔۔حضرت والا کو بہت پسند تھا ابراہیم کشمیری سے ایک دفعہ فرمایا تھاکہ یہ روزانہ مجھے سُنایا کرو۔۔

خود اپنی  تمنائوں  کا خون کرنانہیں کام اے دل ہے  یہ   ہیجڑوں   کا

حسینوں سے نظریں بچا کر تڑپنایہ ہیں شیر مردوں کی ہمت کی باتیں

عام آدمی کا کا تھوڑی ہے یہ۔۔۔ یہ اللہ تعالی کے شیروں کا کام ہے۔۔۔

پھر حضرت نے فرمایا : " حضرت والا رحمہ اللہ بہت حسین و جمیل تھے۔۔۔ جوانی میں کیا حال ہوگا۔۔جب کہ بڑھاپے میں دیکھا۔۔۔ پھر ایک واقعہ بیان فرمایا: " کہ تقوی کا یہ حال تھا۔۔۔۔ ڈاکٹر ندیم صاحب داماد حضرت مولانا مظہر صاحب  ۔۔۔ حضرت والا سے مرید تھے اُس وقت عمر بھی ۲۵ سال تھی۔۔لیکن ڈارھی نہیں آئی تھی۔۔تو اُن کو اجازت نہیں تھی۔۔کہ وہ حضرت سے آکر کے بات کریں۔۔بلکہ فرمایا تھا کہ اصلاحی مکاتب کرو۔۔ وہ میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے۔۔۔اُس وقت تک حضرت مولانا مظہر صاحب کے داماد نہیں ہوئے تھے۔۔۔

ڈاکٹر ندیم صاحب فرماتے تھے کہ کبھی کبھی مجھے بہت ضرورت ہوتی تھی ۔۔ زبانی بات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔۔۔تو کسی سے حضرت والا کہلوادیا تو حضرت والا نے فرمایا :"اچھا ایک آدمی کو ساتھ لے کر آئیں پھر مجھ سے بات کریں۔۔۔ڈاکٹر ندیم نے خود فرمایا :کہ حضرت والا میرے طرف سے پشت کر کے بیٹھ جاتے تھے۔۔۔اور جو کچھ کہنا ہوتا ہے میں کہتا تھا۔۔یا پرچے پر لکھ کر دے دیتا تھا۔۔۔حضرت اُس کا جواب دے دیتے تھے۔۔۔"

اور جب شادی بھی ہوگئی۔۔ مولانا کے داماد بھی ہوگئے اور عمر بھی کافی ہوگئی۔۔اب کوئی نمک یعنی  حسن وغیرہ کچھ رہا نہیں تھا۔۔۔۔حضرت والا کی اسی بیماری کے دوران آج سے پانچ سات سال پہلے کی بات ہے کہ ڈاکٹر ندیم حیرت سے کہہ رہے تھے۔۔کہ" میں حضرت کی حفاظت نظر سے تعجب میں رہ گیا۔۔۔جب حضرت کی مجھ پر نظر پڑی  تومجھ سے  فرمایا کہ اچھا  ڈاکٹر ندیم تمہاری آنکھیں بھی میری جیسی نیلی ہیں"

اب تک حضرت کو یہ ہی خبر نہیں تھی کہ اس کی آنکھیں کیسی ہیں۔۔۔حالانکہ وہ احتیاط کرنے حد  سے نکل گئے تھے۔۔۔بیوی بچے بھی ہوگئے تھے۔۔۔

حضرت والا میر صاحب نے فرمایا: کہ جب میں شروع میں حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوا۔۔۔تو حضرت والا نے ایک عالم کا واقعہ سنایا تھا  ۔۔۔حضرت  نے اپنا نام تو نہیں بتایا۔۔مگر میں سمجھ گیا کہ یہ واقعہ حضرت والاکے علاوہ کسی اور ۔۔۔کا نہیں ہے۔۔۔حضرت والا اپنے آپ کو چھپا گئے۔

حضرت نے سنایا تھا کہ" ایک عالم تھے نوجوان کسی اپنے دوست کی شادی میں تشریف لے گئے تھے۔۔۔تو عورتوں کی عادت عموماً تاکنے جھاکنے کی ہوتی ہے۔۔تو کسی اور عورت نے ان عالم کو دیکھ لیا۔۔ اور اس پر عاشق ہوگئی۔۔۔رات کو جب یہ عالم تنہا اپنے کمرے میں لیٹے ۔۔۔ تو وہ لڑکی نہایت حسین و جمیل۔۔۔وہ آگئی۔۔۔اور اُس نے گناہ کی دعوت دی۔۔۔تو اُن عالم نے کہا کہ یہاں سے فوراً بھاگ جا۔۔۔ مجھے دوزخ کی آگ کی شدت مجھے اس لذت کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتی۔۔۔"

حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ جب میں یہ جملہ سناتو میں نے کہاکہ یہ اردو اور یہ فضاحت یہ درد حضرت والا کے علاوہ کسی اور کانہیں ہوسکتا۔۔۔حضرت والا نے اپنے آپ کو چھپا دیا۔۔۔لیکن اسی تقوی کی برکت سے  پھر سارے عالم میں حضرت والا کا شہرہ ہوگیا۔۔۔

یہ حسن پرستی ، عشق مجازی ، بدنگاہی  کا مرض کے معالجات یہ کارِ تجدید ہے حضرت والا ،مجددانہ کا م ہے۔ یہ حضرت کا کارِتجدید ہے۔۔۔ حضرت کی زندگی بھر کا مشن ہے۔۔۔جب سے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔۔۔ سن ۱۹۶۹ ء میں ۔۔۔اور اب جب حضرت کی وفات ہوئی۔۔۔یہی مضمون بیان ہوتا تھا کہ نظر کی حفاظت کرو۔۔

حضرت والا نے حکم پر ممتاز صاحب نے ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔۔۔۔۔ایک عالم کا افسوسناک واقعہ۔۔۔جن کے نزدیک اس طرح سوال کرنا جائز ہے وہ جانیں مگر اخترؔ نے جو اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے کہ اُمراء کے سامنے استغنا سے رہو۔۔۔

علمائے کرام کے لیے آبِ زر سے لکھنے کے قابل بات۔۔۔آپ بتائیے! سندھ بلوچ سوسائٹی کراچی میں ڈیڑھ سال تک زمین کے اوپر آسمان کے نیچے روزانہ دوستوں کے ساتھ نوافل پڑھ کر دعا کی کہ یا اﷲ یہاں خانقاہ کے لیے کوئی یزمین دلوا دیجئے جہاں اﷲ کا نام لوں اور دوستوں کو تصوف اور آپ کی محبت سکھاؤں۔ مگر میں نے اس کے لئے کوئی اعلان نہیں کیا کہ مجھے خانقاہ کے لیے پیسے دو۔

 میں نے علماء کو بتائے کہ عزت ِنفس ا ورعظمتِ دین سے کام کر و یہ دو لفظ یاد کر لو، ڈائری میں نوٹ کر لو کہ عزت ِنفس اور عظمت ِدین۔ کوئی تمہارا خاص سے خاص بھی ہو، اس سے بھی نہ کہو تجربہ یہی ہے کہ جو مستغنی رہتا ہے لوگ اس کے دردِ دل کی بات سنتے ہیں۔۔۔

اِستغناء کی برکات کا واضح ثبوت:کتنے سال سے میں جنوبی افریقہ جا رہا ہوں۔ کتنے بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں۔ لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کبھی میں نے بتایا ہو کہ میر ا ایک مدرسہ بھی ہے۔ یہی میں نے شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ سے سیکھا ہے۔

۔۔۔اور میرے بزرگوں کی برکت ہے کہ جنوبی افریقہ میں تربیت یافتہ کتنے لوگ اس ذوق کے نتیجے میں میرے ہاتھ پر داخلِ سلسلہ ہوئے میں اللہ تعالیٰ کا شکر گذار ہوں اور اپنے بزرگوں کی دعاؤں کا صدقہ سمجھتا ہوں۔

اﷲ والوں سے چندے کی سفارش کرانے کی قباحت: میں نے اپنے ایسے دوستوں سے کہا کہ مجھے چندے کے لئے مجبور نہ کرو، مجھ سے کہو بھی مت کہ اتنے روپے کا انتظام کردو۔ اس بات سے میرے قلب کو اختلاج شروع ہوجا تا ہے، میرے مزاج کو سخت دھچکا لگتا ہے، کیونکہ جب میں اپنے لئے ہی چندہ نہیں کر تا تو دوسروں کے لیے کیوں ذلت اُٹھاؤں؟

اہل اﷲ کی اصل میراث اُن کا دردِ دل ہے:اللہ کے لئے کوئی مجھ سے رقومات اور مالیاتی گفتگو نہ کرے کہ میرے لئے اتنا انتظا م کرو، جو میں نے زندگی بھر سیکھا، اللہ کی محبت سیکھی، یہ مجھ سے سیکھنا ہے تو میرے ساتھ رہو ورنہ مجھے متروکِ عنادل قرار دے دو۔۔۔

وہ میراث حاصل کرو جو اخترنے اپنے بزرگوں سے پائی ہے۔ پیسہ اور ساری دنیا، پوری کائنات اگر اﷲ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر ہوتی تو خدا کسی کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا۔۔

آج مچھر کا پر مجھ سے مانگ رہے ہو۔ میرے ساتھ سفر کر کے دیکھو کہ دریاؤں کے کنارے، تالابوں کے کنارے، درختوں کے جھرمٹ میں صحراؤں میں اور پہاڑوں کے دامنوں میں میں نے اﷲ کا نام لیاہے یا سیٹھوں سے مچھر کا پر طلب کیا ہے؟ سچ کہتا ہوں کہ جو مزہ مجھے صحراؤں میں آتا ہے وہ مجھے شہر میں نہیں آتا۔۔۔۔

سارا عالم حضرت والا کے دردِ دل کا قدر دان ہے۔۔۔ایڈمنٹن والوں سے میں نے کہا جو کینڈا کا بڑا شہر ہے۔ میں تم سے چندہ مانگنے نہیں آیا ہوں۔ ہم تمہارے لئے ایڈ من یعنی دل کی امداد لایا ہوں، ایڈمعنیٰ مدد اور من معنیٰ دل اور ٹن معنیٰ خوشی۔ ایڈمنٹن میں تمہارے دل کی خوشیوں کا ایڈ یعنی امداد لایا ہوں۔

میں اللہ کی محبت سکھانے آیا ہوں۔ میرے دردِدل کو غنیمت جان لو۔ مجھے اس سے نیچی چیزوں پر مت مجبور کر و، کیونکہ میں عزت نفس اور عظمت دین پر عمل کر تا ہوں، جنوبی افریقہ کے علماء کو یہی دو لفظ سکھائے کہ عزت نفس اور عظمت دین کے ساتھ جتناکام کر سکو کرو ورنہ کام نہیں کرو۔

شیخ کے ساتھ معاملہ کا ایک سبق:میں نے ایک دفعہ حضرت والا ہر دو ئی سے عر ض کیا کہ حضرت دعا فرما دیجئے کہ میر اقرضہ ادا ہوجائے۔۔۔ دوسری دفعہ لکھا تو وہاں سے بڑا کڑوا جواب آیا کہ خبردار! آئندہ سے اب مت لکھنا، دعا کے لئے بھی مت لکھنا۔ میں حیران رہ گیا کہ یہ عجیب جلالی شیخ ہے، لیکن معلوم ہو ا کہ واقعی شیخ کو باربار نہیں کہنا چاہیے۔۔۔۔۔

اگر کسی کے پاس ایک کروڑ کا موتی ہے تو اس سے ہلکی اور ادنیٰ چیزیں مت مانگو۔ عزت نفس اور عظمت دین کی خاطر اپنے شیخ کو، اپنے بڑوں کو مجبور مت کرو جس کی وجہ سے ان کی زبان تمہاری محبت میں مغلوب ہو کر کہیں کھل نہ جائے اس سے بہتر ہے کہ مدرسہ کم کر دو اور استطاعت نہ ہو تو کام نہ کر و۔ جھونپڑی میں رہ کر دین کا کام کرومگر کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاؤ۔

حضرت والا کی شانِ استغناء؛ میں نے اپنے شیخ سے یہی سیکھا ہے۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ مجھے سارے عالم میں لے چلو بس مالیاتی معاملے میں مجھے مت اُلجھاؤ

مجھ سے جنوبی افریقہ میں میرے بعض پیر بھائیوں نے کہا کہ آپ چندے کے لیے کسی سے نہ کہیے مگر ہم آپ کے مدرسہ کے لیے چندہ کر تے ہیں۔ میں نے کہا کہ میری موجودگی میں آپ ہرگز ایسا نہ کریں۔ لوگ کہیں گے کہ یہ خود تو منبر پر خامو ش ہے، اللہ کی محبت کا درد سکھا رہا ہے لیکن اپنے ایجنٹ چھوڑے ہوئے ہیں جو مال گھسیٹ رہے ہیں۔۔۔

میں نے کہا یہ میرا کمال نہیں یہ شاہ عبدالغنی کاکمال ہے۔ کیا کہیں! اُنھوں نے اپنی آہ و فغاں کے سوا کبھی کسی سے اس قسم کی گفتگو نہیں کی۔ لیکن اللہ نے ا ن کی عزت رکھی۔ اللہ کی رحمت سے مدرسہ چلتا رہا اگر چہ غریب تھا۔ مگر اس غریبی سے جو لوگ پیدا ہوئے اور جو نور عطا ہو ا کیاکہنے۔۔۔

میرا ناشتہ مناجات مقبول، نماز اشرا ق اور میرے شیخ کا بتایا ہو اایک ہزار مرتبہ اللہ اللہ تھااور کوئی ایک قطرہ چائے نہیں دیتا تھا، باسی روٹی بھی نہیں ملتی تھی۔۔۔

لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ پورے مدرسے میں مجھے جو تجلیات و انوارات حضرت شاہ عبدالغنی کے نظر آتے تھے وہ کسی کو دکھائی نہ دیتے تھے۔

مدرسۃ البنات سے متعلق ضروری ہدایات: دارالاقامہ نہ قائم کیا جائے کہ احتیاط میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔مہتمم اور اولادِ مہتمم اور مرد استاد کے براہِ راست بات چیت کرنے سے مدرسۃ البنات کے بجائے عشق البنات میں ابتلا کا ندیشہ ہے۔۔۔مہتمم اپنی محرم یعنی بیوی یا والدہ اور بہن وغیرہ سے دریافتِ حالِ تعلیمی یا دریافتِ حالِ انتظامیہ کرے۔ اگر اتنی ہمت نہ ہو تو مدرسۃ البنات مت قائم کرو اور مدرسہ بند کردو۔ دوسروں کے نفع کے لیے خود کو جہنم کی راہ پر مت ڈالو۔

تجربہ سے معلوم ہوا کہ پردہ سے گفتگو کرنے والے بھی عشق مجازی میں مبتلا ہوگئے، لہٰذا سلامتی کی راہ صرف یہی ہے کہ خواتین سے ہر طرح کی دوری رہے۔۔

۵۳ منٹ۵۰ سیکنڈ : حضرت نے فرمایا الحمدللہ ہمارے بنات کے مدرسے میں دارالاقامہ نہیں ہے۔۔۔اور کوئی مرد بات نہیں کرسکتا اس معاملے میں بہت سختی ہے۔۔اور حضر ت مولانا مظہر صاحب کی اہلیہ صاحبہ اُن کے ذریعے سے سب انتظام ہوتا ہے۔ ۔ وہ مولانا تو بتاتی ہیں اور مولانا اُن کو ہدایات دے دیتے ہیں۔۔اور وہ استانیوں کو بتا دیتی ہیں۔۔

پھر حضرت والا چونکہ طویل مجلس کی وجہ سے تھک چکے تھے لہذا فرمایا کہاب مجلس برخاست کی جاتی ہے۔.

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries