مجلس۶ نومبر۲۰۱۳ء۔ اصلاح اخلاق

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:ممتاز صاحب نے شروع میں حضرت والاکے نعت شریف کے  اشعار سنائے۔۔۔حضرت والا نے اشعار کی تشریح فرمائی۔۔۔پھر ممتاز صاحب نےخزائن معرفت ومحبت صفحہ نمبر۴۱۱سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔۔اخلاقیات ۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ مبارک ۔۔۔حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق ۔۔۔کامل ایمان والا کون ہے؟ ۔۔۔عورتوں پر شوہر کے حقوق ۔۔۔شوہر اور بیوی میں مساوات کا مسئلہ کم عقلی کی دلیل ہے ۔۔۔۔سسرال سے نباہ کرنے کا طریقہ ۔۔۔مجلس تقریبا ۴۶ منٹ کی بہت مفید ہوئی اور شروع میں حضرت والا میر صاحب  کے اپنے  اشعار اور خود ہی اُن کی تشریح سے مجلس کا لطف دوبالا ہوگیا۔۔۔۔۔!

الحمدللہ حضرت والا دامت برکاتہم شروع ہی سے مجلس میں رونق افروز تھے۔۔۔حضرت ممتاز صاحب نے حضرت والا میر صاحب کےیہ  نعتیہ اشعار جن کا عنوان ۔۔"کُلفتِ ہجرِ نبی سے دل مرا رَنجور ہے"سنانے شروع کیے۔۔۔

اے مدینہ اے نوائے ہاتفِ ربِّ جلیل

کاروانِ زندگی کو تو نے دی بانگِ رحیل

شاہد نورِ ازل ہیں تیری محراب و فصیل

جلوہ   گاہِ  مصطفیٰ   جائے    نزولِ جبرئیل

خاک تیری خندہ زن ہے رُتبۂ افلاک پر

سرورِ دنیا و دیں خوابیدہ ہیں جس خاک پر

۱ منٹ ۴۳سکینڈ:مندرجہ بالا اشعار کی تشریح میں فرمایا:بانگِ رحیل کے معنی ہیں: رحلت کی آواز ، پرانے زمانے میں جب قافلہ چلتا تھا۔۔ تو ایک بانگ یعنی  آواز دی جاتی تھی کہ جس سے لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اب قافلہ روانہ ہونے  والا ہے۔۔تو حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دُنیا کو جس کو لوگ اپنا گھر سمجھ بیٹھے تھےاُس کو آپ نے بانگ ِرحیل یعنی روانہ ہونے کی آواز سنا دی۔۔یعنی یہ دُنیا ہمارا وطن نہیں ہے۔۔قافلہ یہاں سے ایک دن چلنے والا ہے۔۔۔اسی کو بانگِ رحیل کہا گیا۔۔

اور اللہ تعالی کے نور کے شاہد ہیں مدینے کے محراب و فصیل۔۔۔ اللہ تعالی کے نور کی تجلیات وہاں برس رہی ہیں۔۔۔اور وہ کیا چیز ہے۔۔کہ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات ہیں۔۔آپ یہاں جلوہ فرما تھے۔۔۔اور حضرت جبرئیل علیہ السلام آسمانوں سے نزول فرماتے تھے۔۔۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام عالی شان تھا۔کہ جبرئیلعلیہ السلام آسمانوں سے نزول فرمایا کر۔۔۔ خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔۔

وہ حصہ ء زمین جہاں آپ کا جسد ِاطہر رکھا ہوا ہے ۔۔۔تمام علماء کا متفقہ فیصلہ ہے۔۔۔وہ عرش و کرسی سے افضل ہے۔۔۔ اللہ تعالی کے بعد بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا درجہ ہے۔۔بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

ممتاز صاحب نے دوبارہ اشعار پڑھنا شروع کیے۔۔۔اور یہ مصرع "تیری صوتِ حق سے لرزش ہے منات و لات میں" پڑھا تو۔۔۔

۴ منٹ ۴۲سیکنڈ :حضرت والا نے تشریح میں فرمایا:" عربی میں" صوت"  آواز کو کہتے ہیں۔۔۔مدینے شریف کو جو مخاطب کیاہے شاعری کے اعتبار سے۔۔ لیکن مدینہ کو جو برکت حاصل ہے۔۔۔وہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔۔یعنی اشارہ دوسری طرف ہوتا ہے اور مفہوم دوسراہوتا ہے۔۔لفط کچھ اور ہوتے ہیں معنی کچھ اور ہوتے ہیں۔۔۔

تو آپ کی آواز سے یعنی حق کی آواز سے وہاں کے سب سے بڑے بت تھے لات و منات ۔۔۔پارہ پارہ ہوگئے۔۔۔لرزش پڑگئی اُن میں۔۔۔۔سب لوگ ایمان لے آئے۔۔۔اور بتوں کو پاش پاش کردیا۔۔۔

ممتاز صاحب نے دوبارہ اشعار پڑھنا شروع کیے۔۔ اور یہ شعر پڑھا:

تیرے مفلس صابر و شاکر ہیں سب حالات میں

تیرے مُنعَم گشت کرتے ہیں اندھیری رات میں

۶ منٹ ۴۰سیکنڈ : حضرت والا نے تشریح میں فرمایا:" مُنعَم یعنی  جن کو نعمت دی گئی ہے۔۔۔جن کو آپ نے اپنی نعمتوں سے مال ودولت سے، تقوی سے، دین سے نوازا ہے۔۔۔ وہ رات کو گشت کرتے ہیں۔۔جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ۔۔۔ اور مفلس صابر و شاکر ہیں۔۔

جو مفلس تھے اُن کا حال یہ تھا۔۔۔کہ بچوں کو پانی اُبال کر رکھ دیا۔۔اور اُس کو کنکریاں ڈال دیں۔۔اور اُن کو بہلا رہی ہیں۔۔اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گشت کرتے ہوئے ۔۔وہاں پہنچ گئے۔۔۔پوچھا کہ کیا کر رہی ہو۔۔اُس نے کہا کہ بچے میرے بھوکے ہیں۔۔۔اور عمر کو تو کچھ خبر ہی نہیں۔۔۔وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو جانتی نہیں تھیں۔۔کہ یہی خلیفہ وقت ہیں۔۔۔۔ یہ بات سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔۔۔اُسی وقت وہاں سے واپس ہوئے۔۔۔اور وہاں سے غلہ  لےکر۔۔۔اُس کے پاس پہنچایا۔۔

تو اندھیری رات میں یہ گشت ۔۔ جن پر اللہ نے نعمتیں برسائی یعنی صحابہ کرام  رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ اندھیری راتوں میں اپنے مفلسوں کا خیال رکھتے تھے۔۔۔اور مفلس صابر و شاکر تھے۔۔۔

پھر ایک عورت اور اُس کی بیٹی کی ایمان داری کا واقعہ بیان فرمایا ۔۔۔ کہ اُس نے دودھ میں ملاوٹ نہیں کی۔۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اُس کی ایمان داری اتنی پسند آئی کہ اپنے بیٹے کا نکاح اُس سے کردیا۔۔۔

صحابہ فاقہ کرلیتے تھے لیکن دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔۔۔

ممتاز صاحب نے عرض کیا کہ  یہ نعت شریف پہلے بھی پڑھ چکا ہوں لیکن اب زیادہ مزہ آرہا ہے بہت فائدہ ہورہا ہے۔۔۔اشعار پڑھنا شروع کیے۔۔۔یہ شعر پڑھا :

آشنا ہو کر بھی گر ساقی سے بیگانے رہے

فائدہ پھر کیا جو تیرے رِند مستانے رہے

۱۰ منٹ ۵۸سیکنڈ: حضرت والا نے مندرجہ بالا شعر کی  تشریح میں فرمایا:" یعنی پہچان کر ایمان لا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر بھی بیگانوں کی طرح رہنا ۔۔۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو بھلا دیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو بھلا دیا اور گناہوں میں ابتلاء ہوگیا۔۔۔تو گویا بیگانے سے ہوگئے۔۔۔جیسے کہ غیر ہوتے ہیں۔۔۔اگرچہ کہ وہ ایمان والے ہیں۔۔اپنے ہیں۔۔۔لیکن یہ باتیں غیروں کی سی ہیں۔۔۔تو آشنا ہو کر کے پھر بیگانہ نہ رہنا چاہیے۔۔۔

جب پہچان لیا حق واضح ہوگیا۔۔حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں سید الانبیا ء ہیں۔۔۔اس کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔۔۔آپ ہی کے طریقے پر چلنے میں نجات ہے تو پھر اُسی پر عمل کرنا چاہیے۔۔۔بیگانوں کی طرح نہ رہیں جیسے کفار ہیں اُنہیں کچھ خبر ہی نہیں۔۔۔وہ تو باغی ہیں۔۔تو باغیوں کی مشابہت بھی ہم لوگوں کو اختیار  نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ورنہ فاسقوں میں شمار ہوجائے گا۔۔ایمان تو رہتا ہے لیکن فاسق فاجر میں شمار ہوتا ہے۔اصل مقصد تو یہی تھا۔۔کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوانے ہوجاتے ۔

پھر دوبارہ ممتاز صاحب نے اگلا شعر پڑھا:

رات  بھر شعلوں  پہ اس کے کیسے دیوانے رہے

یوں  رہیں ہم   جیسے  گِردِ  شمع   پروانے رہے

شمع جب تیری فروزاں ہے تو پھر کیا چاہئے

جذبۂ بے اختیارِ     شوق        ہونا      چاہئے

۱۴ منٹ ۲سیکنڈ :حضرت والا نے مندرجہ بالا شعر کی  تشریح میں فرمایا:" یعنی جس طرح پروانے شمع کے اوپر فدا ہوتے رہتے ہیں۔۔۔اُسی کے اردگردچکر کاٹتے رہتے ہیں۔۔۔یہاں تک کہ جان بھی دے دیتے ہیں۔۔جل جاتے ہیں۔۔۔

تو جس طرح پروانہ شمع پر فدا ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں۔۔جیسے پروانے دیوانے رہتے ہیں ۔۔۔ایسے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عشق ہمارے دل میں سما جائے۔۔۔

یوں  رہیں  ہم   جیسے  گِردِ  شمع   پروانے   رہے۔۔۔۔اور فرمایا: پروانے شمع کے گرد رہے ہیں اور اپنی جان کو فدا کردیتے ہیں۔۔پھر یہ شمع تو بجھ جاتی ہے۔۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی جو شمع ہے۔۔۔وہ قیامت تک کبھی بھی نہیں بجھ سکتی ۔۔فروزاں معنی روشن۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع کو کبھی فنا نہیں آئی گی وہ روشن ہی رہے گی۔۔ توپھر کیا کرنا چاہیے۔۔۔ عشق کا جذبۂ بےاختیار ہو۔۔کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوجائیں۔۔بس اِس جذبے کی کمی ہے۔۔۔ جذبۂ بے اختیارِشوق ہونا چاہئے۔

یعنی ایسا شدید عشق ہو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ارشاد اور سنتوں پر عمل کریں۔۔اوراُس کے بغیر چین نہ پائیں۔۔

پھر ممتاز صاحب نے دوبارہ اشعار پڑھنے کا تسلسل جوڑا اور یہ آخری شعربہت ہی درد بھرا شعر پڑھا۔

ماجرا یہ پیش آئے بر درِ کوئے حبیب

جاں لبوں پر ہو نگاہیں ہوں مگر سوئے حبیب

حضرت والا کے اشعارِنعت شریف اور اُس کی تشریح خود حضرت کی زبانی سن کر عجیب کیف و مستی کی کیفیت سے حاضرین مجلس سرشار تھے۔

پھر ممتاز صاحب نے خزائن معرفت و محبت صفحہ ۴۱۵ سے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ مبارک۔۔۔۔اہم بات۔۔۔

کہ لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤں تاکہ۔۔۔کہ آپ اس کے شر سے بچے رہیں گے۔۔۔ ، وہ آپ کو ستائے گا نہیں۔ وہ سمجھ جائے گا کہ آپ کو اس سے بغض نہیں ہے۔ ۔۔۔وہ اسلام سے اور ہدایت سے قریب ہوجائے گا، جب آپ دین کی کوئی بات بتائیں گے تو سن لے گا۔

۔۔۔۔۔ لہٰذا اس طرح رہو کہ کافر بھی آپ کی جدائی سے روئیں۔

بعض لوگ ڈاڑھی منڈانے والے کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ کیا کہوں ساری زندگی کے لیے اس کو ڈاڑھی سے محروم کردیتے ہیں۔ ایسے عالم کی زندگی بھی سنت کے خلاف ہے۔۔۔۔۔

حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے اخلاق:۔۔۔۔ہمارے بڑے بزرگ اخلاق کی بلندیوں کے مینارے تھے۔ سب سے بڑی چیز اصلاحِ اخلاق ہے۔

کامل ایمان والا کون ہے؟۔۔۔حدیث شریف میں ہے کہ سب سے کامل ایمان اُس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں جبکہ ہمارے ذہنوں میں یہ ہے کہ جو زیادہ عبادت کرتا ہے، زیادہ حج اور عمرہ کرتا ہے، زیادہ تسبیح وظیفے پڑھتا ہے اس کا ایمان کامل ہے۔

عورتوں پر شوہر کے حقوق:شوہر اور بیوی میں مساوات کا مسئلہ کم عقلی کی دلیل ہے۔۔۔آج کل عورتوں میں مساوات کا مسئلہ چل رہا ہے کہ ہم شوہر سے کم نہیں ہیں، آپ بتائیے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تو یہ ارشاد ہے کہ خدا کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کے لیے کہتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، یہ مساوات ہے؟۔۔۔

بہشتی زیور میں یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی کام شوہر کے مزاج کے خلاف نہ کرو، شوہر اگر دن کو رات بتلا دے توتم دن کو رات کہنے لگو، اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد بہشتی زیور کے حاشیہ میں لکھا ہو ا ہے یعنی اس کی انتہائی فرماں برداری کرو۔۔۔۔

۲۷منٹ: ارشاد فرمایا:"عورتیں جو ہیں انگریزوں کی نقل میں اپنے شوہر کا نام لیتی ہیں۔۔حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ یہ ادب کے خلاف ہےکہ شوہر کا نام برابری سے لے۔۔بلکہ صاحب لگادے یا یہ کہہ دے کہ فلاں کے ابا وغیرہ۔۔لیکن اس طرح نام لے کر پکارنا۔۔کہ فلاں ادھر آؤ۔۔۔

دوسرا قاعدہ جو غیر اسلامی ہے یہ ہے کہ ۔۔۔انگریزوں کا قاعدہ ہے کہ بیوی اپنے نام کے آگے شوہر کا نام لکھتی ہے۔۔۔تاکہ معلوم ہوجائے کہ میں اس کی بیوی ہوں۔۔لیکن اصل قاعدہ یہ ہے کہ کنیت نہیں بدلتی وہاں باپ ہی کا نام لکھا جائے گا۔۔۔

یہ جو آج کل قاعدہ ہے کہ شوہر نام آخر میں لگا دیتی ہیں ۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔ انگریزوں کا طریقہ ہے۔۔اگر نام ہی لکھنا ہے تو اپنا نام لکھ کر یوں لکھ دے اہلیہ فلاں صاحب، خالی نام بھی نہ لکھے۔۔۔۔اکرام سے نام لینا چاہیے۔۔۔۔

شوہر کا ادب ہے۔۔لیکن آج کل تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔۔شوہر صاحب خود تو پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔۔۔حضرت والا فرماتے تھے کہ شوہر پیچھے بچوں کو سنبھال رہا ہے ۔۔۔ اور بیوی صاحبہ ٹوکری لیے ہوئے۔۔۔آگے آگے چل رہی ہیں۔۔۔اور براہ راست غیر مرددکانداروں سے بات کررہی ہیں۔۔

حضرت نے فرمایا اول تو عورتیں بازار نہ جائیں۔۔۔لیکن اگرجائیں تو پردے سے جائیں ۔۔۔اور شوہر دکان دار سے بات کرے۔۔۔کوئی چیز دیکھانی ہو۔۔تو شوہر دیکھائے۔۔۔پسند آجائے تو لے لے۔۔عورت کو یہ منع ہے کہ وہ براہ راست جا کر دکان داروں  سے بات کرنے لگے۔۔۔ اتنی احتیاط ہمارے بزرگوں نے کی ہے۔۔۔کیوں کہ اسی سے فتنہ پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔

سسرال سے نباہ کرنے کا طریقہ:جب تک ساس سسر زندہ ہیں بہو کو چاہیے کہ اپنے ساس سسر کی خدمت اور تابعداری کو فرض سمجھے اور اس میں اپنی عزت سمجھے، ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرے کہ ساس نندوں سے بگاڑ ہونے کی یہی جڑہے۔۔۔۔

۳۱منٹ۵۷ سیکنڈ: ارشاد فرمایا:"یہ تو عام ہے آج کل کا طریقہ ہوگیا ہے۔۔خصوصاً کالج کی پڑھی ہوئی ہیں۔۔انگریزی تعلیم یافتہ ہیں۔۔۔اور شوہر وں کا بھی سے واسطہ نہیں ہے۔۔۔ تو اُن کا طریقہ یہی ہے۔۔۔کہ وہ آتے کہ ساتھ ہی بغیر کسی وجہ کے۔۔۔نہ ساس اُسے ستا رہی ہے۔۔۔ نہ سسر اُسے کچھ برا بھلا کہہ رہا ہے۔۔بس پہلی کوشش یہی ہوتی ہے۔۔۔کہ الگ مکان لے کر رہیں ۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔

جب تک سسرال کے حالات صحیح ہیں۔۔۔اور کوئی بات اختلاف کی نہیں ہے۔۔اُس وقت تک نبھا کرنا چاہیے۔۔۔تھوڑی بہت باتوں کو نظر انداز کرنا چاہیے۔۔۔اپنے بڑے کبھی ڈانٹ بھی دیتے ہیں۔۔۔۔

لیکن ہاں یہ الگ بات ہے۔۔۔کوئی متقی پرہیز گار عورت ہے۔۔۔اور وہ رعایت رکھتی ہے۔۔تو بعض ساسوں کی عادت ہوتی ہے کہ بلاوجہ تنگ کرتی ہیں۔۔اُ س کے لیے علماء سے پوچھو۔۔اُس کے لیے مسئلہ بھی ہے۔۔کہ اگر نبھا اُس کے ساتھ نہیں ہورہا۔۔۔اور اُس کو بہت زیادہ ستایا جارہا ہے۔۔۔حقیقتاً۔۔۔تو پھر الگ مکان دیا جائے۔۔۔یعنی کپڑا ، مکان اور کھانا۔۔یہ اُس کا حق ہے۔۔۔۔

شوہر کے ذمے ہے کہ تحقیق کرے ۔۔۔ کہ بیوی بات صحیح کہہ رہی ہےکہ غلط۔۔۔ تو اگر ایسا معاملہ ہے کہ گزارہ نہیں ہوسکتا۔۔۔تو پھر شریعت نے اِس کی اجازت دی ہے۔۔۔پھر مکان الگ کر لیا جائے۔۔۔لیکن معمولی معمولی باتوں پربلاوجہ آتے کے ساتھ ہی شوہر کو ماں باپ کے خلاف کرنا نہایت جاہل ہے اسی سے فساد پیدا ہوتا ہے۔۔اس لیے آپس میں محبت سے رہیں۔۔ساس سسر کا ادب کرے ، خدمت کرے۔۔تو انشاء اللہ اُن کے مزاج بھی بدل جاتے ہیں۔۔

اور اگر گزارہ نہیں ہوسکتا۔۔۔ہر وقت کی ذہنی دباو ہوتو ۔۔ ہر وقت ستانا ہو۔۔کبھی نند ستارہی ہے۔۔کبھی ساس ۔۔ تو پھر اگر مکان لینے کی گنجائش ہے ۔۔۔ لیکن شوہر کے ذمے ہے کہ پہلے اُس کی تحقیق کرلے۔۔کہ کہاں تک اصلیت ہے۔۔۔۔

ایک عورت میں اگر دین آجائے۔۔۔تو پورا خاندان بدل جا تاہے۔۔

بیویوں اپنے شوہر کو آسانی کے ساتھ ڈارھی رکھواسکتی ہے۔۔اس سے متعلق حضرت کی باتیں۔۔

اپنے بچوں کو بھی اللہ والوں کی مجلس میں لے جانا چاہیے گے۔ہم اُن کی وضع قطع پر اُن کو کچھ نہیں کہیں گے۔۔۔لیکن اس سے وہ مانوس ہوں اور ہم اُن سے مانوس ہوں۔۔اور مانوس ہونے سے وہ دین کے قریب ہوجائیں گے۔۔۔

حضرت والا کو اللہ تعالی نے جذب کی کیفیت عطا فرمائی تھی۔۔۔ کہ جو مجلس میں آیا جذب ہوگیا۔۔۔ جس کو دیکھ لیا اُس کے حالات بدل گئے۔۔۔اس پر حضرت والا میر صاحب نے واقعات سنائے۔۔۔

حضرت والا نے قلب پر علوم وارد ہوتے تھے ۔۔۔ زمانے کے حالات کے مطابق۔۔۔ قومیت اور تعصب  کے فساد کے دنوں میں اچانک حضرت والا نے اس کے رد  پر بیان فرمانا شروع کردیا ۔۔ اور فرمایا کہ آج کل یہی بیان کرو۔۔ بدنظری پر بیان بھی ابھی ملتوی کردو کیونکہ جب بدنظری کرنے والے ہی ہوں گے تو بدنظری کون کرے گا۔۔۔ یہاں تو قتل و غارت ہورہا ہے۔۔۔ حضرت والا کو شہر کے حالات کی کچھ خبر نہیں تھی ۔۔ لیکن اللہ تعالی اُن کے قلب پر وارد فرماتے تھے۔۔۔

بزرگوں کی ہر بات سمجھ میں آنا ضروری نہیں ۔۔۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ حضرت والا نے سنایا

اہل اللہ کی بہت سے باتیں اور ارشاد ایسے ہوتے ہیں۔۔جو سمجھ میں نہیں آتے ۔۔۔ اس لیے اُن پر کبھی اعتراض نہ کرو۔۔۔۔۔

اہل اللہ پر اعتراض سے سوء خاتمہ کا خطر ہے۔۔۔چاہے وہ اپنا شیخ ہو یا کوئی غیر ہو۔۔یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔۔۔کہ صرف شیخ کا اکرام کرو۔۔اور باقی سب کی تنقیذ کرو۔۔ کسی ایک مسلمان کی بھی برائی اور غیبت نہ کرو۔۔کہ جس سے اُس کو ایذا پہنچے۔۔۔اور خصوصاً جب کوئی خاص ولی اللہ بھی ہو۔۔اُس سے تو اللہ تعالی نے اعلان جنگ کا فرمایا ہے۔۔حدیث قدسی ہے کہ جس نے میرے ولی کو ایذا پہنچائی۔۔میرا اُس سے اعلان جنگ ہے۔۔

علماء نے لکھا ہے۔۔۔کہ اعلان جنگ کا کیا مطلب ہے۔۔۔اللہ جنگ کرے کسی سے توکیا وہ جیت سکتا ہے۔۔فرمایا سوء خاتمہ کا اندیشہ ہے۔۔

یوں یہ ۴۶ منٹ پر مشتمل بابرکت مجلس اختتام کو پہنچی ۔۔۔

ہے۔.

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries