مجلس۷ نومبر۲۰۱۳ء۔ کامل اتباع ہی کامل بندگی ہے

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے شروع میں حضرت والا  رحمہ اللہ  کے  اشعار سنائے۔۔۔حضرت والا میر صاحب نےعاشقانہ اشعار کی تشریح فرمائی۔۔۔پھر ممتاز صاحب نےخزائن معرفت ومحبت صفحہ نمبر۴۱۵سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے ۔۔۔بڑوں کا ادب کرنے پر دو انعامات کی بشارت۔۔۔۔اچھے اور بُرے اخلاق کے ثمرات۔۔۔۔مسلمان کے لیے مجلس میں جگہ بنانا اس کا حق ہے۔۔۔مخلوق کے ساتھ بھی اخلاص مطلوب ہے۔۔۔

الحمدللہ حضرت والا دامت برکاتہم شروع ہی سے مجلس میں رونق افروز تھے۔۔۔حضرت والا کی پوچھا "مولانا ابراہیم کشمیری صاحب ہیں؟ ۔۔۔۔ عرض کیا گیا ۔۔۔ موجود ہیں ۔۔۔حضرت والا نے اُن سے اشعار سنانے کا فرمایا۔۔۔۔

مولانا ابراہیم کشمیر ی صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار"وہی لمحہ بہارِ زندگی ہے" سنانے شروع کیے ۔۔ بیچ بیچ میں حضرت مرشدی ومولائی حضرت میر صاحب دامت برکاتہم تشریح فرماتے جاتےتھے۔۔مولانا نے یہ جب مندرجہ ذیل  اشعار پڑھے تو حضرت والا میر صاحب نے اس کی تشریح فرمائی

غم پنہاں متاع زندگی

رموز عاشقی و بندگی ہے

۱ منٹ ۱۰ سیکنڈ: فرمایا :  پنہاں معنی "پوشیدہ"چھپا ہوا۔۔ غمِ پنہاں پوشیدہ غم ۔۔اللہ کے راستےکا پوشیدہ غم کیا ہے۔۔۔اللہ  کے راستے میں جو دل پر مجاہدہ اٹھایا گناہ سے بچنے میں  ۔۔ اُس کی کسی کو خبر نہیں۔۔۔سوائے اللہ تعالی کے ۔۔ ۔ یہ غم ویسے تو پوشید ہے۔۔صرف  اللہ ہی اُس سے باخبر ہے۔۔کہ اپنے دل کا اُس نے خون کردیا۔۔۔ اپنی حرام آرزوں کا اُس نے خون کردیا۔۔

دُنیا والے تو نہیں دیکھتے ۔۔۔۔ تو وہ سمجھتے جیسے ہم ہیں ویسے ہی یہ ہیں۔۔لیکن وہ اِس غم کو چھپائے ہوئے بیٹھا ہے۔۔۔ تو یہ اُس کی پوری زندگی کی متاع ہے۔۔۔متاع معنی دولت۔ کیونکہ اِسی غم پنہاں سے اللہ تعالی اُس کو مل جاتے ہیں۔۔اور یہی اللہ تعالی کی عبدیت اور بندگی کا راز ہے ۔۔۔کہ اللہ تعالی کے راستے میں غم اٹھا لو اور اللہ تعالی کو پا لو۔۔۔

پھر مولانا ابراہیم کشمیری نے پڑھنا شروع کیا

میری آنکھوں کی ٹھنڈک جانِ عالم

تیری چوکھٹ پر سر افگندگی ہے

۱ منٹ ۱۰ سیکنڈ: فرمایا :  حضرت والا فرماتے ہیں۔۔۔کہ بندے کی آنکھوں کی ٹھنڈک ۔۔ اللہ والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ۔۔۔ جانِ عالم کہتے ہیں جو ۔۔ سارے عالم کی جان ہے۔۔یعنی اللہ تعالی۔۔

اے اللہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرے دل کا سکون جوہے۔۔وہ آپ کی چوکھٹ پر سر جھکا دینا ہے۔۔"افگندگی "معنی  جھکا دینا۔۔ گرا دینا۔۔ اِس کی دو صورتیں ہیں۔۔یہ تو یہ کہ وہ ہم نماز پڑھتے ہیں یہ بھی سرافگندگی ہے۔۔اور ایک یہ ہے کہ جب ہم گناہ سے بچتے ہیں۔۔ تب بھی ہم اُن کی چوکھٹ پر سر رکھ دیتے ہیں۔۔۔۔

جب گناہ سے بچتے ہیں اور اللہ تعالی کے راستے میں غم اٹھاتےہیں۔۔وہ بھی چوکھٹ پر سر رکھنا ہے۔۔صرف نماز میں ہی اُن کا سر افگندہ نہیں ہوتا ۔۔بلکہ ہر وقت۔۔ہر گناہ کے موقع پر۔۔۔ غم اٹھا کراللہ تعالی کو راضی کرتے ہیں تو یہ بھی سر کو جھکا دینا ۔۔۔اور چوکھٹ پر رکھ دینا ہے۔۔

پھر مولانا ابراہیم کشمیری نے پڑھنا شروع کیا

متاع ِ ہر دو عالم اُس کو حاصل

جسے حاصل کمالِ بندگی ہے

۷منٹ ۹ سیکنڈ:  مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا : متاع ہر دوعالم کے معنی  دونوں جہاں کی دولت اُس شخص کو حاصل ہے۔۔کہ جس کو عبدیت کا کمال بندگی کا کمال حاصل ہے۔۔ اور وہ کیا ہے۔۔ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع۔۔

اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ کا کامل اتباع۔۔۔۔ یہی کمال بندگی ہے۔۔جب نماز کا وقت آگیا تو نماز پڑھ لی۔۔جب روزے کا وقت ہوگیا تو روزہ رکھ لیا۔۔۔یا جب حج کا حکم ہوگیا۔۔حج کرلیا۔۔۔زکوۃ فرض ہوگئی تو زکوۃ ادا کردی۔۔یہ کمال ِ بندگی ہے۔۔

اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ اتباع ہے۔۔وہ بھی اللہ تعالی ہی کی اتباع ہے۔۔تو بس اللہ اور رسول کی اتباع یہی کمالِ بندگی ہے۔ہر معاملے میں چاہے۔۔وہ مثبت عبادت ہو۔۔یعنی ذکر و تلاوت، نماز وغیرہ ۔۔ چاہے منفی عبادت ہو۔۔جس کو حضرت فرماتے تھے گناہوں سے بچنا ۔۔تقوی سے رہنا۔۔اور اللہ کے راستے میں غم اٹھانا۔۔یہی سب کمال ِ بندگی ہے۔۔

دونوں چیزیں ہیں۔۔مثبت عبادت بھی کامل ہو۔۔اور منفی عبادت بھی کامل ہو۔۔بس سمجھ لو اِس کو کمالِ عبدیت اور اللہ اور رسول کی صحیح اتباع حاصل ہے۔۔

پھر مولانا ابراہیم کشمیری نے پڑھنا شروع کیا

موانع نذر ہیں دست جنوں کے

بڑے  ہی  کام  کی  دیوانگی  ہے

۱۱منٹ ۴۸ سیکنڈ:  مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا : مانع   کی جمع ہے موانع یعنی رکاوٹیں۔۔ جو اللہ کے عاشقین ہیں۔۔اُ ن کے سامنے دُنیا کی تمام رکاوٹیں اُن کے عشق کے سامنے سب بیکار ہوجاتی ہیں۔۔۔وہ بس کسی کی پروا نہیں کرتے۔۔۔ساری زنجیروں کا توڑ دیتے ہیں۔۔۔

نہ معاشرہ ان کے سامنے، نہ ملک اُن کے سامنے۔۔۔نہ برادری اُ ن کے سامنے۔۔۔نہ خاندان اُن کے سامنے۔۔۔نہ بیوی بچے اُن کے سامنے ۔۔۔ہر ایک کا حق ادا کرتے ہیں۔۔۔لیکن اللہ تعالی کی حدود ِرضا کے اندر۔۔جہاں تک اللہ راضی ہیں۔۔۔ وہاں سب حق ادا کریں گے۔۔۔جہاں اللہ راضی نہیں ہے۔۔وہاں پھر وہ کسی کی پروا نہیں کرتے۔۔۔

یہی ہے کمالِ بندگی۔۔اور یہی دیوانگی ہے۔۔۔ جو بڑے کام چیز ہے۔۔۔ جس کو یہ دیوانگی حاصل نہیں۔۔وہی اس الجھنوں میں رہ جاتے ہیں۔۔۔کہ اگر ہم ڈاڑھی رکھ لیں گے۔۔۔ تو دُنیا کیا کہے گی۔۔اکثر لوگ کو ڈاڑھی منڈا رہے ہیں۔۔۔یہ تو بالکل ایسے ہی ہوگیا۔۔۔کہ  سارے لوگ اپنی ناک کٹا رہے ہوں۔۔تو ایک ناک والا کہنے لگے کہ بھئی میں ناک کیسے رکھوں۔۔ سب لوگ نکٹے ہیں۔۔لہذا مجھے بھی نکٹا ہوجانا چاہیے۔۔

تو جو اللہ تعالی کے دیوانے ہیں۔۔اُن کے سامنے یہ رکاوٹیں وکاوٹیں نہیں ہیں۔۔وہ سنت اور شریعت پر اللہ تعالی کے احکامات پرچلتے ہیں۔۔اُن کے سامنے صرف یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو راضی کرنا ہے۔۔

اتباع شریعت میں دیوانہ پن۔۔۔بس یہی حضرت والا کی شان تھی۔۔۔اور یہی اللہ کے عاشقوں کی شان ہے۔۔کہ شریعت کی جہاں اتباع ہو۔۔وہاں اس طرح اس پر عمل کرتے ہیں کہ لوگ کہیں گے یہ تو دیوانے ہیں۔۔لیکن اُن کو لوگوں کے کہنے کی کچھ پروا نہیں۔۔۔

بس وہ تو اللہ کے دیوانے ہوتے ہیں۔۔لیکن سارے دُنیا سے زیادہ وہ عقل مند ہوتے ہیں۔۔جو اللہ کو ناراض کرتا ہے۔۔۔اُس سے بڑھ کر بیوقوف کوئی نہیں۔۔۔

پھر مولانا ابراہیم کشمیری نے پڑھنا شروع کیا

اگربیگانگی  ہےتجھ کو گُل سے

چمن میں بھی تجھے افسردگی ہے

۱۵منٹ ۳۱سیکنڈ:  مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا : بیگانگی مطلب اجنبیت ، نفرت۔ اُس سے تعلق نہ ہونا۔ ۔۔۔ اگر کسی کو پھول سے تعلق نہیں ہے اُس کو پھول اچھا نہیں معلوم ہوتا۔۔۔تو وہ اگر اُس چمن میں بیٹھا ہوا بھی ہے۔۔تو بھی اُس کو یہ چمن اُجاڑ معلوم ہوگا۔۔۔کہے گا کوئی خاص بات ہی نہیں ہے۔۔

اِسی طرح جو اِس دُنیا کے چمن میں رہتے ہیں۔۔۔اور وہ اللہ تعالی کو بھولے ہوئے ہیں ۔۔اللہ تعالی ہی خالق ِ کائنات ہیں۔۔وہی اِس کی زینت ہیں۔۔۔وہی اِس کا پھول ہیں۔۔تو وہ اُن سے بیگانہ ہوا۔۔۔اُس کو پوری دُنیا میں کہیں چین نہیں ملتا۔۔۔وہ افسردہ ہی رہتا ہے۔۔دل اُن کا مردہ رہتا ہے۔۔اس لیے کہ گلاب کا پھول جو حاصل ِ چمن ہے۔۔اُس ہی سے وہ بیگانہ ہے۔۔ تو جو خالق ِ چمن دنیا ہے ۔۔۔ اسی سے جو بیگانہ ہے۔۔اسی سے اِس کو تعلق نہیں۔۔تو اِس کا دل افسردہ اور بے چین رہتا ہے۔۔اِسی طرح جو اللہ تعالی سے محبت رکھتا ہے۔۔وہ  کانٹوں میں بھی مست رہتا ہے۔۔

پھر مولانا ابراہیم کشمیری نے پڑھنا شروع کیا

جو اُن کی یاد میں گزرا ہے اختر

وہی   لمحہ   بہارِ  زندگی   ہے

۱۸منٹ ۲سیکنڈ:  مندرجہ بالا  آخری شعر کی تشریح میں فرمایا : جو لمحات  اللہ تعالی کی یاد میں گزر گئے۔۔ بس وہی بہار ہے زندگی  کی۔۔اسی سے سکون اور چین ملتا ہے۔۔۔اور جو لمحات غفلت میں گزرتے ہیں۔۔وہ سب سے زیادہ خزاں اور بےچینی کادور ہوتا ہے۔۔ اللہ تعالی محفوظ رکھے۔۔ حضرت والا نے اسی کے لیے ایک دوسرا  فرمایا تھا: 

وہ میرے  لمحات جو گزرے خُدا کی یاد میں

بس وہی لمحات میری زیست کا حاصل رہے

یعنی زندگی کا حاصل صرف وہی لمحات ہیں۔۔جو اللہ تعالی کی یاد میں گزر جائیں۔۔۔وہی کارآمد ہیں۔۔اُس  ہی آخرت میں جنت میں ترقیات اور مقامات نصیب ہوں گے۔۔اور دُنیا میں بھی چین ملے گا۔۔۔

اور جو لمحات اللہ تعالی سے غفلت میں گزر گئے۔۔۔اللہ تعالی محفوظ رکھے۔۔اللہ تعالی کی نافرمانی میں گزر گئے۔۔ تو سمجھ لو وہ لمحات بیکار ہوگئے۔۔۔زندگی بے کار ہوگئی۔۔کیونکہ اُس کے اوپر بجائے اجر کے اب عذاب ہوگا۔۔۔بجائے ثواب کے عذاب ہوگا۔۔

جو اللہ کوبھول گیا وہ لمحات ہی بےکار ہوگئے۔۔وہ وقت ضائع ہوگیا۔۔جو اللہ تعالی نے اپنی یاد کے لیے دیا تھا۔۔اپنی فرماں برداری کے لیے دیا تھا۔۔وہ اُن کی نافرمانی سے ضایع ہوگیا۔۔وہ بجائے ثواب کے عذاب کا مستحق ہوگیا۔۔

اشعار اور ان کی عاشقانہ تشریح کے بعد  حضرت والا کے حکم پر ممتاز صاحب نے خزائن معرفت و محبت صفحہ ۴۱۵ سے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔۔۔

بڑوں کا ادب کرنے پر دو انعامات کی بشارت: بڑے بوڑھوں کا ادب کرنے پر دوانعام ملتے ہیں، نمبر۱: زندگی بڑھ جائے گی کیونکہ جب یہ بڈھا ہوگا تب اس کے چھوٹے اس کا ادب کریں گے ۔۔۔۔دوسرا انعام یہ ہے کہ جب یہ بوڑھا ہوگا تو اس کے چھوٹے اس کا ادب کریں گے تو جو شخص اپنے چھوٹوں سے عزت چاہتا ہو وہ اپنے بڑے بوڑھوں کا، ماں باپ کا، اساتذہ کا،شیخ کا غرض کوئی بھی اپنی عمر سے بڑا ہو اُس کا ادب کرے۔

اگر کسی بڑے کو نصیحت بھی کرنی ہے تو ادب سے نصیحت کرویہ نہیں کہ غصہ سے چڑھ دوڑے۔۔۔مولوی کو چاہیے کہ مدرسہ سے نکل کر فوراً مسجد کے منبر پر نہ بیٹھے، کچھ دن اﷲ والوں کی صحبت میں رہے اور نفس کو مٹا کر ادب اور انسانیت اور اخلاص سیکھے پھر وہ نصیحت کرنے کے قابل ہوتاہے۔۔۔۔۔جو اپنے علماء کی عزت نہ کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں۔

دنیا میں سب کچھ ہوگا، موت ہوگی، پیدائش ہوگی، غمی ہوگی، خوشی ہوگی لیکن ہمارا کام اپنے مالک کو راضی رکھنا ہے، جو اپنے مالک کو راضی رکھے وہ بالکل بے فکری سے سوئے، اس کو خوش رکھنا اﷲ کے ذمہ ہے، جو غلام اپنے مالک کو خوش رکھتا ہے مالک کی ذمہ داری ہے کہ اس غلام کی خوشی کا انتظام کرے، اس غلام کو اپنی فکر ہی بھول جانی چاہیے

ہماری فکر بس اتنی ہو کہ ہم اپنے مالک کو ناراض نہ کریں، اپنے مالک کو خوش رکھو کہ ہم سے کوئی خطا تو نہیں ہورہی۔۔۔

اچھے اور بُرے اخلاق کے ثمرات۔۔۔

حدیث پاک میں ہے کہ : لَاخَیْرَ فِیْمَنْ لَّا یَأْلَفُ وَلَا یُؤْلَفُ(مشکاۃ المصابیح،کتاب الاٰداب، ج:۳،ص:۱۳۹۲، المکتب الاسلامی )اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ کسی سے محبت کرتا ہے اور نہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق عرض کیا کہ ایک عورت بڑی عبادت گذار ہے مگر اس کے اخلاق نہایت خراب ہیں، زبان کی نہایت کڑوی ہے، ہر ایک سے ذرا ذرا سی بات پر لڑتی ہے، ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتی، سارا محلہ اس سے تنگ ہے۔ آپ نے فرمایا ھِیَ فِیْ النَّارِ یہ جہنم میں جائے گی۔ آہ! کہاں گیا تہجد، کہاں گئی تلاوت، کہاں گئی نماز، کہاں گیا روزہ، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جہنم کی وعید سنا دی۔۔۔۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اچھے اخلاق والی عورت کے بارے میں فرمایا ھِیَ فِی الْجَنَّۃِیعنی وہ جنتی ہے۔

جب پیٹ کے لیے تبسم کرسکتے ہو تو اﷲ کو خوش کرنے کے لیے تبسم تو مفت کا صدقہ ہے۔۔۔

۳۰ منٹ ۴۷ سیکنڈ:فرمایا:  ناظم آباد میں جب حضرت والا تشریف رکھتے تو ایک عالم آئے۔۔۔بڑی عمر کے تھے ۔۔ عرض کیا کہ ہمارے مقتدیوں کا عجیب حال ہے بالکل محبت ہی نہیں کرتے، اور امام کے ساتھ اُن کا رویہ ایسا ہوتا کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑے ہیں ہم چھوٹے ہیں۔۔۔ہم سے محبت نہیں کرتے بلکہ اُس کے برعکس ایسے کام کرتے ہیں جس سے تکلیف ہوتی ہے۔۔۔تو حضرت والا نے فرمایا کہ یہ بتائیے۔۔۔کہ حدیث پاک میں  پہلے کیا : لَاخَیْرَ فِیْمَنْ لَّا یَأْلَفُ وَلَا یُؤْلَفُاُس میں کوئی خیر نہیں جو محبت نہیں کرتا اور لوگ اس سے محبت نہیں کرتے۔۔ فرمایا پہلے یَأْلَفُ ہے آپ یَأْلَفُہوجائیے یعنی پہلے محبت کرنے لگئے۔۔یُؤْلَفُخود ہوجائے گا۔۔

آپ اُن سے محبت کیجئے اُن کو دین سیکھائیے۔۔اُن پر محنت  کیجئے۔۔۔آپ بس ۴ رکعات پڑھ کر اپنے حجرے میں چلے گئے۔۔ اُن سے محبت کی بات نہیں کرتے۔۔۔تو جب آپ محبت نہیں کرتے ۔۔تو وہ آپ سے کیسے محبت کریں گے۔۔اور حدیث میں بھی پہلےیَأْلَفُ ہے۔یعنی اُس میں کوئی خیر نہیں جو محبت نہیں کرتا اس کے بعد فرمایا یُؤْلَفُتو معلوم ہوا پہلے محبت کرو۔۔تو اُس کا جواب محبت سے ملے گا۔۔

مسلمان کے لیے مجلس میں جگہ بنانا اس کا حق ہے: اسی طرح اگر کوئی ملنے آئے تو وہیں اپنی جگہ پہاڑ کی طرح نہ بیٹھے رہیں، ذرا سا کھسک کر اسے جگہ دے دیں، ایسا نہ ہو کہ وہ بے چارہ تنگی سے بیٹھا ر ہے کیونکہ آگے دوسرا بیٹھا ہوا ہے اور اس کو کچھ ہوش نہیں، یہ بے خودی والے لوگ ہیں، اتناہوش نہیں کہ ذرا سا کھسک کر جگہ دے دیں اگر جگہ نہیں ہے پھر بھی تھوڑا سا حرکت کرلو کہ آئیے آئیے تشریف لائیے۔ یہ سنتِ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہے۔۔۔

مسلمان پر مسلمان کا حق ہے کہ جب وہ ملنے آئے تو تھوڑا سا جسم کو حرکت دے دے، ذرا سی جگہ بنادے تاکہ معلوم ہوکہ اس نے ہمارا اکرام کیا، دیکھا آپ نے! اسلام اس کا نام ہے۔

سب سے کامل ایمان اس کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ آج تصوف کی بنیاد تسبیحات، وظائف، اذکار، نوافل اور مختلف ختمات پر رکھ دی گئی اور اخلاقیات میں یہ معاملہ ہے کہ جب دیکھو بس غصہ چڑھا ہوا ہے۔۔۔

عالمِ بے خودی سے خدا نہیں ملتا، دین سراسر بیداری کا نام ہے، ہر لمحۂ حیات، ہرسانس یہ خیال ہوکہ میرا اﷲ اس سانس میں ہم سے خوش ہے یا نہیں یہ اصلی پاس انفاس ہے،

مخلوق کے ساتھ بھی اخلاص مطلوب ہے:  اصلی پاس انفاس یہ ہے ہرسانس میں خیال رکھو کہ کون سی سانس اﷲ کی مرضی کے مطابق گذری اور کون سی سانس اﷲ کے تحت الغضب اور نافرمانی میں گذری، جس شخص کو یہ خیال ہو جائے تو سمجھ لو کہ یہ اﷲ والا ہوگیا، اس کو اﷲ تعالیٰ سے نسبت قائم ہوگئی لہٰذا دل کی نگرانی کرو کہ دل میں کیسے خیالات آرہے ہیں، ان خیالات سے اﷲ خوش ہے یا نہیں یا اپنی ہی حرام لذت سمیٹ رہے ہو۔

آپ بتاؤ! کسی کی بیٹی کو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہو، کسی کے بیٹے کو کوئی بری نظر سے دیکھ رہا ہو تو کیا اس وقت باپ کی دوستی کا حق ادا ہورہا ہے؟ جو اس کی اولاد کا نہیں ہے وہ باپ کابھی نہیں ہے، جو اﷲ کی مخلوق کا نہیں ہے وہ اﷲ کا بھی نہیں ہے، جواﷲکی مخلوق کو بری نظر سے دیکھتا ہے یا مخلوقِ خدا کے ساتھ بدگمانی اور بد خیالی اور خیانت کے خیالات میں مشغول ہے اﷲ تعالیٰ اس سے خوش ہوں گے یا ناراض ہوں گے؟ بتاؤ! کیا اﷲ تعالیٰ کو پتہ نہیں چلتا؟ اﷲ تعالیٰ سینوں کے راز سے باخبر ہیں۔۔۔۔

مخلوق کی تکلیف دُور کرنے پر جنت کی بشارت: بخاری شریف کی حدیث ہے کہ ایک بد کار عورت جنگل میں جارہی تھی، ایک کنویں کے پاس ایک کتا پیاس سے مررہا تھا، اس بد کار عورت نے اپنا موز ہ نکالا اور اسے اپنے دوپٹہ سے باندھا۔۔۔

بخاری شریف کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دوپٹہ اوڑھتی تھی، آج تو شریف لڑکیاں بھی سر سے دوپٹہ اتار چکی ہیں، اگر کسی نے بہت زیادہ شرافت دِکھائی تو گلے میں لپیٹ لیا یا کندھے پر ڈال لیا مگر سر کھلا ہوا ہے جبکہ بالوں کا کھولنا حرام ہے، حرام کاموں سے امت کو فلاح کیسے ملے گی؟۔۔۔۔

لاکھ رات دن وظیفے پڑھ لو، وظیفوں سے کام نہیں بنے گا، جب تک اﷲ کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا، اﷲ خوش نہیں ہوگا وظیفہ کچھ نہیں کر سکتا۔ گھر میں وی سی آر، ٹیلی ویژن، ننگی فلمیں، لڑکے لڑکیوں کا مخلوط نظامِ تعلیم جہاں لڑکیاں ننگے سر پڑھ رہی ہیں آپ بتاؤ کہ یہ سب اﷲ تعالیٰ کے غضب اور قہر کے اعمال ہیں یا نہیں؟۔۔۔۔

جبکہ حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو نابینا صحابی سے پردہ کرایا۔۔۔

تو دوستو! میں کہہ رہا تھا کہ اس بد کار عورت نے اپنا موزہ نکال کر دوپٹے سے باندھا پھر اسے کنویں میں ڈال کر پانی سے موزہ بھگویا اور کتے کے منہ میں نچوڑ کر اس کی پیاس بجھائی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اسی عمل پر اﷲ تعالیٰ نے اس کو جنت عطا فرما دی۔ اخلاق کا درجہ دیکھا آپ نے!

لیکن افسوس ہے کہ جو تصوف سیکھ رہے ہیں وہ بھی اخلاقیات کی طرف توجہ نہیں دے رہے ہیں، جو خانقاہوں سے جڑے ہیں وہ بھی اخلاقیات کو اہمیت نہیں دیتے، حج اور عمرے تو خوب کرتے ہیں لیکن کسی مسلمان کو اذیت پہنچ جائے تو ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی کہ لاؤ کم ازکم اس سے معافی تو مانگ لیں، کسی کو اذیت پہنچانا حرام ہے، تکلیف دینے والا کبھی اﷲ کا ولی نہیں ہوسکتا، ولی ہونا تو درکنار ابرار کے رجسٹر سے، نیک لوگوں کے رجسٹر سے بھی خارج ہوجاتا ہے۔۔۔۔

مخلوق میں محبوبیت اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے: اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں جو نہ کسی سے محبت کرتا ہے اور نہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مخلوق میں محبوب ہونا بھی اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے خواجہ حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کو دو دعائیں دیں:

اَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِیْ الدِّیْنِ وَحَبِّبْہُ اِلَی النَّاسِ

اے خدا! اس کو دین کا علم عطافرما اور اپنی مخلوق میں محبوب کردے، یہ جملہ بتاتا ہے کہ انسان کا اپنی بیوی میں، ماں میں، باپ میں، دوستوں میں اور اپنے ماحول میں محبوب ہونا اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہے۔۔

﴿ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً﴾(سورۃُ البقرۃ، آیت:۲۰۱) مفسرین حَسَنَۃًکی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ آخرت کے حسنہ سے مراد بے حساب مغفرت اور جنت میں داخلہ ہے دنیا میں حَسَنَۃًکی دس تفسیریں ہیں:

نیک بیوی

صحبتِ صالحین

نیک اولاد

تفقہ فی الدین

علمِ دین

صحت و عافیت

اعمالِ صالحہ

نصرۃ علی الاعداء

رزقِ حلال

ثناء الخلق

یعنی مخلوق میں تعریف ہو کہ بہت اچھے آدمی ہیں،لیکن جب مخلوق میں کسی کا ہر وقت برائی سے تذکرہ ہورہا ہو تو سمجھ لو کہ اس کے اخلاق خراب ہیں۔۔۔

آج ہم اپنے لیے، آپ سب کے لیے اور یہاں جو پردہ نشین عورتیں بیٹھی ہیں ان کے لیے یہ دعا مانگتے ہیں اَللّٰھُمَّ فَقِّہْنَا فِیْ الدِّیْنِاے اﷲ!ہم سب کو علمِ دین عطافرما اور خالی علمِ دین مراد نہیں ہے ورنہ فرماتے اَللّٰھُمَّ عَلِّمْہُ الدِّیْنَ اﷲتعالیٰ اس کو دین کا علم دے دے بلکہ فرمایااَللّٰھُمَّ فَقِّہْہُ فِیْ الدِّیْنِاے اﷲ!دین کی فہم، دین کی سمجھ عطا فرما۔ اب ہم ان دعاؤں کو اپنے لیے کیسے مانگیں اَللّٰھُمَّ فَقِّہْنَا فِیْ الدِّیْنِ وَحَبِّبْنَا اِلَی النَّاسِاے اﷲ! ہمیں دین کی تفقہ اور سمجھ عطا فرما اور ہم سب حاضرین و حاضرات کو مخلوق میں محبوب کر دے اور ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ ہو تب سمجھ لو کہ وہ اﷲ کا پیار ا بندہ بن گیا۔۔

میدانِ عرفات میں سب سے اعلیٰ دعا جو حدیث سے ثابت ہے۔۔۔۔لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُیُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ

آپ بتاؤ اس کلمہ میں کو ئی دعا ہے؟۔۔۔ اس کا جواب فقہاء کرام نے دیا ہےکہثَنَاۗءُ الْکَرِیْمِ دُعَاۗءٌکریم کی تعریف کرنا دعا ہے مثلاً کوئی کسی کریم کی تعریف کرے تو گویا اس نے اپنی ہر حاجت مانگ لی۔۔۔

تو مخلوق میں کسی بندہ کا تذکرۂ حَسَن ہونا۔۔۔۔صاحب میں نے تو ان پر کبھی غصہ دیکھا ہی نہیں الا یہ کہ شریعت کا کوئی معاملہ ہو، شریعت کے خلاف غصہ کرنا بھی تو ضروری ہے تو یہ شخص رَبَّنَآ اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً کی تفسیر ہے کہ ثناء الخلق کی نعمت اس کو حاصل ہے ۔۔۔۔

۴۷منٹ ۲۶ سیکنڈ :فرمایا:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جو دُعا ہے  اَللّٰھُمَّ فَقِّہْنَا فِیْ الدِّیْنِ وَحَبِّبْنَآ اِلَی النَّاسِاس کے بارے میں حضرت والا  کا الہامی علوم بیان فرمایا۔۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعااَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِیْ صَغِیْرًا وَّفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًاکی تشریح بیان فرمائی

یوں یہ تقریبا۵۵ منٹ پر مشتمل مجلس اختتام کو پہنچی۔  ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries