مجلس۸ نومبر۲۰۱۳ء۔ بیویوں کے حقوق

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:ممتاز صاحب نےخزائن معرفت ومحبت صفحہ نمبر۴۲۶سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے ۔۔۔ابرار کون لوگ ہیں؟۔۔۔ابرار وہ ہیں جو چیونٹی کوبھی تکلیف نہ دیں۔۔۔۔بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین۔۔۔بیویوں کا ایک حق۔۔۔والدین کو ستانے والے کی توبہ کا طریقہ۔۔۔بندیوں کے حق میں اﷲ تعالیٰ کی سفارش۔۔۔۔اچھے اخلاق کثرتِ عبادت کا نام نہیں۔۔۔۔

 الحمدللہ حضرت والا شروع ہی سے مجلس میں رونق افروز تھے۔۔حاضرین حضرت والا کے دید و شنید کے منتظر تھے۔۔۔حضرت نے اپنے معمول کے مطابق مجلس شروع سے بیشتر چند منٹ زیر لب دُعائیں پڑھیں پھر حضرت ممتاز صاحب کو حکم فرمایا کہ ملفوظات پڑھیں ،صفحہ ۴۲۶خزائن معرفت و محبت)ملفوظات شیخ العرب والعجم مجدد زمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  (سے نہایت قیمتی ملفوظات سنانے شروع کیے۔۔

ابرار کون لوگ ہیں؟۔۔یعنی نیک بندے جنت میں جائیں گے اور نافرمان جہنم میں جائیں گے توہمیں ابرار بننا چاہیے یا نہیں؟ لیکن ابرار کون لوگ ہیں؟ خواجہ حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ ابرار کی تفسیر کرتے ہیں کہ ابرار کون بندے ہیں؟ قَالَ الْحَسَنُ الْبَصَرِیُّ فِیْ تَفْسِیْرِ الْاَبْرَارِالَّذِیْنَ لَا یُؤْذُوْنَ الذَّرَّابرار وہ ہیں جو چیونٹی کوبھی تکلیف نہ دیں، سن لو اس کو، بعض لوگ بے خیالی میں چیونٹیوں پر پیر رکھے چلے جاتے ہیں۔

ابرار وہ بندے ہیں جو کسی چیونٹی کوبھی تکلیف نہ دیں اور کسی گناہ سے خوش نہ ہوں۔ آہ! گندے گندے خیالات پکا کر اندر اندر حرام خوشی لی جارہی ہے اور ابرار بنے ہوئے ہیں۔۔۔۔

اگر یہ اﷲ کا مقبول ہوتا تو فوراًتنبیہ ہوجاتی کہ میں یہ کیا کررہا ہوں، کیسے خیالات لارہا ہوں

جس پر اﷲ کی مہربانی ہوتی ہے اسے فوراً توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے، جس کو توفیقِ توبہ نہ ہو تو سمجھ لو کہ وہ اﷲ کی رحمت سے محروم ہے۔

اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے خوش نہ ہوں، نہ اپنے گناہ سے خوش ہوں نہ دوسروں کے گناہ سے خوش ہوں، اﷲ کی نافرمانی دیکھ کر دل غمگین ہو جائے، اپنا گناہ ہو یا کسی اور کو گناہ کرتے دیکھا تو دل کو صدمہ پہنچ جائے۔ یہ تعلق مع اﷲ کی دلیل ہے،جس کو اپنے باپ سے محبت ہوتی ہے تو باپ کی نافرمانی کرنے والے بھائیوںکو دیکھ کر وہ دل میں غمگین ہوجاتا ہے کہ تم کیسے نالائق بھائی ہو کہ ابا کو تکلیف دیتے ہو۔

ایک مرتبہ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے تین مرتبہ اپنی جگہ سے ہٹ کروضو کیا، ایک جگہ وضو شروع کیا پھر اُٹھ کر دوسری جگہ بیٹھ گئے پھر وہاں سے ہٹ کر تیسری جگہ بیٹھ گئے، لوگوں نے پوچھا کہ حضرت یہ کیا معاملہ ہے؟ فرمایا وہاں چیونٹیاں تھیں جو وضو کے پانی سے منتشر ہوجاتیں اور اُن کا خاندان اِدھر اُدھر بکھر جاتا جس سے ان کو اذیت پہنچتی۔ آہ! یہ ہیں اﷲ والے، یہ ہیں ابرار جو چیونٹیوں کو بھی اذیت نہیں پہنچاتے۔

۵منٹ ۵۰سیکنڈ :فرمایا:حضرت والا فرماتے تھےگناہ ہوجانا باوجود لاکھ کوشش کےجب کہ پوری ہمت سے بھی کام لیتا ہے۔۔۔لیکن کبھی مغلوب ہوگیا۔۔اور اُس سے گناہ ہوجاتا ہے۔۔۔تو گناہ ہوجاتا کوئی ایسی انوکھی بات نہیں ہے۔۔۔کیونکہ انسان ہے بشر ہے۔۔ کبھی بشریت غالب آگئی۔۔اور وہ  مغلوب ہوگیا۔۔۔اور گناہ کر بیٹھا۔۔۔لیکن اُس کے بعد جو دوسرا حربہ شیطان کا ہوتا ہے۔۔پھر وہ اُس کو مایوس کرتا ہے۔۔کہ اب تم نے یہ گناہ کرلیا۔۔اب تم کیسے اللہ کے مقبول ہوسکتے ہو۔۔۔اب مردود ہوگئے۔۔ تو یہ مایوس کرنا سب سے بڑا حربہ شیطان ہے ۔ حالانکہ اگر گناہ ہوجائے اور بندہ توبہ کرلے۔۔۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ ابھی اِس کے منہ سے توبہ کا لفظ بھی نہیں نکلا بلکہ دل سے نادم ہوگیا۔۔۔کہ مجھ سے غلطی ہوگئی خطا ہوگئی جرم ہوگیا۔اُسی وقت اللہ تعالی معاف فرمادیتے ہیں ایسے ارحم الراحمین ہیں۔۔تو اُن سے ناامید ہوجانا۔۔ مایوس ہوجانا؟

گناہ سے بچنے میں تو جان کی بازی لگا دے۔۔۔ تو پھر انشاءاللہ تعالی ایک عمر  اس کی کوشش کرنے سےپھر وہ عادت راسخ ہوجاتی ہے۔۔اور اللہ تعالی اُس کو گناہوں سے محفوظ فرمادیتے ہیں۔۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ بعضوں کو گناہوں کی  عادت بچپن سے ہوتی ہے۔۔۔اور اس ہی میں مبتلا ہیں گناہ نہیں چھوٹ رہا۔تو اس کو بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔۔۔جیسے کسی کو کینسر  یا ٹی بی ہوجاتی ہے تو کیا وہ علاج چھوڑ بیٹھتا ہے۔۔۔یا علاج کرتا رہتا ہے۔۔۔سوچتا ہے پتہ  نہیں کس وقت یہ دوا کام کرجائے۔۔باوجود اس کے جانتا ہے کہ مرض جان لیوا ہے۔۔پھر بھی علاج کرتا ہے۔۔تو وہاں جسمانی علاج میں ناکامی بھی ہوسکتی ہے۔۔کہ علاج سے فائدہ نہ ہو۔۔کینسر یا ٹی بی اُس کو مار دے۔۔

لیکن اللہ کے راستے میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی کوشش کرے چاہے زندگی بھر کی عادت ہو، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اللہ تعالی اُس کو پاک صاف کر کے اپنے پاس بلاتے ہیں یعنی دنیا کی محبت کو مغلوب کر کے وہ اپنے پاس بلاتے ہیں۔۔

جو اہل اللہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سلوک طے کررہے ہیں۔۔۔ ۔اس کو حسن خاتمہ نصیب ہوتا ہے۔۔

۔۔۔جو شخص تین کام کرے گا اللہ تعالی اُس کے دل میں ایمان کی مٹھاس داخل کردیں گے۔۔اُس میں ایک یہ ہےکہ جو کسی بندے سے محبت کرے صرف اللہ کے لیے۔۔۔اور شیخ سے محبت خالص اللہ کے لیے ہوتی ہے۔۔۔۔تو گناہوں سے کبھی مایوس نہ ہو بس اتنا کام کرو کہ توبہ کرلو۔۔

توبہ کی سواری بھی عجیب سواری ہےکہ عرش تک ایک لحظہ میں عرش تک پہنچادیتی ہے۔۔

توبہ کرتے رہو۔۔ نادم ہوتے رہو اور گناہ سے بچنے میں  جان کی بازی لگادو۔

ممتاز صاحب نے دوبار پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔بیویوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین:

اپنی بیویوں کی ایک لاکھ خطا معاف کرو، اگر اپنی ایک لاکھ معاف کرانی ہے۔ بھئی! سوچئے کہ جب سے ہم بالغ ہوئے ہیں ہم سے کتنی خطائیں ہوئی ہیں، ہم لوگوں سے کتنی نظر خراب ہوئی، کتنے گناہ ہوئے، کس قدر جھوٹ بولے۔ تو اگر اﷲ تعالیٰ سے اپنی لاکھ خطائیں معاف کرانی ہیں تو اپنی بیویوں کی لاکھ خطا معاف کرو۔

۱۵منٹ ۵سیکنڈ :فرمایا:بعض مضامین خواص کے لیے ہوتے ہیں جیسے مریض شدید ہوتا ہے۔۔شیخ بعض وقت اُسی طرح اُس کو بیان کرتا ہے۔۔۔ کھل کر حضرت والا بیان فرماتے تھے۔۔جس درجہ مریض ہوتا ہے اُسی درجے کا اُس کو Doseدی جاتی ہے۔۔

ممتاز صاحب نے دوبار پڑھنا شروع کیا۔۔۔۔۔بایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میرے گھر میں لڑائی رہتی ہے۔ میں نے کہا کہ میں جو مشورہ دوں گا عمل کروگے؟ انہوں نے کہاکہ ہاں! میں۔۔۔۔

غرض اپنی بیویوں کی ایک لاکھ خطا معاف کرو اور ان کو پیار سے رکھو۔ تو ان صاحب نے جن کے یہاں لڑائی رہتی تھی اور بیوی ناراض رہتی تھی جب میری بتائی ہوئی ترکیب پر عمل کیا اور دفتر جاتے وقت اور آتے وقت اور سوتے وقت اس کو پیار کیا تو ساری لڑائی ختم ہوگئی اور بیوی نے کہا کہ بس اسی بات کی کمی تھی کہ تم مجھے پیار نہیں دیتے تھے۔۔۔

خاص کر بڈھا جب کسی بڑھیا کو پیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ جوانی میں تو طبیعت کے تقاضے سے پیار کررہا تھا، اب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے تقاضے سے پیار کررہا ہے۔۔۔۔

اور چاہے دل سے نہ کہو، زبان سے کہو تو بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہے کہ اے میری بڑھیا، شکر کی پُڑیا، واہ رے میری گڑیا۔ خصوصاً بڑھاپے میں خوب پیار کرو۔ اگرچہ دل ساتھ نہ دے رہا ہو، پھر بھی اجر ہے، ثواب ہے، ان شاء اللہ۔ اخلاقِ ظاہرہ دکھانا بھی بعض مرتبہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہے۔۔۔

بیویوں کا ایک حق۔۔۔لہٰذا دل نہ چاہے پھر بھی بیوی کو پیار کرو، کبھی کوئی جائز فرمائش کرے اس کو پورا کرنا نہ بھولو ورنہ اس کے دل میں یہ ہوگا کہ شوہر کے دل میں ہماری قدر نہیں ورنہ ہماری چائے، بسکٹ وغیرہ کی چھوٹی سی فرمائش ضرور پوری کرتا۔ ۔۔۔

اگر ایک  بسکٹ کی فرمائش کرے تو تین پیکٹ لے آئو، وہ کہے گی کہ تین کیوں لے آئے؟ تو کہو کہ تمہاری فرمائش تو ایک کی ہے، مگر ہماری محبت نہیں مانتی، میرا دل چاہتا ہے کہ میں تین ڈبے لائوں۔ آہ! ارے یہی اخلاق پیش کرکے جنت چلے جائو، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۰منٹ ۴۰سیکنڈ :فرمایا:حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ یہی معمول تھا۔۔ جب کبھی حضرت پیرانی صاحبہ نے کہا کہ ایک بسکٹ کا پیکٹ منگوا دیجئے۔۔۔تو حضرت نے کبھی تین پیکٹ سے کم نہیں منگوایا۔۔ زیادہ ہی منگواتے تھے۔۔۔چار چار پانچ پانچ پیکٹ ۔۔ اور پاپے منگواتی تھیں۔۔۔حضرت والا گول مارکیٹ ایک صاحب کو بھیجتے تھے وہ لے کر آتے تھے۔۔

آج کل کوئی ایسا کرتا ہے تو کہتے ہیں۔۔۔جورو کا غلام ہے۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔۔۔

یَغْلِبْنَ کَرِیْمًا وَیَغْلِبُہُنَّ لَئِیْمٌ فَاُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ کَرِیْمًا مَغْلُوْبًا وَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُوْنَ لَئِیْمًا غَالِبًا

حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںجو کریم شوہر ہیں، لائق شوہر ہیں اُن پر بیویاں غالب رہتی ہیں اور جو نالائق اور کمینے لوگ ہیں وہ بیویوں پر غالب رہتے ہیں، پس میں محبوب رکھتا ہوں کہ میں کریم رہوں، ان سے مغلوب رہوں، میرے اخلاق خراب نہ ہوں اور اس کو محبوب نہیں رکھتا کہ کمینہ ہوکر ان پر غالب رہوں۔

جہاں جائز معاملہ ہو۔۔۔وہاں حاکم نہ بنوں۔۔یہاں محب بن جائو۔۔۔ اور  کہاں حاکم بنو، جہاں وہ اللہ تعالی کی نافرمانی کرنا چاہے۔۔وہاں پھر حاکم بن جائو۔۔۔ یہ میں نہیں ہونے دوں گا۔۔

لیکن حضرت والا نے فرمایا تھاکہ اُس میں بھی حکمت سے کام لو۔۔۔۔ورنہ معاملہ بگڑ جائے۔۔۔پھر حضرت نے حکمت سے معاملے کرنے کی مثالیں ارشاد فرمائیں۔۔۔۔

عورتوں میں عقل کی کمی ہے۔۔۔ تو جیسے آپ بچوں کی سطح پر آکر اُن سے بات کرتے ہیں۔۔اسی طرح بیوی سے بھی بات کرو۔۔کیونکہ آپ جیسی عقل اُس کی نہیں ہے۔۔اُس میں عقل کا مادہ اللہ نے کم رکھا ہے۔۔۔او ر اگر اپنی سطح سے بات کرناچاہو گے تو پھر فساد پیدا ہوگا۔۔۔۔ کیونکہ وہ بیوی کی طاقت سے زیادہ ہوگا۔۔

پھر ممتاز صاحب نے پڑھنا شروع کیا۔۔مخلوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو اگر تم فرض نماز پڑھ رہے ہو اور کوئی اندھا جارہا ہے اور سامنے کوئی گڈھا یا کنواں ہے اور ڈر ہے کہ وہ اس کنوئیں میں گر جائے گا تو تم نماز توڑ دو، میرا حق چھوڑ دو، میری مخلوق کا خیال کرو۔ دیکھا آپ نے یہ ہے اللہ تعالیٰ۔ اللہ اﷲ ہے بھائی! اسی لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ مخلوق کے معاملے میں کبھی ظلم نہ کرو۔۔۔

 والدین کو ستانے والے کی توبہ کا طریقہ:  حدیثِ پاک میں اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ اگر کسی شخص کے ماں باپ ناراض ہوکر وفات پاگئے اور وہ ساری عمر قرآنِ پاک پڑھ کرایصالِ ثواب کرتا رہے اور کچھ مال بھی مدرسہ وغیرہ میں ان کے نام سے صدقہ جاریہ میں لگادے تو ان شاء اللہ قیامت کے دن فرمانبردار لکھ دیا جائے گا۔۔۔

اس لیے میں نے اس وقت چند نصیحتیں کی ہیںکہ اپنی بیوی کی ایک لاکھ خطائیں معاف کرو اور غیرت کا نام نہ لو کہ مجھے غیرت آتی ہے کہ بیوی ہوکر ہمیں غلام بنانا چاہتی ہے، لفظ غیرت سے توبہ کرو۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ غیرت تمہاری نہیں ہے۔۔۔

سن لو! بڑی غیرت غیرت کرتے ہو خاص کر بعض علاقے کے لوگ غیرت کے نام پر بہت ظلم کرتے ہیں، پہلی رات میں بیوی کو بلاقصور مارتے ہیں، کہتے ہیں تاکہ ہمیشہ کے لیے اس پر رعب رہے، کیا کہیں ظلم ہی ظلم ہے۔ ارے محبت ایسی چیز ہے کہ اگر تم پیار سے رکھو گے تو تم پر فدا رہے گی۔۔۔

حضرت حکیم الامت نے لکھا ہے کہ بیوی کو وظیفہ دینا اس کا ایک حق ہے۔ اس کا نام ہدیہ ہے۔ کچھ رقم ہر ماہ اس کو دو جس کا اس سے حساب نہ لو کہ ایک ہزار روپیہ دیا تھا، کہاں خرچ کیا؟

ماضی میں بیوی پر ظلم کیا ہو تو اسے لپٹا کر معافی مانگ لو کہ جب سے شادی ہوئی ہے آج تک مجھ سے آپ کو کوئی تکلیف پہنچی ہو تو مجھے معاف کردو۔۔۔

غرض جن سے دل نہ چاہے ان کے ساتھ بھی اخلاق سے پیش آئو۔ مخلوق ستائے تو اس کے لیے موت کی تمنا یا بیماری کی تمنا مت کرو، بس یہ کہو کہ اے اللہ! اس کو ہدایت دے دے، اس کے ظلم سے ہم کو نجات دے اور اس کو تلافی کی توفیق دے دے۔۔۔

ارے دوستو! قدر کرلو ایک دن اختر بھی قبر میں جانے والا ہے، یہ باتیں اللہ کی رحمت کے صدقے میں ہیں، ہماری اپنی کمائی اور مطالعہ نہیں ہے۔ بزرگوں کی صحبت اُٹھانے کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ وقت پر میرے دل پر مضامین عطا فرماتا ہے۔۔۔

آج اس زمانے میں روئے زمین پر اتنی صحبت اُٹھانے والا آپ کو نہیں ملے گا۔ ہر عالم اور ہر دینی مربی سے جاکر پوچھو کہ تم شیخ کے ساتھ کتنا رہے تو ان شاء اللہ میرا عرصۂ صحبت بڑھ جائے گا۔۔۔۔

دس برس تو میں اپنے شیخ کے ساتھ جنگل میں رہا اور سات برس اپنے مدرسہ کا ملاکر سترہ سال ہوئے اور تین سال یہاں، تین برس مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ، رات دن روزانہ بلاناغہ ان کی صحبت میں جاتا تھا۔

اور مولانا شاہ محمد احمد صاحب اتنے بڑے شیخ تھے کہ میرے شیخ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے ان کو اپنا پیر بنایا ہوا تھا۔۔۔

میں فخر نہیں کررہا ہوں، میں حق تعالیٰ کی رحمت کا شکریہ ادا کررہا ہوں کہ اختر ان بزرگوں کے پاس نہیں جاسکتا تھا اگر آپ توفیق نہ دیتے کیونکہ میری بالکل جوانی کا آغاز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اولیاء اللہ کی گود میں، اللہ والوں کی گود میں ڈال دیا۔۔۔

انہی کے صدقے میں یہ مضمون بیان ہورہا ہے، آپ کا دل فیصلہ کرے گا کہ یہ باتیں آپ کو کم ملیں گی، ہم نایاب نہیں کہتے کمیاب کہتے ہیں، نایاب کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ دعویٰ ہوجائے گا، ہوسکتا ہے اﷲ کا کوئی بندہ چھپا ہوا ہو لیکن مختلف خانقاہوں میں بیٹھ کر پھر میری بات سنو پھر آپ کو قدر معلوم ہوگی۔۔۔۔

بندیوں کے حق میں اﷲ تعالیٰ کی سفارش: سب سے بڑا کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں لہٰذا آج سے ارادہ کرلو کہ ہماری ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے خاص کر اپنی بیویوں کے معاملہ میں جن کے لیے اﷲ تعالیٰ نے سفارش نازل کی۔۔۔

حضور صلی اﷲعلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ سب سے اچھے اخلاق اس کے ہیں جس کے اپنی بیوی کے ساتھ اخلاق اچھے ہیں، ہم دوستوں میں تو خوب ہنسیں گے، خوب لطیفے سنائیں گے اور بیوی کے پاس منہ سکوڑے ہوئے جائیں گے یا سنجیدہ بزرگ بن جائیں گے، جیسے ہنسنا جانتے ہی نہیں۔ اب وہ بیچاری تعجب میں ہے کہ یا اﷲ میں دن بھر منتظر تھی کہ رات کو میرا شوہر آئے گا تو اس کے ساتھ ہنسوں بولوں گی، بیویوں کے ساتھ ہنسنا بولنا عبادت  میں داخل ہے، دوستوں میں رات بھر جاگنا اور بیوی سے بات نہ کرنا صحابہ کی سنت کے خلاف ہے۔

۴۱منٹ:فرمایا:حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا روزانہ کا معمول تھا۔۔باوجود اتنی مصروفیت کے رات میں  ایک گھنٹہ حضرت پیرانی صاحبہ  کے  پاس بیٹھ کہ اُن  سے باتیں کرتے تھے۔۔۔ پھر جاکر سوتے تھے

اور آج کل اس کے برعکس ہے۔۔رات کو دیر سے آئے۔۔۔اور دوسری کروٹ لی۔۔۔بیوی سے کہا کہ میں آج بہت تھک گیا ہوں۔۔مجھے نیند بہت آرہی ہے۔۔میں سوتا ہوں۔۔ذرا اُس سے بات چیت نہیں کی۔۔۔وہ بیچاری سارا دن انتظار کرتی ہے۔۔۔ شوہر جناب تو دوستوں میں  پھرتے ہیں لیکن بیویاں تو گھر میں تنہا رہتی ہیں۔۔پردہ کرتی ہیں۔۔۔ اُن کو شوہر ہی سےاپنے دل کی باتیں کرتی ہیں۔۔کچھ ہنسے بولیں گی۔۔۔جو کہ اُس کا حق ہے۔۔

اس لیے پہلے اُس سے کچھ بات چیت کرو پھر سو جائوں۔۔۔اُس کا بھی دل رکھوں۔۔۔ورنہ پھر تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔۔۔ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ہم سے محبت نہیں کرتے۔۔۔

حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ  کی نصیحت حضرت ابودرداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو۔۔

سی لیے حکیم الامت فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے بیویوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے کے لیے سفارش نازل کی ہے تو جو خدا کی سفارش کو رد کردے، یہ حکیم الامت کے الفاظ ہیں میں نہیں کہہ رہا، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اپنے زمانے کے مجدد تھے۔۔

وہ فرماتے ہیں کہ جو اپنی بیویوں کو ستائے اور اﷲ تعالیٰ کی سفارش کو رد کردے، ان کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش نہ آئے تو یہ بے غیرت مرد ہے کیونکہ وہ بے چاری کمزور ہے، اس کے ماں باپ اور بھائی اس سے دور ہیں۔

وہ تمہارے قبضہ میں ہے، دو تین بچوں کے بعد وہ اور بھی کمزور ہوجاتی ہیں اور مرد صاحب مسٹنڈے رہتے ہیں، انڈے کھا کھا کر ڈنڈے دِکھاتے ہیں اور کہتے ہیں صاحب کیا کروں میں تو غصے سے پاگل ہوجاتا ہوں۔

کہتا ہوں تولیہ دھو، اس نے تولیہ نہیں دھویا۔ ارے بھائی! کیوں تم نے اس کو خادمہ سمجھ رکھا ہے اپنا تولیہ خود دھولو، بیوی اس لیے تھوڑی دی گئی ہے کہ تمہارے کپڑے دھوتی رہے، خود دھولو لیکن اس کو مت ستاؤ ۔

۴۴منٹ ۵۰ سیکنڈ:حضرت نے پیار بھرے  میں  فرمایا: بس اب مجلس برخاست ۔۔۔ اب اپنے اپنے گھر جائیے۔۔اور جو کچھ سنا ہے۔۔جو شادی شدہ لوگ ہیں۔۔ اُس پر عمل کریں۔۔۔ اِس پر تمام حاضرین مجلس خوب لطف اندوز ہوئے۔۔۔اور ہنس پڑے۔۔۔۔ سب سے کہا حضرت بہت فائدہ ہوا۔۔ فرمایا: یہ سب حضرت کے ارشادات ہیں اِس میں نفع ہی نفع ہے۔۔نور ہی نور ہے۔

پھر  جذب اور  یقین  کے ساتھ فرمایا : " اب تو انشاءاللہ تعالی قیامت تک جتنے بھی مصلحین ، مجددین،مبلغین،دین کی اشاعت کرنے والے۔۔۔آئیں گے۔۔سب انشا  ء اللہ حضرت والا کے علوم سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔۔۔یہی علوم کی اشاعت ہوگی۔

خصوصاً جو کارِ تجدید حضرت کا ہے  بدنظری ، عشق مجازی کے خلا ف  جو حضرت کاپوری زندگی کا جہاد ہے۔اور اس کے جو معالجات اور جو ان سے بچنے کی تدابیر ہیں۔۔۔جو حضرتِ والا نے تجویز فرمائیں۔۔وہ اکابر کی کتابوں میں بھی نہیں ملتیں۔۔۔

اس واسطے کے اکابر کے زمانے میں مرض اتنی شدت سے تھا ہی نہیں۔۔اُس زمانے میں کوئی عورت کبھی برسوں میں دیکھائی نہیں دیتی تھی۔۔۔ابھی ۵۰ برس پہلےہم نے اپنے وطن میں دیکھاہے۔۔کوئی عورت نظر نہیں آتی تھی۔۔۔کہ سڑک پر پھررہی ہو۔۔برقع سے بھی نظر نہیں آتی تھی۔۔۔

اور اب آج کل کیا حال ہے۔۔کہ جدھر کو نکل جائوں تو بے پردہ عورتوں سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔۔تو ایسا مرض جب بڑھ گیا۔۔تو اللہ تعالی نے حضرت کو اُس کا مجدد بنا کر بھیجا۔۔تاکہ اِس کی تجدید فرمادیں۔۔

تو اب تو قیامت تک انشاءاللہ تعالی ان امراض کاعلاج حضرت والا کی تعلیمات کی روشنی میں۔۔۔تمام بڑے سے بڑے مجددین، صوفیاء کرام اور اہل علم کرتے رہے گے۔۔دین کے ہر شعبے میں۔۔حضرت سے اب کوئی۔۔انشاء اللہ تعالی بے نیاز نہیں ہوسکتا۔۔۔۔ایسی خدمت حضرت والا نے کی ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس کی قدر کی اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔

یوں  یہ طویل بہت ہی مفید مجلس ۴۸ منٹ پر مشتمل اختتام کو پہنچی۔۔ ۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries