مجلس۹ نومبر۲۰۱۳ء۔ حضرت والا رحمہ اللہ کی باتیں

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس: آج زیادہ تر مجلس حضرت والا کے  اشعار اور اُن کی تشریح پر مشتمل تھی مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار سنائے ۔۔۔ حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم نے اُس کی تشریح فرمائی۔۔ پھر ممتاز صاحب نےخزائن معرفت ومحبت صفحہ نمبر۴۳۸سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے غصہ چالاک ہوتا ہے۔۔۔غصہ کا علاج ۔۔۔پُرسکون زندگی حاصل کرنے کا طریقہ۔۔۔ تقریباً ۴۵ منٹ تک  یہ پرنور مجلس رہی۔۔۔۔۔۔۔

 الحمدللہ حضرت والا دامت برکاتہم شروع ہی سے مجلس میں رونق افروز تھے۔۔۔حضرت والا کی پوچھا "مولانا ابراہیم کشمیری صاحب ہیں؟ ۔۔۔۔ عرض کیا گیا ۔۔۔ موجود ہیں ۔۔۔حضرت والا نے اُن سے اشعار سنانے کا فرمایا۔۔۔۔

مولانا ابراہیم کشمیر ی صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار " سنانے شروع کیے ۔۔ بیچ بیچ میں حضرت مرشدی ومولائی حضرت میر صاحب دامت برکاتہم تشریح فرماتے جاتےتھے۔۔

جب دل سے انہیں ہم چاہیں گے وہ خود ہی کرم فرمائیں گے

مخلوق ہے ادنی سا سورج جب اُ س کو نہیں ہم دیکھ سکے

پھر خالق عالم کا جلوہ  دُنیا میں بھلا کیا پائیں گے

آتا ہے مجھے نالوں میں مزہ اے زاہد ناداں طنز نہ کر

جب عشق ہے اُن کا دل میں پھر کیوں نہ مجھے تڑپائیں گے

۲ منٹ ۲۳ سیکنڈ: فرمایا: حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے  اس شعر میں فرمایا  کہ جن کے دل اللہ  کی محبت سے خالی ہیں، اُس کو زاہد خشک کہتے ہیں شاعری کی اصطلاح میں ۔۔۔جو محض عبادت کرتا ہے۔۔محبت سے خالی ہے۔۔اُس کی عباد ت میں وہ لذت اور حلاوت نہیں ہوتی۔۔بس فرض ادا کردیتا ہے۔۔تو ایسے لوگوں جو ہیں وہ اللہ کی یاد میں رونااشکبار ہونا، غمگین رہنا۔۔اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا۔۔اُس میں بے چین رہنا۔۔یہ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا۔۔تو وہ اِس پر طنز کرتے ہیں۔۔کہ یہ صوفی لوگ ہیں یہ بس ہو ۔۔ہا۔۔ کرتے رہتے ہیں۔۔اور تو کچھ اِن کو آتا نہیں ہے۔۔توحضرت والا نے اس آخری مصرع میں فرمایا کہ ہمارے اوپر طنز نہ کرو۔یعنی اہل اللہ پر۔۔جو کہ اللہ تعالی کی یاد میں روتے ہیں۔۔اللہ تعالی کی یاد میں بے چین ہیں۔۔کیونکہ تیرے دل میں اللہ تعالی کی محبت نہیں ہے اس واسطے  بے چینی نہیں ہے۔

جس کے دل میں اللہ تعالی کی محبت ہوتی ہےتوجب عشق ہے اُن کا دل میں پھر کیوں نہ مجھے تڑپائیں گے۔۔ تو تڑپانے کا مطلب یہ  نہیں ہے کہ نعوذ باللہ کوئی اُس کو کوئی درد پیدا کردیں گے دل میں یا پیٹ میں۔بلکہ یہ مطلب ہے کہ جس کے دل میں اللہ کی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔۔تو وہ اللہ تعالی کی تلاش میں بے چین رہتا ہے۔۔اللہ تعالی اُس کے دل کو بس اپنا ہی غم دیتے ہیں۔۔اور اپنے لیے ہی اُس کو بےقرار رکھتے ہیں۔۔

دنیاوی درد میں تو تکلیف ہوتی ہےاور یہ وہ درد ہے کہ اہل اللہ کے سامنے سلطنت ہفت اقلیم ساتوں ملک کی سلطنت دی جائے۔۔۔خزائن السموات والارض زمین و آسمان کے خزانے پیش کیے جائیں تب بھی وہ اِس کا ایک ذرہ دینے کو تیار نہیں۔۔حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ  اللہ تعالی کی تلاش میں بے چین رہے۔

حضرت والا کی تشریح کے بعد مولانا  ابراہیم کشمیری صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا

جائیں گی کبھی آہیں دل کی بلائے فلک تا عرش بریں

یہ درد محبت کے نالے کچھ رنگ تو اپنا لائیں گے

۷ منٹ ۴سیکنڈ: تشریح میں فرمایا: اللہ کی یاد میں اللہ کے راستے میں گناہوں سے بچنے کا غم اٹھانے میں جو آہ نکلتی ہے۔جس سے درد پیدا ہوتا ہے۔۔وہ حضرت فرماتے ہیں۔۔کہ وہ عرش بریں تک پہنچتی ہے۔۔عرش اعظم کو ہلا دیتی ہے۔۔حضرت فرماتے ہیں کہ ہمارے آہیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔۔۔کبھی وہاں پہنچیں گی اور یہ جو درد محبت میں ہم  نعرہ ہائے عشق بلندکررہے ہیں۔۔۔ اللہ کی یاد میں رو رہے ہیں۔۔یہ اپنا رنگ دکھائیں گی انشاءاللہ تعالی ۔۔کیونکہ ان اللہ لا یضع اجر المحسنین ۔ اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔۔

اللہ تعالی کسی مومن کی دُعا کو اُس کی آہ کواوراللہ کے راستے میں جو جو بھی غم وہ  اُٹھاتے ہیں۔۔۔۔ اس کورائیگاں نہیں کرتے۔۔

حضرت والا کے یہ اشعار بائیس تئیس سال کی عمر کے ہیں۔۔جس وقت حضرت پھولپوری حیات تھے۔۔وہاں حضرت والا رحمہ اللہ حضرت پھولپوری کو سناتے تھے۔۔تو حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔۔وہ شعر بھی ابھی آئے گا تو اُس وقت بتا دوں گا۔۔۔

مولانا  ابراہیم کشمیری صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا اور یہ شعر پڑھا

جب شمع محبت دل میں لئے  محفل میں ہو کوئی صاحب ِضو

پھر عشق خدا کے پروانے خود اُڑ کے وہاں آجائیں گے

۱۰ منٹ۴۴سیکنڈ:  نہایت درد سے فرمایا: کہ یہ شعر بالکل حضرت والا کے مقامات اور حالات کی عکاسی کرتا ہے۔۔کہ ہم سب سے دیکھا کہ جہاں بھی حضرت والا نکل گئے۔۔وہاں ایک مجمع پیچھے پیچھے ہوتا تھا۔۔جس طرح شمع پر  پروانے ہوتے ہیں۔

حضرت نے فرمایا تھا کہ جب کوئی صاحب ِ نسبت جس کے دل میں اللہ تعالی کی محبت ہو اور اُس کو بسنت مع اللہ حاصل ہو۔۔۔ تو جب وہ کسی محفل میں بیٹھا ہو۔۔یا جنگل میں بیٹھا ہو۔۔تو جو اللہ تعالی کے عشق کے پروانے ہیں۔۔اللہ تعالی کے عاشق بندے ہیں۔۔تو وہ پروانوں کی طرح اُس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔۔جیسے شمع پر پروانہ جا تا ہے۔۔ایسے ہی اللہ کے عاشقین اُس اللہ والے کے پاس جاتے ہیں۔اُسے کسی اشتہار کی ضرورت نہیں۔۔جیسے حضرت والا کی شان میں  تائب صاحب نے فرمایا ہے:

لوگ صحرائوں سے گلشن پہنچے

کب  کسی  نے  تھا  اشتہار   دیا

کوئی اشتہار نہیں دیا جاتا ، اُس کی ذات خود اشتہار ہوتی ہے سار ے عالم میں۔حضرت والا نے فرمایا تھا  کہ اللہ میرے درد کو ضائع نہیں کرے گا۔۔میں نے جب حضرت سے عرض کیا تھا سوانح لکھنے کے  لیےتو حضرت نے فرمایا تھا کہ یہ مواعظ خود میری سوانح ہیں۔۔درد محبت جس کے دل میں ہوتا ہے اُس کی خوشبو کو سارے عالم میں خود ہی نشر فرمادیتے ہیں۔۔

بس یہی تھا ۔۔ سائوتھ افریقہ میں بھی دیکھ لیا ، بنگلہ دیش میں بھی دیکھ لیا۔۔جہاں حضرت والا پہنچتے تھے۔۔۔دس دس ہزار مجمع ہوتا تھا ۔۔ اور بنگلہ دیشں میں بیس بیس ہزار کا مجمع ہوتا تھا۔۔کوئی وقت خالی نہیں جاتا تھا۔۔ اتنارجوع ہوتا تھا کہ دروازہ بند کرنا پڑتا تھا۔۔۔ کہ لوگ آتے رہتے تھے۔۔

سائوتھ افریقہ میں بڑے بڑے علماء حضرت  کی خدمت میں آتے رہتے تھے کہ حضرت والا کو سونے کا کوئی موقع نہیں ملتا تھا ۔ میں دیکھتا تھا کہ تھوڑا سا وقت ہوتا تھا کہ  جب حضرت والا سونے کے لیے لیٹے لگے  تو کبھی مولانا منصور الحق صاحب  آرہے ہیں ۔۔ کبھی مولانا عبدا لحمید صاحب  آرہے ہیں ۔۔۔ تو میں جلدی سے دروازہ بند کردیتا تھا۔۔۔

تو یہ چیز ہوتی ہے۔۔کہ ایسی اللہ تعالی نے حضرت والا کو محبوبیت اور ایسا درد ِ محبت عطا فرمایا تھا۔۔کہ لوگ جیسے شیرہ پرچونٹیاں جاتی ہیں۔۔اس طرح حضرت والا سے لوگ چمٹ جاتےتھے۔۔ کہ  پھر عشق خدا کے پروانے خود اُڑ کے وہاں آجائیں گے۔۔اورضو ء معنی روشنی ۔۔ صاحب ِ ضو ء معنی صاحب ِ روشنی  یعنی اللہ تعالی کی محبت کی روشنی لیے ہوئے۔۔صاحب نسبت۔

مولانا  ابراہیم کشمیری صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا اور یہ شعر پڑھا

بلبل کو نہ تو کر اے ناداں پابندِ سکوت و خاموشی

جب اُس کو چمن یاد آئے گا نالے بھی لبوں تک آئیں گے

۱۰ منٹ۴۴سیکنڈ:  فرمایا: یہی وہ شعر ہے جس کو حضرت والا فرماتے تھے کہ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃا للہ علیہ رونے لگتے تھے۔۔۔آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے۔۔۔حضرت والا تو مرید تھے لیکن اللہ تعالی نے کیا درد عطا فرمایا تھا کہ جو شیخ کو بھی رُلا دیتا تھا۔۔اِس پر حضرت والا یہ شعر پڑھتے تھے

وہ چشمِ ناز  بھی  نظر آتی ہے  آج  نم

اب تیرا کیا خیال ہے  اے  انتہائے  غم

کہ غم کس انتہاء کا دل میں عطا فرمایا ہےکہ وہ چشم ِ ناز یعنی شیخ کی آنکھ وہ بھی نم نظر آرہی ہے۔آنسووں سے بھیگ گئی ہے۔

تو اِس میں فرمایا حضرت نے جیسے بلبل کو پنجڑے میں قید کر لیتے ہیں۔۔تو وہ اُس میں بولتی ہے چہچہاتی ہےتاکہ میں اِس سے نکل جائوں ۔۔ تو یہ اُس کا رونا ہے۔۔اُس کی آنکھوں میں آنسو رہتا ہے ، بلبل کی آنکھ میں قدرتی طور پر آنسو رہتا ہے۔۔جس کو شاعروں نے کہا کہ یہ پھول کی یاد میں روتی ہے۔

تو یہاں اس سے مراد یہ ہے۔۔کہ دُنیا کے قفس میں پنجڑے میں ہیں اور اللہ کے عاشق ہیں تو اُن کو خاموشی کا پابند نہ کروکہ وہ خاموش رہیے روئے نہیں اللہ کی محبت میں ۔۔۔بالکل ساکت اور جامد رہیں۔۔۔کیوں کہ جب اُن کو چمن یاد آئے گا۔۔جب جنت انہی یاد آئے گی۔۔تو خودبخود اُن کی آنکھو ں سے آنسو بہہ جائیں گے۔ کہ جب اُس کو چمن یاد آئے گا نالے بھی لبوں تک آئیں گے

جنت میں جہاں اللہ تعالی کا دیدار ہوگا جب وہ یاد آئے گا۔تو اِس دنیا کے قفس میں ان کا دل لگتا نہیں ہے۔اُن کی آنکھوں سے آہ نکل جائے گی۔۔اس لیے ایسے لوگوں کو مجبور نہ کروکہ تم رو ئوں نہیں

اس لیے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ کسی صوفی پر اگر گریہ طاری ہوجائے۔حال طاری ہوجائے۔۔۔اور وہ کھڑا ہوجائےتو کوئی اُس وقت ہنسے نہیں کہ اِس سے اُس کا ہارٹ فیل ہوسکتا ہے۔۔لیکن صحیح حال ہو۔۔۔یہ جعلی پیروں والا حال نہ ہو۔۔۔صحیح حا ل ہو۔۔۔ فرمایا کہ اگر وہ کھڑا ہو جائے تو پوری مجلس کھڑی ہوجائے۔۔ورنہ اُس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔۔

حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ جب طالب علم تھے جوان تھے ۔۔ تو وہاں دیکھتے تھے کہ وہاں ایک مجلس ہوتی تھی ۔۔قوالی کی ۔۔۔اُس میں ایک شخص بہت اچھلتا تھا۔۔جیسے کوئی حال آگیا ہے۔۔تو حضرت پھولپوری جاکر وہاں بیٹھ گئے ۔۔ سوئی ساتھ لے گئے تھے۔۔کہ اگر اس پر اصلی حال ہوگا۔۔تو حضرت فرماتے تھے کہ اگر اُس کو مار بھی ڈالو تو بھی اُس کو خبر نہیں ہوگی۔۔

حضرت نے فرمایا تھا کہ میرے شیخ پھولپوری شروع ہی سے بہت شوخ تھے ۔۔تو سوئی لے گئے تھے تو جیسے ہی وہ آدمی اچھلاانہوں نے سوئی لگا دی۔۔بس ایک ہی سوئی میں اُس کا حال جاتا رہا۔سارا اچھلنا کودنا بند ہوگیا۔۔

حضرت نے فرمایا کہ حضرت پھولپوری  رحمۃ اللہ علیہ جب  طالب علم تھے اس وقت بھی پہلوان تھے  خوب طاقت تھی۔ ایک  اسٹیشن پر  حافظ شیرازی کے اشعار پڑھ رہے تھے۔۔تو ایک سکھ جو اسٹیشن ماسٹر تھا اُس نے کہا کہ خبردار یہاں پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔۔حضرت نے کہا کیوں پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔۔اس سے کیا ہوتا ہے۔۔اُس نے کہا بس میں نہیں اجاز ت دیتا ۔ تو حضرت نے فرمایا : اچھا ٹھیک بات ہے پڑھتا تو نہیں ہوں ۔۔لیکن ذرا شہر آنا کسی دن ۔۔ تو ایک دن وہ شہر پہنچ گیا۔حضرت پھولپوری وہاں موجود تھے۔۔بس جاتے کہ ساتھ ہی اُس کو پکڑ کرزمین پر گرا دیا اوپر بیٹھ کر خوب اُس کی پٹائی کی۔اُس سکھ کے ہاتھ میں حضرت کی  پائوں کی چھوٹی انگلی آگئی ۔۔ وہ اُس نے مروڑ دی  تو حضرت والا نے فرمایا تھا کہ وہ انگلی حضر ت کی ٹوٹ گئی تھی۔۔تو ایسی دینی غیرت تھی۔

حضرت والا میر صاحب نے مزید ارشاد فرمایا: کہ جو بچے بچپن میں شوق ہوتے ہیں۔۔اکثر پھر وہ بہت بڑے ولی اللہ ہوجاتے ہیں۔۔ذہین بھی ہوتے ہیں۔۔

تھا تو حضرت پھولپوری میں غیرتِ دینی ایسی تھی۔۔۔حضرت والا نے ہی سُنایا تھا۔۔ حضرت پھولپوری کا بہت شہرہ ہوگیا کہ وہاں اِن کا مدرسہ ہے وہاں لاٹھی سیکھاتے ہیں۔۔بہت ہی ماہر ہیں تو وہاں  کے ہندووں  نے  کہا ہم اپنے  بنارس کے بڑے بڑے پہلوانوں کوبلاتے ہیں۔۔ اُن سے آپ لڑ کر دیکھا دیجیے۔۔حضرت پھولپوری نے فرمایا ٹھیک ہے۔۔لے آئو۔۔ اُس وقت حضرت صاحب ِنسبت ہوگئے تھے اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے خلیفہ بھی ہوگئے تھے۔۔حضرت والا نے بھی سیکھی لاٹھی چلانا  اُن سے ۔۔ اور مولانا ابرار الحق صاحب کو بھی سیکھاتے تھے۔۔تو اُس کے بعد وہ آگئے پہلوان ۔۔ انہوں نے اب مقابلہ کرلیجئے۔۔۔ تو حضرت پھولپوری نے فرمایا  میں تو بعد میں مقابلہ کروں گا۔۔پہلے میرے شاگرد سے تو مقابلہ کرلو۔۔اور یہ اکیلا  ہے اور تم سب پہلوانوں کے سامنے۔۔ پہلے اِن سے مقابلہ کرو پھر مجھے بتانا۔۔اور لکھوا لیا کہ اگر ہاتھ پائوں ٹوٹ گیا۔۔تو میں ذمہ دار نہیں ہیں۔۔

وہ شاگرد حضرت پھولپوری کا تربیت یافتہ تھا ۔۔۔تو اُس نے جو لاٹھی چلائی۔۔تو جناب یہاں کسی پہلوان کی ناک پر پڑگئی تو ناک گئی ۔۔ ہاتھ پر پڑ گئی تو ہاتھ گیا۔۔کسی کا سر پھٹ گیا۔۔تو سب کے سب اٹھ کر بھاگ گئے وہاں سے۔۔اور کہا کہ ۔۔۔یہ مدرسہ نہیں ہے۔۔پولیس لین ہے پولیس لین۔۔۔

اور حضرت والا نے فرمایا  تھا کہ ۔۔۔شیر تھا میرا شیخ ۔۔۔ ایک دفعہ حضرت پھولپوری سفر کر رہے تھے۔۔ تو ایک سکھ بیٹھا تھا۔۔پستول  لیے ہوئےتھا ۔۔تو اُس نے حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کردی۔۔۔تو حضرت کو کہاں برداشت تھا۔۔کہا تیری ایسی کی تیسی ۔۔۔اُس کو مارنے کو ڈورے۔۔۔اب اُس کے ہاتھ میں پستول  لیکن وہ ایسا گھبرایا ۔۔۔ اور اتر کر بھاگا۔۔اور حضرت اُس کے پیچھے بھاگنے لگے۔۔اور گھبرا کر اسٹیشن ماسٹر کے کمرے گھس کر کمرہ بند کرلیا ۔۔ حضرت باہر ٹہلتے رہے ۔۔کہ ابھی نکلتا ہے کہ اس خبیث کی خبر لیتا ہوں۔۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ ایسا رعب تھا حضرت پھولپوری کا ۔۔۔ کہ سڑک کے کنارے ایک مسجد تھی ۔۔تو ہندوستان کی گورنمنٹ کے ایم این اے وغیرہ نے کہا کہ اس مسجد کو گرانا ہے۔۔اس لئے کہ یہ سٹرک کے قریب ہے۔۔سٹرک بڑھانی ہے۔۔حضرت کو پتہ چل گیا۔۔فرمایا اچھا  لاء۔۔حضرت کے پاس ایک لاٹھی تھی جو تیل میں ڈوبی رہتی تھی۔۔اُس کا نام حضرت نے عبد الجبار رکھا تھا۔۔۔تو حضرت نے فرمایا ۔۔۔ لانا تو میرا عبد الجبار ۔۔۔اور وہ لاٹھی ہاتھ میں لی۔۔اور مسجد کے سامنے کھڑے ہوگئے۔۔تو وہ جو ہندو  نیتا  ٹوپی لگائے ہوئے آئے ۔۔۔ موٹے موٹے دوھتی  پہنے ہوئے۔۔۔ تو حضر ت پھولپوری نے زور سے آواز لگائی ۔۔۔ خبیثوں ۔۔تمہیں اس مسجد کی بنیادوں میں دفن کروں گا۔۔تو انہوں نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی۔۔

حضرت والا نے ہی سنایا تھا کہ " ایک لڑکے نے ایک ہندولڑکی کو بھگا کر لے گیا۔۔وہاں ہندوں کی زیادہ آبادی تھی۔۔حضرت پھولپوری کا تو۔۔۔ چھوٹا سا مدرسہ تھا ۔۔۔  لیکن سب ڈرتے تھے۔۔ تو ہندووں نے پلان بنایا کہ سب مسلمانوں کا یہاں قتل ِ عام کریں گے۔۔حضرت پھولپوری کو خبر ہوگئی۔۔۔حضرت والا نے فرمایا کہ وہاں ایک ٹیلہ تھا حضرت والا جا کر کھڑے ہوگئے۔۔اور سب کو آواز دی۔۔۔ادھر آجائو اور پھر فرمایا کہ تمہاری لڑکی کو جو بھگا کر لے گیا ہے۔۔اُس کو پکڑ لو چاہے تم اُس کو مارو ڈھارو۔۔ جو کچھ کرو۔۔پھانسی دو۔۔قتل کرو۔۔ہم کچھ نہیں بولیں گے۔۔لیکن اُس کے علاوہ ۔۔۔ تم نے کسی ایک بھی مسلمان پر ہاتھ اُٹھایا۔۔۔جس نے جرم کیا ہے اُس کو سزا دے سکتے ہو۔۔لیکن جنہوں نے جرم نہیں کیا۔۔اُن پر اگر تم نے ہاتھ اٹھایا۔۔تو عبد الغنی تمہارے  بال بچوں میں سے کسی کو نہیں چھوڑے گا۔۔لاٹھی ایسی حضرت کو آتی تھی۔۔۔

حضرت والا نے فرمایا  کہ وہاں ہندوستاں میں رام ریلہ کا ایک میلہ لگتا ہے جس میں راون کا پتلا جلاتے ہیں۔۔  وہ  روان جو سیتا کو بھاگا کر لے گیا تھا۔۔۔ حضرت میر صاحب نے ہنستے ہوئے  فرمایا:  بھگوان کی بیوی سیتا کو بھگا کر لے گیا تھا۔۔اور بھگوان کی طاقت نہیں تھی کہ اُس کو روک لے ۔۔اور اُس کو حضرت والا فرماتے تھے کہ سیکنڈ ہینڈ کرکے واپس کیا۔۔ یہ بات فرماکر حضرت والا میر صاحب بہت ہنسے ۔۔۔

تو وہاں راون کا پتلا جلاتے ہیں جس نے سیتا کو بھگایا تھا۔۔۔تو کسی نے آکر حضرت پھولپوری کو بتا دیا۔حضرت اُس وقت تلاوت فرما رہے تھے۔۔۔ کہ حضرت قرآن پاک کی آیات راون کے  پتلے پر ہندووں نے لگا رکھی ہیں۔۔اور اب  اُس کو جلائیں گے۔۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ وہاں دس ہزار کا مجمع تھا ۔۔۔ کوئی ایک دو آدمیوں کی بات نہیں۔۔تو حضرت پھولپوری نے لاٹھی اُٹھائی ۔۔۔وہیں اُس پتلے کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے۔۔۔اور وہ آگئے ہاتھ جوڑ کر  کہ مولانا  کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ جو پتلا تم نے بنایا ہے ۔۔قرآن پاک کی جو آیات اس میں لگی ہوئی ہیں ۔۔۔ان کو مجھے اُتار کر دے دو۔۔اور اگر اُتار نہیں دیتے تو پھر مجھ سے مقابلہ کرو۔۔ایک ہزار آدمیوں کو گرا کر ۔۔۔ پھر مروں گا۔۔میرے شیخ تھانوی نے فرمایا تھا۔۔۔کہ" یہ ایک ہزار آدمیوں کے لیے کافی ہیں"۔۔۔ایک ہزار لاشیں گرائوں گا پہلے۔۔۔پھر تم مجھ پر ہاتھ اُٹھا سکو گے۔۔ہندو فوراً کہنے لگے ۔۔۔ نہیں جی مولوی جی ہم سے غلطی سے لگ گیا۔۔اور اُتار کر حضرت کو دیا ۔۔۔ حضرت نے بغل میں رکھا۔۔۔ لاٹھی کندھے پر رکھی۔۔۔اور وہاں سے واپس ہوگئے۔۔ حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا تھا کہ مجھے تو شیخ بھی ایسے ملے۔

حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے یہ  نایاب واقعات سنانے کے بعد فرمایا:  کہ ایسے شیخ کی صحبت میں ہمارے حضرت والا سترہ سال گزارے ۔۔ لیکن وہ سترہ سال کیا تھے شب و روز کا مجاہدہ تھا۔۔۔ظاہری مجاہدہ بھی۔۔۔ باطنی مجاہدہ بھی۔۔۔حاسدین کا ستانا ۔۔۔

فرمایا: ہم لوگ جو رہ رہے ہیں عیش میں رہ رہے ہیں۔۔لیکن حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے چاروں طرف حاسدین تھے۔۔۔جو ستاتے رہتے تھے۔۔۔اور حضرت نے فرمایا کہ میں اُن کے خلاف  بول بھی نہیں سکتا تھا۔۔ کیونکہ وہ شیخ سے اتنے قریب تھے۔۔۔کہ اگر میں بولتا تو مجھے سازش کرکے نکلوادیا جاتا۔۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ مجھے حضرت شیخ پھولپوری کی ایسی محبت تھی ۔۔کہ میں اگر کسی کام سے بھی الگ ہوگیا۔۔۔۔ تو مجھے بخار رہنے لگتا تھا۔۔اور پیشاپ بھی پیلا آنے لگتا تھا۔۔اور بھوک بند ہوجاتی تھی۔۔۔اور میں اس پر قادر ہی نہیں تھا کہ شیخ کو چھوڑ سکتا۔۔

تو آپ سوچئے تو ۔۔۔ جو۔۔ ایسے شیخ کی خدمت میں رہے ۔۔ تو اپنے کو کیا بنا گئے ہوں گے۔اسی لئے جب حضرت پھولپوری کا انتقال ہونے لگا۔۔تو چار پانچ دن پہلے ہمارے حضرت نے شیخ سے پوچھا کہ" حضر ت آپ مجھ سے خوش ہیں۔۔" تو حضرت پھولپوری کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔۔اور فرمایا کہ" بہت خوش ہوں" حضر ت نے عرض کیا " حضرت دُعا فرمادیجئے۔۔کہ اللہ تعالی مجھے دین کی دولت عطا فرمادیں"  تو حضر ت پھولپوری نے فرمایا کہ" اُس کی کیا کہتے ہووہ تو عطا ہوچکی"

اس پر حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ یہ معمولی بات نہیں ہے۔۔حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلفاء میں سے ہیں۔۔تو اُن کی زبانِ مبارک سے  یہ نکلنا ۔۔ا ور ایسا اعتماد ہونا۔۔فرمایا کہ وہ تو عطا ہوچکی۔۔پھر حضرت نے عرض کیا " حضرت دُعا فرما دیجئے اللہ مجھ سے دین کا کام لے لے" ۔۔۔اس پر حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے  فرمایا کہ اپنی والدہ کو بلائو"۔۔۔جو کہ حضرت پھولپوری کے نکاح میں تھیں۔۔۔

تو والدہ صاحبہ آئیں تو حضرت پھولپوری نے فرمایا کہ تم آمین کہو میں دُعا کرتا ہوں۔۔حضرت والا نے فرمایا کہ بہت دیر تک حضرت پھولپوری دُعا فرماتے رہے ۔۔۔پھرحضرت والا فرماتے تھے کہ جو کچھ بھی تم یہ دیکھ رہے ہو۔۔یہ میرے شیخ کی دُعائوں کا ثمرہ ہے۔۔

فرمایا کہ : یہ واقعہ بھی عجیب ہے کہ کیسی قربانی ہے۔۔۔ حضرت والا کا حضرت پھولپوری کی خدمت میں پہنچنے کے چار سال کے بعد  حضرت پھولپوری کی اہلیہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا تھا۔۔ ایک دن حضرت پھولپوری نے اتنا فرمایا کہ بعضے امراض ایسے ہوتے ہیں کہ جس میں صرف بیوی ہی خدمت کرسکتی ہے۔۔اور کوئی نہیں کرسکتا۔۔۔۔تو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ اپنی والدہ صاحبہ کی خدمت میں گئے۔۔اور عرض کیا کہ شیخ سے نکاح کے لیے۔۔۔

حضرت والا کی والدہ صاحبہ نے وہی خواب دیکھا تھا جو ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا تھا کہ چاند اُن کی گود میں آگیا ہے۔۔ پھر اُن کی شادی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی تھی۔۔۔ تو حضرت کی والدہ صاحب نے بھی ایسا خواب دیکھا کہ چاند میری گود میں آگیا۔۔ وہ راضی ہوگئیں اور اُن کا نکا ح حضرت پھولپوری سے  ہوگیا۔

لیکن ہندوستان میں  ہندووں کے اثر کی وجہ سے  ۔۔۔بیوہ کی شادی کو۔۔بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔۔ہندوستان میں ہندو عورتیں جو بیوہ ہوجاتی ہیں وہ پھر شادی نہیں کرسکتیں۔۔خصوصاً دیہاتوں میں جہاں  ہندووں کی آبادی زیادہ تھی۔۔وہاں مسلمانوں کا بھی یہی حال تھا۔۔

حضرت والا نے جب والدہ کا نکاح کردیا اور اپنے گاوءں اٹھیہ جہاں تمام خاندان والے تھے واپس  تشریف لائے۔۔تو حضرت کے بھانجے نے بتایا۔۔کہ انہوں نے آکر حضرت پر بہت لعن طعن کی۔بہت ستایا بہت بُرا بھلا کہا ۔۔ حضرت نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔ بس سیدھے مسجد میں تشریف لے گئے۔۔۔وضو کر کے دو نفل پڑھ کے سجدے میں گر گئے۔۔۔ ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا۔۔۔۔ پوری خاندان کے اندر ۔۔۔کسی  کی بیوی گر پڑی ۔۔کسی کے بچے کو بخار چڑھ گیا۔۔کسی کے یہاں والدین  مرنے لگا۔۔۔۔پھر وہ سب کے سب بھاگے۔۔حضرت کے پاس آئے۔۔۔اور پائوں پر گر گئے۔۔۔ پھر معافی مانگی۔۔ یہ کرامت کا ظہور ہوا تھا۔۔۔کیونکہ حضرت والا نے سنت کو زندہ کیا تھا۔۔" حضرت اقدس حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ یہ واقعہ بھی لکھنا ہے حضرت کی سوانح میں ۔۔۔

حضرت والا نے فرمایا کہ پھر جب نکاح ہوگیا تو حضرت شیخ پھولپوری نے میرے تسلی کے لیے فرمایا "کہ حضرت امام محمد کی والدہ سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے نکاح کیا تھا"  حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ "یہ بزرگوں کی سنت ادا کی"

تقریباً ۲۶ منٹ کی عاشقانہ ، روح کو مست کرنے والی  تشریح اور نہایت ایمان افروز حالات و واقعات کے بیان کے بعد مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔۔

تم لاش کو میری غسل نہ دو بس خون میں لتھڑی رہنے دو

کل خون ِ شہادت  میں لتھڑا  یہ  جسم  انہیں  دکھلائیں   گے

۳۷منٹ۴۲سیکنڈ:   مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا: شہید کو وہ غسل نہیں دیا جاتا اُس کی حکمت  اس شعر میں حضرت والا نے بیان فرمادی۔کہ جب خون میں لتھڑا ہوا جسم اللہ تعالی دیکھیں گے۔جو حدیث میں بھی ہے۔۔تو پوچھیں گے کہ یہ خون کیسے نکلاپھر وہ بتائیں گےکہ اللہ آپ کے راستے میں ۔۔ میں نے یہ زخم کھائیں ہیں۔ اور جان دی ہے۔۔تو اُس کی حکمت یہی ہے۔اس کی وجہ سے شہید کوغسل نہیں دیا جاتا۔۔کیونکہ اللہ تعالی اُس خون کو دیکھ کر اور زیادہ اُس پر رحمت فرمائیں گے۔

مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔۔۔ اور آخری شعر پڑھا

اختر کو جو تو نے دولت ِ غم بخشی ہے بافیض پیرِ  ہُدا

اُمید ہے تجھ سے بارِ خدا اس درد کا درماں پائیں  گے

حضرت والا کے حکم پر چند ملفوظات خزائن معرفت و محبت سے ممتاز صاحب نے پڑھ کر سنائے۔

غصہ چالاک ہوتا ہے: ، غصہ بہت ہوشیار ہوتا ہے، جب سیر بھر طاقت والے کے پاس سوا سیر والا آجائے اور ڈنڈا اور چھرا اور چاقو دکھائے تب اس وقت غصہ کہتاہے کہ معاف کردینا۔ اب غصہ کو یہ عقل کہا ں سے آگئی؟

خوب سن لو دوستو! سیر بھر طاقت والا غصہ آدھے سیر والے پر پاگل ہوتا ہے، اپنے سے کمزور پر پاگل ہوتا ہے لیکن جب سوا سیر والا آگیا، محمد علی کلے نے بوکسنگ کا ایک ہاتھ دکھایا تو وہاں ہاتھ جوڑ کر بلی بن گئے۔ معلوم ہوا کہ غصہ میں کوئی پاگل نہیں ہوتا، یہ سب بیوقوفی اور مکاری کی باتیں ہیں۔۔۔

غصہ کا علاج:میں نے ان کو لکھا کہ جب دسترخوان بچھاؤ تو سب لوگ مل کر کھاؤ اور کھانے پر سات مرتبہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھ کر دم کرو اور دم کرتے وقت تھوڑا ساتھوک بھی گر جائے مگر ذرّہ کے برابر یہ نہیں کہ ایک تولہ تھوک دیا۔ ملا علی قاری مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ میں لکھتے ہیں خُرُوْجُ الْبُزَاقِ مِنَ الْفَمِبزاق کے معنیٰ ہیں کہ تھوک کے تھوڑے سے ذرات گرجائیں۔

اس لیے اپنے دوستوں سے کہتا ہوںکہ کسی بزرگ سے مشورہ کرلو، آج ہم نے بزرگوں سے، اﷲ والوں سے تعلق چھوڑ دیا، اپنا علاج خود ہی کرنے لگے، روحانی بیماری کا کوئی مرض ایسا نہیں جو اچھا نہ ہوسکے، پوچھ کر عمل کرکے دیکھو۔۔۔

پُرسکون زندگی حاصل کرنے کا طریقہ: بعض لوگ اپنے ماں باپ کو ستاتے ہیں، اپنے شیخ کو ستا تے ہیں، اپنی بیویوں کو ستا تے ہیں، اپنے بچوں کی بے جا پٹائی کر تے ہیں، گلاس گرگیا تو مار مار کر ہڈی توڑ دی اور بچہ کو ہسپتا ل میں داخل کرنا پڑا

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جیسے تمہاری زندگی ہے برتنوں کی بھی زندگی ہے، ان کی بھی موت لکھی ہوتی ہے جس دن گرنا ہے گر کررہے گا، اس لیے ذرا نرمی سے تنبیہ کردو کہ مضبوط ہاتھوں سے برتن پکڑو، یہ نہیں کہ مار، پٹائی اور ظلم و تشدد شروع کردیا، یہ اسی کا عذاب ہے کہ آج ہم سکون سے نہیں ہیں۔

یہاں تقریباً ۴۶ منٹ پر مشتمل پرنور مجلس اختتام  کو پہنچی۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries