مجلس۲۵نومبر۲۰۱۳ء تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں!

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:  :الحمدللہ شروع ہی سے حضرت والا مجلس میں رونق افروز تھے ۔۔۔۔۔۔حضرت والا کے حکم پر ممتاز صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں حضرت اقدس میر صاحب دامت کا مضمون " تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں۔۔ آہ بہت شرمندہ ہیں" پڑھ کر سنایا۔۔۔ آج صرف یہی درد بھرا مضمون درد بھرے انداز میں پڑھا گیا ، ۔۔۔مفتی امجد صاحب  بھی مجلس میں حاضر تھے۔۔۔ تقریباً ۵۰ منٹ  کی مجلس ہوئی۔۔۔

شروع میں حضرت والا دامت برکاتہم نے ایک اعلان فرمایا،۔۔۔۔

۱منٹ ۱۰ سکینڈ: پر فرمایا: "  ایک مضمون حضرت والا کی سوانح کے بارے میں شروع کیا تھا تین چار ماہ الابرا ر میں بھی شایع ہواپھرحضرت والا کی طبیعت زیادہ علیل ہوگئی وہ سلسلہ موقوف ہوگیا  اب حضرت کی وفات کے بعد اُس کو مکمل کیا اور ایک اور مضمون تھا حضرت والا کے مجاہدات کے بارے میں ہے یہ حضرت والا کے انتقال کے  وقت کا ہے ۔۔ آج اُسی سے پڑھ کر سنائیں گے۔میں چاہتا تھا کہ حضرت کے وہ مجاہدات جن کا اُمت کو علم نہیں ہے ۔۔۔ اُس کا لوگوں کو معلوم ہوجائے۔ اب تو حضرت والا نہیں رہے کہ ہم اُن سے استفادہ کرتے بہرحال بزرگوں کے حالات سے بھی ہدایت ہوتی ہے اس لیے اسی خیال سےمختصراً اُن مجاہدات کو  تحریر کردیا۔ ان شاءاللہ  جب سوانح مکمل لکھی جائے گی اس میں مفصل آجائیں گے۔اللہ تعالی لکھو ادےاور قبول فرمالے

پھر جناب ممتاز صاحب نے پڑھنا شروع کیا:

۲۳؍ رجب المرجب ۱۴۳۴ھ مطابق ۲؍ جون ۲۰۱۳ء کو بروز دو شنبہ ۷؍ بج کر ۴۳؍ منٹ پر غروب آفتاب کے ساتھ ہی عشق و محبتِ الٰہی کا آفتابِ عالمتاب بھی غروب ہو گیا اور اب شاید ہی کبھی ایسا کوئی آفتاب طلوع ہو۔ امت میں خال خال ہی ایسے اولیاء اللہ پیدا ہوئے ہیں جن کی رگ رگ میں عشقِ الٰہی کی آگ بھری ہوئی تھی، جو ہمہ وقت عشقِ الٰہی میں غرق تھے، جیسے مولانا رومی، حضرت شمس الدین تبریزی، حضرت فرید الدین عطار وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔ آنے والی تاریخ بتائے گی کہ مرشدی ومولائی محبی و محبوبی مجدِد زمانہ شیخ العرب و العجم عارف باللہ حکیم الملت حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی منفرد اور خال خال اولیاء اللہ میں سے ایک تھے۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیر کے دن ہوئی تھی اس لیے حضرت نے ایک سفر میں دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ! میری موت بھی پیر کے دن ہو، حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال بھی بروز دوشنبہ بوقت غروب آفتاب ہوا تھا اور اس زمانے کے رومیِ ثانی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال بھی پیر ہی کو ہوا۔

جب معارفِ مثنوی تقریباً چالیس برس پہلے شائع ہوئی تھی تو ایران کے ایک بڑے عالم نے خط میں لکھا تھا کہ ’’ہر کہ مثنوی اختر را بخواند او را مثنوی مولانا روم پندارد حقّا کہ مولانا حکیم اختر صاحب رومی عصر اند‘‘ یعنی جو بھی مثنویِ اختر کو پڑھتا ہے اس کو مثنوی مولانا روم سمجھتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ مولانا حکیم اختر صاحب اس دور کے رومی ہیں۔

آہ! ۲۳؍رجب ۱۴۳۴ھ کو مغرب کے چند منٹ بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ ہم کو یتیم کر کے اس دارِ فانی سے دارِ بقا کی طرف تنہا چلے گئے اور احقر کا ۴۶؍؍ برس کا شب و روز کا ساتھ چھوٹ گیا، احقر ایک لمحہ کے لیے بھی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے جدا ہونا نہیں چاہتا تھا اور محسوس کرتا تھا کہ اگر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ہوگئی تو میں زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ احقر ۱۹۶۹؁ء میں جب حضرت والاؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت سے اکثر یہ دعا کرتا تھا کہ یا اللہ دنیا میں بھی ہمیشہ حضرت کے ساتھ رکھے اور مرتے وقت بھی ساتھ رکھے اور جنت میں بھی ساتھ رکھے۔  ۲۰۰۰؁ء میں جب حضرت والا پر فالج کا حملہ ہوا تھا تو دل ہر وقت مضطرب رہتا تھا کہ نہ جانے کیا ہونے والا ہے آخر کار   ؎

دل میں مدت سے تھی خلش جس کی

وہی برچھی جگر کے پار ہے آج

۲۰۰۰ء سے ۲۰۱۳ء تک ۱۳سال مسلسل پانچوں نماز کے بعد رو رو کر یہ دعا کرتا تھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت کو صحت و عافیت کے ساتھ ۱۲۰سال کی عمر عطا فرمائیں اور جب حضرت کی وفات ہو تو میرا بھی اسی وقت ایمان کامل پہ خاتمہ ہوجائے اور دونوں جنازے ساتھ ساتھ اٹھیں لیکن آہ   ؎

جو تم بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم

نہ اس عہد کو ہم وفا کر سکے

بہر حال اللہ تعالیٰ کی مرضی پر دل و جان سے راضی ہوں، حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ ہی ہمیں اپنی حیات سے تسلیم و رضا کا یہ سبق دے گئے۔

حضرت والا کی پوری زندگی صبر و تسلیم و رضا سے تعبیر ہے، جس کا لوگوں کو علم نہیں کہ اللہ کے راستہ میں حضرت والا کن مجاہدات اور تکالیف اور حاسدین کی ایذا رسانیوں سے گذرے ہیں، ان شاء اللہ اجمالاً ان کا تذکرہ کروں گا۔ ۱۳برس سے حضرت والا صاحب فراش تھے، تسلیم و رضا کا پیکر تھے، اگر حضرت والا کی اس حالت کو نہ دیکھا ہوتا تو معلوم ہی نہ ہوتا کہ تسلیم و رضا کسے کہتے ہیں۔ اس حالت میں بھی کبھی کسی سے اپنی تکلیف کا اظہار نہیں فرمایا، اگر کوئی مزاج پوچھتا تو فرماتے اللہ کا شکر ہے کہ سر سے پیر تک خیریت سے ہوں، الحمد للہ کوئی تکلیف نہیں اور بیماری کی اس حالت میں بھی لوگوں سے مزاح فرماتے، ہنستے رہتے اور ہنساتے رہتے اور اپنا مقامِ تسلیم و رضا اس شعر میں ظاہر فرما گئے۔

کیف تسلیم و رضا سے ہے بہارِ بے خزاں

صدمہ و غم میں بھی اختر روح رنجیدہ نہیں

۲۲؍ رجب ۱۴۳۴ھ کی صبح کو مجھے معلوم نہیں تھا کہ آج حضرت والا کی رحلت ہونے والی ہے، اگر چہ حالت نازک تھی لیکن ایسے آثار نہیں تھے کہ اتنی جلدی داغ جدائی لگنے والا ہے۔ صبح گیارہ بجے کاشف خلیل میاں سلمہ نے آکر مجھے بتایا کہ حضرت والا بیدار ہیں، احقر فوراً حاضر خدمت ہوا اور بستر کے قریب ہو کر حضرت والا کے چہرۂ مبارک کے سامنے سلام عرض کیا، حضرت والا نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ آہ! حضرت کی مسکراہٹ ہمیشہ ایسی حسین تھی کہ دنیا میں کسی کی مسکراہٹ ایسی حسین نہیں دیکھی۔ احقر نے حضرت سے بات جاری رکھنے کے لیے عرض کیا کہ حضرت آپ کو بھوک لگ رہی ہے۔ حضرت والا نے آنکھیں بند کر لیں۔ جس وقت حضرت والا نے احقر کو دیکھا تو آنکھوں میں ایسی چمک تھی جیسی جوانی میں تھی اور بیماری کا کوئی اثر نہیں تھا، اس کے بعد احقر حضرت کے قریب وھیل چیئر پر بیٹھ گیا، تقریباً پون گھنٹہ بعد حضرت والا کے ہاتھ میں حرکت ہوئی جس سے پتا چلا کہ حضرت بیدار ہیں، احقر نے پھر حضرت کے چہرۂ مبارک کے قریب ہو کر عرض کیا کہ حضرت والا! حضرت والا نے پھر آنکھیں کھول کر دیکھا، آنکھوں میں ویسی ہی چمک تھی، احقر نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ حضرت والا کو ۱۳۰؍ سال کی حیات صحت و عافیت کے ساتھ عطا فرمائے اور نہ معلوم میرے منہ سے یہ الفاظ کیوں نکلے جب کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آج حضرت سے جدائی ہونے والی ہے کہ حضرت والا! آپ نے فرمایا تھا کہ دونوں ساتھ ساتھ چلیں گے تو حضرت اپنا وعدہ نہ بھولئے گا۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے پھر اپنی مبارک آنکھیں بند کر لیں اور یہ آخری نظر تھی جو احقر پر پڑی۔

شام کو بعد نماز عصر سوا چھ بجے جب احقر کا ڈائی لیسس ہو رہا تھا کہ اچانک کاشف میاں سلمہ آئے اور کہا کہ جلدی آجائیں، حضرت کی حالت بہت نازک ہے، دل پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، ایسا محسوس ہوا کہ مجھ پر دل کا دورہ پڑ جائے گا۔ ڈائی لیسس فوراً بند کرا کے احقر خانقاہ میں حاضر ہوا جہاں حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا مظہر صاحب دامت برکاتہم اور حضرت کے پوتے مولانا ابراھیم صاحب، مولانا اسماعیل صاحب اور مولانا اسحاق صاحب حضرت والا کو تھیلی سے آکسیجن دے رہے تھے، حضرت کے چہرۂ مبارک پر ایسا سکون اور طمانینت تھی کہ جیسے کوئی تکلیف ہی نہ تھی اور چہرہ اور پیشانی مبارک پر نور بڑھتا جا رہا تھا جیسے چودھویں کا چاند روشن ہو، اتنے میں مغرب کی اذان ہوگئی، مولانا ابراھیم صاحب نے روتے ہوئے مسجد میں نماز پڑھائی۔ مغرب کے فرض پڑھ کر احقر خانقاہ حاضر ہوا اور دو سنت ادا کی۔ حضرت والا کی آکسیجن اور نیچے گر گئی اور چند سیکنڈ میں محبوب مرشد مجددِزمانہ عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نے جان جان آفرین کے سپرد کر دی،   انا ﷲ وانا الیہ راجعون  وفات سے پانچ چھ دن پہلے نہایت بشاشت کے ساتھ سلام کا جواب دیااور ہاتھ سے مصافحہ فرمایا اور فرمایا کہ’’چلو‘‘ عرض کیا کہ کہاں چلیں تو مسکراکر خاموش ہوگئے۔ وفات سے پانچ دن قبل اپنے صاحبزادے حضرت مولانا محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم سے فرمایا کہ آج کیا دن ہے؟ حضرت مولانا نے جواب دیا کہ آج بدھ ہے تو حضرت والا نے نفی میں سر ہلا دیا ۔ دودن بعد پھر پوچھا کہ آج کیا دن ہے؟ حضرت مولانا مظہر صاحب نے عرض کیا کہ آج جمعہ ہے تو پھر نفی میں سر ہلا دیا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضرت والا پیر کے دن کا انتظار فرمارہے ہوں، جس میں انتقال کی دُعاحضرت نے چند سال پہلے فرمائی تھی۔حضرت والا کی طبیعت صبح ہی سے تشویشناک تھی۔ حضرت کے معالجِ خاص ڈاکٹر امان اللہ صاحب جنہوں نے تیرہ سال دل و جان سے حضرت کا علاج اور خدمت کی یہاں تک کہ اکثر اوقات اپناکھانا پینا بھی بھول جاتے، وہ اورڈاکٹر ایوب صاحب بے بس تھے اور اشکبار تھے آخر کار وقت ِ آخر آپہنچا سات بج کر بیالیس منٹ پر جبکہ پیر کو داخل ہوئے بائیس منٹ ہوچکے تھے۔ حضرت نے داعی اجل کو لبیک کہا اور اللہ تعالیٰ نے حضرت والا کی مُراد کو پورافرمادیا   ؎

انچہ او خواہد خدا خواہدچنیں

می دہد یزداں مراد متقیں

جو اللہ والے چاہتے ہیں اللہ بھی وہی چاہتا ہے اور اللہ اپنے متقین بندوں کی مُراد کو پوری فرماتا ہے۔

  احقر جو یہ سمجھتا تھا کہ حضرت کے ساتھ ہی میرا بھی دم نکل جائے گا اور۱۳سال سے مسلسل غم میں مبتلا تھا اور حضرت کی جدائی کے خوف سے روتا رہتا تھا لیکن اس وقت نہ جانے اچانک قلب کو کیا ہوا جیسے اچانک دل پر سکینہ نازل ہو گیا، جیسے دل کو کسی نے تھام لیا میرے آنسو بہہ رہے تھے ،خانقاہ کے اندر لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کر سسکیوں سے رورہے تھے لیکن میں دل پر غم کا پہاڑ لئے ہوئے دوسروں کو تسلی دے رہا تھا کہ صبر کریں یہ صبر کا مقام ہے۔ حضرت کی وفات کی خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی چند منٹوں میں غیر ممالک سے فون آنے لگے، خانقاہ میں لوگوں کا پہلے ہی بڑا ہجوم تھا تھوڑی دیر میں خانقاہ کے صحن اور مسجد کی چھتوں پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ حضرت نے وصیت فرمائی تھی کہ سنت کے مطابق مجھے جلد از جلد دفن کیا جائے، لیکن معلوم ہوا کہ صبح نو بجے سے پہلے قبر تیار نہیں ہوسکتی، حضرت نے منہ دکھائی کی رسم سے منع فرمایا تھا کیونکہ اس سے دفن میں تاخیر ہوجاتی ہے، لیکن چونکہ حضرت والاؒ کی طرف سے اپنے خانوادہ کے لیے مختص کردہ قبرستان کی زمین نہایت پتھریلی اور سخت تھی جس کی وجہ سے قبر کی تیاری میں مشکلات کے باعث صبح نو بجے سے پہلے تدفین ناممکن تھی، اس لئے حضرت مفتی محمد نعیم صاحب رئیس دار الافتاء جامعہ اشرف المدارس اور حضرت مفتی محمود اشرف عثمانی صاحب دار العلوم کورنگی سے رجوع کیا گیا دونوں مفتیان کرام نے فرمایا کہ اب حضرت کے چہرۂ مبارک کی زیارت کرانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ حضرت کا چہرۂ مبارک چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن معلوم ہو رہا تھا۔ حضرت کے قدیم دوست جناب نثار احمد فتحی صاحب نے فرمایا کہ میں نے دفن سے پہلے بہت سے اکابر کے چہرۂ مبارک دیکھے ہیں مگر جیسا نور حضرت کے چہرہ پر تھا ایسا نور کسی کے چہرہ پر نہیں دیکھا۔جب سب لوگ زیارت کرکے جاچکے اور چہرۂ مبارک کفن سے ڈھانپ دیا گیا تو احقر نے سوچا کہ آخری بار اور اپنے پیارے شیخ کی زیارت کرلوں۔ کفن اُٹھا کر دیکھا تو واللہ کہتا ہوں کہ حضرت والارحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ روشن اور پہلے سے زیادہ بقعۂ نور تھا اور گردن اور دوش مبارک کا کچھ حصہ نظر آیا وہ بھی نور میں ڈوبا ہواتھا۔

عین جس وقت حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا ڈیوز بری (انگلینڈ) میں ایک بہت اللہ والی بوڑھی خاتون جو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھیں، وہ ظہر کے بعد قیلولہ کر رہی تھیں اور پاکستان کے مطابق وہی وقت تھا، جب حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا، انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ریاض الجنہ سے حضرتؒ کا ہاتھ پکڑ کر جنت البقیع کی طرف لے جا رہے ہیں۔ احقر کا گمان اقرب الی الیقین ہے کہ حضرت والاؒ کا جسدِ مبارک جنت البقیع میں منتقل کر دیا گیا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت والا سے اکثر سنا کہ حضرت کے شیخ اوّل حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ اجل حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ بعض اولیاء اللہ کی موت کسی اور ملک میں واقع ہوتی ہے لیکن ان کا جسم جنت البقیع میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔

اب ہر وقت نگاہوں کے سامنے ماضی میں حضرت والا کی خدمت میں گذرے ہوئے ایام کی جھلکیاں آتی ہیں اور دل کو تڑپاتی ہیں۔ حضرت والا کی شفقتیں، حضرت والا کے الطاف و کرم جب یاد آتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، حضرت والا نے ایسی محبت فرمائی کہ و اللہ! احقر ماں باپ کی محبت کو بھول گیا۔ ماں باپ سے بھی زیادہ حضرت نے شفقت و محبت کا معاملہ فرمایا۔ حضرت سراپا محبت تھے اور ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ حضرت مجھے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ ناظم آباد میں تقریباً ۴۵؍ سال پہلے حضرت مولانا مظہر صاحب (جو اس وقت طالب علم تھے)سے فرمایا کہ آپ کو ایک پلا پلایا بھائی مل گیا۔ احقر تو حضرت والا کا غلام تھا، ایک غلام کو اپنے گھر کا فرد فرما کر عزت بخشی۔ حضرت والا کا شعر ہے جو حضرت نے اپنے شیخ حضرت پھولپوری کی وفات پر کہا تھا وہ اب احقر کا حال ہے   ؎

لطف تو چوں یاد می آید مرا

بوئے تو جانم بجوید در سرا

جب آپ کی محبت اور الطاف و کرم مجھے یاد آتے ہیں تو میری جان دیوانہ وار آپ کی خوشبو کو اس جہان میں تلاش کرتی ہے، اب جان عشرت بھی آپ کو تلاش کرتی ہے مگر آپ کو نہیں پاتی اور تڑپ کر رہ جاتی ہے۔ آہ کبھی وہ دن تھے کہ   ؎

جنت کی مے پئے ہوئے ساقی تھا مست جام

ساغر تھا دور مے تھا مقابل میں ہم بھی تھے

اک زلف پر شکن نے کیا تھا ہمیں اسیر

آزاد ہو کے دام سلاسل میں ہم بھی تھے

خوابوں کی سر زمیں تری محفل میں ہم بھی تھے

جو دل کہ جان بزم تھا اس دل میں ہم بھی تھے

دیکھا کسی نے کل ترا میرِ شکستہ حال

رو رو کے کہہ رہا تھا کہ اس دل میں ہم بھی تھے

(احقر)

۔۔۔۔۔

جو یاد آتی ہے وہ زلف پریشاں

تو پیچ و تاب کھاتی ہے مری جاں

کوئی پوچھے گا گر یہ مجھ سے آکر

کہ کیا گذری ہے اے دیوانے تجھ پر

نہ ہر گز حال دل اپنا کہوں گا

ہنسوں گا اور ہنس کر چپ رہوں گا

آہ! کبھی احقر سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی ایک لمحہ کی جدائی برداشت نہیں ہوتی تھی اور ذرا سی دیر کی جدائی میں احقر کا یہ حال ہوجاتا تھا   ؎

سامنے تم ہو تو دنیا ہے مجھے خلد بریں

اور قیامت کا سماں تم سے بچھڑ جانے میں ہے

پاس اگر تم ہو تو ہے آباد ویرانہ مرا

ورنہ آبادی بھی شامل میرے ویرانے میں ہے

(احقر)

یہ معلوم نہ تھا کہ حضرت سے نہ جانے کتنے عرصے کے لئے بچھڑ جائوں گا لیکن یہ عارضی وقفہ ہے اللہ تعالیٰ جنت میں حضرت سے دائمی ملاقات نصیب فرمائے جہاں پھر کبھی جدائی نہیں ہوگی، آمین۔ اللہ تعالیٰ حضرت کے ارشاد کو جس کو احقر حضرت والا کی دعا سمجھتا ہے اور جس کو یاد کر کے دل کو بہت تسلی ہوتی ہے احقر کے حق میں قبول فرمائے۔ تقریباً تین برس پہلے حافظ عدنان صاحب خلیفہ مجاز حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے رات کے دو بجے جب کہ حضرت والا بیدار تھے، حضرت کو یہ خواب سنایا کہ جنت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت والا حاضر ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بہت پیار سے حضرت والا کو دیکھ رہے ہیں۔ خواب سنانے کے بعد سب حاضرین نے دعا کرائی کہ حضرت دعا فرمادیجئے کہ جنت میں ہم سب کو آپ کا ساتھ نصیب ہو۔ حضرت والا نے سب کے لئے دعا فرمائی۔ احقر اس وقت موجود نہ تھا، احقر کو معلوم ہو ا تو فوراً حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضرت دعا فرمادیجئے کہ مجھے بھی جنت میں آپ کا ساتھ نصیب ہو۔ اس وقت حضرتؒ نے احقر کو ایک عظیم بشارت دی۔ اللہ تعالیٰ حضرت والاؒ کی اس بشارت کو احقر کے حق میں قبول فرمائیں، حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے لکھا ہے کہ حدیث میں جو آتا ہے:

لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اﷲِ لَاَبَرَّہُ  (صحیحُ البخاری)

تو یہ قسم تا کیداً ہے، اگر یہ حضرات کسی بات کو فرمابھی دیں تو اللہ تعالیٰ ویسا ہی کر دیتے ہیں، آمین۔

اب حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے وہ حالات اور مجاہدات مختصراً لکھتا ہوں، جن کا امت کو علم نہیں، تفصیل سے لکھنے کی ان اوراق میں گنجائش نہیں، ان شاء اللہ حضرت کی سوانح میں مفصل حالات زندگی تحریر کرنے کا ارادہ ہے، اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بہ حسن و خوبی صحیح حالات تحریر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور قبول فرمائے اور امت مسلمہ کے لئے نافع فرمائے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

میرے محبوب مرشد مادر زاد ولی تھے۔ حضرت نے مجھے خود سنایا کہ جب میں گود میں تھا تو میری بڑی ہمشیرہ جو اس وقت بچی تھیں، مجھے گود میں لے کر مسجد میں امام صاحب سے دم کرانے گئیں تو مسجد کو دیکھ کر میرا دل خوش ہوگیا کہ یہ میرے اللہ کا گھر ہے اور انہوں نے مجھے زمین پر بٹھا دیا تو مجھے یاد ہے کہ میں نے مسجد کی زمین کو بوسہ دیا اور جب امام صاحب دم کرنے کے لئے تشریف لائے تو ان کی ڈاڑھی اور لمبا کرتہ اور گول ٹوپی دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی، بعد میں جب ذرا بڑا ہوا تو معلوم ہوا کہ مسجد کے امام حافظ ابو البرکات صاحب تھے جو حضرت مولانااشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ مجاز بیعت تھے۔ حضرت کو بچپن ہی سے اللہ تعالیٰ کی طرف خاص جذب محسوس ہوتا تھا اور دنیا سے دل اچاٹ رہتا تھا ۔

۲۵ منٹ ۵۲ سیکنڈ: یہاں مفتی امجد صاحب نے حضرت سے عرض کیا کہ اگر اُس بشارت کو جو حضرت نے آپ کو دی تھی اگر ظاہر فرمادیں تو کوئی حرج تو نہیں۔۔ اس پر حضرت والا میر صاحب نے مفتی صاحب کی رعایت سے وہ بات ظاہر فرمائی۔۔۔

حضرت اقدس میر صاحب نے روتے ہوئے فرمایا:"میں نے جب حضرت سےدُعا کے لیے  عرض کیا تو حضرت  نےفرمایا کہ  جنت میں اور تُوساتھ ساتھ ہوں گے" حضرت میر صاحب نے اشارہ بھی کرکے دیکھایا کہ حضرت والا رحمۃ اللہ نے  اپنے سینہ مبارک  کی طرف انگلی کا اشارہ  کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ  جنت میں "میں" ۔۔۔۔ اور پھر حضرت میر صاحب کے سینے مبارک کی طرف انگلی کر کے فرمایا  تھا" اور تُو  " ساتھ ساتھ ہوں گے۔

ممتاز صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا:اور نیک بندوں سے محبت اور ان کی وضع قطع اچھی لگتی تھی۔ حضرت ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ گھر سے دور جنگل کی مسجد میں جا کر عبادت کرتے تھے اور قصبہ کے باہر ایک اور مسجد تھی، جس کے قریب چند گھر آباد تھے لیکن کوئی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں آتا تھا، حضرت نے انہیں نماز کی دعوت دی اور وہ لوگ نمازی بن گئے اور مسجد میں اذان و جماعت ہونے لگی اور لوگ حضرت کو محبت سے مسجد کے نمازیوں کا پیر کہنے لگے اور حضرت کے ان حالات کو دیکھ کر حضرت کے والد صاحب کے دوست حضرت کو فقیر اور درویش کہنے لگے اور والد صاحب بجائے نام لینے کے حضرت کو مولوی صاحب کہتے تھے۔ اسی دورِ نابالغی میں حضرت نصف شب کے بعد جنگل کی مسجد میں نکل جاتے اور وہاں تہجد پڑھتے۔ حضرت کی والدہ ماجدہ پریشان ہوتیں اور منع کرتیں کہ بیٹا! اتنی رات کو اکیلے مت جایا کرو۔ حضرت نے فرمایا کہ میں فجر سے چند گھنٹے پہلے مسجد سے نکلتا۔ ایک رات جب میں مسجد سے نکلا تو دیکھا کہ میرے والد صاحب مسجد سے باہر کھڑے میرا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر فرمایا کہ بیٹا! تم میرے اکلوتے بیٹے ہو، میں سرکاری ملازم ہوں، میرے دس دوست، دس دشمن ہیں، تم رات کو گھر پر ہی تہجد پڑھ لیا کرو، حضرت فرماتے ہیں کہ اس کے بعد والد صاحب کی مرضی کے مطابق میں گھر پر تہجد پڑھنے لگا۔ والد صاحب کو بھی حضرت دین کی دعوت دیتے، انہوں نے ایک مٹھی ڈاڑھی رکھ لی اور حضرت نے فرمایا کہ میں نے تہجد میں والد صاحب کے سجدے میں رونے کی آواز بارہا سنی ہے۔

اسی دور نابالغی ہی میں حضرت کو مثنوی مولانا روم سے بہت شغف ہوگیا اور مثنوی سمجھنے کے لئے فارسی پڑھنا شروع کر دی اور حضرت مثنوی کے اشعار پڑھ پڑھ کر رویا کرتے تھے۔ دل خدائے تعالیٰ کے لئے بے چین رہتا۔ حضرت کے استاد جو حضرت کو قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے ان کی آواز بہت اچھی تھی، حضرت قرآن پاک پڑھنے کے بعد ان سے در خواست کرتے کہ حضرت مثنوی شریف کے کچھ اشعار سنادیجئے، ان کی درد ناک آواز میں مثنوی سن کر دل اللہ کی محبت میں تڑپ جاتا۔

حضرت بچپن ہی سے والد صاحب سے در خواست کرتے کہ مجھے دیوبند بھیج دیجئے۔ جب حضرت ۱۴سال کے ہوئے تو والد صاحب سے پھر دیوبند جانے کی در خواست کی لیکن والد صاحب نے طبیہ کالج الہ آباد میں داخل کردیا، الہ آباد میں حضرت کی ملاقات حضرت مولانا محمد احمد رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی جو نقشبندی سلسلہ کے بزرگ تھے، حضرت شاہ فضل ِرحمن گنج مراد آبادیؒ کے سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے اور سراپا عشق و محبت تھے۔ حضرت فرماتے تھے کہ طبیہ کالج سے فارغ ہو کر جب کہ میرے ساتھی دریائے جمنا میں نہاتی ہوئی عورتوں کو دیکھنے جاتے اور میں سیدھا حضرت مولانا محمد احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا اور رات کے گیارہ بجے تک حضرت مولانا کی خدمت میں رہتا، حضرت بھی مجھ پر بے انتہا شفقت فرماتے تھے۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحب شاعر بھی تھے ان کی اشعار کی مجلس ہوتی تھی اور حضرت خود بہت دردناک آواز میں اپنے عارفانہ اشعار پڑھتے تو دل تڑپ جاتا۔ تین سال تک جب تک حضرت طبیہ کالج، میں رہے روزانہ کا یہ معمول تھا کہ پانچ بجے شام شاہ محمد احمد صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور رات گیارہ بجے تک رہتے۔ حضرت مولانا محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے حضرت والا کو بے انتہا محبت تھی اور حضرت مولانا محمد احمد صاحب کو بھی حضرت سے انتہائی محبت تھی۔ ایک بار الہ آباد سے حضرت کو خط میں لکھا کہ جیسی محبت آپ کو مجھ سے ہے ایسی کسی کو مجھ سے نہیں ہے۔ حضرت فرماتے تھے کہ میرے مرشد اول تو دراصل مولانا شاہ محمد احمد صاحب ہیں۔

بچپن ہی سے حضرت کو مرشد کی تلاش تھی۔ الہ آباد آنے سے پہلے جب حضرت مڈل میں پڑھتے تھے، اس وقت حضرت کی عمر ۱۲؍ سال تھی تو حضرت مسجد کے امام حافظ ابو البرکات صاحب خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانویؒ جو چھوٹی عمر میں حضرت پر دم کیا کرتے تھے، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت مجھے بیعت کر لیجئے۔ حضرت نے فرمایا کہ حافظ صاحب کو مجھ میں نہ جانے کیا نظر آیا جو انہوں نے فرمایا کہ حضرت حکیم الامت نے مجھے مجازِ بیعت للعوام بنایا ہے اور آپ عوام میں سے نہیں ہیں، کوئی بڑا شیخ آپ کی تربیت کرے گا۔ اس سے قبل جب حضرت درجہ ہفتم میں پڑھتے تھے تو حضرت حکیم الامت کا وعظ راحت القلوب پڑھ کر حضرت حکیم الامت سے بہت زیادہ عقیدت و محبت ہوگئی اور بیعت ہونے کے لئے حضرت حکیم الامت کو عریضہ لکھا تو وہاں سے جواب آیا کہ حضرت علیل ہیں۔ حضرت کے خلفاء میں کسی سے رجوع کریں۔ چند دن بعد ہی حضرت حکیم الامت تھانوی کا انتقال ہوگیا تو حضرت کو سخت صدمہ ہوا اور گریہ و زاری کے ساتھ تلاوت کر کے ایصال ثواب کیا۔

حضرت والا نے ایک بار احقر کی اصلاح اور قلب کی تسلی کیلئے فرمایا کہ میں جب پندرہ سال کا ہوا تو میرے دل میں خواہشات کا ایک سمندر تھا اور میرا مزاج عاشقانہ تھا، اس وقت میں نے سوچا کہ اگر میں نے کسی شیخِ کامل کا دامن نہیں پکڑا تو میں ان خواہشات میں بہہ جائوں گا تو میں نے فوراً حضرت شاہ عبد الغنی صاحب سے تعلق قائم کیا اور فرمایا کہ اس عاشقانہ مزاج کے با وجود مجھ سے زندگی میں کبھی ایک بار بھی لغزش نہیں ہوئی۔ احقر نے ایک بار جنوبی افریقہ میں جب حضرت کے یہ حالات سنائے تو وہاں کے اکابر علماء خصوصاً حضرت مولانا یونس پٹیل صاحبؒ (صدر مجلس علماء جنوبی افریقہ و خلیفہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ) تڑپ گئے اور فرمایا کہ کاش! حضرت کے یہ حالات شائع ہوجائیں تو امت زیادہ استفادہ کر سکے گی لیکن افسوس حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میںیہ شائع نہ ہوسکے۔

طبیہ کالج الہ آباد میں حضرت کے ایک دوست نے حضرت مولانا عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی عشق و مستی اور محبت الٰہی میں حضرت کی سرشاری و کیف و وارفتگی کے چشم دید واقعات سنائے تو حضرت نے حضرت پھولپوری سے اصلاحی مکاتبت شروع کی اور حضرت کو اپنا مرشد بنالیا۔

اپنے شیخ کی زیارت کے لیے حضرت کا دل بے چین رہتا ۔ والد صاحب کا انتقال ہوچکا تھا حضرت نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ آپ کے ساتھ بہت عیدیں گذاری ہیں ایک عید شیخ کے ساتھ گذارنے کی اجازت دے دیجئے اور حضرت عین بقر عید کے دن نماز عید الاضحی سے قبل شیخ کی خدمت میں پہنچے اس وقت حضرت کی عمر۱۸؍ سال تھی پہلی ہی ملاقات میں ایک چلہ شیخ کی صحبت میں گذارا۔

اس کے بعد مستقل حضرت اپنے شیخ کی خدمت میں رہ پڑے، سولہ سال دن رات کی صحبت کا شرف حاصل رہا اور شیخ کی اس جاں نثاری و فدا کاری سے خدمت کی، جس کی مثال نہیں ملتی۔ شیخ پھولپوری کی خدمت و محبت کے بہت مختصر سے واقعات حضرت نے درسِ مثنوی روم میں تحریرفرمائے ہیں جو یہاں نقل کرتا ہوں ۔ علماء کے محضر میں مثنوی کا درس دیتے ہوئے حضرت نے فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے عجیب و غریب علوم عطا فرمارہے ہیں اور یہ آپ حضرات ہی کی برکات ہیں، اس مہینے کی برکات ہیں اور میرے ان بزرگوں کی برکات ہیں جن کے ساتھ ایک عمر اختر نے بسر کی اور ایسی بسر کی کہ جنگل میں دس سال تک فجر سے لے کر ایک بجے تک ناشتہ نہیں کیا کیونکہ میرے شیخ بھی ناشتہ نہیں کرتے تھے تومیں کیسے کرتا۔ مجھے شرم آتی تھی کہ شیخ تو ناشتہ نہ کریں اور گھر سے میرے لئے ناشتہ آئے ۔ میرا ناشتہ اشراق و چاشت اور ذکر و تلاوت سے ہوتا تھا ۔ دوپہر ایک بجے تک ایک دانہ اُڑ کر پیٹ میں نہ جاتا تھا۔خوب کڑاکے کی بھوک لگتی تھی لیکن کیا بتائوں کہ شیخ کی صحبت میں کیا لُطف آتا تھا کہ آج تک وہ مزہ دل میں محسوس ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔ کیا کہیں عجیب و غریب معاملہ تھا، وہاں نہ بیت الخلاء تھا نہ غسل خانہ اور جنگل میں استنجا کے لیے جانا اور تقریباً ایک میل سے شیخ کے لیے پانی لانا کیونکہ حضرت کنویں سے وضو نہیں کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ ہندویہاں پانی بھرتے ہیں اور کنویںمیں اپنا ڈول ڈالتے ہیں اگرچہ اس سے وضو کرنا جائزہے لیکن میرا دل نہیں چاہتا لہٰذا گرمیوں کی دھوپ میں روزانہ ایک میل دور ندی سے حضرت کے لیے پانی لاتا تھا۔ اللہ تعالی کی رحمت سے اُمید ہے کہ  ؎

آہ جائے گی نہ میری رائیگاں

تجھ سے ہے فریاد اے رب جہاں

اللہ والوں کی خدمت اللہ تعالی رائیگاں نہیں کرتا۔ اپنے پیاروں کی خدمت اور ان کی محبت خدا ئے تعالی ضائع نہیں فرماتے۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم جو اَب میرے مُرشد ہیں، جدہ میں مجھ سے فرمایا کہ سارے عالم میں جو تم کو پوچھا جارہا ہے اور تم سے جو دین کا کا م لیا جارہا ہے یہ سب حضرت شا ہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت کا صدقہ ہے اور اپنے سگے بھائی اسرار الحق صاحب سے جو حیدرآباد سندھ میں رہتے تھے، فرمایا کہ میں نے جو کتابوں میں پڑھا تھا کہ لوگ اپنے شیخ پر پہلے زمانے میں کس طرح فدا ہوتے تھے اور کتنی مشقت اور محبت سے ان کی خدمات میں سرگرم رہتے تھے، وہ کتابوںمیں تو پڑھا تھا میں نے روئے زمین پر نہیں دیکھا تھا، مگر اختر کی زندگی میں وہ کتابوں کا پڑھا ہوا مجھے نظرآگیا۔یہ ان کے بھائی نے مجھے بتایا کہ مولانا ابرار الحق صاحب یوں فرمارہے تھے۔ اس کی مجھے اتنی خوشی ہے کہ اگر سلطنت  ہفت اقلیم دے دوں تو حق ادا نہیں ہوسکتا۔

ایک دفعہ میں گیارہ بجے رات کو پھولپور آیا۔معلوم ہوا کہ حضرت اور حضرت ہردوئی اعظم گڑھ چلے گئے جو وہاں سے تیس چالیس میل ہے۔ میں وہاں سویا نہیں اگرچہ سونے کی جگہ تھی ۔ سیدھا اسٹیشن آگیا اور پلیٹ فارم پر جاگتا رہا۔ دو تین بجے کے قریب دوسری ریل جب آئی تو اس سے میں تہجد کے وقت اعظم گڑھ پہنچ گیا۔ حضرت سورہے تھے۔ میرے شیخ کا معمول تھا کہ تھوڑی تھوڑی دیر پر اللہ اللہ، اللہ اللہ کرتے ۔ آدھا گھنٹہ یا بیس منٹ کے بعد آنکھ کُھل جاتی تھی۔ ایسی نیند نہیں تھی کہ جس میں تسلسل ہو۔ ہر آدھا گھنٹہ بعد جب آنکھ کُھل گئی تو اللہ اللہ اللہ کہہ کے پھر سو جاتے تھے گویا اللہ اللہ حضرت کی غذاء تھی ، حضرت کی حیات کی بُنیاد تھی ۔ پس حضرت نے جیسے ہی اللہ اللہ کیا میں نے کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ فرمایا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ اور حیرت سے فرمایا کہ ارے تم کیسے آگئے اس وقت؟ ابھی تو رات ہے صبح صادق بھی نہیں ہوئی ۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کی تلاش میں پھولپور گیا تھا جب وہاں آپ کو نہ پایا تو میری نیند اُڑ گئی اور میںدوسری ریل سے یہاں پہنچا ۔ پھر میں نے یہ شعرپڑھا   ؎

صبا بہ لطف بگوآں غزالِ رعنارا

کہ سر بہ کوہ وبیاباں تو دادۂ مارا

اے صبا! اس ہرن سے جو چوکڑی مار کر بھاگ رہا ہے، اس کے کان میں یہ کہہ دے کہ میرا سر تو نے پہاڑوں کے دامنوں میں اور جنگل میں ٹکرا دیا اور تو مجھے دستیاب نہ ہوا۔ بس یہ سُن کر حضرت پر کیفیت طاری ہوگئی اور مولانا ابرار الحق صاحب کے کان میں کچھ فرمایا۔ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب نے بعد فجر مجھ سے فرمایا کہ اب تم حضرت سے دور نہ رہو ، تم حضرت کے پاس ہی رہا کرواور حضرت کی باتیں نوٹ کرتے رہو۔ تمہارا خرچہ پانی بال بچوں کا میں ہردوئی سے بھیجوں گا۔ارے! میری خوشی کی تو کوئی انتہاء نہ رہی جب حضرت نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے کہا اندھا آنکھ مانگے گا اور بھوکا روٹی ۔ حضرت کئی برس تک مجھے ہردوئی سے ساٹھ روپے ماہانہ بھیجتے تھے۔ میرے شیخ کی کرامت تھی کہ سارا کام چلتا تھا۔ مولانا مظہر کی والدہ زمیندار تھیں ، غلہ گھر کا تھا لیکن پھر بھی چائے کی پتی ، دودھ چینی وغیرہ کے لئے ساٹھ روپے اُس زمانے میں بہت ہوتے تھے ۔ اس وقت سے ہی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کا احقر پر خاص کرم تھا ۔ اُس وقت حضرت میرے شیخ بھی نہیں تھے اور اُن کا میرے شیخ سے اصلاحی تعلق تھا ۔ ہمارے ساتھ وہ اس طرح رہتے تھے گویا پیر بھائی اور ہم دونوں حضرت سے لاٹھی بھی سیکھتے تھے ۔ حضرت لاٹھی چلاتے تھے اور ہم روکتے تھے، کبھی ہم چلاتے تو حضرت ہماری لاٹھی کے وار روکتے تھے اور حضرت سکھاتے رہتے تھے کہ اس طرح روکنا چاہیے اور اس طرح وار کرنا چاہیے‘‘۔

اب ان مجاہدات کو مختصراً لکھتا ہوں تاکہ امت کو سبق ملے کہ اللہ کا راستہ کس صبر وہمت و استقلال سے طے ہوتا ہے ۔ شیخ پھولپوریؒ کے ساتھ والہانہ محبت کے باعث حضرت اپنے شیخ کی نظر میں محبوب ہوگئے حضرت پر حضرت پھولپوری کی خاص نظر تھی ، حضرت کے بعض خاص احباب نے بتایا کہ حضرت تھوڑی دیر کے لیے بھی کسی ضرورت سے کہیں چلے جاتے تو حضرت پھولپوری کی ایسی کیفیت ہوجاتی تھی جیسے ماں اپنے بچے کے لئے بے تاب ہوجاتی ہے اور بے قراری سے پوچھتے کہ حکیم اختر کہاں ہیں اور حضرت کے بارے میں شیخ پھولپوری ؒنے فرمایا تھا کہ یہ میرے ساتھ ایسے چپکے رہتے ہیں جیسے چھوٹا دودھ پیتا بچہ اپنی ماں کے ساتھ چپکا رہتا ہے ۔ خودحضرت فرماتے تھے کہ حضرت پھولپوری ؒکی زبان مبارک سے جو بات بھی نکلتی تھی، میں دل و جان اور کان حضرت کے ارشادات کی طرف لگادیتا کہ کوئی مضمون اور کوئی لفظ چھوٹ نہ جائے۔ حضرت سے احقر نے کئی بار خود سنا اور ترجمۃ المصنف میں بھی حضرت نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’احقر حضرت مرشد کے ارشاد کو قلمبند کرکے جب سناتا تو ارشاد فرماتے ماشاء اللہ اور بہت مسرور ہوتے، ایک بار میرے ایک پیر بھائی سے فرمایا کہ اختر میرے غامض اور دقیق مضامین کو خوب سمجھ لیتا ہے اور انہیں محفوظ کرلیتا ہے، ماشاء اللہ دین کی فہم ہے‘‘ ۔

ایک بارحضرت والا معرفت الٰہیہ کے مضامین قلمبند کرکے سنا رہے تھے ۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان ؒ بھی موجود تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ حضرت ! حکیم اختر صاحب کے قلم میں بہت تاثیر ہے ۔ حضرت شیخ نے حضرت کی طرف متوجہ ہو کر انگشت شہادت سے اشارہ کر کے فرمایا کہ خبردار اپنا کمال نہ سمجھنا ، سب شیخ کا فیض ہوتا ہے اور پھر مفتی صاحب کی طرف رخ کر کے فرمایا کہ تاثیر کیوں نہ ہوگی ، ہم نے ان کو رگڑا بھی بہت ہے۔ بیک وقت فناء و بقاء کا درس شیخ نے دے دیا۔

حضرت پھولپوری قدس سرہٗ زمین دار تھے، زمینوں سے جو آمدنی آتی تھی، وہ حضرت پھولپوریؒ کے خاص مقربین کے پاس جمع ہوتی تھی لیکن حضرت شیخ پھولپوری کو حضرت پر ایسا اعتماد ہوا کہ تمام آمدنی حضرت کے پاس جمع کرانے لگے، بوجہ مقربین پر اعتماد نہ ہونے کے اور یہ بات مقربین کو ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے حضرت کو مختلف طریقوں سے ستانا شروع کیا تاکہ یہ شیخ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں ۔ یہاں تک کہ ایک صاحب کے ذریعہ شیخ سے کہلوایا کہ حکیم اختر ابھی نوجوان ہیں آپ اتنی بڑی رقم ان کے حوالے کردیتے ہیں، مطلب یہ تھا کہ نعوذ باللہ وہ کہیں خوردبرد نہ کردیں ، یہ سن کرحضرت شیخ پھولپوری ؒ ناراض ہوگئے اور فرمایا کہ تم اس کو کیا سمجھتے ہو وہ صاحبِ نسبت ہے اس کے لیے ایک کروڑ اور ایک پیسہ برابر ہے ۔ جائو دونفل پڑھ کر توبہ کرو ورنہ سوئے خاتمہ کا اندیشہ ہے۔ اسّی سالہ شیخِ کا مل کا اپنے اٹھارہ سالہ مرید کے بارے میں یہ حسنِ ظن تھا اور شیخ کے اس حسنِ ظن کے مظاہر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی پوری زندگی میں ہم نے دیکھے کہ ایک کروڑ کیا، پوری دنیا کے خزائن بھی حضرت کی نظر میں مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں تھے۔یہاں صرف چند واقعات لکھتا ہوں۔

آج سے تقریبا ۴۲سال پہلے ایک غیر ملک میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے ایک رئیس دوست کا انتقال ہوا جنہوں نے قانونی مجبوریوں کی وجہ سے اپنی لاکھوں کی جائیداد پاکستان میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے نام کردی تھی۔ ان کے انتقال کے بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی بیوہ کو خط لکھا کہ کسی کو بھیج کراپنے قانونی کاغذات اور رقوم منگوالیں۔ ایک صاحب آئے اور حضرت والا نے تمام کاغذات اور رقوم ان کے حوالہ کردیں ، وہ دنیا دار آدمی تھے انہوں نے کہا میری زندگی کا پہلا تجربہ ہے کہ اتنی بڑی جائیداد کسی نے واپس کی ہو۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ابھی ایسے انسان بھی دنیا میں موجود ہیں اور عرض کیا کہ حضرت والاؒ آپ جیسے انسانوں سے یہ زمین و آسمان قائم ہیں۔

۱۹۹۴ء میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا انگلینڈ کا پہلا سفر ہوا ۔ وہاں کے لوگ عرصہ سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو انگلینڈ تشریف لانے کی دعوت دے رہے تھے اور حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی ملاقات کے مشتاق تھے۔ وہاں کے لوگوں نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو بہت ہدایا پیش کیے جو پاکستان کرنسی کے حساب سے کئی لاکھ تھے اور لوگ مدرسہ کے لیے بھی عطیات دیتے تھے جو حضرت والاؒ الگ الگ نوٹ کرلیتے تھے ۔واپسی سے پہلے وہ ڈائری گم ہوگئی اور بہت تلاش کے باوجود نہیں ملی تو حضرت والاؒ نے اپنے تمام ہدایا مدرسہ کو دے دئیے اور ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔

میرے مرشد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ مالی معاملات میں انتہائی محتاط تھے ۔ حضرت ؒ نے اپنے صاحبزادے حضرت مولانا محمد مظہر صاحب کوبھی باوجود مدرسہ کے مہتمم ہونے کے تنخواہ لینے سے منع فرمادیا تھا ، حالانکہ فتویٰ کی روسے جائز تھا، لیکن حضرت کے تقوی وورع نے اس کو گوارا نہ فرمایا اس لیے نہ مولانا مظہر صاحب تنخواہ لیتے ہیں نہ حضرت والا ؒ لیتے تھے بلکہ بجلی ، ٹیلیفون پانی وغیرہ کا بل بھی اپنے پاس سے مدرسہ میں جمع کراتے تھے ۔ حضرت والاؒ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ مدرسہ میں پانچ سو روپے ہر ماہ جمع کردیا کرو ، حضرت والاؒ جو ٹیلیفون وغیرہ استعمال فرمایا کرتے تھے اس کا جتنا بل آتا تھا اس سے دوگنااو ر تین گنا زیادہ مدرسہ میں جمع فرمادیتے تھے۔ حضرت ؒ نے مولانا محمد مظہر صاحب کوبھی منع فرمایا ہوا تھا کہ مدرسہ کی گاڑی اپنی ذات کے لیے استعمال میں نہ لائو، حالانکہ یہ بھی جائز ہے حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے جواز کا فتوی ٰ دیا ہے۔ایک دفعہ کوئی گاڑی نہیں تھی، تو مدرسہ کی گاڑی میں ائیر پورٹ جانا پڑا، کچھ پیسے خرچ ہوئے لیکن حضرت نے مولانا محمد مظہر صاحب سے فرمایا کہ مدرسہ میں سو روپے جمع کردینا، حضرت مولانا محمد مظہر صاحب حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور بہت متقی انسان ہیں لیکن حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو اطمینان نہیں ہوا اور فرمایا کہ کیابھروسہ ہے کہ گھر تک بھی پہنچ سکوں گا یا نہیں اور ائیر پورٹ پر ہی سوروپے اپنے پاس سے ہی دے دیئے اور لفافے پر لکھوادیا یہ مدرسہ کی رقم ہے ، حضرت مولانا محمد مظہر صاحب سے فرمایا کہ جاتے ہی جمع کردینا۔

ایک مرتبہ حضرت والاؒ نے کچھ روپے مجھے دئیے اور فرمایا کہ یہ عطیات کی مد میں جمع کردینا ، میں نے لفافہ پر لکھ کر جیب میں رکھ لیا لیکن جمع کرنا بھول گیا۔ رات کو حضرتؒ بستر سے اٹھ کر خانقاہ تشریف لائے اور مجھ سے پوچھا کہ وہ پیسے عطیات کی مد میں جمع کرادئیے۔ میں نے کہا حضرت صبح جمع کرادوںگا، تو حضرت ناراض ہوگئے اور مجھ سے پوچھا کہ تمہیں یقین ہے کہ صبح تم اٹھ سکوگے ؟ یا میں اٹھ سکوں گا؟ مجھے تو رات بھر نیند نہیں آئے گی، وہ رقم جمع کر کے مجھے فوری اطلاع کرو۔

یہاں پر حضرت نے فرمایا بس اب مجلس برخاست ۔۔ بس اب سب حضرات جلدی جلدی تشریف لے جائیں" پھرحضرت والا نے سلام کیا  رو ا س پر مفتی امجد صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اس سلام سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔۔حضرت آبدیدہ ہوگئے۔۔۔۔ بہت سے حضرات نے عرض کیا کہ عظیم الشان فائدہ محسوس ہوا۔۔۔ یوں یہ پرنور مجلس اختتام پذیر ہوئی۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries