مجلس۲۶نومبر۲۰۱۳ء آہ بہت شرمندہ ہیں!

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:  :الحمدللہ شروع ہی سے حضرت والا مجلس میں رونق افروز تھے ۔۔۔۔۔۔حضرت والا کے حکم پر ممتاز صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی یاد میں حضرت اقدس میر صاحب دامت کا مضمون " تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں۔۔ آہ بہت شرمندہ ہیں" کا دوسرا حصہ پڑھ کر سنایا۔۔۔ آج صرف یہی درد بھرا مضمون درد بھرے انداز میں پڑھا گیا ، ۔۔۔۔۔

حضرت نے حکم پر ممتاز صاحب نے مضمون کا دوسرا حصہ پڑھ کر سنانا شروع کیا۔

۱۹۸۰ء میں حضرت کے شیخ ثانی حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا تھانوی قدس سرہ نے لکھا کہ اپنا مکان فروخت کر کے کسی دوسری جگہ  خانقاہ بنائیں ۔ شیخ کے حکم پر حضرت نے ناظم آباد کا اپنا ذاتی مکان بیچ کر گلشن اقبال میں زمین خریدی اور وقف کردی ۔ اپنے پاس کچھ نہیں رکھا، صرف ایک چھوٹی سی دکان مظہری کتب خانہ حضرت کا اپنا ذاتی ہے۔ خانقاہ کا جو اندرونی حصہ ہے وہ حضرت کے ذاتی پیسہ سے بنا ہے ۔ حضرت کے منع فرمانے کے باوجود منت کر کے ٹھیکیدار نے مزید تعمیر کردی جس سے آٹھ لاکھ کا قرضہ ہوگیا۔ ایک بار حضرت نواب عشرت علی خان قیصر خلیفہ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمتہ اللہ علیہ تشریف لائے اور دریافت کیا کہ خانقاہ کے باہر جو زمین خالی ہے وہاں بھی تعمیر کرادیجیے ، حضرت نے فرمایا کہ ابھی تو آٹھ لاکھ کا قرضہ ہے ۔ جب قرضہ ادا ہوجائے گا تو بنوائو ں گا ۔ نواب صاحب نے عرض کیا کہ آٹھ لاکھ تو کوئی ایسی بڑی رقم نہیں ہے ، شیخ دبئی میرا دوست ہے، اس کا بنگلہ میرے گھر کے قریب ہے، اس سے کہہ دوں گا وہ ادا کردے گا۔ حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے، اگلے دن نواب صاحب حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ حضرت شیخ دبئی قرض ادا کرنے کے لیے راضی ہے ۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ اس سے رقم لے آئیے ۔ نواب صاحب نے عرض کیا کہ رقم وصول کرنے کے لیے آپ کو جانا پڑے گا اور رجسٹر پر دستخط کرنا پڑیں گے۔ حضرت والا نے فرمایا نواب صاحب میں ہر گز ایسا نہیں کرسکتا، میں اپنے بزرگوں کے طریقہ کو نہیں چھوڑ سکتا، اگرمیں اس کے دروازہ گیا تو بئس الفقیر علی باب الامیر ہوں گا( یعنی وہ فقیر برا ہے جوامیر کے دروازہ پر جائے ) اور فرمایا کہ اگر میں وہاں گیا تو اس خانقاہ کی تاریخ پر یہ کلنک کا ٹیکا لگ جائے گا کہ اس کا بانی ایک امیر کے دروازہ پر گیا تھا۔ حضرت کے اس جواب پر حضرت نواب صاحبؒ بہت متاثر ہوئے اور آبدیدہ ہوگئے اور فرمایا حضرت! آپ تو ہمارے بزرگوں کی یادگار ہیں۔ حضرت نے یہ واقعہ اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی کولکھ کربھیجا تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ مبارک ہو! تعمیر ِفقیری تعمیر ِ شاہی سے افضل ہے۔

۱۹۹۰ ء میں جب جنوبی افریقہ کا پہلا سفر ہواتو لوگوں کی دعوت پر حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے مختلف شہروں میں وعظ ہوتے تھے، ایک شہر میں وعظ سے پہلے میزبان سے ایک رئیس نے آہستہ سے پوچھا کہ Estimateکیا ہے ؟ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے سن لیا تو میزبان سے پوچھا کہ فلاں صاحب Estimateکی کیا بات کررہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ حضرت والاؒ ہندوستان پاکستان سے یہاں بعض علماء آتے ہیں پہلے تقریر کرتے ہیں اس کے بعد مدرسہ کا Estimateپیش کرتے ہیں ۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اچھا !یہ سمجھتے ہیں کہ میں یہاں چندہ لینے کے لیے آیا ہوں اور احقر کو حکم دیا کہ جائو مجمع میں اعلان کرو اور جس شہر میں میرا وعظ ہو، وعظ سے پہلے ہر جگہ یہ اعلان کرو کہ میں آ پ لوگوں سے چندہ لینے نہیں آیا ہوں بلکہ اپنے بزرگوں سے میں نے جو اللہ کی محبت سیکھی ہے، وہ آپ لوگوں کو دینے آیا ہوں ۔ سفر کے آخری زمانے میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے بعض خاص دوستوں نے عرض کیا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے مدرسہ کی تعمیر ہورہی ہے جس کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ ہمارے بعض رئیس ہمارے بچپن کے دوست ہیں، ہم اپنی طرف سے ان سے کہہ دیں گے تو وہ پورا مدرسہ بنوادیں گے اور اپنی سعادت سمجھیں گے۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ لوگوں کو ہر گز اس کی اجاز ت نہیں ہے کیونکہ وہ یہ سمجھیں گے کہ مولانا بظاہر تو انکار کررہے ہیں لیکن اب وصولی کرنے کے لیے اپنے ایجنٹ چھوڑ دئیے ہیں اور پھر میری دین کی بات ان پر اثر نہ کرے گی، مدرسہ میں نے اللہ کی رضا کے لیے کھولا ہے دین کو قربان کرکے میں مدرسہ نہیں چلاسکتا۔ جس دن مجھے معلوم ہوا کہ اس میں اللہ کی رضا نہیں ہے، اسی دن مدرسہ میں تالہ ڈال دوں گا۔ دین کا کام کرنا ہے تو عزت نفس اور عظمت دین کے ساتھ کرنا ہے اور اسی کی اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتا ہوں۔

 خانقاہ کی مسجد اشرف کے دائیں جانب جو مدرسہ کی عمارت ہے یہ بھی ٹھیکیدار احمد دین صاحب ؒ نے اصرار کرکے خود بنائی اور حضرت سے عرض کیا کہ پیسے کی پرواہ نہ کریں، وہ مجھے مل جائے گا۔ ۴۵؍ لاکھ کا قرضہ ہوگیا حضرت فکر مند ہوگئے لیکن کسی سے ایک لفظ نہیں فرمایا ، چند ماہ بعد ری یونین سے نقشبندی سلسلے کے ایک بزرگ جو حضرت سے محبت رکھتے تھے ان کا فون آیا کہ میرے قلب میں سخت تقاضا بلکہ تنبیہ ہو رہی ہے کہ میں آپ کے مدرسہ کی خدمت کروں، آپ فرمائیں کہ کتنی رقم کی ضرورت ہے ۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا رقم تو بہت بڑی ہے آ پ کی جتنی گنجائش ہو اتنی دے دیں، انہوں نے عرض کیا کہ حضرت بتائیں میں پوری رقم ادا کروں گا۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو بتایا، تو انہوں نے عرض کیا حضرت اس میں کسی اور کو شریک نہ کریں، میں پوری رقم آ پ کی خدمت میں ارسال کروں گا۔ حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ دیکھو یہ میرے بزرگوں کی جوتیوں کا صدقہ ہے کہ مجھے سخت ضرورت تھی لیکن کسی سے اشارہ بھی نہیں کیا کہ میں مقروض ہوں ۔ دو نفل پڑھ کر اللہ سے روتا تھا، اللہ تعالیٰ کو رحم آگیا۔ فرمایاکہ فقیر کا کام لوگوں سے مانگنا نہیں اللہ سے مانگنا ہے۔

تو میں ان مجاہدات کا ذکر کررہا تھا جو حضرت والاؒ کو پیش آئے ۔ان میں اختیاری مجاہدات اور اضطراری مجاہدات دونوں شامل ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت والاؒ کامزاج مبارک انتہائی لطیف حساس اور نازک بنایا تھا جس کی یہ مصلحت معلوم ہوتی ہے کہ لوگوں کی رہنمائی ہوسکے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کس طرح اپنی تمنائوں اور آرزئوں کا خون کر کے دریائے خون سے عبور کیا جاتا ہے۔حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اکثر اشعار ان مجاہدات کی غمازی کرتے ہیں مثلاً

ان حسینوں سے دل بچانے میں

میں نے غم بھی بہت اٹھائے ہیں

…………

وہ سرخیاں کہ خون تمنا کہیں جنہیں

بنتی شفق ہیں مطلع خورشید قرب کی

…………

تحمل حسن کا مجھ کو نہیں ہے

بہت مجبور ہوں میں اپنے دل سے

بچاتا ہوں نظر کو اپنی ان سے

کہ دھوکہ کھا نہ جائوں آب و گل سے

………

تباہ ہو کے جو دل تیرا محرم غم ہے

پھر اس کو اپنی تباہی کے غم کا کیا غم ہے

ہزار خون تمنا ہزار ہا غم سے

دل تباہ میں فرما نروائے عالم ہے

………

مری چشم تر خون برسا رہی ہے

جہاں بھی کہیں سنگ درپارہی ہے

مبارک تجھے اے مری آہ مضطر

کہ منزل کو نزدیک تر لارہی ہے

نہ پوچھو تجلی آہ سحر کو

ضیائے مہ و مہر شرما رہی ہے

………

ناکامیوں پہ حسرت آنسو بہا رہی ہے

دل ہے کہ ان کی خاطر تسلیم کئے ہے

………

اک غمزدہ جگر پہ کسی کی نظر بھی ہے

شب ہائے غم پہ سایۂ لطف سحر بھی ہے

………

جفائیں سہ کر دعائیں دینا یہی تھا مظلوم دل کا شیوہ

زمانہ گذرا اسی طرح سے تمہارے در پر دل حزیں کا

نہیں تھی مجھ کو خبر یہ اختر کہ رنگ لائے گا خوں ہمارا

جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا

………

صفحۂ ہستی پہ میرے ایسے افسانے بھی ہیں

اُف تصور سے بھی جن کے منہ کوآجاتا ہے دل

………

جیسا کہ پہلے تحریر کرچکا ہوں کہ آج سے ۴۶برس پہلے حضرت والا نے احقر سے فرمایا تھا کہ سینہ میں اتنا حساس دل رکھنے کے باوجود کہ حسن کے ایک ذرہ کا مجھ کو ادراک ہوجاتا ہے لیکن مجھ سے کبھی زندگی میں ایک بار بھی لغرش نہیں ہوئی اور ۲۰۰۲ء میں علالت کے دوران حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے جنوبی افریقہ کے سفر میں فرمایا تھا کہ مجھے جو کچھ ملا ہے نظر کی حفاظت سے ملا ہے ۔ اس پر ایک واقعہ یاد آیا جو ۱۹۶۹؁ء میںجب احقر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا، اس زمانے میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے سنایا تھا جس میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا نام نہیں لیا، اپنا نام تو چھپا گئے لیکن احقر سمجھ گیا کہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ اپنے ہی حالات بیان فرما رہے ہیں   ؎

خوشتر آں باشد کہ سرِّ دِلبراں

گفتہ آید در حدیث دیگراں

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ایک عالم جو نوجوان اور بہت خوبصورت تھے اپنے ایک دوست کی شادی میں گئے۔ نصف شب کے بعد جب وہ سونے کے لیے لیٹے تو ایک نہایت خوبصورت لڑکی ان کے کمرے میں آگئی اور گناہ کی دعوت دی۔ ان عالم نے کہا کہ فوراً یہاں سے بھاگ جا، دوزخ کی آگ کی شدت مجھے اس لذت کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتی ۔ احقر جامع عرض کرتا ہے کہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ یہ الفاظ بھی کسی اور کے نہیں ہوسکتے اور تقویٰ کا یہ اعلیٰ ترین مقام ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔ ان اشد مجاہدات میں حضرت والا کی زندگی گذری لیکن حضرت کی فنائیت اور کسر نفسی ہے کہ ترجمۃ المصنف میں تحریر فرماتے ہیں:

’’ حضرت شیخ کی خدمت میں جو طویل عمر گذری اس میں مجاہدہ اختیاریہ کا حق تو احقر سے ادا نہ ہوسکا لیکن الطاف حق نے میری باطنی ترقی کے لیے غیب سے مجاہدۂ اضطراریہ کا سامان فرمادیا، جس کی بدولت کلیجے منہ کو آگئے اور انہیں مجاہدات کی بدولت آج سینہ میں ایک ٹوٹا ہوا درد بھرا دل رکھتا ہوں جو میرے نزدیک اتنی عظیم نعمت ہے کہ اس کے بدلے میں سلطنت ہفت اقلیم مجھے قبول نہیں اور ان مجاہدات کی تفصیل بیان کرنا خلاف مصلحت سمجھتا ہوں‘‘۔

یہی وہ زمانہ ہے جس کا لوگوں کو بالکل علم نہیں ہے کہ سولہ سال تک حضرت کن مجاہدات ، مشکلات اور حاسدین کی ایذا رسانیوں سے گذرے ہیں کہ جن کو سن کر ہی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حاسدین اتنا ستاتے تھے کہ جینامشکل کردیا تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ جب میں گھر سے آیا تھا تو اپنی چارپائی ، رضائی کمبل اور تکیہ ساتھ لایا تھا اور رات کو بارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک حضرت اپنے شیخ پھولپوری ؒ کے پائوں دباتے تھے۔ حضرت فرماتے تھے کہ میرا سب سے زیادہ مزے کا وقت وہی تھا جب شیخ محبت کی باتیں فرماتے اور حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے واقعات سناتے ۔ ڈیڑھ بجے جب میں سونے کے لیے باہر آتا تودیکھتا کہ حاسدوں نے میری چارپائی کسی کو دے دی ہے، تکیہ کسی کودے دیا ہے، رضائی کسی کو اور کمبل کسی کو، کڑکڑاتی سردی میں ٹھنڈ سے پائوں پھٹ جاتے اور خون نکل آتا ، آخر کار مسجد میں گھاس پڑی رہتی تھی اسی میں لپٹ کر سوجاتا اور کبھی دیکھتا کہ قریب سے سانپ گذرہا ہے کبھی بچھو گذر رہا ہے اور یہ ایک دودن کی بات نہیں تھی سولہ سال جب تک حضرت شیخ کے ساتھ قیام رہا یہ روزانہ کا ماجرا تھا لیکن حضرت فرماتے تھے کہ میں نے ایک بار بھی حضرت شیخ سے شکایت نہیں کی کیونکہ اگر میں ایسا کرتا تو وہ اتنے مقرب اور سازشی تھے کہ مجھے خانقاہ سے نکلوا دیتے اس لیے ان کی ایذائوں کو برداشت کرتا تھا کیونکہ مجھے شیخ سے ایسی محبت تھی کہ ان کی جدائی کا مجھ میں تحمل نہیں تھا ۔ اگر کبھی چند دن کے لیے جدا ہونا پڑا تو مجھے بخار رہنے لگتا تھا اور پیشاب پیلا آنے لگتا تھا اور حاسدین حضرت شیخ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کو حضرت سے ناراض کرنے کے لیے جھوٹی شکایتیں لگاتے اور چاہتے تھے کہ شیخ حضرت کو خانقاہ سے نکال دیں ،اگر شیخ ان کے اثر سے چنددن کے لیے ناراض بھی ہوگئے تو حضرت فرماتے تھے کہ شیخ کو بھی میرے بغیرچین نہیں آتا تھا اور مجھے پھر بلا لیتے تھے اور حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شیخ کی عدم موجودگی میں حاسدین مجھ پر جملے کستے تھے یہاں تک کہ منہ چڑاتے تھے اور پوربی زبان میں یہ کہہ کر دل کو زخمی کرتے تھے کہ مالٹا چوسی مرغا کھائی…شیخ کو چھوڑ کے کاہے کو جائی۔آہ ! ان نادانوں کو کیا خبرتھی کہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کس دردِ دل اور اخلاص سے اپنے شیخ کے ساتھ رہ رہے ہیں اور حاسدین کے مظالم کو سہہ رہے ہیں   ؎

اشقیاء را دیدۂ بینا نبود

نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود

اشقیاء کے آنکھیں نہیں تھیں، انہیں نیک وبد ایک جیسے نظر آئے، جو جیسا خود ہوتا ہے اسے دوسرا بھی ویسا ہی نظر آتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے بارے میں فرماتے ہیں:’’کَأَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِیْ وَجْہِہٖ‘‘آپ کے چہرۂ مبارک میں سورج چلتا ہوا نظر آتا ہے اوراسی چہرۂ انور کے متعلق نعوذ باﷲ ابوجہل کہتا تھا نقلِ کفر کفر نہ باشد کہ مجھے تو اس سے برا چہرہ نعوذ باﷲ نظر نہیں آتا۔ جس کے دل کی آنکھوں کی بصیرت صحیح تھی اسے بصیرتِ صحیحہ سے صحیح مشاہدہ ہورہا تھا یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اور جس کے دل کی آنکھوں کی بصیرت فاسدہ تھی اس کو حسن وجمالِ سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم نظر ہی نہیں آیا۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ واقعہ سنایا کہ حاسدین نے جھوٹی باتیں لگا کر حضرت شیخ پھولپوریؒ کو مجھ سے ناراض کردیا اور آج سے تقریباً پچاس برس پہلے ایک حکیم صاحب کو ڈھائی سو روپے دئیے اور ان حکیم صاحب سے کہا کہ حضرت شیخ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ جن سے آپ کو تکلیف پہنچی ہے ان کو اپنے سامنے نہ آنے دیں ورنہ آپ کو فالج کا خطرہ ہے، یہ بات سن کر حضرت ہردوئی رحمۃاللہ علیہ آبدیدہ ہوگئے اور چشمہ اتار کرآنسو پونچھے۔

ان حاسدین کے پولیس سے بھی تعلقات تھے، حضرت شیخ پھولپوری ؒ کی خدمت میں بعض رئیس اور مل مالکان بھی آتے تھے، بعض دفعہ پولیس کے ذریعہ ان کو پریشان کیا جاتا اور ان سے رقم لے کر آپس میں بانٹ لی جاتی۔ حاسدین کا حسد اور دشمنی یہاں تک بڑھ گئی کہ حضرت والاؒ کے پیر بھائی جناب غلام سرور صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت والا ؒسے کہا کہ میرے کانوں میں بھنک پڑی ہے کہ آپ کے قتل کی سازش کی جارہی ہے، آپ کی جان کو خطرہ ہے، اب آپ یہا ں سے بھاگ جائیں ۔ حضرت والاؒ نے فرمایا کہ میں ہرگز ایسا نہیں کر سکتا، جان تو ایک دن جانی ہے، چلی جائے گی لیکن اگر میں اس وقت شیخ کو چھوڑ کر چلا گیا تو حضرت سوچیں گے کہ اختر بے وفا تھا، مجھے بڑھاپے میں چھوڑ کر چلا گیا، میں جان دے دوں گا لیکن اہل اللہ خصوصاً اپنے شیخ کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتا۔

ان حالات کو دیکھ کر حضرت حبیب الحسن خاں صاحب شیروانی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مجاز حضرت شیخ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری نور اللہ مرقدہ نے فرمایا تھا کہ ’’مولانا حکیم محمد اختر صاحب نے جس طرح سولہ سال شیخ کی خدمت میں گذارے ہیں ہم جیسا ایک دن بھی نہیں گذار سکتا تھا‘‘ ۔

اللہ تو جانتے ہیں کہ میرا بندہ میرے لیے کیا کیا تکلیفیں اور ذلتیں اٹھا رہا ہے، آخرکار اللہ کی رحمت کو جوش ہوا اور ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ حاسدین ہی یہاں سے بھگا دئیے گئے۔ حضرت پھولپوریؒ پر فالج کا حملہ ہوا، ان لوگوں نے بہت سے حضرات سے قرضے لے رکھے تھے، قرض خواہوں نے ان سے اپنے پیسے مانگنے شروع کیے تو یہ لوگ دوسرے ملک فرار ہوگئے، اس کے بعد چھ ماہ تک حضرت پھولپوریؒ صاحبِ فراش رہے اور حضرت اپنے شیخ پھولپوریؒ کی دن رات خدمت میں مصروف رہے۔ حضرت ؒفرماتے تھے کہ میری طبیعت ایسی تھی کہ اپنے بچوں کا پیشاب پاخانہ دیکھنے کا بھی تحمل نہیں تھا، اگر کبھی دیکھ لیتا تو قے ہوجاتی تھی لیکن حضرت فرماتے تھے اپنے شیخ کا پیشاب پاخانہ چھ ماہ تک اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے کی سعادت مجھے حاصل تھی ۔جب حضرت پھولپوریؒ کا انتقال ہوا تو حضرت ہردوئیؒ نے حضرت والاؒ کو تحریر فرمایا کہ ’ ’ از ابتداء تا انتہاء خدمت شیخ مبارک ہو‘‘۔

حضرت شیخ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال سے چند دن پہلے حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے شیخ سے پوچھا کہ حضرت، آپ مجھ سے خوش ہیں ؟ حضرت پھولپوریؒ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور فرمایا کہ بہت خوش ہوں، پھر حضرت نے عرض کیا کہ حضرت، دُعا فرمادیجیے کہ اللہ مجھے دین کی دولت عطا فرمادیں، فرمایا کہ یہ دولت توتمہیں عطا ہوچکی، پھر حضرت نے عرض کیا کہ دُعا فرمادیجیے کہ اللہ مجھ سے دین کا کام اپنی مرضی کے مطابق لے لے ،یہ سنتے ہی حضرت پھولپوریؒ نے دونوں ہاتھ اٹھا دئیے اور بہت دیر تک دُعافرمائی  اور والدہ صاحبہ سے فرمایا کہ تم آمین کہو ،نہ جانے حضرت نے کیا دُعا فرمائی جو حضرت مرشد اور اللہ ہی کے درمیان ہے لیکن حضرت ؒ فرماتے تھے کہ سارے عالَم میں جو کام مجھ سے لیا جارہا ہے یہ میرے شیخ کی دعائوں کا ثمرہ ہے۔

حضرت نے فرمایا کہ جب حضرت شیخ پھولپوری کا انتقال ہوا تو میرے پاس کوئی ذریعہ آمدنی نہیں تھا نہ پاس کچھ پیسہ تھا ۔چند سال پہلے میرے ایک پیر بھائی نے ایک چھوٹا سا نہایت سستا پلاٹ ایک غیر آباد علاقہ میں خرید کر میرے نام کردیا تھا ۔چند سال میں وہاں بستی بس گئی اور وہ پلاٹ بہت اچھی قیمت میں بک گیا۔ اس پیسے سے میں نے حضرت شیخ کا مکان اسی قیمت میں خریدا جو اس وقت بازار میں اس کی قیمت تھی ۔حضرت نے مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مشورہ سے تمام ان قرض خواہوں کا قرض ادا کیا جن سے حضرت پھولپوری کے نام پر قرض لیا گیا تھا، اس کے بعد بھی بڑی رقم بچ گئی، وہ حضرت نے انہی ستانے والوں کو جو حضرت شیخ کے وارث بھی تھے اور غیر ملک بھاگ گئے تھے، بہت کوشش کرکے بھجوائی، حضرت والاؒ نے فرمایا کہ وارثوں کو میں نے ان کا پورا پورا حصہ بھجوایا یہاں تک کہ جھاڑو، پھونکنی اور چمٹے تک کی قیمت لگا کر بھجوائی۔

اور یہی نہیں ان ستانے والوں کو جنہوں نے جان سے مارنے تک کی سازش کی تھی شیخ کی نسبت کی وجہ سے حضرت والا ؒ ان کو سالہا سال تک ایک ہزار روپے مہینہ بھیجتے تھے۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ  اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃکی عملی تفسیر تھے۔ وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَا اِلاَّ ذُوْحَظٍّ عَظِیْم۔

اس کے بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک بار ہندوستان کا سفر ہوا اور ہردوئی میں اپنے شیخِ ثانی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں قیام ہوا تو ان حاسدین نے ورثہ کا پیسہ دوبارہ حاصل کرنے کے لیے دوبارہ ڈنک مارا اور پیسے کی لالچ میں حضرت والاؒ کو نہایت سنگدلی سے خط لکھا جس سے حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی بہت تکلیف ہوئی ، حضرت ہردوئیؒ نے دریافت فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ ان لوگوں کو ایک ہزار روپے ماہانہ بھجواتے ہیں؟ حضرت نے عرض کیا جی ہاں!حضرت ہردوئی  ؒنے فرمایا آپ سانپ کو دودھ پلا رہے ہیں، اب آئندہ ان کو کچھ نہ بھیجیں۔ شیخ کے ارشاد پر حضرت نے ان کو ہدیہ بھیجنا بند کردیا، اس کے بعد حضرت کا ایک ملک کا سفر ہوا جہاں اس خاص دشمن کے ایک صاحبزادے موجود تھے، انہوں نے حضرت سے کہا کہ میں ۴۵ہزار کا مقروض ہوں اور وطن واپس نہیں جاسکتا، جب تک قرض ادانہ ہو، آپ میرا قرض ادا کردیجیے، حضرت نے ان کو ۴۵ہزار روپے کراچی آکر ہدیۃً بھجوادیئے ، احقر نے حضرت کے صاحبزادے حضرت مولانا مظہر صاحب دامت برکاتہم سے عرض کیا کہ حضرت جیسے اخلاقِ عالیہ میں نے کہیں نہیں دیکھے کہ دشمن کی اولاد کو اتنی بڑی رقم ہدیہ کردی تو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت مولانا مظہر صاحب نے فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ حضرت نے جو ان لوگوں پر احسانات کیے ہیں یہ تو اس کا عشیر عشیر بھی نہیں ہے۔

حضرت پھولپوریؒ کے مقربین سب حضرت کے حاسدین تھے۔ حضرت ان کی ایذا رسانیوں کی تمام مصیبتیں جھیل گئے لیکن حضرت کی محبت اور اخلاق عالیہ کا اثر ہے کہ حضرت کی تمام اولاد صاحبزادہ مولانا مظہر صاحب دامت برکاتہم اور ان کے صاحبزادے اور حضرت کے نواسے سب ایں خانہ ہمہ آفتاب است کا مصداق ہیں اور اس غلام سے ایسی محبت فرماتے ہیں کہ احقر اس کا اہل بھی نہیں اور جتنا ممنون ہو اور شکر کرے کم ہے۔ حضرت کے ارد گرد حاسدین اور مخالفین کا مجمع تھا اور اس غلام کے ارد گرد اہلِ محبت اور اہلِ کرم کا مجمع ہے۔الحمد ﷲ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔

جن لوگوں نے ستایا تھا آج ان کو کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون تھے اور کہاں گئے اور اللہ تعالیٰ نے حضرت کا سارے عالم میں ڈنکا پٹوادیا، شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ ایسا ہو جہاں لوگ حضرت سے واقف نہ ہوں، یہاں تک کہ امریکہ میں ایک انگریز نے حضرت کے ایک مرید کو دیکھ کر پوچھا Do you know Hakeem Akhtar? یعنی کیا آپ حکیم اختر صاحب کو جانتے ہیں؟ جس جس ملک میں حضرت تشریف لے گئے لاکھوں مردہ دل زندہ ہوگئے، فاسق و فاجر ولی اللہ ہو گئے اور بہت سے کافر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی انگریزی میں ترجمہ کی ہوئی کتابیں پڑھ کر مسلمان ہوگئے، جنوبی افریقہ اور موزمبیق میں تو دو کافر براہِ راست حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے۔ احقر نے ہندوستان و پاکستان میں نہیں دیکھا کہ کسی عالم یا بزرگ کی کتابیں اس طرح مفت تقسیم ہوئی ہوں جیسی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی بڑی بڑی کتابیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مفت تقسیم ہوئیں اور آج تک ہو رہی ہیں اور دنیا کے چپہ چپہ پر پہنچ گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت کے مواعظ میں شیخ کی صحبت کا اثر رکھا ہے جو پڑھ لیتا ہے اس کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ شیخ کا صحبت یافتہ ہے۔

عارف باللہ کا لقب اور شیخ العرب والعجم ہونے کی بشارت:غالباً ۱۹۷۷؁ء میں حضرت کا ہندوستان کا سفر ہواتھا ۔ حضرت ہردوئیؒ کی معیت میں حضرت حیدرآباد دکن تشریف لے گئے وہاں حضرت مولانا ابرارالحقؒ نے حضرت کو وعظ بیان کرنے کا حکم دیا اور منتظمین سے فرمایا کہ اشتہار شائع کریں ۔ اشتہار کامسودہ جب حضرت ہردوئی کو پیش کیا گیا تو اس میں حضرت کے نام سے پہلے صرف حکیم لکھا ہوا تھا، حضرت ہردوئی ناراض ہوئے اور فرمایا کہ یوں لکھو کہ عارف باللہ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب ۔ عارف باللہ کا لقب شیخ نے حضرت کو عطا فرمایا۔

آج سے تقریباً چالیس سال پہلے حضرت نے ایک رسالہ ترجمۃ المصنف کے نام سے لکھا تھا، جس میں حضرت نے اپنے کچھ حالات تحریر فرمائے تھے، جس میں یہ واقعہ لکھا تھا کہ:

حرمِ مکہ مکرمہ میں نصف شب کے بعد میری آنکھ کھل گئی گھڑی دیکھنے کے بعد دوبارہ سونے کی کوشش کی لیکن نیند مجھ سے دور بھاگ رہی تھی ۔ دل میں یہ داعیہ پیدا ہورہا تھا کہ بیت اللہ چل۔ اُمید ہے کہ بلایا جارہا ہے اور اللہ میاں کوئی عظیم نعمت دینا چاہتے ہیں ، رفقاء کو محوِ خواب چھوڑ کر آہستہ سے حرمِ مکہ میں حاضر ہوااور دل پر عجیب کیفیت طاری ہوئی اور اضطرار کے ساتھ رو رو کر اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یا اللہ، اختر آپ کا بے نام و نشان عبد ہے اور بالکل ہی نا اہل ہے لیکن آپ کے محبوب عبد حاجی امداد اللہ صاحب کا پڑپوتا ہے، جو اسی شہرِ مبارک میں مدفون ہیں، اس حرم پاک میں ان کا فیض آپ نے جاری فرمایا تھا۔ اے اللہ! ان کے سلسلہ کو یہاں پھر زندہ فرما اور اس شہر کے کچھ بندوں کو احقر کے ہاتھوں پر سلسلہ امدادیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما اوراور میرے لئے ان کو صدقہ جاریہ فرمااور ان کی جانوں کو اپنی محبت کے درد کی حلاوت عطا فرما۔ اے اللہ! اختر ان سے کچھ نہیں چاہتا صرف یہ چاہتا ہے کہ ایک جماعت تیرے اس بیت مکرم کے سامنے اللہ اللہ کرنے والی پیدا ہو جو تیری یاد میں رونے والی اور آہ و فغاں کرنے والی اور تیری تلاش میں بے چین ہو اور اے اللہ! اس دُعا کو قبولیت عاجلہ عطا فرمااس کے بعد سخت رقت طاری ہوئی اور دل میں ایسا محسوس ہوا کہ دُعا قبول ہوگئی ۔ حضرت والا کی دعا قبول ہوئی اور دوسرے ہی دن شام تک چالیس افراد جن میں اکثر علماء وحفاظ تھے حضرت کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور دو دن بعد ان کی تعداد ۵۳ہوگئی۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم سے احقر نے بیت اللہ شریف میں جب ان انعامات الٰہیہ کا تذکرہ کیا تو بہت ہی مسرور ہوئے اور جدہ میں احقر کو ایک ضعیف العمر عالم کے یہاں وعظ کے لیے بھیجا اور پھر مدینہ شریف میں حکم فرمایا کہ یہاں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہر روز کچھ دین کی بات سنا دیا کرو۔

حضرت مولانا محمد احمد صاحب دامت برکاتہم سے جب بیت اللہ شریف میں ذکر کیا تو اس قدر مسرور ہوئے کہ سینہ سے لگا لیا اور فرمایا کہ ابھی کیا دیکھتے ہو، پھر ہاتھ اٹھا کر اپنی انگلی کو آفاق عالم میں چاروں طرف گھمادیا اور فرمایا کہ یہ حق تعالیٰ نے بے اختیار کرادیا انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔

ترجمۃ المصنف کے سرورق پر ناشر نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے پہلے ’’الشیخ فی العرب و العجم‘‘ لکھ دیا۔ جب حضرتؒ دوبارہ مکہ شریف حاضر ہوئے تو بعض لوگوں نے حضرت ہر دوئی رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا کہ یہ الفاظ لکھنا مناسب نہیں ہیں، حضرت ہر دوئی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے فرمایا کہ بعض لوگوں کو الشیخ فی العرب و العجم لکھنے پر اشکال ہے، لہٰذا اس پر چٹ لگا کر چھپا دیجئے۔ حضرت ہر دوئیؒ کے شیخ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی وہاں موجود تھے انہوں نے فرمایا کہ لاکھ چٹ لگائو، لاکھ چھپائو، ہوگا یوں ہی، یہ شیخ العرب و العجم ہی ہوں گے   ؎

قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید

اسی زمانے میں حضرت کی تالیف مثنوی مولانا روم کی شرح ’’معارفِ مثنوی‘‘ شائع ہوئی جس کا ایک نسخہ مولانا حسین بھیات صاحبؒ جو اس وقت بنوری ٹائون میں پڑھتے تھے حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کی خدمت میںلے گئے اور حضرت کا تعارف کرایا تو حضرت بنوریؒ نے چند صفحات پڑھ کر فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ مولانا حکیم اختر صاحب اتنے بڑے عالم ہیں، میں تو دیکھتا تھا کہ ایک نوجوان پھٹا ہوا بنیان اور لنگی پہنے ہوئے حضرت پھولپوریؒ کے دواخانے میں اشرفی تیل اور معجون بناتا تھا، میں سمجھتا تھا کہ یہ حضرت کا خادم نہیں بلکہ نوکر ہے جس کو حضرت نے اجرت پر رکھا ہوا ہے۔ حضرت والاؒ نے اس طرح اپنے آپ کو مٹایا تھا کہ کوئی یہ بھی نہیں سمجھتا تھا کہ یہ عالم ہیں، پھر معارفِ مثنوی کی تقریظ میں حضرت مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا کہ مولانا حکیم اختر صاحب کی تالیفِ لطیف معارفِ مثنوی پڑھ کر مجھے موصوف سے ایسی عقیدت ہوئی جس کا میں تصور بھی نہیںکر سکتا تھا۔

ایک بار حضرت اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں تشریف لے گئے اور معارفِ مثنوی حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ کو پیش کی جس میں مثنویِ اختر کے چند اشعار پڑھ کر حضرت بنوریؒ نے فرمایا کہ لا فرق بینک و بین مولانا روم یعنی آپ میں اور مولانا رومی میں کوئی فرق نہیں۔

اور آخر میں حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ارشاد نقل کرتا ہوں۔ غالباً ۱۹۹۵؁ء میں حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ کا پاکستان کا آخری سفر ہوا تھا، حضرت ہر دوئی کو رخصت کرنے حضرت وھیل چیئر پر ائیرپورٹ تشریف لے گئے تو حضرت ہر دوئی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بعض شاگرد اپنے اساتذہ سے اور بعض مرید اپنے مشایخ سے بڑھ جاتے ہیں، جیسے مولانا حکیم محمد اختر صاحب ہیں کہ ان کے مشایخ کو کوئی نہیں جانتا اور ان کا فیض ساری دنیامیں جاری ہے۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم الشان و منفرد تجدیدی کارنامہ:اب آخر میں یہ لکھ کر مضمون ختم کرتا ہوں کہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا سب سے بڑا تجدیدی کارنامہ بدنظری، عشق مجازی اور حسن پرستی کے خلاف جہاد ہے اور ان امراض کی تباہ کاریاں اور نفس کے خفیہ مکائد اور ان کے معالجات جس تفصیل سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں کی ہر سطر میں ملتے ہیں وہ اکابر کی کتابوں میں بھی نہیں ملتے، کیونکہ اگلے وقتوں میں یہ مرض ایسا عام نہ تھا جیسا اس دور میں ہے۔ ۴۶؍برس پہلے جب احقر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا حضرت کو یہی مضمون بلا ناغہ بیان کرتے ہوئے پایا، حضرت اس زمانے ہی میں فرماتے تھے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ عریانی اور فحاشی کا سیلاب آرہا ہے میں اس کی روک تھام نہ کروں؟ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ تو ایک ہی مضمون بیان کرتے ہیں، دوسرے امراض کو بیان نہیں کرتے، میں کہتا ہوں کہ جہاں کالرا پھیلا ہو تو وہاں حکیم کالرا کا علاج کرے گا یا نزلہ زکام کا اور فرمایا کہ بعض لوگ مجھ سے بدگمانی کرتے ہیں کہ کوئی بات ہے جو یہ اسی مرض کو بیان کرتے ہیں لیکن مجھے مخلوق کی کوئی پرواہ نہیں، میں اللہ کے لیے اپنی عزت کو دائو پر لگا کر ان امراض کو بیان کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا۔ مخلوق نے حضرت کی استقامت کو دیکھ لیا کہ حق گوئی میں کسی سے متاثر نہیں ہوئے اور سارے عالم میں خصوصاً یورپی ممالک میں جہاں جہاں حضرت والا کا سفر ہوا نوجوانوں نے تسلیم کیا کہ حضرت، یہاں کے گندے ماحول میں آپ نے ہماری جوانیاں محفوظ فرمادیں، ورنہ ہم یہاں کی گندگی کے گٹر میں اپنی زندگیاں ضائع کر دیتے اور بڑے بڑے علماء نے اعتراف کیا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس صدی کے مجدد ہیں   ؎

میں ہی اس پر مر مٹا ناصح تو کیا بے جا کیا

میں تو دیوانہ تھا دنیا بھر تو سودائی نہ تھی

اور حدیث پڑھانے والے بعض بڑے علماء نے اعتراف کیا کہ حضرت یہ حدیث زِناَ الْعَیْنِ النَّظْرُہم نے پڑھی بھی تھی اور پڑھائی بھی تھی لیکن اس پر عمل کی توفیق آپ سے تعلق کے بعد نصیب ہوئی، ورنہ بدنظری کو تو ہم گناہ ہی نہیں سمجھتے تھے۔ مجدد کا کام یہی ہے کہ دین کا جو شعبہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتا ہے مجدد اس پر سے پردہ اٹھا کر دکھا دیتا ہے کہ یہ بھی دین کا شعبہ ہے۔ مجدد کے لئے حدیث پاک میں الفاظ آئے ہیں یُبْعَثُ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِأَۃٍ مَنْ یُّجَدِّدُ لَہَا دِیْنَہَایعنی ہر صدی کے شروع میں ایک مجدد بھیجا جاتا ہے جو دین کی تجدید کرتا ہے۔ حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے  تھے کہ حدیث میں مجدد کے لیے بعثت کا لفظ آیا ہے جو انبیاء علیہم السلام کے لئے آتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مجدد کوئی عام آدمی نہیں ہوتا، وہ بھیجا جاتا ہے اور حق و باطل کوالگ کر دیتا ہے۔

احقر کا گمان اقرب الی الیقین ہے کہ اب قیامت تک جتنے مجددین مشایخ و مصلحین آئیں گے وہ ان امراضِ خاصہ کا علاج حضرت والاؒ کی تعلیمات کی روشنی میں کریںگے۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ پوری زندگی ظاہری و باطنی مجاہدات سے دوچار رہے اور دریائے خون سے گذرتے رہے لیکن ہر وقت اللہ کی محبت سے مست اور خوش رہتے تھے، کبھی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو غمگین نہیں دیکھا   ؎

بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن

خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را

یہاں حضرت والا میر صاحب کا درد بھرا مضمون اختتام کو پہنچا۔۔۔ جس کو سن کر بار بار آنکھیں پُرنم ہوجاتی تھیں اور حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی یاد دل کو تڑپاتی تھی ۔۔۔۔

آج کی مجلس تقریباً ۵۶ منٹ پر مشتمل رہی ۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries