مجلس۱۱ دسمبر۲۰۱۳ء صرف اللہ کی ذات ہی باوفا ہے!

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:الحمدللہ شروع ہی سے حضرت والا مجلس میں رونق افروز تھے ۔آج زیادہ تر اشعار اور تشریحات ہی ہوئیں، شروع میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار اُنکی تشریح پھر جناب فیصل بھائی کے اشعار جو حضرت کی محبت میں کہے گئے تھے وہ پڑھے گئے  ۔۔ اس کے بعد کتاب آفتاب نسبت مع اللہ   کےملفوظات صفحہ ۱۷۲سے آج پڑھےگئے بیچ بیچ میں حضرت والا تشریح بھی فرماتے جاتے تھے۔۔۔ ملفوظات کے درمیان ہی حضرت میر صاحب کے اشعار آئے جو ممتاز صاحب نے ترنم سے پڑھے ۔۔۔ جس کی الہامی اور عاشقانہ تشریح حضرت والا نے فرمائی۔ یہ پُر نورطویل مجلس سوا گھنٹے پر مشتمل  رہی۔

مجلس  کے شروع میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار  " مُرشد سے درخواستِ دُعا" کے عنوان سے پڑھے گئے ۔

ساقیا جامِ الفت پلا دے

میری اصلاح کی بھی دعا دے

......................

میرے مولا سے مجھ کو ملا دے

اور گناہوں کو مجھ سے چھڑا دے

......................

مجھ کو نفرت ہو ہر معصیت سے

روح کو میری ایسی دوا دے

......................

ہو تقاضا اگر معصیت کا

ہوں نہ مغلوب، ہمت خدا دے

......................

اپنی آہ سحر میں یہ کہنا

اے خدا اپنی کامل رضا دے

......................

چین کی نیند مجھ کو سلادے

خواب غفلت سے مجھ کو جگادے

......................

جذب سے مجھ کو اے میرے مالک

اہلِ تقویٰ کرم سے بنادے

......................

اپنے اخترؔ کو رُسوا نہ کرنا

اس کے عیبوں کو یارب چھپادے

۵ منٹ ۱۰ سیکنڈ: آخری شعر کی تشریح میں فرمایا ؛ "یہ جو مقطع حضرت والا کا ہے یہ حضرت والا کی عظیم الشان فنائیت اور اہل اللہ کی شان ہے ، اللہ والوں کی یہی شان ہوتی ہے کہ جنہوں نے کبھی گناہ کا منہ نہیں دیکھااور بچپن ہی سے جنہیں اللہ تعالی کا جذب نصیب ہوااور جن کے اخلاق ایسے بچپن ہی بنے۔۔ وہ اپنے نفس سے اتنے زیادہ بدگمان رہتے ہیں ۔۔ اور اللہ تعالی سے دُعا کرتے ہیں ۔۔ فرماتے ہیں کہ یااللہ ہمارے عیبوں کو چھپا دے ۔۔۔ یہ اللہ والوں کی یہی شان ہے وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ کم تر اور سب سے زیادہ حقیر سمجھتے ہیں ۔۔اگرچہ وہ سلطان ِ جہاں ہوتے ہیں لیکن گدا بنے ۔۔۔ کہ سلطان ِ جہاں ہو کر بھی بے نام و نشان رہنا۔۔ یہ حضرت والا ہی کا مصرع ہے ۔۔۔ اللہ تعالی ہم سب کو بھی یہ فنائیت، اپنے نفس کی نگرانی  نصیب فرمادے۔ وہ لوگ تو پاک صاف بندے تھے اللہ کے ، خاص بندے تھے جنہوں نے آنکھ کھولتے ہی اللہ والوں کی صحبت میں جن کو جگہ ملی اور پرورش پائی۔۔ ہم لو گ تو سراپا عیب ہیں اور سراپا گناہ ہیں۔تو ہم لوگوں کو کتنا زیادہ  اہتمام توبہ، استعغار ، معافی مانگنے   کا کرنا چاہیے،اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔

حضرت والا کی اس  تشریح کے بعد جناب فیصل بھائی کے وہ اشعار ممتاز صاحب نے سنائے جو انہوں نے حضرت والا محبی و محبوبی مشفقی و مصلحی صدیق وقت قلندرِ زمانہ حضرت اقدس سید عشرت جمیل میر صاحب دامت برکاتہم کی محبت میں کہے ہیں۔

مے کدہ کا در کھلا ہے شام سے

ہے یہاں خاطر مئے گلفام سے

......................

اہل مجلس ہیں  سرور و کیف میں

مست و بیخود ہیں تمہارے جام سے

......................

ماورائے فکرِ عین و عاں ہوئے

بس غرض ہے اک خدا کےنام سے

......................

تیرے شفقت سالکیں پر ضوءفگن

ہے محبت تجھ کو خاص  و عام سے

......................

عشق ِ حق کا اہل دل میں تذکرہ

آج زندہ ہے تمہارے نام سے

......................

معترض ہیں بدگماں، ہوتے رہیں

عشق میں ڈرنا بھی کیا دُشنام سے

......................

غور سُن لیں ذرا یہ حاسدیں

اُن کو ڈرنا چاہیے انجام سے

......................

فیصلِ خستہ  پہ ہو نظر  ِ کرم

کامراں ہوجائے وہ ناکام سے

۱۴ منٹ ۱۵ سیکنڈ: مدح کے اشعار کے بعد فرمایا:" جب کوئی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی تعریف میں شعر کہتا تھا تو حضرت والا فرماتے تھے کہ میں نے سوچتا ہوں یہ دراصل میرے شیخ کی تعریف ہورہی ہے  کیونکہ شیخ کی وجہ ہی سے لوگ ہمیں پہچانتے ہیں ورنہ ہمیں کون پوچھتا، شیخ ہی کی برکت ہے کہ اللہ تعالی نے میرے عیوب پر پردہ ڈال دیا اور نیکیوں کو ظاہر کردیا، یہ سب سے بڑا احسان ہے اللہ تعالی کا ، ستاری کا اللہ تعالی کی ورنہ لوگ پوچھتے بھی نہیں ۔۔۔اللہ تعالی ایسے ہی آخری دم تک ستاری فرمائے، اصلاح فرمائےاور خاتمہ ایمانِ کامل پر فرمائے، مغفرت کے ساتھ جنت میں دخول اولین حضرت والا کے ساتھ حضرت والا کی جوتیوں کے صدقے میں نصیب فرمائے۔

اس کے بعد حضرت والا رحمہ اللہ کا ایک مضموں " شیخ ثانی کے حقوق کے متعلق اہم تنبیہ " پڑھ کر سنایا گیا۔

ارشاد فرمایا کہ جس کے کئی شیخ ہوں یعنی ایک شیخ کے انتقال کے بعد دوسرے شیخ سے تعلق کیا پھر دوسرے شیخ کے انتقال کے بعد تیسرے شیخ سے تعلق کیا ہو اس کے لیے نصیحت ہے کہ جو شیخ گذر گئے۔ ان کا فیض ان کے کٹ آؤٹ کے ختم ہونے سے ختم ہوگیا۔ اب جو زندہ شیخ ہے اسی کے کٹ آؤٹ سے فیض آئے گا۔ یہ یقین رکھو کہ پہلے دونوں مشایخ جو رحمۃ اللہ علیہ ہوگئے ان کا فیوض بھی موجودہ شیخ کے کٹ آؤٹ سے آرہا ہے اور اپنے شیخ کے لیے یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ میرے لیے ان سے بڑھ کر کوئی نافع نہیں ہے۔ دنیا اولیاء اللہ سے خالی نہیں ہے مگر میرا شیخ میرے لیے سب سے زیادہ مفید ہے اور شیخ کی پہچان یہ ہے کہ سلسلہ کے کسی شیخ سے اس کی نسبت ہو، اس سے خلافت پائے ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ موجودہ شیخ کا رنگ پہلے مشایخ جیسا ہو کیوں کہ ہر ولی کی شان میں تفرد ہوتا ہے، ہر ایک کا رنگ نسبت الگ ہوتا ہے مثلاً حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب کی شان اور تھی، حضرت مولانا پھولپوری رحمہ اللہ کی اور شان تھی اور حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کی شان اور ہے۔ حضرت کا انتظام دیکھ کر حضرت پھولپوری نے مجھ سے خود فرمایا کہ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب بادشاہت بھی چلاسکتے ہیں، اگر امیر المؤمنین بنادیا جائے تو پوری مملکت کا انتظام سنبھال سکتے ہیں۔

ہمارا جو کچھ کام ہے حضرت کی جوتیوں کا صدقہ ہے ورنہ اختر کو کون پوچھتا اگر حضرت اجازتِ بیعت نہ دیتے۔ یہ سب کچھ بہار اور رونق حضرت کے تعلق کی ہے، حضرت کی اجازت کی وجہ سے لوگ سلسلہ میں داخل ہورہے ہیں۔ اگرچہ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے بھی مجھ کو خلافت دی لیکن حضرت ہر دوئی کے صدقہ ہی میں آج مجھے دنیا پوچھ رہی ہے۔

لیکن بعض لوگوں کو دوسرے شیخ کو شیطان معمولی دکھاتا ہے۔ جب یہ خیال آئے کہ پہلا شیخ بڑا تھا، موجودہ شیخ معمولی ہے تو سمجھ لو شیطان مردود آگیا اور شیخ کے فیض سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس کی بات میں نہیں آنا چاہیے۔ اپنے شیخ کے بارے میں ساری دنیا کے بزرگوں سے بڑھ کر عقیدہ رکھنا چاہیے کہ ساری دنیا کے بزرگ محترم ہیں، میرے لیے قابلِ عزت ہیں لیکن میرے لیے میرا شیخ ہی مفید ہے۔ شیخ کو پہچاننے کے لیے بھی عقل اور دل و دماغ ہونا چاہیے۔ شیخ کی مثال ایسی ہے جیسے اپنی ماں۔ جس ماں کا دودھ پی کر جوان ہوا ہے اس ماں کا احسان ماننا چاہیے۔ اپنی ماں چاہے جیسے بھی ہو، چاہے گرم مزاج کی ہو، کڑوے مزاج کی ہو لیکن اس کے دودھ سے تمہاری پرورش ہوئی ہے۔ دوسرے کی ماں کتنی ہی ٹھنڈے مزاج کی ہو، کتنا ہی پیار دے مگر اس نے دودھ نہیں پلایا، اس کے دودھ پر تم تھوڑی پلے ہو۔ اسی طرح شیخ روحانی ماں ہے۔ دوسرے شیخ کیسے بھی ہوں مگر ہمیں تو اپنے شیخ کا دودھ ملا ہے، ہماری پرورش تو انہوں نے ہی کی ہے، ان ہی کی برکت سے آج سارے عالم میں ڈنکا پٹ رہا ہے۔ اپنی ماں اگر ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتی ہے تو یہ بھی اس کی شفقت اور رحمت کی وجہ سے ہے۔ حضرت نے ایک دفعہ ہردوئی میں فرمایا تھا کہ میری ڈانٹ ڈپٹ سے گھبرایا نہ کرو۔ اگر تم میری برداشت نہیں کروگے تو تمہاری بھی تو اولاد ہے یعنی تمہارے مرید تمہاری کیسے برداشت کریں گے۔ یہ کتنی بڑی بات ہے۔ اللہ والوں کی ڈانٹ ڈپٹ بھی اللہ کے لیے ہوتی ہے۔ شیخ کے ادب اور اس کے ناز اُٹھانے پر حضرت حکیم الامت تھانوی مست ہوکر یہ شعر پڑھتے تھے:

کہتے ہیں بے وفا ہے وہ جائو وہ بے وفا سہی

جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں

معلوم ہوا کہ جان دل عزیز رکھنے والا عاشق نہیں ہے، جان و دل فدا کرنے والا عاشق ہے۔والدین ہماری جسمانی تربیت کرتے ہیں اس لیے ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم دی گئی

رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا اے میرے رب میرے ماں باپ رحم کیجیے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا۔ اسی طرح شیخ روحانی تربیت کرتا ہے اس لیے اس کے لیے بھی دعا کرنا چاہیے۔۔۔۔۔ یا اللہ تعالیٰ میرے تین مشائخ میں تینوں کو جزائے خیر، جزائے عظیم عطا فرما اور ان کے درجات کو بلند فرما۔

۲۰ منٹ ۴۰ سیکنڈ: حضرت والا کی مندرجہ بالا ملفوظ کی تشریح میں فرمایا:" حضرت سے ہی سنا کہ حضرت تھانوی رحمۃا للہ علیہ نے رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا اے میرے رب میرے ماں باپ رحم کیجیے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا جب میں بچہ تھا ۔۔ تو فرمایا کہ یہ آیت تو اصل میں والدین کے لیے ہے لیکن شیخ بھی روحانی والد ہوتا ہے ۔۔ ماں باپ جسم کی تربیت کرتے ہیں۔۔شیخ روح کی تربیت کرتا ہے ۔۔ تو فرمایا کہ اُس کےلیے یہ دُعا کرنی چاہیے رَبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا۔ جیسے اُس نے تربیت کی روح کی۔ اِسی آیت سےحضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مسائل السکوک میں ثابت کیا کہ شیخ کے لیے دُعا کرنا بھی ثابت ہے ۔

اے اللہ ہمارے دلوں کو شیخ کی محبت سے بھردے۔ ہر شخص کو اپنے شیخ کی محبت اللہ سے مانگنی چاہیے۔ یا اللہ میرے شیخ کی محبت میں میرا سینہ بھردے، یا اللہ شیخ پر قُربان ہونے والی محبت عطا فرمادے، یا اللہ حضرت والا ہر دوئی دامت برکاتہم کی محبت دل کے ذرّہ ذرّہ میں پیوست فرمادیجیے"

ممتاز صاحب نے فرمایا: کہ ہم بھی یہ دُعا کرتے ہیں کہ یا اللہ ہمارے  حضرت والا محبی و محبوبی مشفقی و مصلحی صدیق وقت قلندرِ زمانہ حضرت میر صاحب دامت برکاتہم کی محبت ہمارے دل کے ذرے ذرے میں پیوست فرمادیجئے۔ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلَیْمُ

اس کے بعد کتاب آفتاب نسب مع اللہ سے ملفوظات  صفحہ پڑھ کر سنائے گئے۔ شروع میں ممتاز صاحب نے فرمایا : اِس کتاب کے مرتب اور جامع بلکہ تمام تر روح رواں حضرت والا میر صاحب دامت برکاتہم ہی ہیں ، حضرت نے ہی اِس کو ٹیپ بھی کیا پھر ٹیپ ہی سے اِس کوتحریراً نقل فرمایا۔۔پھر اُس کے بعداُس کی کمپوزنگ ہوئی پھر اُس کی تصحیح ہوئی۔ پھر کمپوزنگ پھر تصحیح ۔۔ معلوم نہیں کتنی دفعہ تصحیح ہوکرایک ایک صفحہ دیکھا گیا۔ الحمد اللہ ایک زیر زبر کوبھی۔۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ اِس کےلیے حضرت والا کتنی کتنی محنت فرماتے ہیں۔۔ اور حضرت ہی نے برسوں اس کی حفاظت بھی فرمائی۔۔اور اِسی طرح جتنے بھی حضرت والا رحمۃا للہ علیہ کے علوم ہیں ، حضرت نے اِنکو اپنی  جان سے زیادہ حفاظت فرمائی ہے اور اِس طرح یہ خزائن ہم تک پہنچتے ہیں۔۔اللہ تعالی اِ ن کی قدر اور اس کی اتباع کی، اور اطاعت اور عمل کی توفیق نصیب فرمادے۔

مجبور ِعشقِ شیخ ہو کر جو باتیں ممتاز صاحب نے ارشاد فرمائی ، حاضرین کو اِن سے بہت نفع ہوا۔۔ اس کے بعد ملفوظات آفتاب نسبت مع اللہ صفحہ ۱۷۲ سے پڑھنا شروع کیے۔

تہجد کے چار فوائد: اور چار فائدے اور آپ کو نصیب ہوںگے جو قیامُ اللیل کی فضیلت میں حضورصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں۔

۲۴ منٹ ۴۰ سیکنڈ: فرمایا:" کیونکہ آج کل صحت بھی اِس قابل نہیں ہےاور کراچی میں تو ویسے بھی مصروفیت ہے ۔۔ تو حضرت والا نے فرمایا ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ ۲ نفل وتر سے پہلے پڑھ لے اور اِس میں نیت کرلے تہجد کی، توبہ کی، حاجت کی۔ کیونکہ نوافل میں کئی نیتیں کی جاسکتی ہیں۔۔ تو انشاءاللہ تعالی جو یہ کرلے گا تہجد گزاروں میں اُٹھایا جائے گا۔ جو لوگ اُٹھ رہے ہیں اور ان کی نیند ۶ گھنٹہ پوری ہوجاتی ہے اور پھر وہ رات کو اُٹھتے ہیں اُن کا تو کیا کہنا ہے ۔۔وہ ضرور اُٹھیں لیکن جو لوگ کمزور ہیں تو اس کے لیے یہ آسان طریقہ حدیث سے ثابت ہے حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو نفل جوپڑھے گا وتر سے پہلےتو ان شاء اللہ تعالی اُس کا شمار قیامت کے دن تہجد گذار وں میں ہوگا۔ تو کتنی آسانی ہےاس لیے ہر شخص پڑھ سکتا ہے ۔ حضرت والا فرماتے تھے جو یہ بھی نہ کرے تو سمجھ لو یہ بحرِ الکاہل ہے ، بحر الکاہل تو سمندر کا نام ہے ، یعنی وہ کاہلی کا سمندر ہے ۔

ممتا ز صاحب دوبار پڑھنا شروع کیا:اے میری امت کے لوگو! رات کی نماز لازم کرلو۔ میں آپ کو آسان قیامُ اللیل دے رہا ہوں، وتر سے پہلے دورکعت پڑھ لیں، آپ قیامُ اللیل والوں میں سے ہوگئے۔ اب تہجد کے چار فائدے سنیے:

(۱) تہجد گزار کا شمار صالحین میں ہوجاتا ہے: جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے سب صالحین بندوں نے قیامُ اللیل کیا ہے یعنی تہجد کی نماز پڑھی ہے لہٰذا قیامُ اللیل کی برکت سے آپ بھی صالحین میں داخل ہوجائیں گے اور جب صالحین میں داخل ہوگئے تو سارے عالم کی دعا آپ کومفت میں ملے گی چاہے وہ کعبے شریف کی دعا ہو یا مسجد نبوی کی دعا ہو یا پہاڑوں کے دامن میں کوئی ولی اﷲ نماز پڑھ رہا ہو۔۔۔

اب اپنی اس بات کی دلیل بھی پیش کرتا ہوں، التحیات کے بعد نمازی اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ پڑھتے ہیں یا نہیں کہ اے اﷲ مجھ پر بھی سلامتی نازل فرما اور دنیا میں جتنے صالحین ہیں ان سب کو بھی سلامتی عطا فرماتو جب آپ صالحین بن گئے تو سارے عالم کے اولیاء اﷲ جب نماز میں التحیات پڑھیں گے تو وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ کی دعا میں آپ بھی داخل ہوجائیں گے، آپ بیٹھے ہوں گے ملاوی میں اور دعا مل رہی ہے کعبہ شریف کے نمازیوں کی، مدینے شریف کے نمازیوں کی بلکہ سارے عالم کے اولیاء اﷲ کی دعا مفت میں ملے گی، یہ نعمت جو پیش کررہا ہوں یہ معمولی نعمت نہیں ہے، ملاوی والوں کو ملائی دے رہا ہوں۔

جب میرا یہ مسئلہ حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم لاجپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے سنا تو ان کو اتنا مزہ آیا کہ انہوں نے فوراً سوال قائم کیا اور میرا جواب لکھ کر فتاویٰ رحیمیہ کی تحقیق میں اس کو داخل کردیا الحمد ﷲ رب العالمین، شکر ہے کہ اتنے بڑے عالم اور مفتی نے میری بات پر اعتماد کیا۔ مولانا منصور کو خود حضرت نے بتایا کہ میں نے اختر کا مسئلہ اپنے فتاویٰ کی کتاب میں درج کردیا، الحمد ﷲ رب العالمین۔

سرکاری لوگوں پر انعامات ِالٰہیہ:پورے عالم میں حفظِ قرآن کے جتنے مدرسے ہیں سب سرکاری ہیں۔، وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ کی آیت کی روشنی میں یہ سب حضرات سرکار کے کام میں قبول ہوگئے، سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو قبول کرلیا لہٰذا مدارس کے طلباء اور معاونین و اساتذہ اﷲ کی سرکاری فوج ہیں، یہ سرکاری لوگ ہیں اور جہاں سرکار کا اہم کارخانہ اور سائنسی پلانٹ ہوتا ہے سرکار خود اس کی حفاظت کرتی ہے کہ دشمن نہ آنے پائے تو جہاں حفظِ قرآن کا مدرسہ ہوگا وہاں ہیضہ، کینسر غرض جتنی بلائیں ہیں اﷲتعالیٰ ان سے حفاظت نصیب فرمائیں گے۔

ایک لطیفہ:مولوی صاحب کی تنخواہ پر ایک قصہ سن لو۔ ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ جو ہمارے ہاتھی کو رُلا دے گا میں اس کو بہت بڑا انعام دوں گا تو جتنے غمزدہ لوگ تھے مثلاً بیوہ، یتیم، غم کے مارے سب آئے اور ہاتھی کے کان میں اپنی اپنی مصیبت بیان کی لیکن ہاتھی نہیں رویا۔ آخر میں ایک مولوی آیا، اس نے ہاتھی کے کان میں اپنی تنخواہ بتادی، ہاتھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔۔۔۔۔ میں ہنساتا ہوں مگر اﷲ کی محبت میں پھنساتا بھی ہوں۔

(۲) تہجد گزار اللہ کا مقرب ہوجاتا ہے: تہجد کا دوسرا فائدہ ہے قُرْبَۃٌ لَکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْ  تم اﷲ کے پیارے بن جاؤگے، مقرب بن جاؤ گے۔

(۳) تہجد سے گناہِ صغیرہ معاف ہو جاتے ہیں: تہجد کا تیسرا فائدہ ہے مَکْفَرَۃٌ لِلسِّیِّاٰتِ  تمہارے چھوٹے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے لیکن بڑے گناہ توبہ کرنے ہی سے معاف ہوں گے۔

(۴) تہجد سے گناہ چھوڑنے کی ہمت پیدا ہوجاتی ہے:  تہجد کا چوتھا فائدہ ہے مَنْہَاۃٌ  لِلْ اِثْمِگناہ چھوڑنے کی ہمت آجائے گی ان شاء اﷲ، جو ڈاڑھی نہیں رکھتا اس کو ڈاڑھی رکھنے کی توفیق ہوجائے گی اور جو ڈاڑھی رکھتا ہے مگر ایک مٹھی سے کم رکھتا ہے اس کو اس گناہ سے بچنے کی توفیق مل جائے گی۔

آپ بتائیے! اگر آپ کا کوئی درخت ہو اور بڑھ نہ رہا ہو تو آپ کو فکرہوتی ہے یا نہیں؟ اگر بچہ بالغ نہ ہورہا ہو تو آپ کو فکر ہوتی ہے یا نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کیا بات ہے میرا بچہ پندرہ سال کا ہوگیا ہے اور ابھی تک بالغ نہیں ہوا، میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس کی شادی کردوں، نابالغ کی شادی سے کوئی فائدہ نہیں ہے، اولاد بھی نہیں ہوتی، میں دادا بھی نہیں بن سکتا، تو جب آپ کی ڈاڑھی بالغ نہیں ہورہی ہے تو فکر کرو، کسی روحانی ڈاکٹر سے مشورہ کرو کہ ڈاڑھی بڑھ نہیں رہی ہے، ان شاء اﷲ وہ ایسا نسخہ بتائے گا کہ ڈاڑھی بڑھ جائے گی۔

۳۲ منٹ ۵۷ سیکنڈ: فرمایا: " یہ جو روحانی معالج فرمایااس سے مرا د یہ عاملین نہیں ہیں  بلکہ اللہ والے شیخ و مشایخ ہیں جو کہ تزکیہ ء نفس اور اصلاحِ اخلاق میں اپنا وقت دیتے ہیں ۔ یہ آج کل کے عاملین مراد نہیں ہیں ان کو روحانی معالج نہ سمجھیے یہ توسب جسمانی ہیں ۔ روحانی تو صرف اللہ والے ہیں ۔

تو آج ہی سے دو رکعات تہجد کی نیت سے پڑھنا شروع کردو، اگر چار پڑھ لو تو اور اچھا ہے، چھ پڑھ لو اور اچھا ہے، مگر میں کم بتاتا ہوں تا کہ امت کو گھبراہٹ نہ ہو، اگر کوئی سستی کا سمندر بھی ہو تو وہ بھی پڑھ لے اور قلندر ہوجائے اور ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن قسمت کا سکندر بھی ہوگا۔

اب دعا کرتا ہوں کہ اے اﷲ! جو بچے یہاں حافظ ہوئے ان کی برکت سے ہم سب کی تمام جائز حاجتیں پوری فرما، ہم سب کو نیک ارادوں میںبا مراد فرما اور ہماری سب سے بڑی مراد یہ ہے کہ آپ ہمیں اپنا قرب اور اپنی رضا نصیب فرما کر ہم سب کو اﷲ والا اور اپنے گروہِ دوستاں میں داخل فرمادیں اور اپنی ہر قسم کی نافرمانی سے ہماری حفاظت فرمائیں، اے اﷲ ہماری دنیا بھی بنا دیں، آخرت بھی بنا دیں اور سارے عالم کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں،سارے عالم کے مسلمانوں کو دونوں جہان کی عافیتوں سے مالا مال فرما دیں اور اہلِ کفر کو اہلِ ایمان بنا دیں اور اختر کو اور جملہ اہلِ ایمان کو عافیت دارین نصیب فرمادیں، چیونٹیوں پر رحم فرما دیں بلوں میں، مچھلیوں پر رحم فرما دیں دریاؤں میں اور جانوروں پر رحم فرما دیں صحراؤں میں اور پرندوں پر رحم فرما دیں فضاؤں میں، اے اﷲ اپنی رحمت کا بحرِ ذخّار اور اپنی رحمت کے آبشارِ غیر محدود کو سارے عالم میں برسا دیں۔۔

۲۱؍جمادی الثانی  ۱۴۱۹ھ مطابق۱۳؍ اکتوبر ۱۹۹۸ ء،بروز منگل، بعد مغرب، ملاوی جھیل کے کنارےآج حضرت والا عصر کے بعد مع احباب کے ملاوی جھیل تشریف لے گئے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے اور مندرجہ ذیل ارشادات فرمائے۔  ۔

اے اﷲ تعالیٰ! آپ کا احسان ومہربانی ہے کہ آپ نے ہمیں اپنے ایک جھیل کے کنارے اپنا نام لینے کی توفیق عطا فرمائی اور گھر سے بے گھر فرمایا، کوئی بزنس کے لیے بے گھر ہے، کوئی کسی کام کے لیے، کوئی کسی کام کے لیے اور کوئی اﷲ کے لیے گھر سے بے گھر ہے۔ جو اﷲ کی محبت سیکھنے کے لیے میرے ساتھ سفر کر رہا ہے وہ دنیا تو نہیں پائے گا مگر اﷲ مل جائے تو سب کچھ مل گیا ؎

جو تو میرا تو سب میرا، فلک میرا، زمیں میری

اگر اک تو نہیں میرا تو کوئی شے نہیں میری

جس کو اﷲ نہیں ملا اسے کچھ نہیں ملا اور یہ حقیقت کب معلوم ہوگی؟ جب قبر میں جنازہ اترے گا تب معلوم ہوگا کہ تمہارا کیا ہے اس لیے جلدی جلدی اﷲ پر فدا ہوجاؤ جان سے، مال سے، آبرو سے، اولاد سے، اور اولاد سے کیسے فدا ہو گے؟ اپنی اولاد کو بھی نیک بناؤ، نمازی بناؤ، اﷲ والا بناؤ، خود نہ بنا سکو تو جو بنانے والے ہیں ان کے پاس لے جاؤ، پیار و محبت سے ان کو گلاب جامن، سموسہ کھلاؤ اور کہو آؤ بیٹا چلو ہم ایک جگہ اﷲ کی محبت سیکھنے جارہے ہیں، اس کا اثر پڑتا ہے۔

اگر انسان کا ایمان صحیح ہو تو اس جھیل اور سمندر کے کنارے محسوس ہوگا کہ ہم ساری دنیا کی سلطنت لیے بیٹھے ہیں، یہ ستارے ہم کو دیکھ کر رشک کررہے ہوں گے کہ یہ اﷲ کے کیسے بندے ہیں جو اﷲ کا نام لے رہے ہیں۔

شبِ صحرا: میر صاحب کے افریقہ کے تین سو ساٹھ کلومیٹر جنگل کے سناٹے پر اشعار ہیں، ہم اس جنگل میں رات کے وقت موٹر سے گئے تھے، موٹر کی لائٹ بھی بجھا دی تھی، بالکل اندھیرا اور سناٹا تھا۔ اس پر میرصاحب کے اشعار ہیں جو میر صاحب سنائیں گے ۔حضرت والا کے حکم پر احقر نے یہ اشعار سنائے؎۔

یہاں جناب ممتاز صاحب نے حضرت والا سے عرض کیا کہ کیا میں یہ اشعار سنادوں ، حضرت والا نے اجازت عطا فرمادی  تو ممتاز صاحب نے اشعار سنانے شروع کیے  جس کا عنوان ہے  : رفیقِ تنہائی۔

شروع میں ان اشعار کا پس منظر اور حضرت والا رحمۃاللہ علیہ کےتاثرات بیان کیے گئے۔

پس منظر : سیدی ومرشدی، محبی ومحبوبی فداہٗ ابی وامی عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ محمد اخترصاحب ادام اﷲ ظلالہم ودامت برکاتہم وعمت فیوضہم کے ہمراہ  ۱۹۹۰ء میں جنوبی افریقہ کے پہلے سفر کے دوران وہائٹ ریور (White River) کے قریب ساڑھے تین سو کلو میڑ کے جنگل میں رات کے سناٹے میں حضرت مرشدی کی محبت میں کہی گئی ایک نظم۔(احقر میرؔ عفا اﷲ تعالیٰ عنہٗ)

حضرت والا رحمۃا للہ علیہ کے تاثرات: یہ اشعار جب ہوئے اور حضرت والا کو سنائے تو حضرت نے بہت زیادہ پسند فرمائے خصوصاً پہلا بند اور مختلف اوقات میں بار بار سنے ۔ آج ۱۱؍ ربیع الثانی  ۱۴۱۳؁ ھ مطابق ۹؍ اکتوبر  ۱۹۹۲؁ء بروز جمعہ تائب صاحب نے پھر یہ نظم پڑھی تو حضرتِ والا نے فرمایا کہ بہترین اشعار ہیں اور احقر سے فرمایا کہ سفرِ لاہور میں اس کیسٹ کو ساتھ رکھنا۔

دوپہر بعد طعام فرمایا کہ یہ اشعار درد انگیز، درد آمیز اور درد ریز ہیں اور رات پونے بارہ بجے جب حضرت والا کمرہ میں استراحت کے لیے آرام فرما ہوئے تو فرمایا وہ اشعار پھر سناؤ احقر نے کیسٹ لگایا اور یکے بعد دیگرے حضرت والا نے تین بار سنا اور فرمایا کہ تائب نے پڑھا بھی خوب ہے اور مضمون بھی خوب ہے شروع کے دو شعروں کے لیے فرمایا کہ آپ نے بہترین تشبیہ دی ہے آپ افریقہ کو شعروں میں بند کر کے لے آئے ۔ ایسے مضامین آپ کو کہاں سے آجاتے ہیں۔ احقر نے عرض کیا کہ حضرت ہی کا فیض ہے احقر کہاں سے لائے گا۔ پھر فرمایا کہ اردو ادیب ہی اس کی قدر کر سکتے ہیں بے چارے عوام کیا جانیں۔ پھر فرمایا کہ آپ پر افریقہ کے جنگل میں کیا کیفیت طاری ہوئی تھی جو یہ اشعار ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بہت قوی کیفیت طاری ہوئی تھی اور فرمایاکہ نہ جانے ان اشعار سے مجھ پر کیوں کیفیت طاری ہوتی ہے۔ یہ اشعار اور تائب کی آواز میری نیند اڑ جاتی ہے ظالم نے پڑھنے میں کمال کردیا۔

اگلے دن صبح دس بجے مولانا مظہر میاں اور دوسرے حضرات کو کئی بار یہ کیسٹ سنایا احقر نے عرض کیا کہ تائب صاحب نے بہت درد سے پڑھا ہے تو فرمایا کہ ہاں لیکن اگر مضمون اچھا نہ ہو تو محض پڑھنے میں کیا مزہ آئے گا۔ فرمایاکہ مجھ پر ان اشعار کا جو اثر ہورہا ہے وہ دوسروں پر دیکھتا ہوں کہ نہیں ہے اگرچہ وہ ماہرِ ادیب ہیں۔ ان اشعار کو سن کر میںآفاق کے اس پار کسی دوسرے عالم میں پہنچ جاتا ہوں ۔

شام کو دبیر صاحب اور ان کے ساتھ کچھ حضرات تشریف لائے تو فرمایا کہ آپ کو میر صاحب کے اشعار سنانے ہیں آپ مست ہوجائیں گے اور جب ٹیپ لگایا گیا تو فرمایا کہ مجھے تو یہ اشعار بے حد پسند ہیں اور جس کو یہ پسند نہ آئیں تو اس کو مجھ سے مناسبت نہیں ۔

اگلے دن ۱۱؍ اکتوبر  ۱۹۹۲ء بروز اتوار آج صبح فرمایاکہ ’’یا صدورِ گناہ سے دل کی‘‘ والا شعر اولیاء اﷲ کا ہے اور ضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ کی تفسیر ہے اور تعبیر حسن بلکہ احسن ہے ۔ یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ کسی انسان کا کلام ہے۔

اگلے دن سندھ بلوچ سوسائٹی کے پارک میں بوقتِ سیر فرمایا کہ خواجہ صاحب کے شعر پر حضرت حکیم الامت نے فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس ہوتا تو خواجہ صاحب کو ایک لاکھ روپیہ دیتا میں کہتا ہوں کہ آپ کا شعر جو ہے   ؎

یا صدورِ گناہ سے دل کی

تنگ ہونے لگے فضائے بسیط

اگر میرے پاس ہوتا تو آپ کو دس لاکھ روپیہ دیتا ۔ گناہ کی ظلمت کی بہترین تعبیر ہے۔

حضرت والا کے یہ ارشادات احقر کے لیے سلطنت ہفتِ اقلیم اور خزائن السمٰوٰت والارض سے زیادہ قیمتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ حضرت والا کے حسن ظن کو میرے لیے حقیقت بنا دیں اور میری نجات کا ذریعہ بنا دیں، آمین۔

اب ممتاز صاحب نے اشعار سنانا شروع کیے:

شبِ صحرا مہیب سناٹا

موت ہو جیسے زندگی پہ محیط

یا صدورِ گناہ سے دل کی

تنگ ہونے لگے فضائے بسیط

۴۶ منٹ ۴۰ سیکنڈ : ان اشعار کا  پس منظر بیان فرمایا: " شب ِ صحرا  یعنی  جنگل کی رات ، اصل میں اُس جنگل  کے اندر ایک  ہوٹل تھا جس میں حضرت والا کے کمرہ تھا اسی کے ساتھ میرا بھی کمرہ تھا ، تو میں حضرت والا کے پاوں دبا رہا تھا ، رات کا تقریباً ڈیڑھ بج گیا تھا، حضرت والا جب سُو گئےتو میں حضرت والا کے کمرہ سے ملحق اپنے  کمرے میں جب آیا تو وہاں  بڑی کھڑکی کے اندر لوہے  سلاخیں لگی ہوئی تھیں کیونکہ جنگل میں تو شیر وغیرہ سب ہی کچھ ہوتا ہے ۔ تو وہاں سے پورا جنگل نظر آرہا تھا ، اس سے پہلے کبھی میں نے جنگل اِس طرح دیکھا ہی نہیں تھاکبھی جانا ہی نہیں ہوا تھا تو عجیب کیفیت ہوئی تو اُس وقت یہ اشعار ہوئے ۔

شبِ صحرا مہیب سناٹا

موت ہو جیسے زندگی پہ محیط

شبِ صحرامہیب سناٹا  ۔۔۔ مہیب   یعنی ڈروانا  ہبیت سے ہے، مہیب سناٹا ، ایسا سناٹا جو ڈرانے والا ہے خاموش۔ ایسی خاموشی جس سے ڈر معلوم ہوتا ہے ، اور اس کی مثال کیا ہے موت ہو جیسے  زندگی پہ محیط۔ موت جیسے زندگی کے اوپرچھا جائےاور زندگی ختم ہوجائے اور دوسری مثا ل یہ دی:

یا صدورِ گناہ سے دل کی

جب کبھی خدانخواستہ گناہ ہوجائےتو اُس وقت جو دل میں گھٹن ہوتی ہےتو:

تنگ ہونے لگے فضائے بسیط

یعنی جب گناہ ہوجاتا ہے تو دل کی فضاگُھٹ جاتی ہے اور وہ جو وسعت ہوتی ہے اوردل میں چین، آرام و سکون  ہوتا ہے وہ گھٹن میں تبدیل ہوجاتا ہے،فضائے بسیط جو ہے وہ بالکل تنگ ہوکر گھٹن کا باعث ہوجاتی ہے۔تو  رات کو  اِس سے حضرت کی برکت سے تشبیہ دی۔اور سوچنا نہیں پڑا تھا خودبخود ہی یہ اشعار ہوگئے تھے۔

پھر ممتاز صاحب نے اگلے اشعار پڑھے۔

پڑگئی طول و عرض صحرا پر

ظلمتِ شب کی اک سیاہ ردا

۴۹ منٹ ۵۶ سیکنڈ: مندرجہ بالا شعر کی تشریح میں فرمایا: "ردا یعنی چادر ، طول عرض معنی لمبائی اور چوڑائی ، صحرا کی لمبائی اور چوڑائی پر  یعنی پورے صحرا کے اوپرایک سیاد چادر رات کی گر گئی ، اس چادر ڈھانپ دیا ۔

پھر ممتاز صاحب نے اگلے اشعار پڑھے۔

پتے پتے پہ مہر خاموشی

کنجِ عزلت میں سو گئی ہے ہوا

گوشِ گل میں زبانِ بلبل سے

نہیں آتی نوائے سرگوشی

آب گہوارۂ سکوت ہے آج

موجِ دریا ہے غرق بے ہوشی

۵۱ منٹ ۴۱ سیکنڈ پر مندرجہ شعر کی تشریح میں فرمایا: موج تو ڈوبو دیتی ہے دوسروں کو لیکن یہاں حضرت کی برکت سے  یہ ہوا کہ موج تو خود غرق ہے بے ہوشی میں، ایسی خاموشی ہے ۔ جو دوسروں کو ڈبوتی ہے وہ خودہی ڈوبی ہوئی ہے ۔

ممتاز صاحب نے اگلے اشعار پڑھے۔

وسعتِ ارض پر اندھیروں کو

تکتے ہیں آسمان کے تارے

ظلمتوں میں ہدایتوں کے چراغ

کفر کے گھر میں نور کے پارے

 

مشترک مجھ میں اور تجھ میں ہے

ایک ہی وصف اے شبِ صحرا

تو بھی تنہا سکوت صحرا میں

بزمِ دنیا میں میں بھی ہوں تنہا

۵۳ سیکنڈ ۲۵ سیکنڈ: ہنستے ہوئے فرمایا: " یہ شعر سُن کر حضرت نے فرمایا تھا کہ اِس سے معلوم ہوا کہ میر کی شادی نہیں ہوئی۔ یہ کہہ کر حضرت اقدس میر صاحب اور سب حاضرین خوب لطف اندوز ہوئے۔ممتاز صاحب نے اگلے اشعار پڑھے

تجھ کو لیکن بھلا نصیب کہاں

جو ہے میرا رفیقِ تنہائی

جو ہے خود ایک انجمن تنہا

جس کی تنہائی عالم آرائی

۵۴منٹ ۳۱ سیکنڈ: فرمایا :"اے شبِ صحرا تو تنہا ہے لیکن تجھے کہاں نصیب ہے وہ تنہائی کا ساتھی مجھے اللہ تعالی نے نصیب فرمایا ہے ، مجھے جو نصیب ہے وہ تیرا نصیبا کہاں ہے کہ تجھے وہ مل جائے۔ اللہ تعالی پھر جنت میں ملاقات کروائے۔

پھر حضرت والا  میر صاحب دامت برکاتہم نے نہایت درد سے یہ شعر پڑھا:

تجھ کو لیکن بھلا نصیب کہاں

جو ہے میرا رفیقِ تنہائی

جو ہے خود ایک انجمن تنہا

یعنی جس کی ذات خود ایک انجمن ہے ایک عالم ہے ، ایک محفل ہے اگرچہ وہ تنہاہے  لیکن یہ معلوم ہوتا ہے پوری ایک انجمن اور محفل ہے اور

جس کی تنہائی عالم آرائی

اُس کی تنہائی وہ ہے کہ سارے عالم کووہ آراستہ اور پیراستہ کرتا ہے اور سارے عالم میں وہ اصلاح کا کام کرکےاللہ والا لوگوں کو بناتا ہے ۔۔ ۔

ممتاز صاحب نے دوبار پڑھنا شروع کیا

وہ سلامت رہے ہزار برس

جس کا اک اک نفس ہزار حیات

جس کی اک اک ادا حیات فروز

بن گئی وصل جس سے ہجر کی رات

۵۷ منٹ ۲۰سیکنڈ: فرمایا :"وہ ہزار برس زندہ رہےجس کی ایک ایک سانس جو ہے وہ ہزاروں زندگیاں اپنے اندر رکھتی ہے، حضرت والا کی حیات ایسی ہی تھی کہ جس سے مردہ دل زندہ ہوجاتے تھےاور جو ہماری ہجر یعنی تنہائی کی رات تھی وہ وصل میں تبدیل ہوگئی۔۔وہ تنہائی تنہائی نہیں رہی حضرت والا کے ساتھ رہنے سے۔ اور

بن گئی وصل جس سے ہجر کی رات

یعنی تنہائی کا جو غم تھا اُس کو وصل بنادیا حضرت والا نے، ملاقات اور وصل  ہوگئی ، حضرت والا کی برکت سے کوئی فراق، کوئی غم، کوئی جدائی اور کوئی تنہائی نہیں رہی۔

جس سے ملتی ہے قلبِ مردہ کو

اک نئی جان یعنی جانِ حیات

قرب جس کا ہے رشکِ خلد بریں

شاہد عدل جس پہ ہیں آیات

۱ گھنٹہ ۲۰سیکنڈ: فرمایا :"یہاں سے جو اشعار ہیں وہ شیخ کی محبت  اللہ کے لیے ، اللہ کو پانے کےلیے ہوتی ہے  یہاں سے تبدیل کردیا ، یعنی شیخ کی برکت سے جو دل مردہ تھا اُس کو حیات کی بھی جان یعنی زندگی کی جو زندگی ہےیعنی اللہ تعالی کی ذات وہ مل گئی اور وہ ذات کیسی ہے۔

قرب جس کا ہے رشکِ خلد بریں

اللہ تعالی کا قرب جو ہے وہ خلدِ بریں کے لیے بھی باعثِ رشک ہے ، کیونکہ جنت تو مخلوق ہے ، اللہ تعا لی خالق ہیں جنت کو پیدا کرنے والے ہیں ۔۔ تو جنت اللہ تعالی کے قرب سے کیسے زیادہ ہوسکتی ہے۔۔تو وہ باعثِ رشک خلد ِ بریں یعنی جنت کے لیے اور

شاہد عدل جس پہ ہیں آیات

اور آیاتِ قرآن پاک  سے یہ  ظاہر  ہوتا ہے ۔ لهم ما يشاؤ ن فيها و لدينا مزيداس پر بہت سے مفسرین نے لکھا ہے لدینا مزید میں اللہ پاک کادیدار مراد ہے۔۔ اور بھی معنی ہیں  اور بھی نعمتیں ہیں  لیکن ایک اُس میں یہ بھی ہے تو اس لیے  شاہد  ہیں گواہ  ہیں اُس پر آیات۔

ممتاز صاحب نے  بقیہ اشعار سنائے

وہ جو آتا ہے میہماں بن کر

جب کبھی دل اداس رہتا ہے

جو نگاہوں سے دور ہوکر بھی

ہر گھڑی دل کے پاس رہتا ہے

۱ گھنٹہ ۳ منٹ ۲۲ سیکنڈ: فرمایا:" ہر وقت اللہ تعالی کا قرب اللہ والوں کو محسوس ہوتا ہے وہ اپنے دل میں موجود پاتے ہیں، اسی لیے وہ دُنیا کی بڑی سے بڑی نعمت اور بڑی سے بڑی سلطنت سے بھی بکتے نہیں ہیں۔ کیونکہ سب سے بڑی دولت، سب سے بڑی نعمت وہ قربِ خاص اللہ کاوہ اُن کو حاصل ہے کہ جس سے اُس کے سامنے ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔۔ اللہ ہم سب کونصیب فرمائے!

پھر ممتاز صاحب آخری اشعار سنائے

ایسا محبوب کوئی دکھلائے

ہو جو ہردم دلِ حزیں کا حبیب

۱ گھنٹہ ۴ منٹ ۳۵ سیکنڈ:فرمایا:" کوئی لائےایسا محبو ب جوکہ ہر وقت  موجود ہو کیسی بھی حالت ہواُن کی محبت دل سے نہیں جاتی ۔ دنیامیں تو کسی مجازی معشوق سے دل گیا اور آپ کے پیٹ میں درد ہوگیا تو آپ تو سب بھول بھال جاتے ہیں کہ عشق کہاں گیا اور اُس کو لات مارتےہیں اور کہتے کہ میری تو جان نکلی جا رہی ہے اور یہاں گردنیں کٹ جاتی ہیں  پھر بھی لوگ اللہ تعالی کو نہیں چھوڑتے۔حضرت والا نے پھر اپنا شعر پڑھا

ایسا محبوب کوئی دکھلائے

ہو جو ہردم دلِ حزیں کا حبیب

غمگین  دل کا جو ہر وقت حبیب ہے ،کیسا ہی غم ہو لیکن اللہ تعالی کی محبت جو ہے وہ دل میں کم نہیں ہوتی   ، ہر وقت وہ محبوب ہیں ۔۔۔ ہر حال میں وہ محبوب ہیں  ۔

پھر ممتاز صاحب نے سب سے آخری شعر پڑھا

جو ہو موجود دل کی دھڑکن میں

رگِ جاں سے بھی ہو زیادہ قریب

۱ گھنٹہ ۶ منٹ ۳۰ سیکنڈ:فرمایا:" وہ محبوب کیوں ہے ۔۔ کوئی محبوب جو دنیا کا ہے وہ دل کی دھڑکن میں موجود نہیں ہوسکتا اور نہ وہ اُس میں آسکتا ہےاور اگر آئے گا تو دل ہی پھٹ جائے گا۔ صرف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔ حدیث قدسی ہے کہ میں مہمان کی طرح دل میں سما جاتا ہوں، اگرچہ وہ لامحدود اور دل محدود ہے۔۔ تو اِسی لیےاور اسی وجہ سے وہ محبوب ہے کیونکہ وہ ہر وقت دل کی دھڑکن میں موجود ہے اور ہماری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے ، شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ، قرآن پاک کی آیت ہے ﴿وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِمِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾ (ق:۱۶)ہم تو انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں اُسی کی ترجمہ ہے :

جو ہو موجود دل کی دھڑکن میں

رگِ جاں سے بھی ہو زیادہ قریب

کون سا محبوب ایسا ہے جو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہو، اور یہ محبوب تو شہ رگ کو کاٹ دیتے ہیں ۔ کوئی دوسرا لالچ دے دےحضرت والا فرماتے تھے  کہ عاشقی چل رہی ہے دوسرے سے کہا کہ میں تجھے ۵ لاکھ ڈالر دوں گا تو اِس کو زہر دلوا دے وہ اُس کو زہر دلوا کراُس کے پاس چلی گئی۔۔ تو کیا چیز ہے یہ ؟ ۔۔ صرف اللہ تعالی کی ذات باوفا ہےاور وہ ہماری رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے ، کیونکہ رگِ جاں انہوں نے تو پیدا کی ہے ، اسی لیے اُس سے زیادہ قریب ہیں اس لیے آدمی جان قربان کردیتا ہے۔ اگر قریب نہ ہوتے تو جان بھی قربان نہ کرتا۔

فرمایا : آج بہت وقت ہوگیا ، بس اللہ تعالی قبول فرمائےتو سب کچھ ہے ۔ اللہ اِس کو ہماری آخرت میں نجات کا ذریعہ بنادے۔ بس اب مجلس برخاست ہوتی ہے ۔

یوں یہ پرنور طویل مجلس اختتام کو پہنچی۔ تمام حاضرین نے  عظیم الشان نفع محسوس کیا اور اِس کا اظہار بھی کئی احباب نے حضرت کے سامنے کیا ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries