مجلس۵ جنوری۲۰۱۴ء عظمتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین!

محفوظ کیجئے

وعظ عظمت صحابہ پڑھئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس: آج حضرت والا کے تشریف لانے میں کچھ تاخیر تھی لہٰذا  حضرت والا کے حکم پر جناب ممتاز صاحب نے جناب اثر صاحب دامت برکاتہم سے عرض کیا کہ کچھ سنا دیجئے۔۔۔ جس پر جناب اثر صاحب نے اپنے کچھ اشعار اُن کی تشریح اور  کچھ باتیں ارشاد فرمانے شروع کیں  تقریباً ۱۵ منٹ کے بعد اطلاع آئی کہ حضرت تشریف لارہے ہیں ۔۔ تمام حاضرینِ مجلس خوش ہوگئے۔۔ حضرت والا کے حکم پر اثر صاحب نے  کچھ مزید اشعار سنائے

ایک شعر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں پڑھا تو حضرت اقدس میر صاحب نے فرمایا کہ  ماشاء اللہ حضرت والا کا بالکل صحیح نقشہ اور کیفیت بیان کی  ہے ۔۔ ماشاء اللہ ۔۔ پہلے اشعار بھی حضرت والا کے سنے ہوئے ہیں ۔کہ۔۔۔ اثر اُس وقت کیا  توبہ کروگے۔۔۔ کہ جب نفسِ  لعین  میں دَم نہ ہوگا۔۔ کہ جب نفس کی خواہشات ہی ختم ہوگئیں۔۔ بوڑھا ہوگیا۔۔۔چلو توبہ تو اُس وقت بھی قبول ہے لیکن جو بات جوانی کی توبہ کی ہے  کہ جس وقت اشد تقاضے ہوں پھر وہ اُن کو دبائے۔۔اُس میں مجاہدہ زیادہ کرنا پڑتا ہے کہ نہیں ۔۔ اُس کو زیادہ مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔۔۔اور جس وقت جسم میں دَم خم ختم ہوگیا تو اللہ تعالیٰ تو ارحم الراحمین ہیں اُس وقت بھی توبہ قبول فرماتےہیں۔ لیکن  وہ بات کہاں جو جوانی کے مجاہدات کی ہے۔

بوڑھوں کو بھی اِ س پر شکر کرنا چاہیے کہ مرنے سے پہلے اُن کو اللہ نے توبہ کی توفیق دے دی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کے پابند نہیں ہیں کہ بندہ عمر بھر مجاہدہ کرے ۔۔ پھر اُس کو جنت دیں۔۔ کیونکہ ہر ایک بندے  کا مقام پہلے سے متعین ہے  ۔ لیکن اللہ تعالی جانتے ہیں کہ یہ عمل سے وہاں تک نہیں پہنچ سکے گا تو اُس کو دوسرے مجاہدے میں مبتلا کردیتے ہیں ، اور اِس کو اُس  مقام تک پہنچادیتے ہیں ۔ مثلاً کسی کو کوئی غم پہنچ گیا ، کسی کا مال ضائع ہوگیا  اگرچہ وہ بوڑھا ہو لیکن اُس کا متبادل ہوجاتا ہےکیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے۔

فرمایا: آزاد کشمیر میں حضرت والا جب تشریف لے گئے  تو ایک صاحب حضرت کا بیان سن کر بہت زیادہ اپنی جوانی کو بُرا بھلا کہنے لگےکہ ایسی تھی میری جوانی ، میں نے ایسے ضائع کردی اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزار دی۔۔ بہت جوانی کو گالیاں دے رہے تھے۔۔۔اور کہتے تھے کہ اب بڑھاپے میں کیا ہوگا۔کیا فائدہ ؟  تو حضرت  والا یہ شعر فرمایا تھا۔۔

نہیں رائیگاں  زاہد  بڑھاپے  کے  یہ  سجدے  بھی

کہ اِن سجدوں کی برکت سے ملی جنت بھی رندوں کو

اور فرمایا کہ یہ نااُمیدی کا راستہ نہیں ہے۔لیکن جو جوان ہیں وہ اِسی وقت سے توبہ کریں۔

پھر جناب اثر صاحب دامت برکاتہم کے تقویٰ اور تعلق مع اللہ کی بہت تعریف فرمائی۔۔۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ  بے ریش کے نوجوانوں کو نہ سامنے بیٹھنے دیتے تھے اور نہ تنہائی میں آنے کی اجازت تھی۔۔۔ اسی  بات حضرت والا میر صاحب نے اثر صاحب کے حوالے سے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا ایک واقعہ ارشاد فرمایا۔۔۔

فرمایا: کتنے لوگ ایسے ہیں جو بوڑھے ہوگئے اور پھر اُن کو توبہ کی توفیق ہوئی ۔۔ وہ اگر زندگی بھر سجدے میں سر  اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر رکھے رہیں تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔۔

فرمایا: اور کتنے بوڑھے ایسے ہیں جو ڈارھی بھی نہیں رکھتے نماز بھی نہیں پڑھتے اور علماء کا مذاق اُڑاتے ہیں۔۔پھر ایک صاحب کا واقعہ بیان فرمایا جو ناظم آباد میں حضرت والا کے پاس آتے تھے، بہت نمازی تھے ۔۔۔ اُن سےحضرت والا نے فرمایا کہ ڈاڑھی رکھ لو ۔۔۔ اب آخری عمر ہے ۔۔ تو کہنے لگے میں مولوی بن کر نہیں مرنا چاہتا۔۔۔اور اُلٹی سیدھی باتیں کرنی شروع کردیں ۔۔۔اور اِسی حالت میں مر گئے۔۔۔تو ایسے لوگ بھی ہیں۔۔

ایسے لوگ ہیں کہ موت کے قریب ہیں لیکن غافل ہیں ۔۔ اس لیے جس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہوجائے،اللہ تعالیٰ سے رابطہ ہوجائے بہت مبارک وقت ہے۔۔

پھر ایک فارسی کا شعر پڑھا اور یہ تشریح فرمایا: کہ جس وقت بھی اللہ کو دل دے دو وہ بہت مبارک وقت ہے ۔۔ اور اسِ کارِ خیر نیک کام میں کسی استخارے کی ضرور ت نہیں کہ میں کروں یا نہ کروں۔

بعض وقت نااُمیدی پیدا ہوجاتی ہے ۔۔ اس لیے حکم ہے کہ جوانی میں خوف غالب رکھو  تا کہ گناہوں سے بچتے رہو۔۔۔آسانی ہوجائے گی۔۔ اور بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو غالب رکھو۔۔ کہ وہ ارحم الرحمین ہیں ۔۔ بوڑھوں سے شرم آتی ہے ۔۔۔ سفید بالوں سے شرم آتی ہے۔۔ اس لیے وہ ہمیں ضرور بخش دیں گے۔

اور یہ جو کہا کہ بعض لوگوں کو اعمال سے ترقی ملتی ہے۔۔اعمال سے، مجاہدے سے وہ اُس مقام تک پہنچتے ہیں اور جنت میں اُن کا بلند مقام ہے۔۔ اور بعضوں کے بارے میں  اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ مقام اُس کا بہت اونچا ہے۔۔۔لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ عمل کی توفیق اِس کو نہیں ہوگی۔۔کیونکہ وہ عالم الغیب ہیں۔۔تو پھر یہ اُن کی رحمت ہے کہ کسی غم میں مبتلا کردیتے ہیں۔۔ ہر شخص کو دنیا میں غم آتا ہے ۔۔ایسا تو کوئی بھی نہیں کہ جس کو غم نہ آئے ۔۔ اِس لیے کوئی بھی غم آگیا  اور اُس کے بدلے میں وہی مقام مل گیا۔

دو راستے ہیں ۔۔۔ایک عمل کا ، ایک فضل ہے۔۔ عمل بھی فضل ہی سے ہے۔۔ ایک یہ کہ بالکل نااہل ہے پھر بھی اُس کو نواز دیتے ہیں کہ جاؤ!

پھر دوبارہ اثر صاحب کا تذکرہ فرمایا: کہ یہ اثر جوانی ہی سے آرہے ہیں ان کے کلام میں، ان کے اعمال میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔ جو جوانی سے صحبت میں رہے وہ کیسے محروم رہ سکتا ہے؟   ۔۔اس لیے ماشاء اللہ دین کا کام بھی اِن سے خوب ہورہا ہے۔ اور  سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایک لمحے کے لیے بھی کسی بھی مرحلے پر ناراض نہیں کرتے گھر کے اندر اور باہر سب شریعت و سنت کے مطابق ہیں۔۔نامحرموں سے پردہ بچپن سے ہی کرتے ہیں ۔

فرمایا: صحبت رائیگاں نہیں جاتی ہے ۔اس لیے میں کہتا ہوں کہ غلاموں کے غلاموں کے غلاموں لاکھوں غلاموں کی صحبت میں اللہ نے یہ اثررکھا ہے کہ جو اُن کی صحبت اُٹھا لیتا ہے صحیح معنوں میں یعنی محبت اور عظمت کے ساتھ تو اُس کا حال کیا ہو جاتا ہے، وہ گناہوں سے کیسے دور بھاگتے ہیں۔

اس دور کے نوجوان جو یونی ورسٹی میں پڑھ رہے ہیں۔۔ اور اپنی نگاہ خراب نہیں کرتے۔۔ ہر وقت ڈرتے رہتے ہیں کہ نگاہ کہیں خراب نہ ہوجائے۔۔۔ لوگوں سے آکر بتا یا کہ یونیورسٹی میں جو حضرت سے تعلق رکھنے والے ہیں ہم اُن کو پہچان لیتے ہیں ۔۔ میں نے پوچھا کیسے پہچانتے ہو ؟  بتایا کہ وہ نگاہ نیچی کر کے چلتے ہیں۔۔اور کسی لڑکی سے بات نہیں کرتے۔۔۔

تو ۱۴سو برس کے بعدوالوں کی  صحبت کا یہ حال ہے  کہ اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کی صحبت میں کیا اثر رکھا ہے ۔ تو ۔۔ وہ کتنے بڑے احمق ہیں۔۔ کہ جن کی نسبت سے یہ حال ہورہا ہے ۔۔۔وہ اُن  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے والوں کی شان میں گستاخیا ں کرتے ہیں۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی صحبت کا تو یہ اثر ہو ۔۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا کیا اثر ہوگا!!!۔۔۔

نبی کی صحبت میں کوئی اثر نہ ہوگا!!!!۔۔ اِن جاہلوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا۔۔۔۔اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔۔۔نبی کی صحبت کا اثر تو یہ ہے کہ ایک ادنیٰ صحابی رضی اللہ عنہ۔۔۔ ایک وہ جس نے زندگی بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ستایا ۔۔ ابوسفیان ۔۔۔ زندگی بھر جنگ کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے۔۔ اخیر میں ایمان لے آئے۔۔۔اُن کے ایمان لانے کے بعد اب دُنیا میں قیامت تک جتنے بھی بڑے سے بڑے ولی آئیں گےوہ اِن کی پاؤں کی خاک کے برابر نہیں ہوسکتے۔۔۔

حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو بہت ہی بری طرح  شہید کیا تھا۔۔اِتنا غم ہوا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔۔کہ جب وہ ایمان لائے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے ارشاد فرمایا اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شرافت  اور انسانیت اور بلندئے اخلاق کی دلیل ہے انک علی خلق عظیم ۔۔ تو حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ نہیں فرمایا کہ میرے سامنے نہ آیا کروبلکہ یوں فرمایا کہ وحشی کیا ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔کہ تم میرے سامنے نہ آؤ۔۔کیونکہ مجھے چچا کا خون یاد آجاتا ہے۔۔تو وہ پھر زندگی بھر سامنے نہیں آئے۔۔۔ دیکھو اُن کی بھی فرمانبرداری کہ کتنی محبت ہوجاتی ہے ایمان لانے کے بعد لیکن پھر بھی زندگی بھر سامنے نہیں آئے۔۔

لیکن پھر اُس وحشی رضی اللہ تعالیٰ  عنہ کا درجہ کیا ہے۔۔۔خود سوچ لیجئے۔۔ اُس وحشی نے جس نے نبی کو ایسا ستایا ۔۔۔ کہ قیامت تک آنے والے اولیاء اللہ ہیں وہ اُن کی پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہوسکتے۔۔

ولی کی صحبت میں تو اللہ یہ اثر رکھا اور ایسے لوگ اِس کو  مانتے بھی ہیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں۔۔ تو وہ صحابہ کے اُوپر تنقید کرتے ہیں۔۔۔نعوذباللہ۔۔۔اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔۔

اس لیے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت  پر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا وعظ ہے۔‘‘عظمت صحابہ کرام ’’ اُس کو سب پڑھیں۔۔۔

پھر ایک صاحب کا حال  بیان فرمایا جو مودودی سے متاثر تھے ۔۔۔ اُن کی اصلاح حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے  بتدریجاً فرمائی ۔۔۔ اُن کے تائب ہونے کا واقعہ ارشاد فرمایا۔۔پھر وہی خلیفہ بھی ہوگئے

حضرت والا اکثر صحابہ کی شان ایسے بیان فرماتے تھے کہ دل میں محبت پیدا ہوجاتی تھی۔۔حضرت کا وعظ بھی ہے عظمت صحابہ ۔۔ اور دوسرے مواعظ میں بھی ہے۔۔۔ بہت ہی محبت سے ذکر فرماتے تھے۔۔

مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفاع میں مودودی کی خلافت و ملوکیت کتاب کے رد میں ۔۔حضرت والا نے جب یہ کتاب دیکھی تو اتنا خوش ہوئے کہ اُس زمانے میں آج سے ۵۰ برس پہلے تقریباً ۱۰۰ روپے اُس زمانے کے حضرت مفتی صاحب کو ہدیہ بھجوائے تھے۔۔

حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب کو شیخ الاسلام کا لقب بھی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے دیا تھا اور اُن سے فرماتے تھے کہ آپ ہمارےملک  پاکستان کے علی میاں ہیں!!

فرمایا آج تو کچھ اور ہی بات ہوگئی۔۔۔ سب حاضرین نے باآوازِ بلند کہا کہ بہت ہی عجیب باتیں ہوئیں اور نفع ِ عظیم محسوس ہورہا ہے۔

اورکچھ بہت ہی اہم نصائح ارشاد فرمائیں۔۔کہ اللہ والے ہر دم اپنے نفس کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں۔۔۔پھر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی فنائیت کا عجیب قصہ ارشاد فرمایا۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نےاپنا سب سے پہلا مدرسہ بنانے کے لیے تقریباً ۴ مہینے  تک نفس کا جائزہ لیا کہ کیا میں نے مدرسہ اللہ کے لیے کھول رہا ہوں یا اپنی جاہ و شہرت کے لیے ، جب اطمینان ہوگیا جب قائم فرمایا۔۔

پھر کچھ وقت کے لیے جناب ممتاز صاحب کو  کتاب آفتاب ِ نسبت مع اللہ ۔۔ سے ملفوظات پڑھنے  کا حکم فرمایا ۔ یہ کتاب حضرت والا  مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے  جنوبی افریقہ کے آٹھویں سفر کے ارشادات  کا عظیم الشان مجموعہ ہے ۔ جس کے مرتب مرشدی و مولائی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم ہیں  ۔ ۔ درمیان درمیان میں حضرت والا ملفوظات کی تشریح بھی فرماتے جاتے تھے ۔۔۔

یوں یہ یادگار مجلس جو تقریباً ۵۲ منٹ پر مشتمل تھی اختتام پذیر ہوئی۔۔ ۔۔

 

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries