مجلس۲۶جنوری۲۰۱۴ء اللہ کو ناراض نہ کرنا سب سے بڑی عبادت ہے!

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس::الحمدللہ شروع ہی سے حضرت والا مجلس میں رونق افروز تھے ۔۔۔ ۔ جناب ممتاز صاحب نے  کتاب آفتاب ِ نسبت مع اللہ سے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔ یہ کتاب حضرت والا  مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے  جنوبی افریقہ کے آٹھویں سفر کے ارشادات  کا عظیم الشان مجموعہ ہے ۔ جس کے مرتب مرشدی و مولائی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم ہیں  ۔۔ درمیان درمیان میں حضرت والا ملفوظات کی  تشریح بھی ارشاد فرماتے جاتے تھے:

اللہ تعالیٰ کا حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہونا نص ِ سے ثابت ہے ۔لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں : بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں لیکن فضلیت کیا ہے جو تم سے ممتاز کرتی ہے یُوْحٰی اِلَیَّ کہ مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔۔۔اور کسی ہر وحی نازل نہیں ہوتی اور یہی چیز ممتازکرتی ہے۔۔۔انسان وہ بھی ہیں لیکن وہ اس لیے فضیلت رکھتے ہیں۔ کہ ہر انسان سوائے پیغمبر کے وحی نازل نہیں ہوتی اِس لیے اُن کا مقام کچھ اور ہے۔۔

حضرت والا رحمہ اللہ کے دو جملے : یہ دو جملے میرے دل سے نکلے اور زبان نے اس کا ترجمہ کیا کہ گناہ سے بچنے میں جتنا عظیم اور شدید سے شدید غم آئے یہاں تک کہ ہارٹ فیل ہونے کا اندیشہ بھی ہوجائے تو ہارٹ فیل ہونا اور اللہ پر مرجانا قبول کرلو لیکن اللہ کو ناراض نہ کرنے کی عزت کو سر آنکھوں پر رکھ لو اور دوسرا جملہ یہ ہے کہ اللہ کو خوش کرنا جنت سے عظیم نعمت سمجھو۔ دلیل کیا ہے ؟ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ وَالْجَنَّۃَ  اے اللہ! میں تجھ سے تیری رضا کا سوال کرتا ہوں اور جنت کا۔ جب رضا مقدم ہے تومعلوم ہوا کہ جنت درجۂ ثانوی میں ہے۔ اگر اللہ کی رضا جنت سے زیادہ عظیم نعمت نہ ہوتی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جنت پر مقدم نہ فرماتے اورفرمایا وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ سَخَطِکَ وَالنَّارِاور اے اللہ میں تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں اور جہنم سے۔ دوزخ کی آگ درجۂ ثانوی میں ہے۔ دوزخ کی آگ سے بڑی آگ یہ ہے کہ آپ ہم سے ناراض ہوجائیں۔

فرمایا حضرت والا میر صاحب نے کہ ان دو جملوں میں پورا دین ہے ، ہے تو دو جملے لیکن پورا دین ہے اِس میں ایک یہ کہ اللہ کو ناراض نہ کرواور یعنی اللہ کو خوش کرنااور اللہ تعالیٰ نے جو عبادات ضروری فرمائی ہیں اُن کو کرنااور اُن کو خوش رکھنایہ جنت سے بھی زیادہ افضل ہے۔

دین کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ کی نافرمانی سے بچواور اللہ تعالی کی جو فرمان برداری ہےاُس کو کرتے رہوبس یہ کُل دین کا  خلاصہ ہےاور یہ جو فرمایایہ جو جملہ نکلاکہ اللہ کو ناراض نہ کرنے کی عزت کو سر آنکھوں پر رکھ لو چاہے جان نکلنے کا بھی اندیشہ ہو، مرجانے کا بھی اندیشہ ہو۔

پھر حضرات والا میر صاحب دامت برکاتہم نے شاعر جگر مرادآبادی کی شراب سے توبہ ، استقامت ِ دین کا واقعہ بیان فرمایا۔۔

اللہ کو ناراض نہ کرناسب سے بڑی عبادت ہے۔۔

پہلے اپنے آپ کو شیخ کے سامنےفنا کرتا ہے اپنے نفس کو مٹا دیتا ہے اور شیخ کے رنگ میں رنگ جاتا ہے ، اپنی جو خواہشات ہیں اُس کو شیخ کی مرضی کے مطابق بنا لیتا ہے، جس کو منع کردیا شیخ نےکہ بدنگاہی مت کرو، یہ نہ کرو وہ نہ کروتو جب اُس کو اِس پر کامل اتباع نصیب ہوگئی تو اُس کو فانی فی الشیخ کہتے ہیں یعنی شیخ کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔

تو جو فانی فی الشیخ ہوجاتا ہے پھر وہی فانی فی اللہ ہوجاتا ہے ۔ پہلے شیخ کی اطاعت کرتا ہےجب اُس میں رسوخ پیدا ہوگیاپھر وہ اللہ تعالیٰ کی ویسی اطاعت اور فرماں برداری خوبخود اُس کے اندر منتقل ہوجاتی ہے۔

حضرت والا رحمہ اللہ کا ملفوظ:جو مرید فانی فی الشیخ ہوتا ہے بعد میں وہ بھی فانی فی اﷲ ہوجاتا ہے شیخ کے مضامین اس کے دل میں ابلنے اور سینے سے نکلنے لگتے ہیں، شیخ کی باتیں قصداً یاد نہیں کرتا وہ خود بخود اس کے سرپر سوار ہوجاتی ہیں  ؏

بھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آرہے ہیں

اگر بھلا بھی دے کہ مجھے آج شیخ کی بات یاد نہ آئے میں اپنی تحقیقات پیش کروں تو شیخ ہی کی بات زبان پر چڑھ جائے گی، غلبہ اسی کا ہوتا ہے۔

اس مندرجہ بالا ملفوظ کی تشریح میں فرمایا:جس سے محبت ہوجاتی ہے پھر اُسی کی بات منہ سے نکلتی ہے۔اول تو کوئی شیخ جو عاشق ہے وہ یہ کوشش کرے گا بھی نہیں  لیکن بل فرض حضرت نے فرمایا کہ اگر وہ ایسا کرنا بھی چاہے تو نہیں کرسکے گا؏

نسبت اِسی کا نام ہے نسبت اِسی کا نام

اُن کی گلی سے آپ نکلنے نہ پائیے

اُن کی گلی میں وہ محصور رہتا ہےاور اُسی کی بات اُ س کے منہ سے آتی ہے ، اس کا حال پھر  یہ ہوتا ہےکہ جو حضرت تھانوی رحمہ اللہ جو شعر پڑھتے تھے ؏

ماَہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم

  الاَّ حدیث یار کہ تکرار می کنیم

جو کچھ ہم نے پڑھا لکھا تھا سب ہم نے بھلا دیا ، الا صرف اُن باتوں کے جو اپنے دوست کی ہیں مرشد کی ہیں وہی باتیں بس ہمیں یاد رہ گئیں الا حدیث یار  ۔۔۔ باقی سب بھو ل گیا۔

شیخ ہی کی بات اُس کے اوپر سوار رہتی ہے اُس کے آگے وہ نکل نہیں سکتا ہے، عشق کی وجہ سے وہ اُس میں رچ بس جاتی ہے۔

حضرت والا رحمہ اللہ کا ملفوظ: حدیث لَایَزَالُ عَبْدِیْ…الخ سے ایک عجیب استدلال

لَایَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ … الخ(صحیحُ البخاری،کتابُ الرِّقاق، باب التواضع، ج:۲، ص:۹۶۳)

جو عبادت کرتے کرتے اﷲ تعالیٰ کے کرم سے بلا استحقاق اﷲ کا پیارا اور ولی اﷲ ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میںاپنے اولیاء کی آنکھ بن جاتا ہوں وہ میری آنکھ سے دیکھتا ہے، میں اپنے اولیاء کی زبان بن جاتا ہوں وہ میری زبان سے بولتا ہے، میں اپنے اولیاء کے پیر بن جاتا ہوں وہ میرے پیر سے چلتا ہے اور میں اپنے اولیاء کا ہاتھ بن جاتا ہوں وہ میرے ہاتھ سے پکڑتا ہے تو جب کوئی ولی اﷲ مصافحہ کرتا ہے تو سمجھ لو کہ اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ ہے۔بتاؤ استدلال بالحدیث ہوگیا کہ نہیں۔

اس پر حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا: یہ حضرت والا  ؒکے علوم تھے  بالکل مدلل، جیسا حدیث ِ پاک میں ہے کہ میں اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ، اُس کا کان بن جاتا ہوں ، مطلب یہ کہ ایسا قرب نصیب ہوتا ہے کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ کے کانوں سے سن رہا ہے ، اوراللہ تعالیٰ کی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔یعنی وہ نوراُس کے اندرسما جاتا ہے ۔اوراُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں تو جب وہ مصافحہ کرتا ہے تو سمجھ لو اِس ہاتھ کے اندراللہ تعالیٰ کا ہاتھ چھپا ہوا ہے۔ید اللہ فوق ایدیھم ۔۔اتنا قرب نصیب ہوتا ہے اہل اللہ کی صحبت سے۔

ایسا علم ِ عظیم ہے کہ حضرت والا رحمہ اللہ بار بار دُہرا رہے ہیں،اِس کی اہمیت کومعلوم کرنے کے لئے ، حضرت والا کا قلب مبارک کتنا خوش ہوگیا اِس سے ، اگر یہ الہامی نہ ہوتا تو کبھی بھی خوشی نہیں ہوسکتی تھی، بار بار اُس کو دہرا رہے ہیں تاکہ ہمارے دلو ں میں اُس کی اہمیت بیٹھ جائے ۔۔اس کو معمولی چیز نہ سمجھیں ، یہ کوئی معمولی علم نہیں ہے ۔۔ اگر سوچے گا تو واصل باللہ ہوجائے گا۔کسی شیخ کی ایسی عظمت جس کے دل میں پیدا ہوجائے گی تو اللہ تک پہنچنے میں کوئی چیز مانع نہیں رہتی ۔۔

حضرت والا کے ارشاد کو بعض لوگو ں نے کہا کہ بار بار یہ بات دہرائے ہے، اس کو ایک ہی جملے میں لکھ دو، میں نے کہا ہرگز نہیں ! جتنی دفعہ فرمائی۔۔۔ اُتنی دفعہ لکھوں گا۔۔کیونکہ اُس میں اثر ہی کچھ دوسرا ہوتا ہے۔

میں نے جب کوئی لفظ تبدیل کیاکہ اِس کے بجائے یہ لے آؤں تو جب پڑھا تو ایسا معلوم ہوا کہ بے جان ہوگیاپھر حضرت والا کا لفظ لگایااِس سے اندازہ ہوا کہ یہ الہامی علوم تھے۔۔ حضرت تو فرماتے تھے کہ مجھے تو الفاظ بھی عطا ہوتے ہیں۔

اشعار میں بھی حضرت فرماتے تھے کہ اوزان کا خیال مت کرنا، کہو کہ صاحب اِس میں یہ وزن نہیں مل رہا ہے ، مجھے الفا ظ بھی عطا ہوتے ہیں تم وہی لکھ دیا کرو۔وزن ہو یا نہ ہو!۔۔۔

لیکن حضرت والا کے اشعار میں اوزان بھی عجیب وغریب ہوتے ہیں، اس لیے ادبی لحاظ سے بھی حضرت کا کلام جو ہے وہ عجیب و غریب ہے، بڑے بڑے شعرا ء جو ہیں وہ حیرت میں رہ جاتے ہیں۔۔ایسی نثربھی حضرت والا کی کہ اُس کے معانی ہی کچھ اور ہوتے ہیں ۔۔وہ الفاظ جو دوسرے استعمال کرتے ہیں وہی حضرت استعمال کرتے ہیں معانی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔۔الفاظ وہی ہوتے ہیں۔

بنگلہ دیش میں گفتگو کرتے ہوئے دریا کے کنارےبھوپال ایک جگہ ہے وہاں حضرت نے یہ شعر فرمایا تھا ، یونہی باتوں کے درمیان ، میں نے نوٹ کرلیا تھا      ؎

نہ وہ سوز ہے نہ وہ ساز ہے یہ عجب فریب مجاز ہے

سرے ناز حسن بھی خم ہوانہ وہ عشق وقف ِ نیا ر ہے

گیا حسن یوں بتِ ناز کا کہ نشاں بھی باقی نہیں رہا

پڑھو دوستو میرے عشق پہ کہ  جنازے کی یہ نماز ہے

کتنی بلاغت ہے اِس شعر میں ، الفاظ تو وہی ہیں تو مجاز استعمال کرتے ہیں، لیکن اِس کے اندر اُس کا سرقلم کردیا ہے ۔

اور یہ رباعی ہے:

آہ   سے   راز   چھپایا   نہ  گیا

منہ سے نکلی مرے مضطر ہوکر

یعنی اللہ کی محبت کی آ گ جو دل میں چھپی ہوئی تھی وہ زار چھپ نہ سکا ، آہ سے ظاہر ہوگیا!

آہ کو نسبت ہے کچھ عشاق سے

آہ    نکلی    اور    پہچانے   گئے

وہ راز چھپ نہ سکااور وہ آہ کی صورت میں ظاہر ہوگیا۔ اور پھر فرماتے ہیں

چشم ِ نم سے جو چھلک جاتےہیں

ہیں  فلک پر وہی  اختر  ہو  کر

جیسے ستاروں کا مقام ہے کہ وہ آسمان کی سجاوٹ ہیں اِسی طرح اللہ کی یاد میں وہ آنسو نکلتے ہیں  وہ یہ ستارے اِس پر رشک کرتے ہیں۔ وہ ایسے اختر ہیں ۔ اختر معنی ستارہ ۔ حضرت کا نام مبارک بھی اختر تھا۔  

ہیں  فلک پر وہی  اختر  ہو  کر

وہی آسمانوں پر چمک رہے ہیں بصورت ستارہ ، بلکہ یہ دنیاوی ستارے جو ہیں اُن پر رشک کرتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کی محبت میں نکلے ہوئے اللہ کے مقبول آنسو ہیں ۔۔ اللہ اِن سے پیار کرتا ہے ۔ اور یہ آسمان کے ستاروں کو اللہ کا پیار ایسا حاصل نہیں جوکہ اِس کو حاصل ہے یعنی وہ آنسو جو کسی اللہ والے کے آنکھوں سے چھلک جاتے ہیں ۔

اور حرم کے اندر یہ شعر ہوا تھا ۔ جب پہلا حضرت کا سفر ہوا تھا تو عین کعبہ مکرمہ کے سامنے یہ شعر حضرت نے فرمایا تھا کہ ہوا تھا  ؎

نہ گلوں سے مجھ کو مطلب نہ گلوں کے رنگ و بو   ، سے

کسی  اور  سمت  کو  ہے    میری    زندگی    کا    دھارا

یعنی اِ ن حسینوں اور پھولوں جیسی شکلوں سے اور اُ ن کے رنگ و بو سے اور اُن کی خوشبوؤں سے کوئی مطلب اور غرض نہیں ہے میں اُن کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوتا ۔۔ کیوں

کسی اور سمت کو ہے  میری زندگی کا دھارا

میری زندگی کا جو دریا بہہ رہاہے اُس کا رخ کسی اور سمت کو ہے وہ اِ ن حسینوں کی طرف نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رخ  ہےاِ س لیے مجھے اِن حسینوں کے گل و رنگ سے  مطلب نہیں ہے غرض نہیں ہے ۔اور

جو گرے ادھر زمین پر مرے اشک کے ستارے

یعنی آنکھوں سے مجاہدوں کی وجہ سے، حسینوں سے نظر بچانے کی وجہ سے ، دل پر غم اُٹھانے کی وجہ سے اللہ کی محبت میں جو آنسو زمین پر گر گئے  تو اُ ن کا  کیا ہے۔۔۔

جو گرے ادھر زمین پر مرے اشک کے ستارے

تو چمک اُٹھا  فلک  پر  میری  بندگی  کی   تارا

یعنی میری عبدیت و بندگی اور اللہ تعالیٰ کا پیارکا جو تارہ ہے یعنی میرے مقدر کا تارہ چمک گیا، مقدر چمک گیااللہ تعالیٰ کی محبت اوراُن کی یاد سے اوراُن کے راستے میں غم اُٹھانے سے ، جو آنسو گرتے ہیں اُس سے مقدر اور نصیب روشن ہوجاتا ہے ۔

یہ اشعار نہیں ہے یہ حضرت والا کا حال ہے ، حضرت والا کا مقام ہے ، شاعر دنیاوی جو ہیں وہ تو مبالغہ آرائی کرتےہیں ہوتے کچھ نہیں ہیں  جیسے ایک شاعر کہتا ہے   ؎

دوعالم پر ہوں میں چھایا ہوا

مستند  ہے  میرا   فرمایا   ہوا

اب وہ شراب پی رہے ہو ، عشق مجاز میں مبتلا ہواور دونوں عالم پر چھائے ہوئے ہواور اپنے آپ کو فرمارہے ہیں کہ فرمایا ہوا۔ ۔۔۔ کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔۔پھر ہنس کر فرمایا کہ یہ سب مبالغہ ہے یہ اُن کا حال نہیں ہے، شعر و شاعری کے الفاظ ہیں ، محض لفاظی ہے ۔ اور یہاں جوکچھ فرماتے ہیں الفاظ تو درجۂ ثانوی میں ہوتے ہیں ، الفاظ تو اپنا مطلب ادا کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔۔اصل اُن کا حال ہوتا ہے جو اُس میں آجاتا ہے۔جس سے اُن کے الفا ظ میں بھی نور آجاتا ہے ۔

ایک بزرگ نے لکھا ہے کہ اہل اللہ کے کلام میں جو اثر ہوتا ہے اور جو نور ہوتا ہے وہ اُن کے با طنی درد کی وجہ سے ہوتا ہے ۔۔ جو اللہ کی محبت کا درد اُ ن کے دل میں ہے اِس کی وجہ سے اُ ن کے کلام میں اثر اللہ تعالیٰ ڈال دیتےہیں۔

اور دنیاوی شاعروں کے کلام میں اثر تو ہوتا مگر وہ ایسا ہوگا جیسا اِس کان سے سنا اور اُس کان سے نکل گیا ، دیر پا نہیں ہوگا۔۔ کیونکہ وہ فانی ہے اور جب اُس کی حقیقت کھلے گی ۔ تو وہ سمجھے گے یہ تو کچھ بھی نہیں عجیب چیز ہے ۔جیسے کہ غالب نے کہا کہ

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے

آخر اِس درد کی دوا کیا ہے

ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

ہم سے پوچھو کہ مُدعا کیا ہے

حضرت نے فرمایا کہ اُس معشوق نے پوچھا اُ س سے کہ کچھ تو بتائیے کیا مُدعا ہے تو جب بہت پوچھا تو کہنے لگا  کہ میں کہہ نہیں سکتا مجھے بتاتے ہوئے شرم آرہی ہے ۔ پھر بہت ہنس کہ فرمایا : یہ حال ہے !۔۔ کہاں دنیاوی شاعروں کا کلام ۔۔۔۔اور ۔۔۔ کہاں اللہ والوں کا کلام !!

اور یہ جو دُعا ہے یا اللہ مجھے نیک بندوں سے ملا دیجئے الحاق کر دیجئےمیرا۔ فرمایا یہاں جو اللہ والوں سے جڑ جائے گا۔ کیونکہ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ فرمایا ہے۔۔ اس لیے وہ جنت میں اُن کے ساتھ جائے گا۔کیونکہ جَزَا ءً وِّفَاقًا  بدلہ جو ہے برابر کا دیا جاتا ہے ۔۔ یہاں کیونکہ وہ جڑے رہے اللہ والوں سے تواُس کا بدلہ یہ ہوگا کہ وہاں بھی وہ جڑے رہے گے۔

حضرت والا نے فرمایا تھا کہ صرف دو واسطوں سے میں مولانا  رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کا شاگر د ہوں۔ حضرت پھولپوری ؒ سے حضرت والا نے پڑھا اور حضرت پھولپوریؒ نے مولانا ماجد علی جونپوری اور مولانا ماجد علی نے مولانا گنگوہی  قطب العالم سے پڑھا تھا۔ تو صرف دو واسطوں سے حضرت کا مولانا گنگوہی رحمہ اللہ سےواسطہ ہے ۔ حضرت والا فرماتے تھے اتنا قریبی واسطہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے  اس دورمیں شاید ہی کسی کا ہو!

ایک واقعہ بیان فرمایا ایک جن صرف حضرت والا رحمہ اللہ کا نام سن کر بھاگ گیا تھا ۔۔۔پھر فرمایا جن ہوتے ہیں لیکن آج کل عاملین جب سے پیدا ہوئے اور اُن کے جانے شروع ہوئے اب کسی کو بتا دیتےہیں کہ تم پر جن ہے ، کسی کا بتاتے ہیں کہ تمہارے اوپر جادو ہے ۔۔۔کسی کو کہتے ہیں تم پر نظر لگ گئی ہے ۔ ہوتا مرض ہے، ڈپریشن کے مریض ہوتےہیں ، اُس کو یہ الجھائے رکھتے ہیں یہاں تک  کہ وہ اور زیادہ بیمار ہوجاتےہیں ۔ اس لیے عاملوں کے چکر میں نہ پڑو، حضرت والا سخت ناراض ہوتے تھے ، عاملوں کے چکر میں پڑنے سے !

یوں یہ پر نور مجلس جو تقریباً سوا گھنٹے پر مشمتل تھی اختتام کو پہنچی۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries