مجلس۲۹جنوری۲۰۱۴ء اللہ کی مرضی پر جینااورمرنا !

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:آ ج کی مجلس خاص تھی ۔شروع میں مولانا ابراہیم کشمیر ی صاحب نے مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کے اشعار(۔۔۔وہی لمحہ جو میرا ذاکر مولائے عالم ہے) بہت ہی عمدہ انداز میں  سنا ئے، درمیان درمیان میں حضر ت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم کی عاشقانہ تشریح جاری رہی ۔ تمام حاضرین مجلس مست ہوگئے، قلب و جگر مسرور ہوتے جاتے تھے ۔۔مگر تقریباً ۳۵ منٹ تک یہ سلسلہ رہا۔۔۔ اس کے بعدجناب ممتاز صاحب نے  کتاب آفتاب ِ نسبت مع اللہ سے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔ یہ کتاب حضرت والا  مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے  جنوبی افریقہ کے آٹھویں سفر کے ارشادات  کا عظیم الشان مجموعہ ہے ۔ جس کے مرتب مرشدی و مولائی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم ہیں  ۔۔ درمیان درمیان میں حضرت والا ملفوظات کی  تشریح بھی ارشاد فرماتے جاتے تھے  ۔۔۔یوں ۵۵ منٹ  پر مشتمل مجلس اختتام کو پہنچی۔۔

آج کی مجلس کی جھلکیاں:

مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے حضرت والا ررحمہ اللہ کے اشعار سنانے شروع کیے:

یہ مستی دردِ دل کی اشرف ِ مینائے عالم ہے

ہر اک جامِ محبت اشرفِ صحبائے عالم ہے

۲منٹ ۲۵ سیکنڈ: تشریح  میں ارشاد فرمایا:حضرت والا نے اس شعر کی خود تشریح جنوبی افریقہ میں فرمائی تھی یہ درد ِ دل یہ دردِ محبت جو ہمیں ملا ہے اور اس میں جو اللہ تعالیٰ کی محبت کی مستی ہے یہ تمام دنیا کی شرابوں سے زیادہ تیز ہے ۔ اس لیے کہ چاروں سلسلے حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے میں داخل ہیں ، حضرت کا سلسلہ چاروں سلسلوں سے منسلک ہے ۔ اور مینا کہتے ہیں جس میں شراب ہوتی ہے تو ایسا پاکیزہ شراب دنیا میں اور کہاں حاصل ہوگی۔ اور دوسرا مصرع کہ ہر اک جام ِ محبت اشرف ِ مینائے عالم ہے  ۔ کہ اس میں جو جام دیئے جارہے ہیں جو  اللہ تعالیٰ کی محبت کے جام تقسیم ہو رہے ہیں ۔

اور۔۔صحباکہتے ہیں شراب کو  ۔ تو اللہ کی محبت کی شراب جو دنیا میں تقسیم کی جارہی ہے سب سے اشرف اور سب سے زیادہ گراں قیمت اور سب سے زیادہ معزز اور سب سے زیادہ پاکیزہ یہی شراب ہے جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے ۔

بہت گلشن ہیں دنیا میں مگرسب ہیچ اور فانی ہیں

یہ گلشن دردِ دل کا افضل ِ گُل ہائے عالم ہے

۵منٹ ۱۴ سیکنڈ: تشریح  میں ارشاد فرمایا: دنیا میں بہت سے گلستان ہیں بہت سے چہرے ایسے ہیں پھولوں کی طرح حسین ہیں مگر سب ہیچ اور تغیر پذیر اور فانی ہیں ایک دن اُن پھولوں کی شکل خار بن جاتی ہے لیکن یہ گلشن دردِ دل کا افضل ِ گل ہائے عالم ہے ۔ کہ ساری دنیا کے حسن سے ساری دنیا کے حسینوں سے اور دنیا کے بہاروں سے یہ دردِ دل جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے یہ سب میں افضل ہے ۔

اور ایک معنی ٰ اِ س کے یہ بھی ہیں کہ جتنے بھی گلشن ہیں دنیا کے سب ہیچ اور فانی ہیں لیکن یہ گلشن جہاں اللہ تعالیٰ کی محبت زندہ ہوئی ( روتے ہوئے فرمایا) اللہ تعالیٰ کی محبت تقسیم ہوئی یہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے ، یہ گلشنِ اقبال ایسا ہے کہ ہمیشہ باقی رہے گا باقی سب فانی ہیں کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ کا ذکراور اللہ تعالیٰ کی محبت نشر ہوئی تو یہ ہمیشہ باقی رہنا ہے ۔ یہ اشعار مدینہ منورہ  میں رمضان المبارک میں ہوئے تھے۔

بہت تحفے ملے دنیامیں لیکن کیا کہوں اے دل

یہ تحفہ دردِ دل کا حاصل نعمائے عالم ہے

۸منٹ ۳۱ سیکنڈ: تشریح  میں ارشاد فرمایا: یعنی بہت سی خوشیوں کے تحفے اور تحائف ہزاروں دنیا میں ملے لیکن یہ دردِ دل کا تحفہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنی آرزؤں کو خون کرنے کا تحفہ ملا ، تو کیا کہوں حضرت فرماتے ہیں کہ یہ ساری خوشیوں کا سارے تحائف کا حاصل ہےاس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے ملے ہے اللہ تعالیٰ کی تلاش میں ملا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی آرزؤں کا خون کرنے سے ملا ہے ، اس لیے اس کی لذت کو ، اور اس کی عظمت کو کوئی خوشی نہیں پا سکتی، کوئی تحفہ نہیں پا سکتا ۔

جیسے دیکھو اُسی کے سر میں  ہےسودا کسی شے کا

مگر سودائے جاناں اکبرِ سودائے عالم ہے

۸منٹ ۳۱ سیکنڈ: تشریح  میں ارشاد فرمایا: یعنی ہر شخص کے سر میں مختلف چیزوں کے سودے  ہیں ، یعنی دیوانگی اور اُن کے ساتھ لگن ہے ، کسی کے سر میں حسینوں کا سودا ہے  کہ کوئی حسین مل جائے میں اُس سے فائدہ اُٹھا لوں ، کسی کے دل میں کاروبار کا سودا ہے ، کسی کےدل میں تجارت کا سودا ہے ، کسی کے دل میں الیکشن میں وزیر اعظم بننے کا سودا ہے تو مختلف سودے ہیں ، لیکن حضرت فرماتے ہیں مگر سودائے جاناں ، اللہ تعالیٰ کی محبت اور دیوانگی کا جو سوداہےاس سے بڑھ کر کوئی سودا نہیں ہے ، سب سے افضل سودا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو انسان   حاصل کر لے تو ساری دنیا کے سودے اور ساری دنیا کے سلطنتیں ، سلطنت ِ ہفت اقلیم اور خزائن السمواتِ والارض سب اُس  کی نگاہوں سے گر جائیں گے، اسی لئے اہل اللہ بکتے نہیں ہیں ۔ حضرت والا ہی کا شعر ہے  ؎

خُدا کے ذکر سے وہ کیف ہے  ہرقلبِ عارف میں

کہ یہ بکتے نہیں دنیا کے فانی جام و مینا سے

 تو وہ کیف ایسا ہے وہ مستی ایسی ہے کہ کسی چیز سے وہ بک نہیں سکتے کیونکہ وہ ایسی قیمتی ہے کہ جس کے پاس ہوتی ہے وہی سمجھتا ہے ، حضرت کے پاس تھی اسی لئے بیان فرما رہے ہیں ، وہی سمجھتا ہے کہ اِس کے سامنے کوئی چیز نہیں ہے  ، اس کی آسان سی مثال یہ ہے کہ جو بریانی کھا رہا ہے ،قورمہ پلاؤ کھا رہا ہے کباب و سیخ بڑی بڑی نعمتیں کھا رہا ہے اُس کو آپ اگر دال پیش کریں کہ تم یہ دال لے لو اور مجھے یہ سب چیزیں دے دوتو وہ قبول کرے گا؟ ۔۔۔ تو یہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا سودا ہے کہ یہ تمام سَودوں سے افضل ہے   ؎

کوئی تجھ سے کچھ کوئی کچھ مانگتاہے

الٰہی میں تجھ سے طلب گار تیرا

اللہ تعالیٰ سے کوئی کچھ مانگ رہا ہے حضرت حاجی امداد اللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں کہ  اے اللہ میں آپ سے آپ کو مانگتا ہوں ، آپ مل گئے تو سب کچھ مل گیا جیسے حضر ت نے سنایا تھا مثنوی کا واقعہ ہے کہ محمود   عزنوی تھے اُن کا غلام عاشق تھا بہت ہی زیادہ محبت کرنے والابہت وفادار۔بادشاہ نےایک دن کہا کہ یہ سب چیزیں رکھیں ہیں ، کہیں دولت رکھ دی کہیں وزارت کی کرسیاں رکھ دیں ، اور کہنے لگا کہ آج جو جس چیز پر ہاتھ رکھ دے گا وہ اُس کی ہو جائے گی اگر سونے پر ہاتھ رکھ دے گا تو وہ اُس کا ہو جائے اور کوئی اگر وزارت کی کرسی پر ہاتھ رکھ دے گا اور کوئی کاروبار تجارت چاہے گا وہ دے دوں گاتو بہت سے وزراء نے سلطنت کی کرسی پر ، وزارت کی کرسی پر ، کسی نے گورنری کی کرسی پر ، کسی نے مال و دولت کی کرسی پر ہاتھ رکھ دیا ، لیکن ایاز آیا اوراُس نے شاہ کے پیچھے آکر اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا تو بادشاہ نے کہا کہ تجھے مجھ سے کیا ملے گا اِن لوگوں نے تو بڑی بڑی چیزیں لے لیں اور تو میرے کندھے پر ہاتھ رکھ رہا ہے تو وہ کہنے لگا حضرت آپ مجھے مل گئے تو یہ جتنے بھی کرسی والے ہیں وزارت والے ہیں ، تجارت والے ہیں  یہ سب میرے بوٹوں پر میرے جوتوں پر پالش کریں گے کہ بادشاہ جس کے ساتھ ہو تو اُسے کیا ضرورت ہے  کہ وہ کسی اور چیز کو چاہے!

 تو اِسی طرح جو اللہ والے جو ہیں خاص بندے ، خاصانِ خدا جو ہیں بس وہ صرف اللہ کو چاہتے ہیں کہ اگر اللہ مل گیا تو سب کچھ مل گیا اور اللہ نہ ملا تو کچھ نہیں ۔

خوشی کی اُن کی مرنا اور جینا ہی محبت ہے

نہ کچھ پروائے بدنامی نہ کچھ پروائے عالم ہے

۱۸منٹ ۳۰ سیکنڈ: تشریح  میں ارشاد فرمایا: یعنی محبت کس چیز کا نام ہے محبت نام ہے محبوب کی مرضی پر زندہ رہے اور محبوب کی مرضی پر مر جائے ، تو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر مر جانا کیا ہے ؟ جس وقت جو خواہش بری پیدا ہواور گناہ کا تقاضا پیدا ہو اُس کو کچل دے گویا کہ اِس نے اللہ کے راستے میں جان دے دی اور جہاں اللہ کا حکم ہواکہ یہ عمل کرلوتو اُس کو یہ خوشی خوشی بجا لایا یہ اللہ کے رستے میں جینا ہے ، محبت اِسی کا نام ہے کہ محبوب کی مرضی پر جیئے اورمرے ، اور ؎

خوشی کی اُن کی مرنا اور جینا ہی محبت ہے

نہ کچھ پروائے بدنامی نہ کچھ پروائے عالم ہے

کہ اِ س راستے میں پھر لوگ کہیں کہ صاحب بڑے مُلا بن گئے ،  نہ ہماری محفلوں میں آتے ہیں ، نہ گانا باجے میں آتے ہیں اور جہاں فوٹو گرافی ہوتی ہے ایسی تقریب میں نہیں جاتے تو طعنے ملیں گے ، حضرت فرماتے ہیں کہ ہمیں کچھ سارے جہاں کی پروا نہیں ہے نہ اپنی بدنامی کی پروا ہے کیونکہ محبوب کو راضی کرنا اصل محبت یہی ہے ورنہ محبت نہیں ہے ۔ اگر مخلو ق کی مرضی کا طابع ہوجاتا ہے تو مخلوق کی محبت ہوئی اللہ کی محبت تو نہ ہوئی ۔

اور حدیث پاک میں ہے  کہ جس نے اللہ کے لئے اللہ کے احکام کو سامنے رکھااُس پر عمل کیااور مخلوق کی پروا نہیں کہ مخلو ق کیا کہہ رہی ہے تو حضور فرماتے ہیں صلی اللہ علیہ وسلم کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے کافی ہوجاتے ہیں اور جس نے مخلوق کو آگے رکھااور اللہ تعالیٰ کے حکم کو پسِ پشت ڈال دیا تو اُس کو اللہ تعالیٰ مخلوق کے ہاتھ میں کٹ پتلی بنادیتے ہیں۔ اس لیے بس اگر دنیا میں بھی عزت سے رہنا ہے ، عظمت ِ دین عزت ِ نفس کے ساتھ رہنا ہے تب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر مریں اور مرضی پر جائیں ، مخلوق کی پروا نہ کریں مخلوق کیا کہہ رہی ہے ، مخلوق تو ایسی عاجز ہے کہ اُس کے خود درد ہوجائے تو وہ اپنے کو بھی شفا نہیں دے سکتی ، قبر میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتی ، لاکھ چاہے کہ  یہ نہ مرے اور میں اِس کے ساتھ قبر میں لیٹ جاؤں ، ایسا نہیں ہوا اور نہ ہی ہوا کرتا کہ اِدھر محبوب مرا اور اُدھرعاشق صاحب بھی مر گئے  اُس کے ساتھ دفن ہوگئے، کوئی ہوا بڑے بڑے دعوے کرنے والے ، بس یہی ہے اللہ تعالیٰ اپنی مرضی پر مرنا اور جینا نصیب فرمائے

ہے رُوحِ بندگی بس اُن کی مرضی پر فداہونا

یہی مقصودِ ہستی ہے یہی منشائے عالم ہے

۲۳منٹ ۱۸ سیکنڈ: تشریح  میں ارشاد فرمایا: سب اللہ کے بندے اور غلام ہیں ، غلامی کی روح اور اُس کی جان جو ہے وہ یہی ہے کہ اللہ کی مرضی پر فدا ہوجائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا فألهمها فجورها وتقواها، دونوں چیزیں رکھ دیں ، کہ ہم نے انسا ن میں تقویٰ بھی رکھ دیا اور نافرمانی کا مادہ بھی رکھ دیا ہے اورحکم دے دیا کہ نافرمانی سے بچواور تقویٰ اختیار کرواُس میں جو تکلیف ہوگی وہی ہے اللہ تعالیٰ پر فد اہونا ۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر چلنے میں جو غم آئے گاتو غلامی کی روح ہماری بندگی کی روح یہ ہے کہ ہم اُس تکلیف کو برداشت کرلیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے کا غم اُٹھا لیں یہی مقصود ہے دنیا میں پیدا کرنے کاہم کو ورنہ فرشتے تو عبادت کے لئے کافی تھے کوئی سبحان اللہ کہہ رہا ہے کوئی اللہ اللہ کررہا ہے کوئی رکوع میں ہے مستقل کوئی سجدے میں ہے اُن کا کام تو صرف عبادت ہے تو یہ عبادت تو فرشتے بھی کررہے ہیں لیکن یہ عباد ت جو ہے اُن پر فدا ہونا ۔ کیونکہ فرشتوں کے اندر تو خواہشات کی نہیں ہیں  ، بقول حضرت والا کے حضرت جبرائیل علیہ السلام کی گود میں کوئی حسین ترین لڑکی بیٹھا دی جائے تو وہ کہیں گے کہ پتہ نہیں مٹی کا ڈھیلا ہے کیا چیز ہے ، مطلب یہ کہ وہ تو پاک صاف مخلوق ہے اُ ن کے اندر کوئی برائی ہے نہیں اور یہاں برائیاں رکھ دیں ہیں ، برائی کے مادے رکھ دئیے ہیں اور جب وہ مادے پیدا ہوں تو پھر اُن کو دبانے کا حکم دے دیا ہے وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ۝ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویٰ۝جو اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب دینے سے ڈرا اوروَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ اور اپنے نفس کو بری خواہش سے روکا فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْویاُس کا ہی ٹھکانہ جنت ہے۔

تو مقصودِ ہستی اور منشائے عالم یعنی عالم کو پیداکرنے کا منشاء ، زندگی پیدا کرنے کا منشاء اور انسان کو دنیا میں بھیج کراُس کو زندگی دینا ، ہاتھ پاؤں دے کر اُس کو یہاں بھیجناتاکہ وہ اِ ن اعضاء سے اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی کرے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بھی بچے ۔ یہی مقصود ہے !  اگر یہ مقصود نہ ہوتا تو پھر آزاد چھوڑ دیتے جو چاہو وہ کرولیکن فرمارہے ہیںوَنَہَی النَّفْسَ عَنِ الْہَویٰ۝ کہ جس نےاپنی نفس کی خواہشات کو روکا ! بری خواہشات ضرور پیدا ہوں گی یہ ناممکن ہے کہ کسی کو خواہش پیدا نہ ہو کیونکہ جو مادۂ فجور جو ہے وہ ہمارے اندر موجود ہے تو اُس روکا جو ہے یہ زندگی بھر کی تراش خراش ہے یہ نہیں کہ کوئی کامل ہوگیا تو نفس سے بے فکر ہوگیا ۔؎

اندر این ره می تراش و می خراش

تادم  آخر  دمی فارغ   مباش

مولانا رومی ؒفرماتے ہیں کہ اِ س راستے میں تراش خراش میں لگے رہو اپنے نفس کی نگرانی کرتے رہو  تادمِ اخر ، آخری دم تک اِس سے فارغ مت ہو۔ایک بزرگ کا انتقال ہورہا تھا جب اُس سے کلمہ پڑھنے کو کہا جاتا تھا تو وہ کہتے تھے ابھی نہیں !ابھی نہیں ! غشی تھی نزع کی کیفیت تھی ، پھر کچھ ہوش میں آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیا فرمارہے تھے ہم جب کلمے کے لئے کہہ رہے تھے تو آپ یہ فرمارہے تھے ابھی ابھی تو انہوں نے فرمایا کہ شیطان مجھ سے کہہ رہا تھا تو تو کامیاب ہوگیا اور تو پالہ مار گیا اور مجھ سے بچ گیا تو میں کہہ رہا تھا ابھی نہیں ! ابھی نہیں ! ابھی سانس باقی ہے ، یہ آخری سانس بھی اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی محبت میں نکل جائے اور میں کوئی کفراور شرک نہ کروں تب میں کامیاب ہوں گا تو تادم آخر دمی فارغ مباش۔ اخیر دم تک  چاہے کوئی شیخ ہو چاہے کوئی بھی ہو مرید ہو ، چاہے کوئی بھی ہومسلمان ہو اخیر دم تک اپنے نفس کی نگرانی کرنا وہ ایسا ہی ہے جیسے ہم لوگ اپنے مال کی نگرانی ڈاکوؤں سے کرتے ہیں جتنی حفاظت اُس کی کرتے ہیں کم از کم اتنی حفاظت تو کریں ! اخیر دم تک اِسی میں لگے رہوکہ نفس کے راستے سے کوئی غیر نہ آجائے  ؎

نہ کوئی غیر آجائے نہ کوئی راہ پاجائے

حریم ِ دل کا احمداپنے ہر دم پاسبان رہنا

ہر وقت  پاسبانی کرنی ہے ہر وقت اُس کی چوکیداری میں لگا رہنا ہے کہ کوئی غیر تو داخل نہیں ہورہا اِ س حریم ِ دل میں ، دل کے محل میں کوئی غیر یعنی نفس و شیطان کی طرف سےکوئی خواہش بری اور نفس و شیطان ہمارے دل میں داخل ہوکر اُس کو اللہ سے دور کرنا چاہتے ہیں تو اِس کی نگرانی میں ہمیشہ لگا رہنا ہے کہ دل کے دل میں صرف اللہ ہو اور کوئی نہ ہو!! اللہ ہم سب کو یہ نصیب فرمائے!

أنا عند المنكسرة قلوبهمفرمایا میں ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتا ہوں اور دل کیسے ٹوٹتا ہے حرام آرزؤں کو توڑنے سے دل ٹوٹتا ہے حضرت فرماتے تھے کہ ظرف کے ٹوٹنے کو مظروف کا ٹوٹنا اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا ہے کہ اگرچہ ٹوٹا تو ظرف ہے جو خواہش تھی لیکن مظروف جو دل ہے اللہ نے اِ س کو قبول فرمالیاکہ اِس کا ٹوٹنا گویا تمہارے دل کا ٹوٹنا ہے !! بس اللہ تعالیٰ قبول فرمائے!

ہماری خا ک اُس لمحے ہے رشک ِ فلک اختر

وہی لمحہ جو  میرا  ذاکرِ مولائے عالم   ہے

۳۲منٹ ۱۴ سیکنڈ: تشریح  میں ارشاد فرمایا: ہمارے جسم خاک اور مٹی سے بنا ہوا ہے آسمان جو ہے وہ رشک کرتا ہے کس وقت رشک کرتا ہے جب وہ لمحہ یعنی وہ وقت جو اللہ کی یاد کاذاکر ہے اللہ کو یاد کرنے والا ہے اور یاد کی دو قسمیں ہیں ایک کو زبان سے بدنی عبادت ہے اور ایک عباد ت جو ہے وہ قلبی ہے ۔

ایک عباد ت یہ ہے کہ نماز پڑھ لی روزہ رکھ لیا اور دوسری عبادت منفی ہے ۔ ایک مثبت ایک منفی حضرت فرماتے تھے کہ مثبت عبادت ،ذکر تو یہ ہے کہ تلاوت ، نماز ، روزہ اور منفی عبادت ،ذکر یہ ہے کہ اپنی بری خواہشات کا گلہ کاٹ دے بری خواہشات کو دبا دے  اُس کا خون بہا دے دل کا خون کر لے تو یہ منفی عبادت ہے اور یہ بھی ذکر ہے بلکہ ذکر سے بھی افضل ہے ۔ تو یہ دونوں عبادتیں ہیں مثبت اور منفی ۔ جس وقت بندہ یہ کرتا ہے چاہیے مثبت عبادت کرے چاہے منفی عبادت کرے تو یہ اُس وقت اِس خاک پر ، ہمارے جسم کی خاک پر آسمان بھی رشک کرتا ہے ۔ کیونکہ آسمان تو مٹ جائے گا، فنا ہوجائے گالیکن یہ خاک جو ہے جو اللہ کو یاد کررہی ہے یہ کبھی فنا نہیں ہوگی، اِس کو ایک دوسری جاودانی زندگی، جاودانی جسم ، غیر فانی جسم عطا ہوگا۔ مولانا یعقوب صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے جنت کیا ہوگی ایک چھوٹی سی خدائی ہوگی یعنی جو چاہامل گیا ، جو چاہامل گیا ۔ یہ حضرت گنگوہی ؒ کے زمانے کے تھے بہت بڑے اللہ والے تھے ، حضرت تھانوی ؒ کے استاد تھے ۔

یہاں  ان عارفانہ اشعار کی عاشقانہ والہانہ تشریح کا سلسلہ ختم ہوا ، حاضرین نے عرض کیا کہ ان تشریحات سے قلب و جان مسرور ہوگئے اور بہت نفع محسوس ہوا !!۔۔ اس پر حضرت والا نے انتہائی فنائیت سے فرمایا کہ اللہ پاک قبول فرمالے!

اس کے جناب ممتاز صاحب نے  کتاب آفتاب ِ نسبت مع اللہ سے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔ یہ کتاب حضرت والا  مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے  جنوبی افریقہ کے آٹھویں سفر کے ارشادات  کا عظیم الشان مجموعہ ہے۔ان ملفوظات کی تشریح ساتھ ساتھ حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم فرماتے جاتے تھے

یوں یہ پرنور یادگار مجلس جو تقریباً ۵۵ منٹ پر مشتمل تھی اختتا م کو پہنچی!

آج کی مجلس کا دورانیہ تقریبا۵۵ منٹ رہا اور یوں یہ مجلس جو رشکِ ملائکہ تھی اختتام کو پہنچی ۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries