مجلس۱۶ فروری۲۰۱۴ء اللہ تعالیٰ کی شانِ مغفرت

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس: الحمدللہ شروع ہی سے حضرت والا مجلس میں رونق افروز تھے ۔ جناب عُزیر صاحب نے مرشدی و مولائی محبی و محبوبی صدیق زمانہ قلندرِ وقت حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم  کے اشعار جو حضرت نے حضرت والا رحمہ اللہ علیہ کی شان میں کہے ہیں ؛بہت ہی عمدہ انداز میں  سنا ئے، درمیان درمیان میں حضر ت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم کی عاشقانہ تشریح فرمائی۔اس کے بعدجناب ممتاز صاحب نے  کتاب آفتاب ِ نسبت مع اللہ سے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔ یہ کتاب حضرت والا  مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے  جنوبی افریقہ کے آٹھویں سفر کے ارشادات  کا عظیم الشان مجموعہ ہے ۔ جس کے مرتب مرشدی و مولائی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم ہیں  ۔۔ درمیان درمیان میں حضرت والا ملفوظات کی  تشریح بھی ارشاد فرماتے جاتے تھے۔یوں ۵۰ منٹ پر مشتمل مجلس اختتام پذیر ہوئی۔

اشعار کے شروع میں حضر ت والا نے فرمایا کہ : یہ اشعار حضرت والا کی محبت میں ہیں ، اس آخری دور کے ہیں، حضرت والا کے وفات سے کچھ عرصے پہلے ہی کے ہیں :

مستِ نگاہِ  ناز  ہوں یاں شورِ ہاؤ ھو  نہیں

شیشہ و جام و خُم نہیں ساغر نہیں سبو نہیں

۱ منٹ ۴۰ سیکنڈ :تشریح میں فرمایا:یعنی شیخ کی نگاہ سے جو اللہ کی محبت کا نشہ حاصل ہوا ہے ۔ یہ ظاہری شراب تو ساغر اور شیشہ کی محتاج ہوتی ہے یہ اُس سے حاصل نہیں ہوا یہ ساقی کی نگاہِ ناز اور اُس کے فیض سے حاصل ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کا نشہ شیخ ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں کی شراب تو محتاجِ ساغر جام و سبو  جو یہ پیمانےہیں شراب کے ،اُس میں ملتی ہے ۔لیکن یہاں جو اللہ کے محبت کی شراب ہے وہ شیخ کی آنکھوں سے نصیب ہوتی ہے وہ محتاج نہیں کسی جام و صبو کی  ۔ مستِ نگاہ ِ ناز ہوں۔ایک اور شعر ہے ؎

مئے انگور  میں  یہ  جوش  کہاں

چشم ِ ساقی سے ہے مستی میری

یہ اللہ کی محبت کا نشہ جو ہے ، انگور کی شراب  کا نشہ تو ذرا سی کھٹائی سے اتر جاتا ہے ، لیکن اللہ کی محبت کا نشہ جو شیخ کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے وہ تلواروں سے بھی نہیں اُترتا، اللہ ہم سب کو نصیب فرمائے!

بے پئے ا یسا مست ہوں سارا جہاں ہے رقص میں

حسرتِ غم کا یہ نشہ  شرمندۂ  سبو  نہیں

۴منٹ ۴۶ سیکنڈ :تشریح میں فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستے میں غم اُٹھانے حسرتیں اُٹھانے سے جو نشہ اور محبت حاصل ہوتی ہے وہ شرمندۂ سبو نہیں ، کہ سبو اور جام و مینا ہوں تب اُس کو یہ نشہ آئے گا، بلکہ یہ نشہ جو اللہ کی محبت کا  یہ نگاہِ شیخ سے حاصل ہوتا ہے ، اور بات یہ ہے کہ یہ کسی ظاہری شراب کا محتاج نہیں ہے ۔ یہ حضرت والا کی شان ہے ہم نے تو نام لیا ہے کہ سارا جہان اُس کو ہر وقت رقص میں معلوم ہوتا ہے گویا کہ ساری دنیا جو ہے اُس میں خوشیاں ہی خوشیاں چاروں طرف ہیں اور یہ نشہ شرمندہ ٔ حسرت و غم نہیں ہے۔  اللہ کے راستے کاغم اور حسرت اُٹھانے کا، جس سے یہ نشہ حاصل ہوتا ہے وہ ظاہری شراب اور ظاہری جام و سبو کا اور شراب کا جو پیمانے ہوتے ہیں اُن کا محتاج نہیں ہے ، یہ دل سے عطا ہوتا ہے ۔ اِسی پر ایک شعر کہا تھا  ؎

خونِ  دل سے   کشید   ہوتی   ہے

مےکشو مے نہیں سستی  میری

بس یہ تو تعلیمات ہیں ، اللہ اِس کی توفیق دے!

دیکھے ہیں گو ہزار ہا شمس و قمر  جہان   میں

سارے جہان میں کوئی آپ سا خوبرو نہیں

 ۸منٹ ۲۳ سیکنڈ :تشریح میں فرمایا:بڑے بڑے آفتاب و مہتاب ولایت کے دیکھے لیکن دُنیا میں کوئی آپ جیسا نظر نہیں آیا، آپ کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکا ؎

دیکھے ہزار شمس و قمر  کائنات  میں

دنیا میں آپ جیسا کوئی دوسرا نہیں

یہ شان تھی حضرت والا کی ،

جمال ِ ظاہر و باطن وہ مجمع البحرین

مولانا منصور صاحب کا ہے ،جہاں دو  دریا  ملتے ہیں تو جمال ِ ظاہر و باطن، ظاہر بھی جما ل تھا ، باطنی جمال بھی تھا حضرت والا کا ، مجمع البحرین تھے ، دو دریاؤں کا سنگم  ، ظاہر کا بھی باطن کا بھی ، ظاہری حسن بھی تھا باطنی حُسن بھی تھا؎

کسی جہت سے نہ پائی کوئی کمی آقا

کسی بھی طرف سے آپ میں کوئی کمی نہیں پائی مجمع البحرین ہیں ، حُسن و جمال و ظاہر و باطن ہیں ۔ آہ!

حسن میں لاجواب تو  عشق  میں لاجواب میں

عشق کہاں جو میں نہیں حسن کہاں جو تو نہیں

 ۱۲منٹ ۳۰ سیکنڈ : تشریح میں فرمایا:حضرت والا تو لاجواب تھے ہی، ہمارا عشق تو بس ٹوٹا پھوٹا تھا ، لیکن حضرت یہ قبول فرمایابس اِسی کی وجہ سے یہ لفظ استعمال ہوگیاورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ شیخ کی محبت کا کچھ حق ہم سے ادا نہیں ہوابس اللہ تعالیٰ معاف فرمادے۔ حضرت والا کا حُسن و جمال، ولایت اُس کا تو کوئی  جواب تھا ہی نہیں ، ایسا تعلق مع اللہ ، اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت دُنیا میں دیکھنے میں نہیں آئی ، ہمہ وقت اللہ کے ذکر میں غرق تھے حضرت ، چاہے تقریر کر رہے ہوں چاہے خاموش ہوں ، چاہے سونے کے لئے لیٹ رہے ہوں ، چاہے کھانا کھا رہے ہوں ، چاہے باتیں کررہے ہوں ، چاہے خلوت میں ہوں چاہے جلوت میں ہوں ، ہر وقت ہمہ وقت باخدا تھے ؎

کہاں  کا  گناہ  معصیت  کیسی یارو تم  اندھے ہو  کیا  اس  حقیقت کو  جانو

نہیں تیس برسوں میں اک لمحے کو بھی سنی میں نے حضرت سے غفلت  کی  باتیں

۴۶سال شب و روز ساتھ اللہ نے نصیب فرمایا، اُس وقت ۳۰ سال تھے جب یہ شعر کہا ہے۔ شب و روز کا ساتھ تھا تو گناہ تو دور کی بات نعوذ باللہ وہ تو حضرت والا کے قریب پھٹکا بھی نہیں لیکن کبھی حضرت کو اللہ سے ایک لمحے کے لئے غافل بھی نہیں دیکھا، ہمہ وقت اللہ کی یاد میں غرق ، دنیا میں کیا ہورہا ہے کیانہیں ہورہا ، آٹے دال کا کیا بھاؤ ہے حضرت والا کا کوئی غرض نہیں تھی ، کچھ پتہ ہی نہیں تھا ، اللہ ہی کی یاد میں مست تھے۔تائب صاحب نے کہا ؎ٍ          

اندھیرے کیا ہیں یہ تائب اُسے خبر ہی نہیں

وہ جس نے دیکھےہیں کُھلتے ہی آنکھ مل کے چراغ

جب آنکھیں کھلیں ، اہل اللہ کی گود میں حضرت والا کی پرورش ہوئی ۔ خود حضرت نے فرمایاکہ میں تو اہل اللہ کی گود میں جوان ہوا ہوں ۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب کی خدمت میں بالغ ہونے سے پہلے جاتے تھے فرمایا کہ میں وہاں بالغ ہوا ، تین سال تک حضرت کی خدمت میں رہا ، پھر ۱۶ حضرت پھولپوری رحمہ اللہ کی خدمت کی اور ایسی خدمت کی کہ مولانا ابرار الحق ہردوئی ؒ نے فرمایا کہ جو کتابوں میں ہم نے پڑھا تھا اُس کی کوئی مثال دیکھنے میں نہیں آئی تھی کہ پہلے زمانے میں کس طرح شیخ کی خدمت کرتے ہوں گے ، فرمایا کہ مولانا حکیم محمد اختر صاحب کو دیکھ کر پتہ چلا کہ اِس طرح خدمت کی جاتی ہے ۔ ایسی خدمت کی جیسےکتابوں میں لکھی ہوئی ہم نے دیکھی تھی اِ س کی کوئی مثال نظر نہیں آئی تھی ۔ ۱۶ سال اِس طرح خدمت کی ، میرا ایک مضمون آیا ہے فغان ِ اختر میں ۔ ‘‘تم نے بچھڑ کر زندہ ہیں آہ بہت شرمندہ ہیں !’’ اس میں کچھ مجاہدات حضرت کے لکھے ہیں۔ تو اِس طرح خدمت کی حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمہ اللہ کی کہ بس شب و روز اُن کے ساتھ تھے ۔ جیسے ۳۲ دانتوں میں زبان ہوتی ہے اِس طرح تھے وہاں ایسے حاسدین اور دشمن تھےکہ حضرت والا کو وہاں سے بھگانا چاہتے تھے، لیکن حضرت والا اخیر تک وہاں سے نہیں نکلے ، جب حضرت سے کہا گیا کہ آپ کے قتل کی سازش کی جارہی ہے، اب آپ بھاگ جائیے ۔۔تو سرور صاحب  سے حضرت نےفرمایا‘‘یہ نہیں ہوسکتا میں اپنے شیخ کو داغِ بے وفائی نہیں دے سکتا ، شیخ یہ سمجھیں گے کہ اختر بے وفا تھااور میں اپنے شیخ کو یہ داغِ بے وفائی نہیں دے سکتا۔ جان دے دوں گا، موت آنی ہے تو ایک دفعہ آئے گی’’۔ پھر دیکھا کہ وہی لوگ بھگادئیے گئے اور حضرت کا سارے عالم میں غلغلامچ گیا ۔

اور پھر حضرت پھولپوریؒ کے انتقال کے بعد پوری زندگی حضرت نے مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کی صحبت میں گزرا، اُن کے مشوروں سے، اپنا بالکل شیخ اُن کو بنا لیا تھا ، ہر چیز پوچھ کہ اُن کے ارشاد کے مطابق کرنا۔مستقل یہ صحبت اُٹھانااِ س کی بھی مثال کوئی نہیں ملتی ، حضرت کی جو عمر ہوئی اُس میں ۱۲ سال نکال دیجئے (باقی تمام عمر صحبت اُٹھائی) اور جب تک ماں کی گود میں تھے اُسی وقت سے اللہ کو یاد کرتے تھے حضرت والا نے فرمایا تھا کہ میں آسمان کو دیکھتا تھا تو مجھےپتہ لگتا تھا کہ یہ میرے اللہ نے بنایا ہے، زمین کو دیکھتا تھا کہ یہ اللہ نے بنائی مسجد کو دیکھتا تھا تو مسجد اچھی معلوم ہوتی تھی اورجو نیک بندے نظرآتے تھے ڈارھی ٹوپی والے وہ مجھے اچھے لگتے تھے اور ۱۲ سال کے بعد تو پھرمستقل اہل اللہ کی صحبت میں رہے تو  ؎

اندھیرے کیا ہیں یہ تائب اُسے خبر ہی نہیں

وہ جس نے دیکھےہیں کُھلتے ہی آنکھ مل کے چراغ

پھر فرمایا پڑھو!

کچھ دل کی دل میں رہ گئیں کچھ دل سے خود  نکل  گئیں

دل میں مرے سوا ترے اب کوئی آرزو نہیں

 ۲۱منٹ ۱۱ سیکنڈ : تشریح میں فرمایا:سالک جو اللہ کا راستہ طے کررہے ہیں تو اُن کے اندر کچھ تقاضے اور کچھ آرزؤیں ہوتی ہیں تو کچھ تو دل کی دل میں رہ جاتی ہیں ، مجاہدہ کرنے سے اور کچھ دل سے خودبخود نکل جاتی ہیں کہ یہ کسی کام کی نہیں ہیں پھر دل خالی ہوجاتا ہے پھر سوائے اللہ کی آرزو کہ اُس میں کچھ نہیں ہوتا ۔

اس سے عیاں   ہیں سر بسر عشق و جنوں  کی عظمتیں

دامنِ چاک   چاک   کو   کچھ   حاجتِ رفو    نہیں

 ۲۳منٹ ۳۲سیکنڈ : تشریح میں فرمایا:یعنی جو اللہ کے خاص عاشق بندے ہیں اُن اپنے ظاہر  کی فکر نہیں ہوتی ، دامن کیسا بھی چاک چاک ہوجائے وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے ظاہر سے بے پروا ہوجاتے ہیں اور وہ جو دامن چاک ہوا ہے اُس کو رفو بھی نہیں کرنا چاہتے، وہ کہتے ہیں اِسی حال میں رہیں گے جس حال میں اللہ نے رکھا ہے ۔ حضرت کو یہ شعر بہت پسند تھا ، اصل میں یہ یوں تھا، یہ شعر حضرت والا کی خدمت میں حاضری سے پہلے ہوا تھا  حضرت نے سنا تھا اور بہت پسند کیا پھر اپنے دستِ مبارک سے نوٹ بھی کیا تھا   کہ ؎

اس سے عیاں   ہیں سر بسر  عشق و جنوں  کی  عظمتیں

دامنِ چاک   چاک سے کہہ دو کہ یہ رفو نہ ہو

محبت میں گریباں پھاڑ لیتا ہے آدمی اللہ کی محبت میں بعض اوقات ایسی کیفیت اہل اللہ کی ہوتی ہے کہ اُن کو اپنے ظاہر کا کچھ خیال نہیں ہوتا۔ حضرت کہنے لگے  اس سے عشق و جنوں اللہ کی محبت کی عظمتیں ظاہر ہورہی ہیں اس کو نہ کہوکہ تم اِس کو سلوا لوکیونکہ یہی اللہ کی محبت کو عظمت کو ظاہر کررہی ہیں۔

حق نے دیا ہے شیخ وہ منزل ہے جس کا ہر قدم

میرِؔ شکستہ پا  کو  اب  منزل  کی  جستجو   نہیں

 ۲۷منٹ ۴۰سیکنڈ : تشریح میں فرمایا:یعنی جب آدمی راستہ طے کرتا ہے تو  چلنا پڑتا ہے پھر جاکے منزل آتی ہے ، اللہ تعالیٰ نے شیخ کو جس کا ہر قدم جو تھا وہ قربِ الٰہی کی  خود منزل تھا ، منزلِ قرب ِ الٰہی تک ہر قدم پہنچا دیتا تھا ۔ جب اُن کا ہر قدم منزل قرب تک پہنچتا تھا ، اس لیے منزل کی جستجو نہیں تھی وہ تو ویسے ہی حاصل ہورہی تھی ، شیخ کی صحبت سے ہر قدم پر وہ منزل حاصل ہورہی تھی ۔ حضرت فرماتے تھےکہ میرا ایک وعظ اللہ تک پہنچانے کے لئے کافی ہے ۔ ایک وعظ صرف!!اللہ تک پہنچانے کے لئے کافی ہے ۔

دامن چاک سے مراد یہ ہے کہ ظاہر اور باطن دونوں چاک چاک ہوتے ہیں ، اُن کا دل بھی چاک چاک ہوتا ہے اللہ کی محبت سے ، مجاہدات سے اور ظاہر کا بھی انہیں پروا نہیں ہوتی ، دونوں چاک ہیں انہیں ضرورت نہیں کہ اُ س کو رفو کرے کیونکہ اِس سے انہیں اللہ تعالیٰ کی  محبت کی عظمتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔

اس عاشقانہ تشریح کے  بعدجناب ممتاز صاحب نے  کتاب آفتاب ِ نسبت مع اللہ سے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔ یہ کتاب حضرت والا  مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے  جنوبی افریقہ کے آٹھویں سفر کے ارشادات  کا عظیم الشان مجموعہ ہے ۔ جس کے مرتب مرشدی و مولائی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم ہیں  ۔۔ درمیان درمیان میں حضرت والا ملفوظات کی  تشریح بھی ارشاد فرماتے جاتے تھے۔

آخر میں حضرت والا نے چند حضرات کو بیعت بھی فرمایا۔

یوں ۵۰ منٹ پر مشتمل مجلس اختتام پذیر ہوئی۔۔۔۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries