مجلس۱۷ فروری۲۰۱۴ء ۔۔ اللہ کے راستے کا غم

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

الحمدللہ شروع ہی سے حضرت والا مجلس میں رونق افروز تھے۔ مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے مرشدی و مولائی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  کے اشعار(زمین میری ہو جیسے آسماں میں ) بہت ہی عمدہ انداز میں  سنا ئے، درمیان درمیان میں حضر ت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم کی عاشقانہ تشریح فرمائی۔اس کے بعدحضرت فیروز میمن صاحب دامت برکاتہم نے حضرت والا کے حکم پر چند باتیں ارشاد فرمائیں  ۔یوں ۱ گھنٹے  پر مشتمل مجلس اختتام پذیر ہوئی۔

شروع میں مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار سنانے شروع کیے :

کہاں پھرتے ہو فکرِ عین و آں میں

کبھی  آؤ   تو   بزم   دوستاں   میں

۱منٹ ۲۹سیکنڈ : تشریح میں فرمایا:فکرِ عین وآں ، یعنی یہاں کی فکر وہاں کی فکر ، دنیا کے چکروں کی فکر میں کہاں پھررہے ہوکبھی اللہ والوں کی اللہ کے عاشقوں کی مجلس میں بھی آکر دیکھو کہ وہاں کیا مزہ ہے، ساری دنیا کے غموں سے وہ آزاد ہیں اُنہیں کوئی فکرِ عین و آں نہیں ہے ، بس ایک ہی فکر ہے اُنہیں ،اللہ کی محبت کا غم کا اُن کو جو ایسا لذیذ ہےجس کے بدلے میں وہ سلطنتِ ہفت اقلیم کو بھی کچھ نہیں سمجھتے ،اس لیے کبھی آؤ تو بزم ِ دوستاں میں ، بزمِ دوستاں سے مراد ہے اللہ کے عاشقوں کی مجلس دوستوں کی مجلس حضرت سے سنا ، مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اے پسرتو ادھر اُدھر گھومتا ہے

یک شبِ در کوئے بے خواباں گزر

ایک رات اُن بے خوابوں کی مجلس میں بھی ساتھ میں گزارتو پتہ چلے کہ کیا مزہ ہے زندگی کا ، حضرت والا فرماتے تھے کہ اِن دنیا داروں کو تو دُنیا کا بھی مزہ نہیں ملا۔ دنیا کا مزہ بھی اللہ والوں کو ہی ملتا ہے ۔

اگر ہے برق و باراں اس جہاں میں

کرو   فریاد    اپنے   آشیاں    میں

·    ۴منٹ ۲۴سیکنڈ : تشریح میں فرمایا:اہل اللہ کو اللہ کے عاشقوں کو ، حضر ت کامزاج ہی یہ تھااپنا دوست فرماتے تھے ، دوست صرف اللہ والے ہیں ، اللہ کے عاشق ہیں ، جو اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں اور باقی جو اپنے بھی ہیں؎

ہزار خیش کے بے گانہ از خدا با۔۔۔

فدائےیک۔۔۔

·    ہزار اپنا ہولیکن اللہ والا نہ ہوتو وہ بیگانہ ہے اور کوئی غیر ہے اور اللہ کا عارف ہے ، اللہ کا جاننے والا ہے ، اللہ سے محبت کرنے والا ہے وہ ہمارا ہے ، تو بزمِ دوستاں، حضرت کا مزاج ہی یہی تھا ، حضرت دُعا بھی یہی فرماتے تھے ؎

یارب تیرے عشاق سے ہو میری ملاقات

قائم ہیں جن کے فیض سے یہ ارض و سماوات

·       ایسی محبت کرنے والا، اللہ کے عاشق تو دیکھے بہت ، حضرت جیسا نہ کوئی اللہ کا عاشق دیکھا اور نہ کوئی اللہ کے بندوں سے ایسا محبت کرنے والادیکھاجیسے حضرت والا تھے ۔

مزہ پاتے ہو کیوں اس کے بیاں میں

کوئی   تو   بات   ہے   دردِ نہاں   میں

·       ۶منٹ ۵۵سیکنڈ : تشریح میں فرمایا: مزہ پاتے ہو کیوں اُس کے بیاں میں ۔ کوئی تو بات ہے دردِ نہاں میں ۔ دردِ نہاں کیا چیز ہے ، یہ دردِ وہی ہے اللہ تعالیٰ کے راستے کے مجاہدات، اللہ کے راستے کے غمِ تقویٰ، جس کو حضرت فرماتے تھے گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھانے سے جو درددل میں پیدا ہوتا ہے اُس کا نام دردِ نہاں ہے کسی کو ظاہر نہیں ہوتا ۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بہت سے ایسے بھی ہیں ، ایک تو ظاہری شہادت ہے اور ایک باطنی شہادت ہے کہ دل پر زخم لگ گیا نگاہ کے بچانے سے ، تو اندر خون بہہ گیا باہر کسی کو خبر نہیں تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے، یہ باطنی شہید ہیں ؎

کسی کے زندہ شہید ہیں ہم نہیں یہ حسرت کہ سر نہیں ہے

مجھے تو ہے اِس سے بڑھ کہ رونا کہ دل نہیں ہے جگر نہیں ہے

·       زندہ شہید ہوتے ہیں ، سر رکھتے ہیں ، حضرت سے سنے سب ، یہ اشعار بھی ، مضامین بھی ؎

اے بسازندہ شہید معتمد

·       مولانا رومی ؒ فرماتے ہیں کہ بہت سے لوگ زندہ ہیں لیکن وہ مستند شہید ہیں ، اگر چہ گردن لئے پھرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت میں اور اللہ تعالیٰ کے راستے کا غم اُٹھانے میں ، وہ بھی شہید ہیں ، اور جو حضرت والا کے حوالے سے میرا مضمون فغانِ اختر میں بھی شائع ہوا ہے اُس میں ،میں نے خالی مجاہدات ہی تھوڑے بہت لکھے ہیں حضرت والا کے، کہ جس طرح سے حضرت والا نے زندگی گزاری جیسے ۳۲ دانتوں میں زبان ہوتی ہے ایسے حاسدین چاروں طرف تھے، حضرت کو وہاں سے نکال دینا چاہتے تھے ، طرح طرح کی ایذائیں دیتے تھے حضرت والا فرماتے تھے اُسی سے میرا جو یہ دردِ دل ہے ، دونوں مجاہدات تھے ایک تو ظاہری مجاہدہ یہی تھا دشمنوں کا حاسدوں کا اور باطنی مجاہدے اللہ کے راستے کے ۔

·       حضرت نے فرمایا کہ میرا مزاج بچپن سے ہی عاشقانہ تھا ، جب میں جوان ہوا تو حضرت فرماتے تھے کہ خواہشات کا ایک سمندرتھا جو میرے دل میں پیدا ہوا اور میں نے سوچا کہ اگر میں کسی شیخ کا دامن نہیں پکڑا تو میں اِس میں بہہ جاؤں گا میں نے فوراًمولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کا دامن پکڑ لیا، لیکن سب سے بڑھ کر جو جملہ ہے وہ سن لیجئے!!! آج سے ۴۶ سال پہلے حضرت نے فرمایا تھا کہ مگر اِس عاشقانہ مزاج کے باوجود مجھ سے زندگی میں کبھی ایک باربھی لغرش نہیں ہوئی !!! یہ خاص چیز ہے !!! مولانا یونس پٹیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ تڑپ گئے کہ کاش حضرت والا کے یہ حالات اُمت کے سامنے آجائیں تو اُمت زیادہ استفادہ کرسکے گی ، لغرش کہتے ہیں ڈگمگا جانا، گناہ تو بڑے دور کی بات ہے ؎

کہاں  کا  گناہ  معصیت  کیسی یاروتم  اندھے ہو  کیا  اس  حقیقت کو   جانو

نہیں تیس برسوں میں اک لمحے کو   بھی سنی میں نے حضرت سے غفلت  کی  باتیں

·       اُس وقت ۳۰سال ہوئے تھے، ۱۶ سال پہلے کا شعر ہے ، ایک لمحے کو بھی میں باخدا کہتا ہوں !!! ایک لمحے کو بھی حضرت کو اللہ سے غافل نہیں دیکھا۔ چاہے حضرت والا بات کررہے ہوں ، چاہے ہنس رہے ہوں ، چاہے تقریر کررہے ہوں ، چاہے خلوت میں ہوں ، چاہے جلوت میں ہوں ، چاہے کھانا تناول فرما رہے ہوں ، ہمہ وقت یادِ الٰہی میں غرق، اللہ کی محبت میں غرق تھے ، کوئی لمحہ ایسا نہیں تھا جو کہ اللہ کی یاد سے خالی ہو، جب منہ سے بات نکلتی تھی اللہ کے لئے نکلتی تھی ، ایک عالم نے کہاایسا غرق یادِ الٰہی  چندہی اُمت میں ہوئے ہیں جیسے حضرت والا تھے، خال خال اولیاء اللہ!!!۔ ہم نے ۶۰۰ اولیاء اللہ کے حالات پڑھے ہیں صرف دو تین ایسے معلوم ہوتے ہیں اور حضر ت والا اُن سے بھی بڑھ کر معلوم ہوتے تھے ؎

مزہ پاتے ہو کیوں اس کے بیاں میں

کوئی   تو   بات   ہے   دردِ نہاں   میں

·       یہ دردِ نہاں کی وجہ سے مزہ پا رہے ہو، حضرت ہی شعر ہے ؎

میرے احباب ِمجلس سےکوئی پوچھے مزہ اِس کا

بشرحِ  دردِ دل اختر   کا  محو گفتگو  رہنا

·       جو احباب ہیں وہ تو جانتے ہی ہیں کہ دردِ دل کی شرح میں ہمارا محو گفتگواللہ کی یاد میں رہنااِ س سے پوچھو کہ کیا مزہ میرے احباب مجلس پاتے ہیں اُسی کو حضرت یہاں فرما رہے ہیں ۔

مزہ پایا جوصحراکی فغان میں

نہیں پایا مزہ وہ گلستاں میں

·       ۱۴منٹ ۵۹سیکنڈ : تشریح میں فرمایا: جنگل کی تنہائی میں اللہ کو یاد کرنا ، اللہ کی یاد میں آہ و فغاں کرنا یہ حضرت والا کا خاص ذوق تھا ، اور اہل اللہ کا یہی ذوق ہوتا ہے ، کہ تنہائی جنگل کی ہو، خلوت میں اُن کو زیادہ مزہ آتا ہے، جلوت میں تو وہ صبر کر کے بیٹھے ہیں ، دنیا کے عیش میں اُن کو وہ مزہ نہیں آتاتو تنہائی میں اللہ کو یاد کرنے میں ملتا ہے لیکن وہ نیابت ِ نبوت کا حق ادا کرنا ہے کیونکہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا وصبر نفسک مع الذین  یدعون ربھم ۔۔۔۔یریدوں وجھہ۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتے ہیں کہ اے نبی اگرچہ آپ کو ہمارے ساتھ خلوت میں ہمارے ساتھ مشغول ہونے میں مزہ آتا ہے ، اگر چہ آپ کا دل ہمارے یاد میں اور ہم سے تنہائی میں رہنا محبوب رکھتا ہےلیکن اگر آپ اپنے نفس پر صبر کر کے جبر کر کے ان صحابہ میں بیٹھئے !! جوغیر نہیں ہیں یہ بھی ہمارے عاشق ہیں ، ہماری رضا کا ارادہ کرتے ہیں تواگر آپ اُن میں نہیں بیٹھےگے تو یہ پھولِ محمدی میں کیسے بسے گے !!! حضر ت پھولپوریؒ فرماتے تھے کہ پھولِ محمدی میں یہ کیسے بسائے جائیں گے جو اِسی طرح حضرت والا کو؎

سمندر کا ساحل ، پہاڑوں کا دامن

مری آہ ِ دل  کہ  یہی  ہیں  مناظر

·       جہاں بھی حضرت جس ملک میں جاتے تھے وہاں جنگل کی تنہائی ، دریا کا کنارہ ، پہاڑوں کا دامن وہاں احباب کے ساتھ تشریف لےجاتے تھے ، وہاں ذکر فرماتے تھے اور پوچھتے بھی تھے کہ بتاؤ کہ اِس میں مزہ زیادہ ہے یا وہ ہمہ ہمی میں زیادہ مزہ ہے ، یہاں کیسا سکون ہے۔

·       ساؤتھ افریقہ میں جب تھک جاتے تھے تو فرمانے لگے کہ میں بہت تھک گیا ہوں کل ہم صبح کو تنہا کسی  جنگل میں چلے چلیں گے تھوڑی دیر کے لئے، حضرت فجر کی نماز پڑھ کہ بغیر دُعا مانگےنکل کر کار میں  بیٹھ گئے اور کہا کہ چلو ، مفتی حسین بھیات لے جارہے تھے ، راستہ میں لوگ آرہے تھے کہ دیکھا حضرت جارہے ہیں ، تو گاڑی اُس کے پیچھے لگا دی ، پھر دوسرے سے دیکھا اُس نے بھی گاڑی پیچھے لگا دی ، جب جا کر دیکھا تو ۵۰ گاڑیاں تھیں !!وہاں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت، یہ تو آپ لوگوں سے دیکھا ہی ہے ، جنگل ہو ، پہاڑ ہو، دریا کا کنارہ ہو ، ایسے ایسے علوم و مضامین ہوئے کہ دل کو تڑپا دینے والے مردہ دل کو زندہ کردینے والے حضرت والا بیان فرماتے تھے !! اللہ !! ہم سے جو ناقدری ہوئی اللہ اُس کو معاف فرما دے !! قیامت کے دن اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا کہ تم کو اتنابڑا شیخ دیا تھاتم نے کیا حق ادا کیاتو سوائے شرمندگی کے اور کچھ ہمارے پاس نہیں ہوگا ، بس اللہ فضل سے اپنے معاف فرما دے! حضرت پھولپوری بھی یہی فرماتے تھے۔۔

عطائے خالقِ دونوں جہاں ہے

اثر پاتے ہو جو میرے بیا ں میں

·       ۲۰منٹ ۴۸سیکنڈ : تشریح میں فرمایا: حضرت فرماتے ہیں جو کچھ بھی میں کہتا ہوں مجھے خالی مضامین ہی نہیں عطا ہوتے الفاظ بھی سربا مہر عطا ہوتے ہیں ، الفاظ کے سربمہر معانی ہوتے ہیں ، جیسے شراب ہوتی ہے سربمہرتو یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے ہر ایک کو نہیں ملتی ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں فدا ہونے سے ملتی ہے اور جو فدا نہیں ہوتا تو اُس کو عطا بھی نہیں ملتی ، اللہ تعالیٰ تو جذب ہر ایک کو فرمالیتے ہیں لیکن جو قربانی دے رہا ہے اللہ کے راستے میں اپنی آرزؤں کا خون کررہا ہے ، مخلوق کی ایذاؤں کو برداشت کررہا ہے صرف اللہ تعالیٰ کے لئےتو اُس کو عطا نہیں ہوگی تو پھر کس کو ہوگی!! اُس پر اللہ کا فضل نہیں ہوگا تو پھر کس پر ہوگا!!اِسی سےمزہ ملتا ہے ، مجاہدات شیخ کے ہوتے ہیں جس سےکہ لوگوں کے دلوں کی دنیا بدل جاتی ہے ۔

وہ ظاہر ہوگیا اُس کی زباں میں

 اثر  پنہاں  جو  زخم ِ نہاں  میں

·       ۲۲منٹ۵۵سیکنڈ : تشریح میں فرمایا: وہ زخم جو دل پر کھائے ہیں، اپنی  حرام آرزؤں کا خون کرکے، گناہوں سے بچنے کا غم اُٹھا کہ وہ چھپے ہوئے ہوتے ہیں ، پنہاں ہوتے ہیں ، پوشید ہ ہیں کسی کو اِس کا علم نہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ چاہتےہیں اُن کی زبان سے وہ ظاہر فرمادیتے ہیں تاکہ اُمت اُس کا نفع اُٹھا سکے، اُن کی زبان سے اُن کا درد ِدل ظاہرہوجاتا ہے ، اللہ تعالیٰ ظاہر کرا دیتے ہیں، اِسی لیے اُن کے بیان کے اندرہدایت ہوتی ہے، حضرت فرماتے تھے کہ میرا ایک وعظ اللہ تک پہنچادینے کے لئے کافی ہے ۔

·       بقیہ تفصیلات ٹائپ کی جارہی ہیں۔۔۔۔۔

·       اس کے بعدحضرت فیروز میمن صاحب دامت برکاتہم نے حضرت والا کے حکم پر چند باتیں ارشاد فرمائیں

·       یوں ۱ گھنٹے  پر مشتمل مجلس اختتام پذیر ہوئی۔

یوں ۵۰ منٹ پر مشتمل مجلس اختتام پذیر ہوئی۔۔۔۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries