اتوار مجلس۶۔ اپریل۲۰۱۴ء انتہائے ولایت غمِ تقویٰ سے ملتی ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی  اپنے کمرۂ مبارک سے باہر تشریف لائے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا، نشست پر تشریف فرما ہوئے اور جناب رمضان صاحب کو اشعار سنانے کو فرمایا حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار سنائے جس کی تشریح حضرت والا فرماتے رہے ۔ اس کے بعد جناب ثروت صاحب کو اشعار سنانے کو فرمایا اور تعریف بھی فرمائی کہ کل رات کی مجلس میں آپ کے اشعار پڑھنے سے تمام حاضرین بہت محظوظ ہوئے آج پھر حاضرینِ مجلس کو محظوظ فرمائیں۔  انہوں نے نہایت جذب اور درد سے اشعار سنانے شروع کیے۔ ۔ ۔ ۔اس کے بعد جناب ممتاز صاحب نے ملفوظات آفتاب نسبت مع اللہ سے سنانے شروع کیے ۔ ۔ درمیان درمیان میں حضرت والا تشریح بھی فرماتے جاتے تھے۔ آج کی مجلس تقریباً ۱ گھنٹہ پر مشتمل تھی۔ الحمد للہ!

ارشادت:

جس کو گناہ ہضم ہوجائے تو سمجھ لو وہ بہت خطرہ میں ہے ۔ ۔ ۔ کیونکہ پھر وہ اپنی اصلاح کی فکر نہیں کرتا۔

جو شخص اپنی حرام تقاضوں  کا خون کرنے سے ڈرتا ہے وہ لومڑی ہے، سارے جہاں سے بزدل شخص وہ ہے جو نفس کی خواہشات کو دبانے سے ڈرتا ہے۔ 

نفس کے امارہ کے معنی ہیں جو بہت زیادہ برائی کا حکم کرنے والا ۔ ۔  جو ایسے نفس کو قابو کرلے تو سمجھ لو کہ اُس نے ساری دنیا کو فتح کرلیا ۔ ۔ جس سے سب سے بڑے دشمن کو زیر لیا تو سمجھ لو اُس نے ساری دنیا کو زیر لیا۔ا

۔ ذکر کی دو قسمیں ہیں  ۔ ۔  ایک زبانی ۔ ۔ ۔  یہ مثبت ذکر ہے اور ایک ذکر ہے منفی یعنی حرام خواہشات اللہ کی نافرمانی کی باتیں اُن سے بچتا ہے یہ منفی ذکر ہے ۔ ۔ جو ذکر منفی اور ذکر مثبت کرتا ہے تو پھر وہ اللہ کو بھلانا بھی چاہے تو بھلا نہیں سکتا ۔۔۔۔ اُس کو اللہ کو بھولنا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پہاڑ اُس کے اوپر آگیا ۔ ۔  بس اللہ تعالیٰ یہ دونوں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ لوگ بس مثبت ذکر کو ہی ذکر سمجھتے ہیں مثبت ذکربھی بڑی نعمت ہے اِسی سے ذکر منفی کرنے کی توفیق ہوتی ہے!

ذکر کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا نوردل میں آئے گا تو  پھر کبھی گناہ ہوتا ہے تو اندھیرے کا احساس ہوجاتا ہے ۔ ۔ ذاکر کوگناہ کا احساس ہوجاتا ہے پھر وہ توبہ کرتا ہے۔ ۔ ۔ جو ذکر نہیں کرتا وہ ایسا ہی جیسے اندھا آدمی ہے! ۔ ۔ ذاکر گناہ اور غیر ذاکر گناہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے

حضرت والا کسی وقت بھی اللہ تعالیٰ کو نہیں بھولتے تھے!

بعض گناہوں کا تقاضا ایسے شدید ہوتا ہےکہ اس کو نہ کرنے سے کبھی ایسا غم گذرتا ہے کہ آسمان کا حجاب اٹھ جاتا ہے اور گویا اللہ تعالیٰ اُس کو زمین پر ہی نظر آنے لگتے ہیں  ۔ ۔

گناہوں سے بچنا سب سے بڑی عبادت ہے ۔ ۔

مصائب میں اللہ والوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے اور بڑھ جاتا ہے

آخری درجہ جو نسبت مع اللہ کا ہے وہ اِنہی غموں سے حاصل ہوجاتا ہے ۔ 

ہمارے بزرگوں نے اپنے تمام کمالات کو شیخ کی طرف منسوب کیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ بغیر شیخ کے یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا ہے ۔ ۔

اللہ والوں کو ہر چیز میں اللہ نظر آتا ہے، اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہیں تو کہ کہتے ہیں کہ یہ میرے اللہ ک بنائے ہوئے ہیں ، بیوی بچوں کو دیکھتے ہیں تو پہلے اُس کی نظر آسمان پر جاتی پھر زمین پر آتی ہے ۔ ۔  ہر وقت اُن کو اللہ کا دھیان رہتا ہے۔

یہ بزرگوں کی نگاہوں کا فیض ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مقام عطا فرمایا ہے۔

جس کوبزرگانِ دین کی صحبت سے نسبت مع اللہ یعنی اللہ سے خاص تعلق عطا ہوجائے تو پھر اُس کا فیض بے انتہا ہوجاتا ہے ۔  جیسے حضرت والا کا فیض بے کراں تھا کہ سارے عالم میں پھیل گیا ۔ ۔۔ لاکھوں کرڑوں انسانوں کو حضرت والا سے ہدایت ہوگئی!

یہاں سے تقریبا ۳۰ منٹ پر جناب ثروت صاحب نے اشعار سنانے شروع کیے

یہ عشقِ مجازی کی مذمت میں جتنےبھی اشعار ہیں یہ حضرت والا کا تجدیدی کارنامہ ہے جس کی مثال کسی بھی لڑیچر میں نہیں ملے گی  ۔ حضرت والا نے حسن مجازی کے پرخچکے اُڑا دئیے اور وہ بھی اُنہی کی شعری اصطلاحات میں

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries