مجلس۱۸۔ اپریل۲۰۱۴ء عظمتِ شیخ کی اہمیت

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس: آج کی مجلس مختصر تھی ۔ محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں رونق افروز ہوئے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا، نشست پر تشریف فرما ہوئے۔۔ اور جناب تائب صاحب حاضرِ خدمت تھے انہوں نے اپنے اشعار حضرت والا کی محبت میں سنائے، حضرت والا کی بہت تعریف فرمائی، اشعار کے اختتام پر حضرت والا نے ملفوظات معارف ربانی کتاب سے پڑھ کرسنانا شروع کئے ساتھ ساتھ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے اِن ملفوظات کی تشریح بھی فرماتے رہے ، آخرتک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً ۳۷ منٹ پر مشتمل تھی۔!۔

اہم ارشادات

شیخ کی برکت سے تعلق مع اللہ کی نعمت نصیب ہوئی کب کون ہے جو اُس کو ٹُھکرا سکتا ہے

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتے کہ ہم نے اُن کے لئے ایسی آنکھوں کی ٹھںڈک بنائی ہوئی ہے کہ جو کہ چھپی ہے وہ ظاہر ہوگی۔

جنت کی نعمتیں تھوڑے سے مجاہدے کے  ملتی ہے۔۔۔

گناہوں کی لذت کو چھوڑو تو غیر فانی لذتیں ملتی ہیں ۔ اس سے بڑھ کر کیا حماقت ہے کہ عارضی لذت کی حاظر غیر فانی لذت کو چھوڑ دے۔

حضرت والا کے سفرنامے جنوبی افریقہ معارف ربانی صفحہ نمبر ۲۰۶ سے ۲۱۴ تک درج ذیل ملفوظات حضرت والا سیدی و مرشدی دامت برکاتہم نے خود پڑھ کر حاضرینِ مجلس سے سنانے شروع کیے، ساتھ ساتھ کچھ ملفوظات کی تشریح بھی فرمائی:

بے اصولی پر تنبیہہ

اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے اور یہاں روزانہ یہی وقت ہورہا ہے۔ لوگ حضرت والا کے ساتھ مجالست کے شوق میں بیٹھے رہتے ہیں اور حضرت والا حسبِ عادت غایت شفقت و کرم سے ارشاد فرماتے رہتے ہیں حضرتِ اقدس کے کلام کی سحر انگیزی و اثر آفرینی سے احباب مجلس سے اٹھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ غرض مجلس ختم ہوئی، حضرت والا عشاء کے بیان کے بعد کھانا تناول فرمارہے تھے۔
دسترخوان پر دورانِ طعام احقر سے ایک سخت غلطی ہوگئی کہ احقر نے سرگوشی کرتے ہوئے مولانا داؤد کے کان میں کچھ کہا جو احقر کے قریب بیٹھے ہوئے تھے اور احقر کو بے اختیار ہنسی آگئی اور آہستہ آہستہ ہنسنے لگا۔

کھانے سے فارغ ہوکر احقر کی اصلاح کے لیے حضرت والا نے تنبیہہ فرمائی کہ تعجب ہے کہ اتنے پرانے ہوکر ایسی غلطی کرتے ہو کہ مبتدی بھی نہیں کرسکتا۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ شیخ کی مجلس میں اس طرح کانا پھوسی کرنا سخت بے ادبی ہے۔ کیا آپ نے ہم لوگوں کو کبھی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب کی مجلس میں اس طرح کانا پھوسی کرکے ہنستے ہوئے دیکھا ہے؟ بتائیے! نئے لوگ آپ کی اس حرکت سے کیا اثر لیں گے۔ بجائے اس کے کہ آپ دوسروں کو ادب سِکھاتے اپنے عمل سے دوسروں کو بے ادب بنارہے ہو۔ سورئہ حجرات میں جو آداب نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے لیے نازل ہوئے ہیں حضرت حکیم الامت نے لکھا ہے کہ نائبینِ رسول یعنی علماء و مشایخ کے لیے بھی وہی آداب ہیں، اس وقت آپ تَجْھَرُوْا بِالْقَوْلِ کا مصداق تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کو حضوری مع الحق حاصل نہیں تھی کیونکہ ہر وقت اکرامِ شیخ کا حق وہی ادا کرسکتا ہے جو ہر وقت باخدا ہو حتیٰ کہ ہنسنے میں بھی خدا کو نہ بھولے۔ غلطی تو یہ اتنی بڑی تھی کہ اسی وقت سزا دی جاتی لیکن اب جاکر اعلان کرو کہ مجھ سے سخت نالائقی ہوئی کہ شیخ کی مجلس میں کانا پھوسی کرکے ہنسا۔ اﷲ میری اس نالائقی و بے ادبی کو معاف فرمادے۔

احقر نے حضرت والا سے معافی مانگی کہ سخت نالائقی ہوئی اور ان شاء اﷲ آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ ہوگی اور احباب کے سامنے اعلان کرکے حضرت والا کو اطلاع کی تو حضرت والا خوش ہوگئے۔

صبح کچھ حضرات خدمت میں حاضر ہوئے اس وقت یہ ارشاد فرمایا جو رات کے واقعہ کے متعلق اِصلاح کے لیے تھا وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔

اکرام شیخ علی الدوام کا طریقہ

ارشاد فرمایا کہ اکرامِ شیخ علی الدوام وہی کرسکتا ہے جس کو حضور دوام مع الحق حاصل ہو یعنی ہر وقت شیخ کا ادب و اکرام وہی کرسکتا ہے جس کو ہر وقت اﷲ کے ساتھ دوامِ حضور حاصل ہو۔ یہ قاعدہ کلیہ ہے۔ شیخ سے محبت اﷲ ہی کے لیے کی جاتی ہے تو جب اﷲ ہی سے اس کا دل غافل ہے تو وہ شیخ کا اکرام کیسے کرے گا۔ شیخ تو اﷲ کے راستہ کا راہبر ہے اور یہ شخص جب منزل ہی سے غافل ہے، اسے اﷲ کی حضوری کا خیال بھی نہیں ہے تو وہ شیخ کے سامنے بھی بے موقع ہنسے گا، بے موقع بات کرے گا، اس لیے شیخ کا اکرام دواماً وہی کرسکتا ہے جس کو اﷲ کا حضورِ دوام حاصل ہو اور یہ چیز حقائق میں سے ہے۔ ہر وقت یہ سوچنا کہ اﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے بتائیے! یہ چیز حقائق میں سے ہے یا نہیں؟ اﷲ ہر وقت ہم کو دیکھ رہا ہے یہ کوئی فرضی بات نہیں حقیقت ہے۔ اگر میں یہ مراقبہ سکھاؤں کہ سب لوگ یہ سمجھیں کہ ہم بادشاہ یا وزیر اعظم ہوگئے ہیں تو سب ہنسیں گے کیونکہ یہ حقیقت نہیں ہے لیکن یہ مراقبہ کہ اﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے ایک حقیقت ہے اور اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں اس مراقبہ کی تعلیم دی ہے اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اﷲَ یَرٰی کیا بندہ نہیں جانتا کہ اﷲ اس کو ہر وقت دیکھ رہا ہے۔

انبیاء اور اولیاء کی حضوری مع الحق کا فرق

لیکن اس مراقبہ کی تعلیم میں اولیاء کے ساتھ اﷲ کا معاملہ اور ہے پیغمبر کے ساتھ معاملہ اور ہے۔ عنوان میں فرق ہے حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کو بھی یہی تعلیم دی لیکن اس کا عنوان کتنا عجیب ہے فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا اے نبی!آپ ہر وقت میری نگاہ میں ہیں جیسے کوئی اپنے بیٹے سے کہے کہ گھبرانا مت میں ہر وقت تمہاری خبر رکھتا ہوں لہٰذا حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے ساتھ جو عنوان ہے وہ صحابہ کو نہیں عطا فرمایا کیونکہ نبی اور صحابی کیسے برابر ہوسکتے ہیں لہٰذا صحابہ سے فرمایا یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ اے اصحابِ نبی! تمہارا مدینہ شریف کی گلیوں میں چلنا پھرنا، بازاروں میں جانا اور اپنے مکانوں میں جاکر سونا سب سے ہم باخبر ہیں۔ متقلب کو پہلے بیان فرمایا اور مَثْوَاکُمْ  کو بعد میں بیان کیا اس میں راز یہ ہے کہ انسان کے گھر کی راحت موقوف ہے تَقَلُّبُ فِی الْبِلاَدِ پر یعنی جتنی محنت کرتا ہے، چلتا پھرتا ہے اس کے بعد گھر ہی میں تو آرام کرتا ہے، اگر کچھ نہ کمائے اور ہر وقت گھر میں بیٹھا رہے تو کھانے کو کیسے ملے گا۔ قرآن پاک کے کلام اﷲ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ایک ایک لفظ کی تقدیم و تاخیر میں حکمت و راز ہے۔

تو اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ اے صحابہ! جب تم مدینہ کی سڑکوں اور گلیوں میں جاتے ہو، کبھی حضور صلی اﷲ علیہ و سلم سے ملنے جارہے ہو، کبھی اپنی روزی کے لیے اپنی دوکانوں پر جارہے ہو، کبھی نمازوں کے لیے مسجد نبوی آرہے ہو تو تمہارا چلنا پھرنا ہر وقت میری نظر میں ہے اور جب رات کو اپنے گھر جاکر آرام کرتے ہو تو تمہارا وہ ٹھکانہ بھی ہم کو معلوم ہے تو مثواکم کا مزہ متقلب پر ہے، کوئی کمائے نہیں، گھر سے نہ نکلے، ہر وقت گھر میں پڑا رہے تو اس کو گھر کا مزہ آئے گا؟

فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی عظیم الشان محبوبیت ہے

تو دونوں کے عنوان میں فرق ہے۔ جو نبی کو عطا ہورہا ہے اور جو ولی یعنی صحابہ کو عطا ہورہا ہے دونوں کے عنوان میں فرق ہوگیا۔ حضور صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے فرمایا فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا صحابہ سے فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا  نہیں فرمایا کیونکہ نبی کے لیے جو عنوان ہے اُس میں پیار زیادہ ہے کہ اے نبی! آپ ہر وقت میری نظروں میں ہیں، میں ہر وقت آپ کے حالات سے باخبر ہوں اور اَعْیُنُ جمع کا صیغہ فرمایا یعنی بے شمار غیر محدود نگاہوں سے ہم ہر وقت آپ کو دیکھ رہے ہیں کیونکہ حقوقِ الوہیت جو میرا نبی دواماً ادا کرسکتا ہے اے صحابہ! تم نہیں کرسکتے لہٰذا دوامِ نسبتِ نبوت پر دوامِ نعمت کے بیان کے لیے جملہ اسمیہ سے فرمایا فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا کیونکہ جملہ اسمیہ میں ثبوت و دوام ہوتا ہے، میری عنایت آپ پر ہمہ وقت ہے اور صحابہ کے لیے جملہ فعلیہ سے فرمایا یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ جس سے معلوم ہوا کہ غیر نبی کے ساتھ عنایت میں ایسا ثبوت و دوام نہیں ہوسکتا جو نبی کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ نبی کی نسبت مع اﷲ میں دوام ہوتا ہے اس لیے عنایتِ الٰہیہ میں بھی دوام ہوتا ہے۔ غیر نبی کی نسبت میں ایسا دوام نہیں ہوسکتا اس لیے غیر نبی کے ساتھ عنایت کبھی تبدیل بھی ہوسکتی ہے جیسے بعض لوگ پہلے بظاہر مسلمان تھے بعد میں مرتد ہوگئے۔

آیت یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَ مَثْوَاکُمْ میں علم سے کیا مراد ہے؟

 یہاں علم سے مراد فقط علم نہیں ہے بلکہ علم العنایات ہے یعنی علم عنایت کے ساتھ ہے ورنہ اﷲ کو تو ابوجہل اور ابولہب کا بھی علم تھا لیکن ان کے اوپر عنایت نہیں تھی۔ یہاں یَعْلَمُ سے مقصود لطف و کرم کا اظہار ہے کہ میرا کرم، میری رحمت اور عنایت تم لوگوں پر ہے کہ بازاروں میں تمہارے چلنے پھرنے اور گھروں میں سونے سے میں باخبر ہوں۔ اس آیت میں صحابہ کے لیے کتنا پیار و شفقت ہے۔فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کی محبوبیت آپ کی نبوت کے شایانِ شان ہے اور نبی کا درجہ کسی کو کیسے مل سکتا ہے لہٰذا نبی کی شانِ محبوبیت اور صحابہ کی شانِ محبوبیت میں فرق ہے لیکن جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کو کیا مزہ آیا ہوگا اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔

 لہٰذا جو شخص ہر وقت شیخ کے ساتھ رہے اس کو ہر وقت اکرامِ شیخ لازم ہے اور ہر وقت اکرامِ شیخ کے لیے اس پر ہر وقت حضورِ حق کا ہونا لازم ہے یعنی حق تعالیٰ کا استحضار ہر وقت اس پر غالب رہے۔ دوامِ حضور مع الحق جس کو نصیب ہو وہ اکرامِ شیخ علی الدوام کرسکتا ہے لہٰذا جو لوگ رات دن شیخ کے ساتھ رہیں ان پر لازم ہے کہ دوامِ حضورِ حق کا مقام حاصل کریں، کسی وقت بھی خدا سے غافل نہ رہیں۔

ہنسی کے وقت کا مراقبہ

 ہنسنے میں بھی خیال رکھیں کہ اﷲ ہم کو دیکھ رہا ہے اور خوش ہورہا ہے جیسے بچے ہنستے ہیں تو باپ کو اچھا معلوم ہوتا ہے اور بچے غمگین ہوجائیں تو باپ کو بھی غم ہوتا ہے اس لیے ہنسنے میں یہ نیت کرو کہ ہم لوگ ہنس رہے ہیں تو اﷲ خوش ہورہے ہیں اور جو شخص ہنسی مذاق میں اﷲ کو بھول گیا وہ لطفِ حیات سے محروم ہوگیا، ایک لمحہ کے لیے جو خالقِ حیات سے بے خبر ہے اس کی اتنی دیر کی حیات لطف سے خالی ہے کیونکہ جب خالقِ لطف سے بے خبر ہوگیا تو لطف کہاں سے آئے گا۔

جینے کا لطف حاصل کرنے کا طریقہ

اس لیے جو ہر وقت یہ سوچے گا کہ اﷲ مجھ کو دیکھ رہا ہے اس کی زندگی ہر وقت لطف میں رہے گی، اس کا ہنسنا بولنا کھانا پینا سب میں لطف رہے گا۔ ایک شخص تو وہ ہے جو جانور کی طرح سے جیتا ہے کچھ پتا ہی نہیں کہ میں کون ہوں، میرا مالک کون ہے اور ایک وہ شخص ہے جو سوچ رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آسمان سے دیکھ رہے ہیں کہ میرا بندہ اپنا وطن چھوڑ کر، اپنے بال بچوں کو چھوڑ کر، اپنی راحت کو چھوڑ کر میرے دین کی خاطر ری یونین میں آیا ہوا ہے اور میرے دین کی باتیں سکھا رہا ہے تو بتائیے! اس مراقبہ سے لطف بڑھ گیا کہ نہیں ورنہ وطن بھی چھوٹے گا اور پردیس کا مزہ بھی نہیں ملے گا، خسارہ ہی خسارہ ہے، نقصان ہی نقصان ہے، جو حیات خالقِ حیات سے غافل ہوتی ہے وہ خسارہ میں ہے لہٰذا میر صاحب کو یہ تنبیہہ کی جارہی ہے کہ اپنے کھانے پینے میں، ہنسنے میں، مسکرانے میں، لطیفہ میں، سموسہ کھانے میں اور ہری مرچ جب کھایا کریں تو خاص مراقبہ کریں کہ یہ ہری مرچ اﷲ نے پیدا کی ہے جو مجھے بہت مرغوب اور پسند ہے اور یہ جو میری زبان میں تیزی پیدا کررہی ہے اس میں یہ خاصیت اﷲ نے رکھی ہے اور پھر یہ کہیں کہ واہ رے میرے اﷲ! آپ عشرت کو کیسی مزے دار چیزیں کھلارہے ہیں تب ان کے لیے ہری مرچ کھانا بھی عبادت ہوجائے گی اور اگر ایسے ہی کھاتا رہے آسمان سے دور زمین پر دھرا ہوا تو پھر لطفِ حیات کہاں؟

 حضرت صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کامقامِ حضوری

چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو حضور مع الحق کا جو مقام حاصل تھا، اﷲ کے ساتھ ہر وقت جو حضوری حاصل تھی اس وجہ سے ہر وقت وہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے اکرام میں اعلیٰ ترین مقام پر تھے کیونکہ امت میں کسی امتی کا ایمان ان سے بڑھ کے نہیں ہے چنانچہ عین جنگِ بدر کے موقع پر جب آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے عشاء کے بعد دعا شروع کی تو فجر کی اذان ہوگئی اور آپ اتنا زیادہ گڑگڑائے اور آپ کے دستِ مبارک بہت اونچے اُٹھ گئے اور جسمِ مبارک کے ہلنے سے آپ کی چادر گرگئی فَسَقَطَ رِدَائُ ہُ فَاَخَذَہُ اَبُوْ بَکْرٍتو حضرت ابوبکر صدیق نے آپ کی چادر مبارک کو پکڑ لیااور زمین پر نہیں گرنے دیا  فَوَضَعَہٗ عَلَی مَنْکَبَیْہِ اور حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے مبارک کندھوں پر دوبارہ ڈال دیا، اس کے بعد جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور زیادہ روئے تو حضرت ابوبکر صدیق پر ایک کیفیت طاری ہوگئی، غلبہ ٔحال ہوگیا فَالْتَزَمَہٗ آپ کی پشت ِمبارک کے جانب سے چمٹ گئے لیکن اس وقت بھی وہ اﷲ سے باخبر تھے اس لیے اس وقت بھی حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے اکرام کا پورا خیال رکھا اور یوں نہیںکہا کہ اب مجھ سے برداشت نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ کہا  کَفَاکَ یَا نَبِیَّ اﷲِ بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ مُنَاشَدَتُکَ رَبَّکَ اے اﷲ کے نبی!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ دعا آپ کے لیے کافی ہوگئی، اب آپ زیادہ نہ روئیے آپ کا اپنے رب سے اتنا مناشدہ آپ کے لیے کافی ہے، دیکھئے یہاں بھی انہوں نے اﷲ کو یاد کیا، یعنی زمین پر رہتے ہوئے بھی اس وقت صدیقِ اکبر آسمان پر تھے اور اﷲ سے باخبر تھے اور یہ بھی عرض کیا فَاِنَّہُ سَیُنْجِزُ لَکَ مَا وَعَدَکَ اور اﷲ اپنا وعدہ عنقریب پورا کردے گا جیسے ہی حضرت صدیق اکبر کے منہ سے یہ نکلا جبرئیل علیہ السلام آگئے، حضرت صدیق اکبر آسمانی تھے اس لیے آسمانی پیغمبر کے اکرام میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اسی طرح شیخ کے ساتھ وہ رہے جو ہر وقت آسمانی رہے، جو آسمان میں رہتے ہوئے اپنے شیخ کے ساتھ رہے گا شیخ کے اکرام میں اس سے غلطی نہیں ہوگی یعنی اﷲ کا تعلق اس پر ہر وقت قائم و دائم رہے گا پھر وہ شیخ کے اکرام میں ان شاء اﷲ ہر وقت چوکنا رہے گا کیونکہ اس کو دھیان رہے گا کہ میں اپنے شیخ، رہبرِ منزل، اﷲ تک پہنچانے والے کے ساتھ ہوں۔

خشیت اور ذکر کا ربط

بارہ بجے دوپہر مولانارشیدبزرگ حضرت والا سے ملاقات کے لیے حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ میرا سفر ہندوستان کا ہوا تھا لیکن میں فلاں بزرگ کی قبر پر فاتحہ پڑھنے نہ جاسکا جس کا میرے قلب پر بہت اثر ہے اور بہت وَساوِس نے گھیر لیا ہے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ آپ کا یہ غم بالکل غیر شرعی ہے اور یہ وساوسِ شیطانیہ ہیں، شیطان اگر کچھ گناہ نہیں کراسکتا تو ایسے غموں میں مومن کو مشغول کردیتا ہے جس سے وہ غمگین رہے، کبھی وہ غیرِ دین کو دین بنا کر پیش کرتا ہے اور کبھی ادنیٰ دین میں مشغول کرکے اعلیٰ دین سے محروم کرتا ہے۔ کراچی میں مجھ سے تعلق رکھنے والے کتنے علماء آتے ہیں میں نے کبھی ان سے نہیں کہا کہ آپ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کی قبر کی زیارت کے لیے جائیں، میرے شیخ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم بھی تشریف لاتے ہیں لیکن کبھی حضرت پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کی قبر پر جانے کا اہتمام نہیں کیا، کبھی چلے گئے لیکن اکثر نہیں جاتے لہٰذا آپ اﷲ سے استغفار کریں کہ اے اﷲ!میں نے اپنے دل کو بے کار پریشان کیا، میرا یہ غم قابلِ غم نہیں تھا اور یہ دعا پڑھیں:

{اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِیْ خَشْیَتَکَ وَذِکْرَکَ}

اے اﷲ! میرے دل کے وساوس کو اپنی محبت اور اپنا ذکر بنادیجئے، آپ کہیں گے کہ خَشْیَتَکَ کا ترجمہ محبت کیوں کیا؟ اس کی دلیل یہ ہے کہ علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ خشیت وہ خوف ہے جو محبت کے ساتھ ہو اور خوف میں محبت نہیں ہوتی جیسے سانپ سے صرف خوف ہوتا ہے، یہ نہیں کہیں گے کہ مجھے سانپ سے خشیت ہے اور خشیت کو مقدم فرمایا کہ سبب ہے اور ذکر مسبب ہے یعنی اﷲ کو وہی یاد کرتا ہے جس کے دل میں خشیت ہوتی ہے بس خشیت اتنی مطلوب ہے جس پر ذکر کا ترتب ہوجائے اور تم ذکر میں مشغول رہو۔ حضرت والا کی اس تقریر سے مولانا موصوف کو اطمینان ہوگیا۔

نبی کو جو نسبت حاصل ہوتی اُس میں ترقی ہوتی چلی جاتی ہے ۔ ۔ ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دواماً ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں تھے

جس کو دواماً اللہ تعالیٰ کا استحضار ہو وہی شیخ کا احترام کرسکتا ہے  ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries