مجلس۲۴ اپریل۲۰۱۴ء سلوک کا حاصل صرف اللہ کی نافرمانی سے بچنا ہے

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی  اپنے کمرۂ مبارک سے باہر تشریف لائے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا، نشست پر تشریف فرما ہوئے۔۔۔ حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات حضرت اقدس سید عشرت جمیل میر صاحب دامت برکاتہم نے خود ملفوظات پڑھ کے سنائے اور ساتھ ساتھ قیمتی ملفوظات سے بھی نوازتے رہے۔ آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً ا گھنٹے پر مشتمل تھی

ملفوظاتِ معارف ربانی

ڈاکٹروں کے لیے حفاظتِ نظر کے سنہری اصول: مولانا ابوبکر صاحب کی قیام گاہ میں ناشتہ کے بعد ایک عالم صاحب نے عرض کیا کہ رات مسجد شانِ اسلام میں بعد عشاء حضرت والا کی تقریر میں دل کے ایک ماہر ڈاکٹر بھی تھے جو میرے جاننے والے بھی ہیں رات حفاظتِ نظر کے متعلق حضرت والا نے جو بیان فرمایا اس سے وہ بہت متأثر ہوئے اور کہا کہ میرے پاس مسلم اور غیر مسلم عورتیں آتی ہیں مجھے ان کو دیکھنا پڑتا ہے ان کا معالجہ بھی کرنا پڑتا ہے ان سے باتیں بھی کرنی پڑتی ہیں میرے لیے نظر کی حفاظت کا کیا طریقہ ہے حضرت والا سے پوچھ کر بتائیے۔

عورتوں کے معائنہ کے لیے لیڈی ڈاکٹر رکھی جائے: اِرشاد فرمایا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ عورتوں کے لیے کوئی عورت ڈاکٹر ماہر قلب (ہارٹ اسپیشلسٹ) ملازم رکھ لی جائے جو صرف عورتوں کو دیکھے، چاہے تنخواہ پر رکھ لیں یا نفع میں شریک کرلیں جیسا مناسب ہو۔ اس میں آمدنی چاہے کم ہوجائے اس کو اﷲ کی رضا کے لیے برداشت کریں۔ انڈا مکھن چاہے کم ہوجائے لیکن دل کو ایسا سکون ملے گا کہ اس کے سامنے روپے کی کیا حقیقت ہے اور جو اﷲ کو راضی کرنے کی ہمت کرلیتا ہے تو پھر اﷲ اس کی مدد فرماتے ہیں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ بمبئی میں میرے ایک دوست دانتوں کے ڈاکٹر مجھے اپنے مطب میں میرے دانت بنانے کے لیے لے گئے، نوجوان تھے، میں نے دیکھا کہ ایک کرسچین لڑکی کا گال پکڑ کر اس کا دانت دیکھ رہے ہیں۔ میں نے بعد میں ان سے کہا کہ آپ کے باطن کا تو ستیاناس ہوجائے گا۔ تبلیغ میں جو آپ چلّے لگاتے ہیں سارے چلّوں کا نور ضائع ہوجائے گا ایک ہی معائنہ میں۔ کہنے لگے کہ پھر میں کیا کروں۔ میرے پاس تو لڑکیاں بھی آتی ہیں اور مرد بھی آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ عورتوں کے لیے آپ کوئی لیڈی ڈاکٹر ملازم رکھ لیں جو صرف عورتوں کو دیکھے اور آپ صرف مردوں کو دیکھیں۔ اب اس میں آمدنی اگر کم ہوتی ہے تو ہونے دیجئے، اﷲ کے لیے کچھ تکلیف برداشت کرو۔ صحابہ نے تو پیٹ پر پتھر باندھے تھے ہمیں انڈے مکھن میں ذرا کمی کرنا گوارا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور آج تک وہ شکریہ ادا کرتے ہیں کہ واقعی اگر میں ایسا نہ کرتا تو میری ڈاڑھی کا بچنا، میرا دین پر قائم رہنا محال تھا اور یہ بھی کہا کہ میری آمدنی میں کوئی کمی نہیں ہوئی بلکہ اور اضافہ ہوگیا۔ میں کہتا ہوں کہ اﷲ پر کوئی مر کر تو دیکھے۔ بھلا جو ان پر مرے گا اس کو وہ برباد ہونے دیں گے؟

ترکِ معصیت کے لیے ہمت چاہیے: کراچی میں خون کے ایک بہت بڑے اسپشلسٹ ڈاکٹر جو علامہ سید سلیمان ندوی کے عزیزبھی ہوتے ہیں مجھ سے بیعت ہوگئے اور اﷲ اﷲ کرنے لگے، ڈاڑھی بھی رکھ لی۔ ایک دن کہنے لگے کہ مجھے ہفتہ میں دو بار کالج میں لڑکیوں کو ایک ایک گھنٹہ پڑھانا ہوتا ہے اور اس کے دس ہزار روپے تنخواہ کے علاوہ ملتے ہیں لیکن اب بیعت ہونے کے بعد یہ ہورہا ہے کہ جس دن میں ان کو پڑھاتا ہوں اس دن میری تہجد قضا ہوجاتی ہے اور دل میں ظلمت معلوم ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ یہ لڑکیوں کے پڑھانے کی نحوست ہے کیونکہ وہاں نظر کی حفاظت پورے طور پر نہیں ہو پاتی لہٰذا میں اس پڑھانے کی نوکری سے استعفیٰ دے رہا ہوں کیونکہ میری ہسپتال کی ملازمت تو ہے ہی اور پڑھانے کی نوکری چھوڑنے سے جو دس ہزار کی کمی ہوگی تو میرے پاس ایک اور فن ہے دواؤں کا وہ شروع کردوں گا اﷲ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے عطا فرمائیں گے۔ لیکن اب میں لڑکیوں کو نہیں پڑھا سکتا لہٰذا انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور ماشاء اﷲ بہت آرام سے ہیں، کوئی معاشی تنگی اور رزق میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ آدمی ہمت کرے تو کچھ مشکل نہیں۔

کم ہمتوں کے لیے بھی اصلاح کا ایک راستہ: بہرحال اس کی ہمت نہ ہو تو ڈاکٹر صاحب سے کہہ دیں کہ جب عورتیں یا لڑکیاں آئیں حتی الامکان نگاہ کی حفاظت کریں اگر نظر ڈالیں تو اُچٹی پچٹی سطحی نظر ڈالیں نگاہ جما کر نہ دیکھیں جیسے ریل میں بیٹھے ہوئے سامنے سے درخت گذرتے جاتے ہیں کہ وہ نظر تو آتے ہیں لیکن آپ ان کی پتیاں نہیں گنتے جیسی نظر ان پر ڈالتے ہیں ایسی ہی سطحی نظر ڈالیں کہ ان کے حسن کا ادراک نہ ہو۔ اور یہ مراقبہ کریں کہ یہ عورت یا لڑکی جو ہے میری ماں ہے بہن ہے یا بیٹی ہے اس کو کیسے بُری نظر سے دیکھوں۔ اس سے کچھ شرم آئے گی۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے  ؎

بدنظر اٹھنے ہی والی تھی کسی کی جانب
اپنی بیٹی کا خیال آیا  تو  میں  کانپ   گیا

حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کمزور ولی اﷲ کو کوئی تگڑی خوبصورت عورت گرالے اور اس کی آنکھیں اپنے ہاتھوں سے کھول کر کہے کہ مجھے دیکھ! دیکھتی ہوں کہ اب مجھے کیسے نہیں دیکھے گا تو حضرت فرماتے ہیں کہ واقعی اگر وہ صاحبِ نسبت اور اﷲ والا ہے تو اپنی شعاعِ بصریہ کو کنٹرول کرے گا، سطحی اور اُچٹی پچٹی نظر ڈالے گا گہری نظر سے نہیں دیکھے گا۔ لہٰذا جب مجبوراً سطحی نظر سے دیکھنا پڑ رہا ہو تو یہ مراقبہ بھی کرو کہ میری نظر تو اس عورت یا لڑکی پر ہے لیکن میری نظر پر اﷲ کی نظر پاسبان ہے، ذرا دھیان رہے کہ اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرا ایک شعر ہے   ؎

میری  نظر  پہ  ان  کی   نظر   پاسباں   رہی
افسوس اس احساس سے کیوں بے خبر تھے ہم

روحانی صفائی کی ’’ون ڈے سروس‘‘:اس کے بعد جب گھر آئیں تو دو نفل پڑھ کر اﷲ سے معافی مانگ لیں کہ اے اﷲ! نفس نے آپ کی ناخوشی کی راہوں سے خوشی کا جو ادنیٰ ذرّہ چرایا ہو میں ایسی مستلذات محرمہ، مسروقہ سے آپ کی معافی چاہتا ہوں کیونکہ نفس کا مزاج مکھی کا سا ہے۔ گلاب جامن پر مکھی اگر ایک لمحہ کے لیے بیٹھے گی تو کوئی نہ کوئی ذرّہ چرا کے بھاگے گی۔ اسی طرح نفس حرام لذت کو چشم زدن میں چُرا کے بھاگتاہے ۔لہٰذا اے اﷲ! نفس کی ان خفیف اور پوشیدہ ادنیٰ ترین لذتوں سے بھی میں معافی چاہتا ہوں جو میرے نفس نے چرا لی ہوں اور جس کا مجھے احساس نہ ہوا ہو۔ لہٰذا گھر واپس آکر روزانہ دو نفل پڑھ کر خوب گڑگڑا کر گناہوں کی معافی اور آئندہ حفاظت کی خوب دعا کریں۔ اس کا نام ’’ون ڈے سروس‘‘ ہے جیسے گندے کپڑوں کی صفائی ڈرائی کلیننگ والا کردیتا ہے اسی طرح سے گناہوں کی گندگی سے روح کی صفائی روز کی روز کرلیجئے۔

فرمایا: کتنا بہترین عمل ہے جو اس پر عمل کرلے کامیاب ہوجائے گا  اب حضرت تو چلے گئے اب حضرت کے ارشادات پر عمل کریں ۔ ۔ اب قیامت تک انشاء اللہ تعالیٰ حضرت والا کی تعلیمات ہی چلیں گی۔

نمازِجمعہ کے بعد کھانا تناول فرماکر حضرت والا نے کچھ دیر قیلولہ فرمایا، ماریشس ائیر لائن کے طیارہ سے ساڑھے چار بجے شام ہم لوگوں کی سیٹ بُک تھی۔ سوا تین بجے ائیرپورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ ائیرپورٹ یہاں سے بالکل قریب ہے، تقریباً پانچ منٹ میں ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ ماریشس کے مقامی علماء اور میزبان مولانا ابوبکر صاحب کا حضرت والا نے شکریہ ادا کیا کہ آپ حضرات بہت محبت سے پیش آئے اور دین کا بھی خوب کام ہوا اﷲ قبول فرمائیں، آمین۔

چار بجے حضرت والا نے فرمایا کہ اب عصر کی نماز پڑھ لینی چاہیے۔ بعض حنفیہ کا بھی قول ہے کہ ایک مثل پر عصر کا وقت شروع ہوجاتا ہے چنانچہ مکہ شریف میں ہم لوگ جو نماز پڑھتے ہیں تو اسی قول پر عمل کرتے ہیں، اپنے ملکوں میں اس کی عادت تو نہ بنانی چاہیے لیکن سفر میں ایسے موقعوں پر ائیرپورٹ پر اس گنجائش سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ سفر میں بعض دفعہ یہ بھی خطرہ ہوتا ہے کہ نماز ہی قضا نہ ہوجائے۔ حضرت والا دامت برکاتہم کی امامت میں ماریشس ائیرپورٹ پر نماز عصر ادا کی گئی۔

تقریباً ساڑھے چار بجے ہم لوگ جہاز پر سوار ہوئے، ماریشس سے ری یونین کا فضائی سفر بڑے طیارہ سے بیس منٹ اور چھوٹے طیارہ سے چالیس منٹ کا ہے۔ یہ چھوٹا طیارہ تھا جس میں ہم لوگ سوار تھے۔ جمعہ کے دن بعد نمازِ عصر قبولیتِ دعا کا وقت ہوتا ہے۔حضرت مرشدی دامت برکاتہم پرواز کے دوران دعا میں مشغول رہے۔ ویسے بھی اکثر پرواز کے دوران حضرت والا کا دعا مانگنے کا معمول ہے۔ فرماتے ہیں کہ فضاؤں میں گناہ نہیں ہوتے اس لیے امیدِ قبولیت زیادہ ہے۔

تقریباً ساڑھے پانچ بجے شام طیارہ ری یونین اُترا۔ ائیرپورٹ پر حضرت والا کے شاگرد خاص اور خلیفہ مولانا عمر فاروق صاحب جو کراچی میں چار سال خانقاہ میں رہے ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کے یہاں دو روز پہلے ایک بیٹے کی ولادت ہوئی ہے اور اس کا نام جلال الدین رومی رکھا ہے۔ راستہ میں مولانا عمر فاروق صاحب کے خسر جناب حافظ امین پٹیل صاحب نے کہا کہ مولانا عمر فاروق اور ہماری سب کی خواہش ہے کہ اگر حضرت والا کو زحمت نہ ہو تو ہسپتال میں تشریف لے جاکر وہاں بچہ کی سنت تحنیک ادا فرمادیں اور اس کے بعد خانقاہ تشریف لے چلیں۔ حضرت والا نے ان کی درخواست قبول فرمالی اور ہسپتال تشریف لے گئے۔ 

خانقاہ امدادیہ اشرفیہ ری یونین میں آمد: حافظ امین پٹیل صاحب کے گھر پر مغرب کی نماز جماعت سے پڑھ کر حضرت والا بمعہ احقر راقم الحروف سینٹ پیئر(St.Pierre)  کے لیے روانہ ہوگئے اور تقریباً ایک گھنٹہ میں سینٹ پیئرپہنچے اور خانقاہ دیکھ کر حضرت والا بہت خوش ہوئے۔ حافظ داؤد بدات صاحب جو حضرت والا کے خاص شاگرد اور خلیفہ ہیں یہ خانقاہ حضرت والا کے ایماء سے انہوں نے قائم کی ہے۔اور کراچی میں حضرت والا کی خدمت میں چھ سال رہے ہیں۔حضرت والا نے فرمایا کہ الحمد ﷲ ری یونین میں سلسلہ تھانوی کی ایک خانقاہ قائم ہوگئی۔ اﷲ یہاں ہمارے بزرگوں کا فیض جاری فرمائیں اور یہاں سے بڑے بڑے اولیاء اﷲ پیدا ہوں۔حافظ داؤد صاحب سے فرمایا کہ ماشاء اﷲ نقشہ بھی خوب اچھا نکالا لیکن دعا بھی کیا کرو کہ اﷲ ہم سے کام لے لیں۔کیونکہ کام کے اسباب جمع ہونا اور بات ہے اور کام لینا اور بات ہے۔ وہ تو اﷲ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے ۔ دعا کرو کہ اے اﷲ! اسباب تو جمع ہوگئے کام آپ لے لیجئے اور قبول بھی فرما لیجئے۔

تفسیر یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا: ارشادفرمایا کہ امام صاحب نے ابھی نماز میں عَمَّ یَتَسَآئَلُوْنَ کی سورۃ پڑھی ہے۔ نماز ہی میں داعیہ پیدا ہوا کہ اس سورۃ کا شان نزول اور تفسیر چند منٹ میں عرض کروں۔

قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اپنا فیصلہ مخلوق پر فرمائیں گے اور جس کا جس پر ظلم ہوگا اس کو اس کا حق دلائیں گے یہاں تک کہ جانور جو ایک دوسرے کو ستاتے ہیں اﷲ تعالیٰ میدانِ محشر میں ان جانوروں کو زندہ کریں گے اور فرمائیں گے کہ جس نے جس کو ستایا ہے آج تم اس کا بدلہ لے لو چنانچہ اگر کسی بکری نے کسی بکری کے سینگ مارا ہوگا تو مظلوم بکری کو حکم دیں گے کہ آج تم اس کو مار لو، اﷲ تعالیٰ اس کو اس کا حق دلائیں گے اور یہ عقل میں آنے والی بات ہے کہ جس کی حکومت اور سلطنت ہو وہ اگر اپنی رعایا کو اس کا حق نہ دلائے تو یہ ظلم ہے اور اﷲ تعالیٰ ظلم سے پاک ہیں، اﷲ تعالیٰ مالکِ دو جہان ہیں۔ مظلوم جانوروں پر بھی جو ظلم ہوا ہے اس کا بدلہ اﷲ تعالیٰ میدانِ قیامت میں دِلائیں گے۔ جب اﷲ پاک کے حکم سے جانور ایک دوسرے سے بدلہ لے لیں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائیں گے کُوْنُوْا تُرَابًااے ساری دنیا کے جانورو! تمہیں خدا نے تمہارا حق دلا دیا جو جانور تم میں کمزور تھے اور دنیا میں اپنا بدلہ نہ لے سکے اب اﷲ نے اپنی قدرت سے تم کو بدلہ دلا دیا لہٰذا اے جانورو! اب تم مٹی ہوجاؤ کیونکہ تمہارے لیے نہ دوزخ ہے نہ جنت ہے۔ جنت و دوزخ انسانوں اور جنات کے لیے ہے لہٰذا جب اﷲ تعالیٰ کُوْنُوْا تُرَابًا فرمائیں گے تو سب جانور مٹی ہوجائیں گے تب ہر کافر کہے گا یٰلَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا اے کاش! ہم بھی مٹی ہوجاتے لیکن اﷲ تعالیٰ ان کو مٹی نہیں ہونے دیں گے اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے،اَلْعَیَاذُ بِاﷲِ۔

دنیا میں معافی مانگنا سستا سودا ہے: لہٰذا یہاں جس نے جس کو ستایا ہے اس کا دنیا ہی میں حق ادا کردو معاف کرالو ورنہ قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ اس کا حق دلائیں گے۔ اب دوکان میں بیٹھے ہوئے ہیں زبان چل رہی ہے کہ فلاں صاحب میں یہ خرابی ہے فلاں بے وقوف ہے اسی کا نام غیبت ہے۔ پیٹھ پیچھے کسی کی بُرائی بیان کرنا غیبت ہے۔ یہ شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے:

{اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا}
(سورۃُ الحُجرَات، اٰیۃ:۱۲)

کیا تم کو یہ بات پسند ہے کہ تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ وہ تو بے چارہ وہاں موجود نہیں ہے کہ اپنا دفاع کرسکے، مثل مردہ کے ہے۔

غیبت زِنا سے اشد کیوں ہے؟ :غیبت زِنا سے زیادہ اشد ہے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم غیبت زِنا سے زیادہ سخت کیوں ہے؟ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی زِنا کرلے پھر اﷲ سے توبہ کرلے تو اس کی توبہ قبول ہے جس سے زِنا کیا ہے اس سے جاکر معافی مانگنا ضروری نہیں بلکہ جائز ہی نہیں کیونکہ اگر جاکر اس سے کہے کہ ذرا میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں تو اس کو اور ندامت ہوگی اور اس کی رسوائی اور بدنامی کا اندیشہ ہے۔ زِنا حق العباد نہیں ہے۔ آہ ! اﷲ کا احسان ہے بندوں پر کہ ہماری آبرو کی کیا حفاظت کی ہے اﷲ نے اپنے غلاموں کی عزت رکھ لی کہ اس کو حق العباد نہیں رکھا بلکہ اس گناہ کو اپنے حق میں شامل فرمایا کہ بس کہہ دو کہ یا اﷲ! جو مجھ سے یہ گناہِ کبیرہ ہوگیا یا آنکھوں سے نامحرم عورتوں کو دیکھا ان سب گناہوں سے معافی چاہتا ہوں تو معاف ہوجائے گا۔ بندوں یا بندیوں سے جاکر اس معاملہ میں یہ کہنا نہیں پڑے گا کہ مجھے معاف کردو۔ لیکن آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غیبت ایسی چیز ہے کہ جس کی غیبت کی گئی اس سے جاکر معافی مانگنی پڑے گی بشرطیکہ اس کو خبر لگ جائے مثلاً کوئی گجرات میں ہے یا ڈابھیل میں ہے اس کی یہاں کسی نے غیبت کی تو اگر اسے خبر نہیں ہے تو اس سے جاکر معافی مانگنا لازم نہیں ہے۔ یہ حکیم الامت مجددالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کی تحقیق ہے کہ جس کی آپ نے غیبت اور بُرائی کی ہے اس کو اگر خبر نہیں ہے تو اس سے جاکر معافی مانگنا لازم نہیں۔توپھر کیا کرے؟

اس کے لیے یہیں سے مغفرت مانگو کچھ پڑھ کر بخش دو ، مشکوٰۃ شریف میں کفارئہ غیبت میں یہ روایت ہے کہ یوں کہے اَنْ یَّغْفِرَاﷲُ لِیْ وَلَہٗ کہ اﷲ مجھ کو بھی معاف کرے اور اس کو بھی معاف کردے یعنی اس کی مغفرت کی بھی دعا کرے کہ جس کی ہم نے برائی کی ہے یا سنی ہے اے اﷲ مجھے معاف کردیجئے۔ بُرائی کرنا اور سننا دونوں حرام ہیں۔ جب کسی کی غیبت ہورہی ہو اس وقت اس کا دفاع نہ کرنا اور گونگے کی طرح خاموش بیٹھا رہنا سخت گناہ ہے۔ اس سے کہو کہ آپ غیبت نہ کیجئے مجھے تکلیف ہورہی ہے مجھے گناہ میں مبتلا نہ کیجئے۔ اس کا دفاع کرو یعنی اس کی تعریف کرو کہ وہ اچھے آدمی ہیں۔ حدیثِ پاک میں ہے کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کا دفاع کیا اور اس کی غیبت کو روک دیا اﷲ اس کا اجر اس کو دنیا میں بھی دیں گے اور آخرت میں بھی دیں گے اور جس نے غیبت سنی اور غیبت کرنے والے کی ہاںمیں ہاں ملائی کہ ہاں ہاں مجھ کو بھی یہی ڈاؤٹ (شک) ہے ، ٹھیک کہتے ہو یار یہ تو میں نے بھی دیکھا ہے کہ اس کے اندر یہ خرابی ہے

، تو اَدْرَکَہُ اﷲُ  فِیْ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ  اﷲ اس کو دنیا اور آخرت میں عذاب دے گا اور اگر دفاع کی قدرت یا ہمت نہیں تو اس مجلس سے اُٹھ جائے جہاں غیبت ہورہی ہے لہٰذا روزانہ اﷲ سے یوں کہیے کہ یا اﷲ! مخلوق کا کوئی حق ہم نے مارا ہو ، کسی کی غیبت کی ہو ، یا غیبت سنی ہو یا ان کو بُرا بھلا کہا ہو تو یہ جو میں صبح و شام تینوں قل پڑھتا ہوں اس کا ثواب ساری اُمت کو دے دیجئے یعنی جن جن کے حق ہمارے اوپر ہیں ان کو اس کا ثواب دے دیجئے تاکہ قیامت کے دن آپ ان کو ہم سے راضی کردیں تو ان شاء اﷲ یہ تینوں قل والا وظیفہ آپ کو مخلوق کے شر سے بھی بچائے گا اور ساتھ ساتھ بندوں کا حق بھی ادا ہوتا رہے گا۔ منشا یہ ہے کہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جب تک اس کو اطلاع نہیں ہوئی تو جس مجلس میں غیبت کی ہے ان لوگوں کے سامنے اپنی نالائقی کا اعتراف کرے کہ ہم سے بڑی نالائقی ہوئی، اگر ان میں ایک عیب ہے تو سینکڑوں خوبیاں بھی ہیں اور اﷲ سے بھی معافی مانگیں اور اس کو ایصالِ ثواب کریں لیکن اگر اس کو آپ کی غیبت کی اطلاع ہوگئی تو اب اس سے معافی مانگنا واجب ہے اور اگر اطلاع نہیں ہے تو خواہ مخواہ جاکر اس کا دل خراب مت کرو۔ اس بے چارہ کو خبر بھی نہیں تھی اور آپ کہہ رہے ہیں کہ مجھے معاف کردیجئے میں نے کل آپ کی غیبت کی تھی۔ اِس سے اُس کو اذیت ہوگی۔

روزانہ صبح و شام تینوں قل پڑھ کر یوں دعا کیا کیجئے کہ اے اﷲ! اس کا ثواب ان لوگوں کو عنایت فرمائیے جن کا میں نے انجانے میں کوئی حق مارا ہو، بُرا بھلا کہا ہو، غیبت کی ہو کسی قسم کا بھی حق ہو تاکہ قیامت کے دن یا اﷲ ہم پر کوئی مقدمہ نہ دائر کردے اور ان کو ثواب دے کر ان کو ہم سے راضی کردیجئے، اس طرح ان شاء اﷲ آپ جنت کے راستہ پر آجائیں گے کیونکہ جنت اس وقت ملے گی جب اﷲ کے حقوق میں بھی معافی ہوجائے اور بندوں کے حقوق میں بھی معافی ہوجائے۔

آخر میں دعا فرمائی کہ اے اﷲ! ہمارے لیے سب سے بڑی دولت یہ ہے کہ آپ ہم سے راضی اور خوش ہوجائیں اور یااﷲ! تمام گناہوں کو چھوڑنے کی توفیق نصیب فرما ،اﷲ والی زندگی نصیب فرما ،ہم سب کو یا اﷲ! اولیاء کے زُمرہ میں داخل فرما، یا اﷲ! جو کام بھی دین کا ہو اس کو قبول فرما۔

مومن کی دلجوئی بہت بڑی عبادت ہے: حضرت والا صبح جب سیر کے لیے تشریف لے گئے تو کینیڈا سے کئی بار ایک صاحب کا فون آیا جو حضرت والا سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے فون پر کہا تھا کہ میں دوبارہ دو بجے فون کروں گا۔ حضرت والا ظہر کی نماز پڑھ کر مسجد سے تشریف لائے۔ دو بجنے والے تھے تو فرمایا کہ فون آنے دو بعد میں کھانا کھائیں گے۔ اس اثناء میں حافظ داؤد صاحب ایک شخص کو لے کر حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ یہ میرے دوست ہیں آج کل کچھ پریشان ہیں دعا چاہتے ہیں۔ حضرت والا نے فوراً دعا کے لیے ہاتھ اُٹھادیئے اور دعا فرمائی اور دعا کے بعد ان صاحب سے فرمایا کہ بعد میں بھی دعا کروں گا اور سب حاضرین سے فرمایا کہ جب کوئی دعا کے لیے فرمائش کرے تو ایک دعا فوراً کردیا کرو اس سے اس کا دل خوش ہوجائے گا کیونکہ مومن کے دل میں خوشی داخل کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔

اِدْخَالُ السُّرُوْرِ فِیْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ اَفْضَلُ مِنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ
(المرقاۃ،کتابُ الاداب، بابُ الحب فی اﷲ ومن اﷲ،ج:۸،ص:۷۴۸)

فرمایا: غائبابہ دُعا بہت جلد قبول ہوتی ہے

یہ دعا حاضرانہ ہے اور بعد میں غائبانہ دعا بھی کرو کہ وہ اَسْرَعُ الْاِجَابَۃِ ہے:

اِنَّ اَسْرَعَ الدُّعَائِ اِجَابَۃً دَعْوَۃُ غَائِبٍ لِغَائِبٍ
(سنن ابی داؤد،کتابُ الصلٰوۃ،باب الدعاء بظہر الغیب)

کینیڈا کے فون پر نصیحت: کینیڈا سے تقریباً ہر ہفتہ حضرات والا کے ایک متعلق کلیم صاحب کا فون آتا ہے اور وہ حضرت والا کی نصیحت فون پر ٹیپ کرلیتے ہیں پھر وہاں سے امریکہ بھیجتے ہیں اور وہاں حضرت شیخ الحدیث صاحب کے خلیفہ ہیں ان کو بھی کیسٹ بھیجتے ہیں۔ کراچی فون کرکے انہوں نے یہاں ری یونین کا فون نمبر حاصل کیا اور دو بجے ان کا فون آیا تو حضرت مرشدی دامت برکاتہم نے ان کو فون پر یہ نصیحت فرمائی کہ جو سانس اور جو لمحہ اور جو وقت اﷲ کی یاد میں یا اﷲ والوں کی صحبت میں گذر جائے یہ ہے بس تمہاری زندگی اور اصلی دولت اور جس کو عام لوگ دولت سمجھتے ہیں اس کے لیے شرط ہے کہ وہ اگر اﷲ کی مرضی کے مطابق استعمال ہو تو ٹھیک ہے ورنہ وبال ہے لہٰذا اتنا زیادہ دنیا سے دل نہ لگاؤ کہ ہر وقت بس دوکان دیکھ رہے ہیں ہر وقت فرینک یا ڈالر گن رہے ہیں کیونکہ جس وقت روح نکلے گی اور جنازہ جائے گا اس وقت بتاؤ تمہارے پاس کیا رہے گا؟ قبرستان کس شاندار موٹر سے جاؤگے یا آدمیوں کے کندھوں پر جاؤگے، کتنی کاریں، کتنی بلڈنگیں، کتنے ٹیلیفون قبر میں جائیں گے، کتنے خادم جائیں گے، کتنے ہاتھ چومنے والے جائیں گے۔ یہ نہ سمجھئے کہ میں آپ ہی کو کہتا ہوں میں اپنا علاج بھی کرتا رہتا ہوں کہ اختر سوچ کہ ایک دن تو قبر میں اُتارا جائے گا تو کوئی یار کوئی مرید کوئی ہاتھ چومنے والا وہاں نہیں ہوگا لہٰذا اﷲ کو خوش کرلیا تو سمجھ لو کہ تم کامیاب ہو ورنہ نہ مرید نہ خادم کوئی ساتھ جانے والا نہیں، ہاں اﷲ کے لیے اگر یہ تعلق ہے تو ہمارے لیے ثواب ہے لیکن ذریعۂ مقصود کو مقصود کا درجہ مت دو۔ مقصود اﷲ کو راضی کرنا ہے۔ یہ جو دین کی خدمت کررہا ہوں یہ سب ذریعۂ مقصود ہے ، اﷲ کو راضی کرنے کے ذرائع ہیں لیکن اصل مقصود اﷲ کی رضا ہے۔ اﷲ ہم سے راضی ہوجائیں۔ لہٰذا اپنی زندگی سے ہوشیار ہوجاؤ ایک دن جنازہ قبر میں جانے والا ہے، قبرستان جانا ہے۔

لہٰذا اﷲ کی یاد اﷲ کی محبت کے ساتھ اﷲ والوں کی صحبت بھی ضروری ہے کیونکہ ان ہی کے ذریعہ سے اﷲ کی محبت ملتی ہے، بس جو لمحہ، جو سانس اﷲ کی یاد میں گذر جائے اور جو اہل اﷲ کی صحبت میں گذر جائے اس کو بادشاہوں کے تخت و تاج سے زیادہ قیمتی سمجھئے جو ہمارے کفن کے ساتھ کام دے گا۔ ورنہ اگر کوئی شخص کروڑ پتی ہے، بادشاہ ہے، لیکن جب اس کا جنازہ قبر میں اُترے گا تو کون سا جنازہ کامیاب رہے گا ؟ جس نے خوب مال کمایا لیکن اﷲ کو ناراض کیا یا وہ جنازہ کامیاب رہے گا جس نے اﷲ کو خوب یاد کیا اور اﷲ کو راضی کرلیا۔ بس حاصلِ زندگی وہ سانس ہے جس میں بندہ اﷲ کو راضی کرلے۔ میرے دو شعر ہیں   ؎

وہ لمحۂ حیات جو تجھ پر فدا ہوا
اس لمحۂ حیات پہ  اختر  فدا  ہوا
وہ میرے لمحات جو گذرے خدا کی یاد میں
بس وہی لمحات میری زیست کا حاصل رہے

معاملات و تجارت میں بھی شریعت کی پابندی کی تاکید: کل بعد عشاء اعلان ہوا تھا کہ روزانہ بعد عشاء مجلس ہوا کرے گی۔ لہٰذا آج حضرت والا سے تعلق رکھنے والے کچھ علماء حضرات خانقاہ میں جمع ہوگئے۔
اِرشاد فرمایا کہ مال بھی حلال طریقہ سے کمانا چاہیے ہم مسجد میں بھی اﷲ کے غلام ہیں ، بازار اور دوکان میں بھی اﷲ کے غلام ہیں۔ یہ نہیں کہ مسجد میں اﷲ کے بندے ہیں اور دوکان پر طوقِ غلامی اُتار کر پھینک دیا۔ لہٰذا جو حجام ڈاڑھی مونڈتا ہے اس کی روزی حلال نہیں۔ ڈاڑھی مونڈنا حرام ہے

اس پر ایک صاحب جن کا پیشہ حجامت کا ہے اور اُنہوں نے ڈاڑھی منڈانے سے توبہ کی ، اُن صاحب کا تذکرہ فرمایا اوران کی بہت تعریف فرمائی۔

اور ایک مشت ڈاڑھی رکھنا واجب ہے، بعض لوگ ڈاڑھی رکھتے ہیں لیکن تھوڑی تھوڑی رکھتے ہیں ذرا ذرا سی۔ ان سے عرض کرتا ہوں کہ ایک مٹھی رکھنے کا ارادہ کرلیجئے،تینوں طرف ایک مشت ہو پھر ان شاء اﷲ ڈاڑھی بہت خوبصورت معلوم ہوگی۔ لہٰذا اﷲ کو ناراض کرکے روزی نہ کمائیے۔ اسی طرح سے جو فوٹو گرافی کرتا ہے اور فوٹو بیچتا ہے اس کی آمدنی بھی صحیح نہیں۔ جس چیز سے اﷲ تعالیٰ ناراض ہوں وہ چیز اپنی دوکان میں نہ رکھو۔ چٹنی روٹی کھالو ان شاء اﷲ پیٹ پر پتھر نہیں بندھیں گے۔ صحابہ پیٹ پر پتھر باندھتے تھے۔ صحابہ نے نعمتیں کم کھائیں عبادت زیادہ کی۔ ہم نعمتیں رات دن کھا رہے ہیں اور عبادت کم کررہے ہیں۔ ہماری نعمتیں زیادہ اور شکر کم ہے، ان کی نعمتیں کم تھیں شکر زیادہ تھا۔ آج کل لوگ کہتے ہیں کہ صاحب اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو آمدنی کم ہوجائے گی مثلاً دوکان پر ٹی وی نہیں رکھیں گے تو گاہک کم آئیں گے، میں کہتا ہوں کہ بھائی تھوڑی سی کمی پر راضی رہو۔ پوچھو علماء سے کہ کیا کیا چیزیں حرام ہیں ان شاء اﷲ حلال میں اﷲ برکت دیں گے۔ اگر مان لیجئے حرام سے ایک لاکھ فرینک زیادہ کمالیا اور گردہ بیکار ہوگیا تو سب حرام ہسپتال نکال لے گا۔ ایسی بلائیں آتی ہیں کہ سارا عیش و سکون و آرام چھن جاتا ہے۔ بس آرام و چین اﷲ کو راضی رکھنے میں ہے۔

کثرتِ ذکر سے کیا مراد ہے؟: اِرشاد فرمایا کہکثرتِ ذکر سے مراد یہ ہے کہ پورا جسم یعنی قالب و قلب ہر وقت خدا کی یاد میں رہے۔ کوئی عضو کسی وقت نافرمانی میں مبتلا نہ ہو، کان سے کسی وقت نافرمانی نہ ہو ، غیبت نہ سنے، ساز و موسیقی نہ سنے ، آنکھوں سے کسی نامحرم عورت کو نہ دیکھے ، اگر نظر پڑجائے فوراً ہٹالے اور اگر ذرا دیر ٹھہرا لے تو فوراً اﷲ سے معافی مانگ لے، دل میں گندے خبیث خیالات نہ لائے یعنی ہمہ وقت اس کی ہر سانس خدا پر فدا ہو اور ایک سانس بھی وہ اﷲ کو ناراض نہ کرے اور اگر کبھی خطا ہوجائے تو رو رو کر اﷲ کو راضی کرے اس کا نام ہے کثرتِ ذکر۔ یہ نہیں کہ تسبیح ہاتھ میں ہے اور عورتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کوئی کرسچین گاہک آگئی ٹانگ کھولے ہوئے تو زبان پر سبحان اﷲ ہے اور نظر اس کی ٹانگ پر ہے۔ یہ ذکر نہیں ہے کہ زبان پر اﷲ اﷲ اور جسم کے دوسرے اعضا نافرمانی میں مشغول۔ اگر جسم کا ایک عضو بھی نافرمانی میں مبتلا ہے تو یہ شخص ذاکر نہیں ہے۔ ذکر اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے۔

ذکر کا مقصد یہ ہے کہ آدمی نافرمانی سے بچ جائے۔ جب دل میں نور آتا ہے تو گناہوں کی تاریکی کا فوراً احساس ہوجاتا ہے۔

ذکر کا مقصد صرف یہ ہے کہ جسم کا کوئی حصہ اللہ کی نافرمانی میں مبتلا نہ ہو۔ زبانی ذکر کا مقصد یہی ہے۔ یہ حضرت والا کا اجتہاد تھا کہ ذکر کی تعداد کم دی ۔ اس ضمن میں کئی واقعات بیان فرمائے

سلوک کا حاصل اور مقصد صرف اللہ کی نافرمانی سے بچنا ہے ۔ ۔ ۔

ذکر اللہ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کا طریقہ ہے مقصود نہیں ہے۔ مقصود صرف اللہ تعالیٰ کو راضی اور خوش رکھنا ہے۔۔۔۔۔ ناراضگی اور رضا ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries