اتوار مجلس۲۷ اپریل۲۰۱۴ء اسبابِ گناہ سے دوری بہت ضروری!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی اپنے کمرۂ مبارک سے باہر تشریف لائے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا، نشست پر تشریف فرما ہوئے۔۔۔جناب رمضان صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار سنانے شروع کیے، درمیان درمیان میں حضرت والا  تشریح بھی فرماتے تھے۔ اس کے بعد جناب اثر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے اشعار سنائے، حضرت والا نے بہت پسند فرمائے اس کے بعد حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات حضرت اقدس سید عشرت جمیل میر صاحب دامت برکاتہم نے خود پڑھ  کے سنائے اور ساتھ ساتھ قیمتی ملفوظات سے بھی نوازتے رہے۔ آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً ا گھنٹے پر مشتمل تھی

تشریحِ اشعارِ عارفانہ

ابھی جو اشعار انہوں نے پڑھے پہلا شعر توحید پر ہے اور دوسرا سنت پر ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام پر اپنی جان  کو اللہ کے فرمایا پر قربان کرنے سے ہی اصل زندگی ملتی ہے۔

اپنی مرضیات کو فنا کردینا اسی سے زندگی زندگی کہلانے کے قابل ہوتی ہے ورنہ زندگی نہیں بلکہ وہ مردگی ہی مردگی ہے

لیکن جان کیسے قربانی کریں اللہ پروہ نقشِ قدم ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چل کر جو محبت ہوگی وہ مقبول ہے اگر اُس کے خلاف چلو گے پھر وہ اللہ کی بندگی نہیں ہے

بندگی وہی ہے جو نقشِ قدم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چل کر ہو۔

سالک کے دل میں جو گناہوں کا طوفان ہوتاہے، تو جب وہ گناہوں کو تقاضوں کو مغلوب کردیتا ہے تو اُس کا طوفان بھی ساحل بن جاتا ہے۔

جب ہر گناہ سے بچنے لگے تو محبت کامل ہوجاتی ہے۔ یعنی پھر گناہوں سے مکمل حفاظت ہوجاتی ہے

اللہ کو چھوڑ کر جو غیر اللہ پر جان دیتا وہ اہل وفا نہیں ہے۔

آفتاب کو چھوڑ کر کوئی چراغ حاصل کرتا ہے تو وہ احمق ہے ۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ نے تمام عالم میں نشانیاں بکھیر دی۔۔۔۔۔۔ اُن کے ہوتے ہوئے اُن سے رہنمائی حاصل کرنا حماقت ہے۔

جو لوگ غیر اللہ سے دل لگاتے ہیں وہ چمگادڑ ہیں فانی حسن کے چراغوں پر جان دیتے ہیں اُن کی مانتا ہے اور خدا کی نہیں مانتا۔

جو بے حس اور دین سے دور تھے اُن کو حضرت والا نے اللہ کا دیوانہ بنادے۔

شیخ کی آنکھوں سے کیا ملتا ہے اسی کو خواجہ صاحب نے فرمایا ہے

بہت بہترین درد بھرے اشعار تصوف کے عنوانات کو سمودئیے یہ سب حضرت والا رحمہ اللہ کی برکت ہے

ملفوظات معارفِ ربانی

حصولِ ولایت کے تین نسخے: اِرشاد فرمایا کہ اﷲ کی ولایت ہمارے اکابر کی تحقیق میں تین عمل سے حاصل ہوتی ہے۔

(۱) صحبتِ صالحین: بہت سے لوگوں نے بہت عبادت کی لیکن صحبتِ نبی سے مشرف نہ ہونے سے صحابی نہ ہوسکے۔ صحابی وہ ہوئے جو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے صحبت یافتہ ہوئے تو اﷲ کا ولی بننے کا سب سے پہلا نسخہ ہے  یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اﷲَ اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو لیکن تقویٰ کے حصول کا طریقہ کیا ہے وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِِقِیْنَ یہاں صادقین معنی میں متقین کے ہے۔ صادق اور متقی دونوں میں نسبت تساوی ہے، قرآن پاک میں دونوں لفظ ایک ہی مفہوم میں استعمال کیے گئے ہیں اور یہ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کی تحقیق ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ معلوم ہوا کہ جو صادق ہے وہ متقی ہے اور جو متقی ہے وہ صادق ہے۔ اسی لیے ہمارے بزرگوں نے وَکُوْنُوْا مَعَ الصَّادِِقِیْنَ کا ترجمہ کُوْنُوْا مَعَ الْمُتَّقِیْنَ سے فرمایا ہے۔ یعنی اہلِ تقویٰ کی صحبت میں رہو تاکہ ان کے قلب کا تقویٰ تمہارے قلب میں منتقل ہوجائے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اﷲ والوں کے پاس کتنے دن رہو، اس کی کیا حد ہونی چاہیے؟ اﷲ جزائے خیر دے اس مفسر عظیم کو فرماتے ہیں اَیْ خَالِطُوْا ھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ یعنی اﷲ والوں کے ساتھ اتنا رہو کہ ان ہی جیسے ہوجاؤ یعنی گناہ سے بچنے میں، نظر بچانے میں، ان ہی جیسے ہوجاؤ۔ جیسے وہ گناہ سے بچتے ہیں ایسے ہی تم بھی بچنے لگو مثلاً راستہ چلتے وقت کوئی نامحرم لڑکی سامنے آگئی اب اگر وہ نظر بچاتا ہے تو بزرگوں کی صحبت کا اس کو صحیح انعام مل گیا اور یہ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ ہوگیا ، مثل شیخ کے اس کو تقویٰ حاصل ہوگیا۔

اﷲ والا بننے کی شرطِ اوّل اخلاص کے ساتھ اﷲ والوں کی صحبت ہے۔ دعا کرلیں کہ اے اﷲ! صرف آپ کے لیے اس اﷲ والے کی خدمت میں جارہا ہوں ان سے تو میرا کوئی خون کا رشتہ نہیں ہے، خاندانی رشتہ نہیں ہے، وہ میرا بزنس کا شریک نہیں ہے صرف آپ کے لیے جاتا ہوں آپ کی یہ نیت گھر سے نکلتے ہی آپ کے دل کو نور سے بھر دے گی۔

(۲) ذکر اﷲ کا التزام: اﷲ والوں سے تھوڑا سا روح کی طاقت کا خمیرہ لے لیجئے یعنی ذکر پوچھ لیجئے۔ اس کے لیے مرید ہونا بھی ضروری نہیں۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جو پیر یہ کہے کہ تم جب تک ہم سے مرید نہیں ہوگے ہم تم کو ذکر نہیں بتائیں گے وہ دنیادار پیر ہے۔ لہٰذا اﷲ والوں سے اپنے خالق اور مالک کا نام لینا سیکھ لیجئے، ذکر کی برکت سے دل میں ایک کیفیت پیدا ہوگی جس سے گناہوں سے مناسبت ختم ہوجائے گی۔ جیسے قطب نما کی سوئی میں تھوڑا سا مقناطیس کا مسالہ لگا ہے اس کو جس طرف بھی گھما ؤ وہ اپنا رُخ شمال کی طرف کرلیتا ہے۔ ذکر اﷲ کی برکت سے ہمارے دل کی سوئی میں نور کا ایک مسالہ لگ جائے گا پھر ساری دنیا کے گناہ آپ کو اپنی طرف دعوت دیں تو دل قطب نما کے سوئی کی طرح کانپنے لگے گا اور جب تک توبہ کرکے اپنا رُخ اﷲ کی طرف صحیح نہیں کرے گا ، بے چین رہے گا۔ ذکر کی برکت سے آپ کو ساری دنیا مل کر بھی گمراہ نہیں کرسکتی ان شاء اﷲ۔

(۳) گناہوں سے بچنے کا اہتمام : اور اﷲ والا بننے کا تیسرا نسخہ کیا ہے؟ گناہوں سے بچنے کا اہتمام۔ جو اسبابِ گناہ ہیں ان سے مکمل دوری اختیار کرو۔

تشریح میں فرمایا: یعنی ایسے ماحول میں جہاں گناہ ہوں، امرد بےریش لڑکوں ہوں وہاں نہ جائے اور نہ اُن سے ملاقات کرے، گناہوں کے اسباب سے بھی دور رہو۔

اس کی دلیل ہے  تِلْکَ حُدُوْدُ اﷲِ فَلاَ تَقْرَبُوْھَا جو اﷲ تعالیٰ کی حدود ہیں ان کے قریب بھی نہ رہنا۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے خالق ہیں ہماری کمزوریوں سے واقف ہیں کہ یہ عورتوں سے قریب رہے گا تو کب تک بچے گا ، اگر عورت کو پی اے رکھ لیا تو بغیر پیئے ہی پیئے رہے گا۔ لہٰذا اسبابِ گناہ سے بچنے کے لیے تھوڑی سی ہمت سے کام لینا پڑے گا، تھوڑا سا کم کھانا پڑے گا اس لیے کہ صحابہ کے پیٹ پر پتھر بندھے تھے ہمارے آپ کے پیٹ پر پتھر نہیں بندھے ہیں۔ اگر لڑکیوں کو نوکر رکھنے سے پچاس ہزار فرینک کماتے ہو تو تھوڑا سا کم کماؤ کیونکہ ان لڑکیوں سے مسلمانوں کا بھی ایمان خراب ہوگا اور تمہارا بھی۔ کیونکہ جب تنخواہ دوگے تو پھر شیطان پہنچے گا کہ تم تنخواہ دیتے ہو اور یہ تمہاری نوکر بھی ہے پھر کیوں نہ اس سے اور مزہ حاصل کرو۔ گمراہی کے وساوس آنے شروع ہوجائیں گے اور اگر آپ بچ بھی گئے کیونکہ آپ نے اﷲ والوں کی صحبت اٹھائی ہوئی ہے لیکن آئندہ آپ کی اولاد نہیں بچ سکتی۔ کل کو ہمارے نوجوان بچوں کے اخلاق ان کرسچین لڑکیوں کے ساتھ خراب ہوسکتے ہیں اس لیے اسبابِ گناہ سے خود بھی بچئے اور اپنی اولاد کو بھی بچائیے۔ جو شخص یہ تین کام کرلے گا ان شاء اﷲ تعالیٰ ولی اﷲ ہوجائے گا۔

تشریح میں فرمایا: ری یونین میں یہی مرض ہے کہ عورتوں کو ملازم رکھ لیتےہیں حضرت والا نے اُن لوگوں سے فرمایا کہ آپ نے تو اللہ والوں کی صحبت اُٹھائی ہیں لیکن آپ کی اولاد نہیں بچ سکے گی۔

اُردو کو جاری کیجئے: اب ایک اہم مشورہ دیتا ہوں کہ یہاں اردو کو جاری کیجئے۔ حضرت حکیم الامت مجددالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے جن لوگوں کو عشق و محبت اور عقیدت ہے تو حکیم الامت نے ہندوستان کے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ چونکہ ہمارے دین کا سارا ذخیرہ اردو میں ہے لہٰذا اپنے بچوں کو اردو پڑھاؤ تاکہ وہ دین کی کتابیں پڑھ سکیں۔ اور اس سے ان میں اور ہندوؤں میں فرق بھی رہے گا، جب وہ اردو بولے گا تو سمجھے گا کہ ہاں ہم ہندو نہیں ہیں۔ اسی طرح آپ اگر یہاں بچوں کو اردو پڑھائیں اور یہ جب آپس میں اردو بولیں گے تو ان کو احساس ہوگا کہ ہم میں اور کرسچین میں فرق ہے۔ زبان کا بھی فرق ہے کیونکہ کرسچین لڑکے آپس میں فرنچ بول رہے ہیں اور ہم اردو بول رہے ہیں جہاں ضرورت ہو وہاں فرنچ بولیے لیکن گھر میں اردو بولیے اور بچوں کو اردو سکھانا لازم کرلیجئے۔ اتنی اردو تو آجائے کہ اگر کوئی عالم آپ کے ملک میں آئے تو اس کی تقریر سمجھ سکیں، بہشتی زیور پڑھ سکیں اور دین کی کتابوں سے استفادہ کرسکیں۔ ہمارے دین کا سارا ذخیرہ اردو میں ہے، کہاں تک ترجمہ کروگے اور ترجمہ میں وہ بات نہیں آسکتی اس لیے عرض کررہا ہوں کہ اپنے دینی مدارس میں اردو کو لازم کرلیں۔ حکیم الامت پر اعتماد رکھئے ان شاء اﷲآپ گھاٹے میں نہیں رہیں گے۔ آپ کی آئندہ نسل گمراہ ہونے سے بچ جائے گی ورنہ  مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ الخ کی آیت دیکھ لیجئے جنہوں نے یہود و نصاریٰ سے موالات یعنی دوستی کی وہی لوگ دین سے مرتد ہوئے :

{فَاِنَّ مُوَالاَتِ الْیَھُوْدِ وَالنَّصَارٰی تُوْرِثُ الْاِرْتِدَادَ}

روح المعانی کی عبارت پیش کررہا ہوں کہ صحابہ کے زمانہ میں جن لوگوں نے یہود و نصاریٰ سے ربط و ضبط رکھا وہی لوگ مرتد ہوئے۔ ان شاء اﷲ ہمارے دین کی حفاظت، ہماری تہذیب، ہماری ثقافت، ہمارا کلچر، ہمارا معاشرہ اردو کی برکت سے محفوظ ہوجائے گا اور بہتر تو یہ ہے کہ عربی بھی پڑھائیے، عربی اور اردو دونوں زبانیں اپنے بچوں کے لیے لازم کر دیجئے۔

تشریح میں فرمایا: کیونکہ وہاں لوگ اردو نہیں سمجھتے اِس لئے حضرت والا نے اُن کو خصوصی ہدایت دی اُس کے بعد کئی لوگوں نے اردو سیکھنی شروع کردی۔ دین کا بہت بڑا ذخیرہ اردو میں ہے اور اب پاکستان میں اردو کو انگریزی کے انداز میں بولتے ہیں۔

دعوت الیٰ اﷲ کے لیے کیا کرنا چاہیے؟: اسی مجلس میں فرمایا کہ میں کوئی مضمون پہلے سے نہیں سوچتا صرف دعا کرتا ہوں۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا تھا کہ تقریر یا وعظ سے پہلے دو رکعت حاجت پڑھو اور سات مرتبہ یہ پڑھو:

{رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ}

اور یہ اسم اعظم بھی بتایا تھا:

{اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ اَنْتَ اﷲُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ الْاَحَدُ الصَّمَدُالَّذِیْ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدُٗ }

حدیث شریف میں ہے کہ جو کوئی اس کو پڑھ کر دعا کرے گا اﷲ تعالیٰ اس کی دعا کو رد نہیں فرمائیں گے۔ فرمایا کہ اس کے بعد دعا کرے کہ یااﷲ اپنے نام کی برکت سے اور ہمارے ان بزرگوں کے صدقہ میں جن کا ہم نے دامن پکڑا ہے وہ مضامین بیان کرادیجئے جو آپ کے بندوں کے لیے مفید ہوں۔ اس لیے دعا کرکے بیٹھتا ہوں کہ اے اﷲ! میرے دل و جان کو اور آپ کے دل و جان کو اﷲ اپنی ذاتِ پاک سے ایسا چپکا لیںکہ ساری دنیا کے حسین ، ری یونین کی کرسچین لڑکیاں، بادشاہت اور سلطنت و تجارت کوئی چیز بھی ہمیں آپ سے ایک اعشاریہ الگ نہ کرسکے۔

ﷲ کی بندگی کا طریقہ: اِرشاد فرمایا کہ دیکھو!بچہ اپنی ماں سے چپٹا ہوتا ہے اور کوئی اس کو ماں سے کھینچنے لگے تو بچہ کیا کرتا ہے؟ ماں سے اور زیادہ لپٹ جاتا ہے میں آپ کو اﷲ کی بندگی سکھا رہا ہوں خدائے تعالیٰ اپنی رحمت سے قبول فرمائے۔ بچہ ماں کی گود میں ہوتا ہے لیکن جب دیکھتا ہے کہ کوئی اِدھر سے کھینچ رہا ہے کوئی اُدھر سے کھینچ رہا ہے تو ماں کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اور زور سے لپٹ جاتا ہے۔ بازاروں میں اﷲ کو زیادہ یاد کروکہ وہاں اﷲ سے دور کھینچنے والے اسباب زیادہ ہیں لہٰذا اﷲ میاں سے اور زیادہ چمٹ جاؤ   فَانْتَشِرُوْا فِیْ الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اﷲِ کے بعد وَاذْکُرُوا اﷲَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ہے جس سے معلوم ہوا کہ بازاروں میں جہاں اﷲ سے غفلت کے اسباب زیادہ ہیں اﷲ کو زیادہ یاد کرو تاکہ تمہیں کوئی اﷲ سے جدا نہ کرسکے۔ جس طرح بچہ کو اگر کوئی اور زیادہ طاقت سے کھینچنا شروع کردے تو بچہ ڈرتا ہے کہ یہ تو اب مجھے لے ہی جائے گا، اماں سے جدا کردے گا تو اماں سے کہتا ہے کہ اماں اب مجھے بچاؤ، مجھ میں آپ سے لپٹنے کی جو طاقت تھی، میں نے پوری خرچ کردی، اپنے دونوں ہاتھ آپ کی گردن میں ڈال دئیے اور پوری طرح میں آپ سے چپک گیا ہوں لیکن جو غنڈا مجھے کھینچ رہا ہے اس کی طاقت اب اتنی زیادہ ہے کہ میرے ہاتھ اب آپ کے دامن سے اور آپ کی گردن سے الگ ہوجائیں گے لہٰذا اب آپ مجھے بچایئے۔ اسی طرح جب تک آپ کی ہمت ہے ہمت استعمال کریں، جب دیکھیں کہ اب شیطان و نفس نے بہت زوروں سے دبا لیا اور گناہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تو اپنے اﷲ سے رونا شروع کردیجئے کہ یارب العالمین میری جتنی طاقت تھی، میں نے استعمال کرلی۔ اب ہم بچ نہیں سکتے اب آپ ہی اپنی مدد بھیج دیجئے جیسے بچہ ماں سے کہتا ہے کہ اب آپ مجھے لپٹا لیجئے تو پھر ماں اس کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سینہ سے چپکا لیتی ہے اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ اپنی ٹھوڑی کو اس کے سر پر رکھ دیتی ہے اور پھر آخر میں دوپٹے سے اس کو چھپا لیتی ہے تاکہ کوئی ظالم دیکھے ہی نہیں۔ یہ ہے غَشِیَتْھُمُ الرَّحْمَۃُ  اﷲ کی رحمت بھی ایسے ہی ڈھانپ لیتی ہے جب بندہ ان کو یاد کرتا ہے۔ جب آپ دو رکعت پڑھ کر اﷲ سے روئیں گے اور حفاظت مانگیں گے کہ اے خدا! میری جان کو، میرے جسم کو ہر نافرمانی سے بچایئے تو اﷲ تعالیٰ کی مدد آجائے گی ان شاء اﷲ۔

کمالِ عشق تو مرمر کے جینا ہے نہ مرجانا: اِرشاد فرمایا کہ دنیا میں رہ کر اﷲ والا رہنا ہی تو کمال ہے ورنہ جنگل میں جاکر فقیری لینا رہبانیت ہے جو اسلام میں حرام ہے کیونکہ یہ کوئی کمال نہیں کہ جنگل میں یا سمندر کے کنارے جاکر پڑ جانا جہاں کوئی عورت ہی نہیں صرف گھاس اور پیڑ ہوں تو کس چیز سے نظر بچاؤگے یہ کوئی کمالِ ایمان نہیں ہے۔ کمالِ ایمان تو یہ ہے کہ مخلوق میں رہو ، تعلقات کی کثرت پر اﷲ کی محبت غالب رہے   ؎

کمالِ عشق تو مر مر کے جینا ہے نہ  مر جانا
ابھی اس راز سے واقف نہیں ہیں ہائے پروانے

اﷲ والے مر مر کے جی رہے ہیں اور جی جی کے مر رہے ہیں۔ ایک صاحب نے پوچھا کیسا مزاج ہے میں نے کہا   ؎

کمالِ عشق تو مر مر کے جینا ہے نہ  مر جانا

تشریح میں فرمایا: رہبانیت اسلام میں نہیں ہے، بیوی بچوں میں رہوں اُن کے حقوق ادا کرو، یہی کمال ہے کہ دنیا کے مشغلوں میں رہ کر اللہ کو نہ بھولو، بس چاہے آسمان پہ جھولو اللہ کو بہ بھولو!

کیا ہم بھی تارکِ سلطنتِ بلخ کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں ؟: اِرشاد فرمایا کہ ہم آپ اپنی معمولی حیثیت کے باوجود سلطان ابراہیم بن ادھم کا مقام حاصل کرسکتے ہیں جبکہ ہمارے آپ کے پاس سلطنتِ بلخ نہیں۔

غیر سلطنت والوں کو سلطان ابراہیم بن ادھم کا ترکِ سلطنت کا درجہ حاصل کرنے کا نسخہ آج بتانا چاہتا ہوں۔ مان لیجئے سڑکوں پر جاتے ہوئے اچانک بغیر ارادے کے کسی حسین لڑکی یا لڑکے پر نظر پڑگئی اور اس کی صورت آپ کو اتنی پیاری معلوم ہوئی کہ اس کے انتہائی حسن و جمال نے آپ کے دل کو پاگل کردیا اور اس کے حسن سے سر سے پیر تک بجلی گر گئی اور دل میں یہ حسرت پیدا ہوئی کہ کاش میں اس کو حاصل کرلیتا اگر میرے پاس سلطنت بلخ ہوتی اور میں سلطانِ بلخ ہوتا تو سلطنت کے بدلہ میں اس کو حاصل کرلیتا۔ جیسے ایک شخص نے اپنے معشوق سے کہا   ؎

اگر اے ترکِ شیرازی بدست آری دلِ ما را
بخالِ  ہندوت  بخشم  سمرقند  و  بخارا  را

اے شیراز کے معشوق!اگر تو میرے دل کو خوش کردے تو تیرے چہرہ کے ایک تل کے بدلہ میں میں سمرقند و بخارا دے دوں گا۔ اس وقت کے بادشاہ نے اس شخص کو گرفتار کرا لیا کہ میں نے سمرقند اور بخارا بڑی محنت سے حاصل کیا ہے ہزاروں شہادتیں ہوئی ہیں اور تو اپنے معشوق کے تل پر مفت میں دے رہا ہے جیسے ایک شخص ایک حلوائی کی دکان پر گیا جیب میں ایک پیسہ بھی نہیں تھا لیکن دکان پر جاکر اس نے ہاتھ اُٹھائے کہ اے خدا! اس حلوائی کی دکان پر جتنی مٹھائی ہے سب کا ثواب میرے دادا کو پہنچے، جب سے یہ مثل مشہور ہوگئی کہ حلوائی کی دوکان پر دادا جی کی فاتحہ۔

لیکن اس حسنِ مجازی کی فنائیت دیکھئے کہ جب اس معشوق کی عمر زیادہ ہوگئی، دانت منہ سے غائب ہوگئے، گال پچک گئے، آنکھوں پر گیارہ نمبر کا چشمہ لگ گیااور تمام اعضاء بگڑگئے، اس وقت اس معشوق نے سوچا کہ چلو آج اپنے عاشق سے سمرقند و بخارا لے آئیں کیونکہ آج کل غریبی بھی ہے اور قرضہ بھی لد گیا ہے لہٰذا اس عاشق کے پاس چلو جو سمرقند و بخارا دے رہا تھا۔ میں اس سے کہوں گا کہ بھائی تو دونوں نہ دے تو سمرقند ہی دے دے یا سمرقند نہ دے تو بخارا ہی دے دے۔کیونکہ اس وقت میرا حسن زیادہ تھا تو دو ملک دے رہا تھا اب ایک ہی دے دے۔ جب اس نے جاکر یہ کہا کہ آپ دونوں ملکوں کے بجائے صرف ایک دے دیں کیونکہ میں مقروض ہوگیا ہوں تو اس نے کہا کہ تمہارے حسن کا جغرافیہ ہی بدل گیا ہے لہٰذا اب میرے عشق کی تاریخ بھی بدل گئی؎

اُدھر جغرافیہ  بدلا  اِدھر  تاریخ  بھی  بدلی
نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری مسٹری باقی

لہٰذا اب نہ میں سمرقند دے سکتا ہوں نہ بخارا۔ اس نے کہا کہ اچھا اگر آپ سمرقند و بخارا نہیں دے سکتے تو آلوبخارا ہی دے دیجئے، سوچا کہ کچھ تو لے کر جاؤں تو اس نے کہا کہ اب آلوبخارا بھی نہیں دوں گا کیونکہ تجھے دیکھ کر تو مجھے بخار آرہا ہے، تیرے حسنِ عارضی کی وجہ سے میری جماعت کی نمازیں بھی گئیں ، تیرے حسن پر شعر کہتے کہتے میرے اوقات ضائع ہوگئے، اگر میں اس جوانی کو تقویٰ میں گذارتا تو عرشِ اعظم کا سایہ ملتا۔ بخاری شریف کی حدیث ہے:

{شَاب اَفْنٰی شَبَابَہٗ وَنَشَاطَہٗ فِیْ عِبَادَۃِ رَبِّہٖ}
(صحیحُ البخاری،کتابُ الاذان،باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوٰۃ،ج:۱،ص:۹۱)

وہ جوان جس نے اپنی جوانی کو اﷲ پر فدا کردیا اس کو اﷲ قیامت کے دن عرش کا سایہ عطا فرمائے گا جس دن اس سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔

یہ بات تو درمیان میں آگئی۔ میں عرض کررہا تھاکہ کوئی ایسی شکل انسان کی زندگی میں نظر سے گذرے کہ دل تڑپ جائے کہ کاش سلطنتِ بلخ ہوتی تو اس سلطنت کو دے کر میں اس لڑکی سے شادی کرلیتا لیکن سلطنت ہے نہیں لہٰذا اب حرام کی لذت حاصل نہیں کروں گا، نہ دیکھوں گا، نہ اس کی باتیں سنوں گا، نہ اس سے گپ شپ لڑاؤں گا، نہ اس کو خط لکھوں گا، کسی درجہ میں ایک اعشاریہ بھی میں حرام لذت استیراد (درآمد) نہیں کروں گا۔یہ محرمات مسروقہ مستوردہ واجب الاستغفار ہیں۔ لہٰذا بجائے اس کو دیکھنے کے اس نے آسمان کی طرف دیکھا کہ اے خدا! اگر سلطنتِ بلخ ہوتی تو اس سلطنت کے بدلہ میں اس سے نکاح کرلیتا لیکن میں آپ کے خوف سے اس صورت سے اپنی نظر کو بچارہا ہوں جو میرے قلب میں متبادلِ سلطنتِ بلخ ہے۔ علماء حضرات سے پوچھتا ہوں کہ آپ ذرا اس مضمون کو غور سے سنئے اور بتائیے کہ اس شخص نے اﷲ کے راستہ میں سلطنتِ بلخ دے دی یا نہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ یہ شخص حشر کے میدان میں ان شاء اﷲ سلطان ابراہیم ادھم کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ غریبوں اور مفلسوں کو سلطانِ بلخ کا مقام حاصل کرنے کا یہ نسخہ اﷲ تعالیٰ نے میرے دل کو عطا فرمایا۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جو لوگ مجاہدہ کررہے ہیں، اپنی آنکھوں کی حفاظت کررہے ہیں، خونِ تمنا پی رہے ہیں، وہ شہیدوں کے ساتھ اُٹھائے جائیں گے کیونکہ یہ شہادتِ باطنی ہے، اندر اندر ان کے دل کا خون ہوا ہے۔ جو لوگ نظر بچاتے ہیں ان سے پوچھئے کہ دل پر کیا گذرتی ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries