مجلس۲۷ اپریل۲۰۱۴ء اکرامِ کافر کُفر ہے!!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی اپنے کمرۂ مبارک سے باہر تشریف لائے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا، نشست پر تشریف فرما ہوئے۔۔۔ اور مولانا ابراہیم کشمیری صاحب سے اشعار سنانے کو فرمایا انہوں نے حضرت والا محبی و محبوبی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنانے شروع کیے۔ انہوں نے بہت ہی پرسوز آواز میں درد سے یہ اشعار پڑھے کہ کیف و مستی کی کیفیت چھا گئی۔ اس کے بعد حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات جناب ممتاز صاحب نے کتاب معارفِ ربانی سے پڑھ کر سنانے ساتھ ساتھ حضرت والا تشریحات بھی فرماتے رہے۔ آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً ا گھنٹے ۱۰ منٹ پر مشتمل تھی

ملفوظاتِ معارفِ ربانی

مناسبت نہ ہو تو دوسرے شیخ سے تعلق کرنا چاہیے: مجلس کے بعد حضرت والا اپنے کمرہ میں تشریف لے گئے۔ ایک صاحب نے عرض کیا کہ اگر جلدی میں کسی شیخ سے بیعت ہوجائے اور مناسبت نہ ہو، بعد میں کسی دوسرے شیخ سے مناسبت معلوم ہو تو کیا کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ اس راستہ میں نفع مناسبت پر موقوف ہے اور بدونِ مناسبت کے اس سے نفع نہیں پہنچ سکتا اور یہ اﷲ تک نہیں پہنچ سکتا لہٰذا فوراً اس شیخ سے تعلق قائم کرے جس سے مناسبت ہے کیونکہ شیخ مقصود نہیں اﷲ مقصود ہے لہٰذا شیخ بدل دے لیکن شیخِ سابق کو اطلاع نہ کرے کیونکہ اس سے اس کو تکلیف ہوگی حسبِ سابق اس کی خدمت میں آنا جانا رکھے، دعا بھی کرائے، خدمت بھی کرے لیکن اصلاح کا تعلق نہ رکھے۔ اصلاح وہیں کرائے جہاں مناسبت ہے۔

سارا دن بیان اور ملاقاتوں سے حضرت اقدس دامت برکاتہم تھک گئے تھے۔ قبیلِ مغرب میزبان حضرات سیر کے لیے حضرت والا کو کار سے سینٹ پئیر کے قریب سمندر کے اس کنارے پر لے گئے جہاں پہاڑ نما دیوار کے نیچے سمندر کا ساحل ہے۔ ساحل سے ذرا آگے ایک بہت بڑی چٹان مثل قالین کے سمندر کے اندر بچھی ہوئی ہے اور سفید جھاگ اڑاتی ہوئی سمندر کی موجیں جب اس کے اوپر سے گذرتی ہیں تو پوری چٹان ایک لمحہ کے لیے موجوں کے پانی میں چھپ کر پھر ظاہر ہوجاتی ہے، یہ منظر عجیب دلفریب ہوتا ہے۔ سامنے سورج ڈوب رہا تھا اور سورج کی سنہرے رنگ کی ٹکیہ ایسے معلوم ہورہی تھی کہ سمندر میں غرق ہورہی ہے   ؎

قرصِ خورشید در سیاہی شد
یونس  اندر  دہان  ماہی  شد

ترجمہ: سورج کا دائرہ تاریکی میں ڈوب گیا جس طرح حضرت یونس علیہ السلام کا آفتابِ نبوت مچھلی کے  بطن میں پوشیدہ ہوگیا تھا۔

حق تعالیٰ کی قدرتِ قاہرہ اور شانِ خلاّقیت میں تفکر: غروب کے بعد مغرب کی اذان دی گئی اور ہم لوگوں نے سمندر کے کنارے باجماعت نماز ادا کی۔ نمازسے فارغ ہونے تک سمندر کے اوپر آسمان پر تارے بکھر چکے تھے اور چاند بھی نکل آیا تھا۔ حضرت والا نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کی خلاقیت میں غور کرو کہ چوبیس ہزار میل کا یہ دنیا کا دائرہ اور آٹھ ہزار میل اس کا قطر جس میں سمندر اور پہاڑ اور انسان سب لدے ہوئے ہیں بغیر تھونی کھمبے اور بغیر ستون کے فضاؤں میں معلق پڑا ہوا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کو اپنی قدرت سے قائم کیے ہوئے ہیں اور چاند سورج اور بے شمار دوسرے سیارے جو اپنے حجم اور طول و عرض میں زمین سے کئی کئی گنا زیادہ ہیں سب یوں ہی فضاؤں میں تیر رہے ہیں وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ حق تعالیٰ کی اس قدرتِ قاہرہ اور شانِ خلاقیت کو سوچو اور پھر اﷲ کا نام محبت سے لو۔ ایک تسبیح ذکر نفی و اثبات اور ایک تسبیح اﷲ اﷲ کریں اور آخر میں دعا کرلیں کہ اس سارے نظامِ شمسی، نظامِ قمری اور نظامِ ارضی کو آپ نے اپنی صفتِ قیومیت سے تھاما ہوا ہے اور میرا دل تو ایک چھٹانک کا ہے اس کو اپنی صفتِ قیومیت کے صدقہ میں دین پر استقامت عطاء فرمادیجئے۔ اس کو سنبھالنا آپ کے لیے کیا مشکل ہے جبکہ زمین و آسمان کو اور تمام ستاروں کو آپ نے سنبھالا ہوا ہے۔ اس کے بعد حضرت والا کے ساتھ ہم سب لوگوں نے اس بلند ساحل پر جہاں سے سمندر نظر آرہا تھا ذکر کیا۔ آخر میں حضرت والا نے دعا کرائی کہ اے خلاق عظیم! پوری دنیا کو مع اس سمندر کے پانی کے اور پہاڑوں کے آپ نے بغیر ستونوں کے تھاما ہوا ہے، ہم اگر ایک چھت بناتے ہیں تو انجینئر بتاتا ہے کہ اتنا لوہا اتنی سیمنٹ اور اتنا میٹیریل لگے گا ورنہ چھت بیٹھ جائے گی لیکن آپ نے بے شمار پانی اور پہاڑ زمین پر پیدا فرمادئیے اور زمین معلق پڑی ہوئی ہے ، کبھی نہ بیٹھی اور آپ کے یہ سورج چاند اور تارے دنیا سے بھی بڑے بڑے ہیں اور سب بغیر کسی سہارے کے قائم ہیں۔ اے اﷲ! جب اتنی زبردست آپ کی طاقت ہے تو ہم ضعیف بندے آپ کی اس مخلوق کے سامنے مچھر کے پر کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہیں، ہماری اصلاح آپ پر کیا مشکل ہے ، ہم سب کو صاحبِ نسبت بنادیجئے۔ اے خالقِ شمس و قمر! اے خالقِ نجوم! اے خالقِ ارض و سماء! اے خالقِ بحار والجبال! آپ کی یہ مخلوق عظیم ہے، ہمارا دل ان کے مقابلہ میں کیا ہے، اس کو سنبھالنا آپ کے لیے کیا مشکل ہے، اس کو اﷲ والا دل بنادیجئے۔ دعا کے بعد عشا سے قبل سب لوگ خانقاہ کے لیے روانہ ہوگئے۔

کُفار سے موالات و محبت سببِ اِرتداد ہے: ﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَالنَّصَارٰی اَوْلِیَاء (سورۃ المائدۃ،اٰیۃ:۵۱)

اے ایمان والو! یہودیوں اور عیسائیوں کو دوست مت بنانا۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی کرنے کو منع فرمایا ہے اور اس کے بعد فوراً یہ آیت نازل فرمائی:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَأْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ (سورۃ المائدۃ،اٰیۃ:۵۴)

جس میں مرتدین کا تذکرہ ہے اور یہ دلیل ہے کہ: اِنَّ مُوَالاَتِ الْیَھُوْدِ وَ النَّصَارٰی تُوْرِثُ الْاِرْتِدَادَ یعنی یہود و نصاریٰ کے ساتھ دوستی اِرتداد کا سبب ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے پہلے پیش بندی اور روک تھام فرمادی کہ دیکھو! میرے دشمنوں سے دوستی مت کرنا، ان سے معاملات جائز لیکن موالات حرام ہے یعنی اپنے قلب کو ان کے قلب سے قریب نہ کرنا ورنہ ان کے قلب کا کفر تمہارے قلب میں آجائے گا۔ جس تالاب میں مچھلی نہ ہو لیکن کسی مچھلی والے تالاب سے اس کا رابطہ ہوجائے تو ساری مچھلیاں اس میں منتقل ہوجائیں گی۔ اسی طرح اگر یہود و نصاریٰ سے تم نے اپنا دل قریب کیا تو ان کے کفر کی مچھلیاں تمہارے دل کے تالاب میں آجائیں گی۔ لہٰذا تم ان سے معاملات تو کرسکتے ہو لیکن ان کے ساتھ موالات یعنی محبت و دوستی حرام ہے اور معاملات کیا ہیں؟ تجارتی لین دین، خرید و فروخت وغیرہ۔ آپ فرانس جاکر کافروں سے مال خرید سکتے ہیں لیکن دل میں ان کی محبت و اکرام نہ آنے پائے۔ ایسا نہ ہو کہ دلی اکرام کے ساتھ ان کو گڈمارننگ اور سلام کرلو۔ ان کی عزت دل میں آئی کہ کفر ہوا: مَنْ سَلَّمَ الْکَافِرَ تَبْجِیْلاً لاَ شَکَّ فِیْ کُفْرِہٖ

اگرکسی نے کافر کو اِکرام کے ساتھ سلام کرلیا تو وہ بھی کافر ہوجائے گا کیونکہ اﷲ کے دشمن کا اِکرام کررہا ہے۔ ہمارے حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس ایک ہندو ڈاکیہ آتا تھا اور جب سلام کرتا تھا کہ مولوی صاحب آداب عرض تو حضرت فرماتے تھے آـ۔۔۔۔۔۔۔۔ داب اور میرے کان میں فرماتے تھے کہ میں یہ نیت کرتا ہوں کہ آ اور میرا پیر داب۔ فرمایا کہ یہ اس لیے کرتا ہوں تاکہ کسی کافر کا اکرام لازم نہ آئے۔ غرض کافر کا اکرام دل میں نہ ہو اور تحقیر بھی نہ ہو کیونکہ کافر کے کفر سے تو بغض واجب ہے لیکن کافر کی تحقیر حرام ہے کیونکہ معلوم نہیں کہ کس کا خاتمہ کیسا ہونے والا ہے لہٰذا اگر کسی کافر کو دیکھو تو یہ پڑھ لیا کرو:

اَلْحَمْدُ ﷲِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا بْتَلاَ کَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلاً (سننُ الترمذی،کتابُ الدعوات،باب ما یقول اذا رأی مبتلی)

اس میں آپ تحقیر سے بچ جائیں گے کیونکہ زبان و دل سے شکر نکل گیا اور شکر اور کبر جمع نہیں ہوسکتے۔

تشریح میں فرمایا: حضرت نے فرمایا کہ شکر اور تکبر جمع نہیں ہوسکتے، اور تکبر کے معنی ہیں اپنے کو اچھا سمجھنا اور صرف اپنے کو اچھا سمجھنا کہ میرے اندر بڑی خوبیاں ہیں، اللہ تعالیٰ کی ذات پر نظر نہ ہو بلکہ اپنا کمال سمجھے یہ عُجب ہے اور دونوں حرام ہے

تو حضرت نے فرمایا کہ شکر اور کبر جمع نہیں ہوسکتے تو اس لئے شکر کرے کہ یا اللہ آپ نے ہمیں یہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں تو جب اُس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کردی اور شکر پیدا ہوگیا اور عجب اور کبر اس کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتا۔ تو جو خیال تکبر اور عجب کا آیا تو یہ خیال یہ دھیان سے شکر بن جائے گا

عہدِ نبوت کے تین مرتدین: حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں تین آدمی مُرتَد ہوگئے تھے، اُن میں سے ایک یمن میں تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ وہ جادوگر تھا اور شہر میں غالب ہوگیا تھا اور حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے جو عمّال وہاں زکوٰۃ وغیرہ کے لیے مقرر تھے اس نے ان کا وہاں سے اِخراج کردیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے والی یمن حضرت معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مطلع فرمادیا کہ اس خبیث مرتد کو ہلاک کردیا جائے اور حضرت فیروز دیلمی کے ہاتھوں اﷲ نے اس کو ہلاک کردیا۔

حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کے نام مسیلمہ کذاب کا خط: اس کے بعد مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اس خبیث نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خط لکھا اور ذرا مضمون دیکھئے کہ کیسا خط لکھا؟ مضمون ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے۔ مِنْ مُّسَیْلَمَۃَ رَسُوْلِ اﷲِ بسم ﷲ وغیرہ کچھ نہیں، ظالم اصلی نبی تو تھا نہیں بناؤٹی تھا تو اس کو کہاں سے آدابِ رسالت آتے، آدابِ رسالت تو اس کو آتے ہیں جو اﷲ کا سچا رسول ہو لہٰذا اس ظالم نے بسم اﷲ شریف بھی نہیں لکھی مِنْ مُّسَیْلَمَۃَ رَسُوْلِ ﷲِ اِلٰی مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ مسیلمہ رسول اﷲ یعنی مسیلمہ کذاب کی طرف سے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم کو۔ خود کو بھی رسول ﷲ لکھ رہا ہے اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو بھی رسول مان رہا ہے۔ پھر لکھتا ہے سَلامٌ عَلَيْكَ ، أَمَّا بَعْدُ ، فَإِنِّي قَدْ أُشْرِكْتُ فِي الأَمْرِ مَعَكَ  آپ پر سلام ہو اور میں شریک ہوں آپ کے ساتھ آپ کی نبوت میں یعنی آدھی نبوت میری آدھی آپ کی وَاِنَّ لَنَا نِصْفَ الْاَرْضِ اور میں عرب کی آدھی زمین کا مالک ہوں وَلِقُرَیْشِ نِصْفُ الْاَرْضِ اور آدھی زمین قریش کی ہے یعنی آدھی زمین آپ لے لیں آدھی میں لے لوں، پچاس پچاس فیصد تقسیم کرلیں وَلَكِنَّ قُرَيْشًا قَوْمٌ يَعْتَدُونَ لیکن قریش ظالم ہیں میرا حصہ نہیں لگا رہے ہیں۔

مسیلمہ کذاب نے اپنا یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ بھیجا تھا جنہوں نے یہ خط حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پیش کیا فَحِیْنَ قَرَأَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ کِتَابَہٗ جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسیلمہ کذاب کا مکتوب پڑھا تو فرمایا فَمَا تَقُوْلاَنِ اَنْتُمَا اے دونوں قاصدو! تمہارا کیا عقیدہ ہے مسیلمہ کے بارے میں قَالاَ نَقُوْلُ کَمَا قَالَ کہا کہ اس نے جو دعویٰ کیا ہے ہم بھی اس کو مانتے ہیں فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَمَّا وَاﷲِ لَوْلاَ اَنَّ الرُّسُلَ لاَ تُقْتَلُ لَضَرَبْتُ اَعْنَاقَکُمَا خدا کی قسم اگر بین الاقوامی قانون نہ ہوتا کہ قاصدوں اور سفیروں کو قتل نہ کیا جائے توہم تمہاری گردن اڑا دیتے۔

سیدالانبیاء ا  کا نامۂ مبارک مسیلمہ کذاب کے نام: ثُمَّ کَتَبَ اِلَیْہٖ پھر سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم نے مسیلمہ کذاب کو خط لکھا اور کیسے لکھا؟ دیکھئے! اصلی نبی کا خط۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے لکھا بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سنئے! اصلی نبی کا کلام سبحان اﷲ! اﷲ کے نام سے شروع کرتا ہوں مِنْ مُّحَمَّدٍ رَّسُوْلِ ﷲِ یہ خط جارہا ہے محمد رسول اﷲ کی طرف سے اِلٰی مُسَیْلَمَۃَ الْکَذَّابِ مسیلمہ کی طرف جو انتہائی جھوٹا ہے۔ اَلسَّلاَ مُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی میرا سلام کسی کافر کو نہیں پہنچ سکتا، میرا سلام مشروط ہے کہ جو اﷲ کی ہدایت کو قبول کرے اس کو میرا سلام ہے اور جو ہدایت کو قبول نہ کرے اس کو نبی سلام نہیں کرسکتا۔ یہ ہے اصلی نبی کی شان۔  ایک وہ جھوٹا نبی تھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو سلام کررہا ہے کہ کسی طرح آدھی زمین مجھ کو مل جائے اور ایک سچے نبی کی شان ہے کہ آپ نے اس کی جھوٹی نبوت کی تکذیب فرما دی اور اس کو سلام بھی نہیں کیا اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اَمَّا بَعْدُ فَاِنَّ الْاَرْضَ ِﷲِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ساری زمین اﷲ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور انجام متقیوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ 

تقریباً ۳۱ منٹ پر تشریح میں فرمایا: حضرت والا جب ری یونین تشریف لے گئے تھے وہاں کے ایک غیر مسلم وزیر نے حضرت والا سے ملاقات کی اجازت مانگی، حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے اُس کو لے آؤ مگر حضرت والا نے فرمایا کہ بھئی جب وہ آئے گا تو مجھے کھڑا ہونا پڑے گا اور اِس سے کافر کا اکرام لازم آتا ہے اس لئے ایسا کرو کہ اس کو ڈرائنگ روم میں بیٹھا دو، تو جب میں آؤں گا تو اُسے کھڑا ہونا پڑے گا مجھے کھڑا نہیں ہونا پڑے گا۔

اس لئے کہ جس نے کسی کافر کو اکرام سے سلام کردیا تو وہ خود کافر ہوگیا اُس کے کفر میں کوئی شک نہیں۔ تو ہمارے بزرگ اِن چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے اور یہ بظاہر تو چھوٹی چھوٹی سے باتیں ہیں لیکن  ایمان کی بنیادیں ہیں؎

بظاہر تو ہیں چھوٹی چھوٹی سی باتیں

جہاں  سوز  لیکن  یہ  چنگاریاں   ہیں

حضرت وحشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں مسیلمہ کذاب کا قتل: یہ واقعہ ۱۰ ہجری کا ہے۔ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اس سے جہاد کیا اور حضرت وحشی رضی اﷲ عنہ کے ہاتھوں سے قتل ہوا اور اس کے قتل کے بعد حضرت وحشی رضی ﷲ عنہ نے اﷲ کا شکر ادا کیا  قَتَلْتُ فِیْ جَاھِلِیَّتیِ خَیْرَ النَّاسِ زمانۂ جاہلیت میں میں نے ایک جرمِ عظیم کیا تھا کہ ایک بہترین انسان سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کو قتل کیا تھا اوروَقَتَلْتُ فِیْ اِسْلاَمِیْ شَرَّ النَّاسِ لیکن میرے اﷲ نے میری عزت افزائی کی اور میری رسوائی کا داغ دھو دیا کہ زمانۂ اسلام میں میں نے دنیا کے بدترین انسان کو قتل کیا۔ دیکھو کسی کے بیٹے سے کوئی غلطی ہوجائے تو ابا رات دن روتا ہے کہ اﷲ میرے بیٹے کی عزت بحال کردے تاکہ مخلوق میں جو اس کی رُسوائی ہوئی ہے اس کی تلافی ہوجائے تو اﷲ کی رحمت نے حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تاریخِ سیاہ کو تاریخِ روشن سے تبدیل کردیا۔ کتنے جلیل القدر صحابہ اس وقت موجود تھے۔ کیا کسی اور صحابی سے اﷲ مسیلمہ کذاب کو قتل نہیں کراسکتے تھے ؟ لیکن یہ عزت اور یہ شرف اﷲ تعالیٰ نے حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا تاکہ ان کے ماضی کے جرم کی تلافی ہوجائے۔ آہ! ہم لوگوں کو اپنے اﷲ پر مرجانا چاہیے۔ اﷲ کے بے شمار احسانات پر اگر ہم بے شمار جانیں فدا کردیں تو بھی ان کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔

مقامِ محبت: ارشاد فرمایا کہ محبت کا مقام عظیم الشان ہے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:

مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہِ فَسَوْفَ یَأْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ  یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ
(سورۃُ المائدۃ، اٰیۃ: ۵۴)

جو تم میں سے مرتد ہوجائے گا دین سے پھر جائے گا اﷲ تعالیٰ ان بے وفاؤں کے مقابلہ میں ایک قوم پیدا کریں گے جس کی شان کیا ہوگی یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ  ان سے اﷲ محبت کرے گا اور وہ اﷲ سے محبت کریں گے۔ یعنی یہ اﷲ کے عاشقوں کی قوم ہوگی۔ مرتدین کے مقابلہ میں اﷲ اہلِ محبت کو لارہے ہیں۔ اس کے متعلق علماء محققین کی رائے ہے کہ اہلِ محبت کبھی مرتد نہیں ہوسکتے کیونکہ مقابلہ میں جو چیز لائی جاتی ہے وہ اس کی ضد ہوتی ہے لہٰذا بے وفاؤں اور غداروں کے مقابلہ میں اﷲ اہلِ محبت کو لا رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ وہ قوم ہے جو ضد ہے بے وفاؤں کی، غداروں کی، مرتدین کی، اس لیے یہ کبھی مرتد نہیں ہوسکتی۔ مرتدین کے مقابلہ میں اگر اہلِ محبت بھی مرتد ہوجاتے تو اعتراض لازم آتا ہے کہ یہ کیسا مقابلہ ہوا؟ اس لیے ہمارے حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اہلِ محبت کی صحبت میں زیادہ بیٹھا کرو تاکہ تم بھی اہلِ محبت ہوجاؤ۔ التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف میں حضرت تھانوی نور اﷲ مرقدہٗ نے یہ حدیث نقل کی ہے:

جَالِسُوا الْکُبَرَآئَ وَ سَائِلُوا الْعُلَمَآئَ وَخَالِطُوا الْحُکَمَآءَ
(التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف، ص:۳۸۴)

علماء سے مسئلے پوچھو اور بڑے بوڑھوں کے پاس بیٹھا کرو کہ کوئی بات تجربے کی معلوم ہوجائے گی لیکن اہل اﷲ کے ساتھ رہ پڑو۔

یُحِبُّھُمْ کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کس طرح اپنے بندوں سے محبت کرتے ہیں؟ فرماتے ہیں کہ اﷲ کی محبت بندوں کے ساتھ ایسی ہے جیسی اﷲ کی شان ہے، اﷲ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق محبت کرتے ہیں یعنی جس سے اﷲ تعالیٰ محبت کرتے ہیں اس کو اپنا مراد اور محبوب بنالیتے ہیں، پھر اس کی مفید چیزوں کا انتظام کرتے ہیں اور مضر چیزوں سے بچاتے ہیں یعنی اس کو اپنی طاعت میں مشغول رہنے کی اور معاصی سے بچنے کی توفیق عطا فرماتے ہیں۔ یہ علامت ہے کہ اﷲ ان سے محبت کرتا ہے۔

محبت بذاتِ خود نعمتِ عظمیٰ ہے: وہ خاص بندے جن کو اﷲ تعالیٰ مرتدین کے مقابلہ میں لائیں گے ان کی پہلی صفت یُحِبُّھُمْ ہے کہ اﷲ ان سے محبت کرے گا اور دوسری صفت ہے یُحِبُّوْنَہٗ کہ وہ اﷲ سے محبت کریں گے تو  یُحِبُّوْنَہٗ کی تفسیر کیا ہے؟ اَیْ یَمِیْلُوْنَ اِلَیْہِ جَلَّ شَانُہٗ مَیْلاً صَادِقًا یعنی اﷲ کی طرف ان کا قلب ہر وقت میلانِ صادق اورسچی طلب کے ساتھ لگا رہتا ہے اور میلانِ صادق کیا ہے؟ فَیُطِیْعُوْنَہٗ فِی امْتِثَالِ اَوَامِرِہٖ وَ اجْتِنَابِ عَن مَّنَاھِیْہٖ یعنی اﷲ تعالیٰ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ وہ اﷲ کے احکام بجالاتے ہیں اور گناہوں سے بچتے ہیں۔

اعمالِ نافلہ محبت کے لیے لازم نہیں: لیکن بعض لوگ زیادہ نفلیں اور زیادہ وظیفے نہیں پڑھتے تو کیا ان کا شمار اہلِ محبت میں نہیں ہوگا ؟ اس کے بارے میں علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ ایک صحابی نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے پوچھا مَتَی السَّاعَۃُ  قیامت کب آئے گی؟ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اَعْدَدْتَّ لَھَا حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے؟ قَالَ مَا اَعْدَدْتُّ لَھَا کَبِیْرَ عَمَلٍ میرے پاس کوئی بڑے بڑے عمل نہیں ہیں یعنی فرض واجب سنن مؤکدہ ادا کرلیتا ہوں اور گناہوں سے بچتا ہوں اس کے علاوہ میرے پاس اور اعمال نہیں ہیں وَلٰکِنْ حُبَّ اﷲِ تَعَالٰی وَ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لیکن اﷲ تعالیٰ کی محبت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی محبت کا بہت بڑا خزانہ میرے دل میں ہے فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ آدمی اسی کے ساتھ جنت میں رہے گا جس کے ساتھ اس کو محبت ہے۔ اب اس کی شرح سنئے! آج تک اس کی یہ شرح جو علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نے کی ہے میرے مطالعہ میں نہیں آئی۔ پینسٹھ سال کی عمر میں یہ عظیم نعمت ری یونین کی اس خانقاہ میں حاصل ہوئی۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ محبت وہی ہے جس کے ساتھ اعمال لازم ہیں لیکن علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: فَھٰذَا نَاطِقٌ بِاَنَّ الْمَفْہُوْمَ مِنَ الْمَحَبَّۃِ ِﷲِ تَعَالٰی غَیْرُ الْاَعْمَالِ وَاِلْتِزَامِ الطَّاعَاتِ

یعنی یہ حدیث کہہ رہی ہے، اس حدیث سے یہ بات مفہوم ہورہی ہے کہ اﷲ کی محبت مستغنی ہے اعمالِ نافلہ اور التزامِ طاعاتِ نافلہ سے لِاَنَّ الْاَعْرَابِیَ  نَفَاھَا کیونکہ اعرابی نے کبیر عمل کی نفی کردی کہ میرے پاس بڑے بڑے اعمال نہیں ہیں لیکن  وَلٰکِنْ حُبَّ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ کہہ کر اَثْبَتَ الْحُبَّ اس نے اپنی محبت کو ثابت کردیا اورلٰکِنْ  کا استثنیٰ کبیر عمل کے ساتھ ہے جس سے معلوم ہوا کہ محبت خود ایک عظیم الشان عمل ہے۔ کبیر عمل کے مقابلہ میں صحابی نے اپنے قلب کا عمل پیش کیا کہ میرے پاس جسم کا عمل تو کم ہے، نوافل و تہجد و تلاوت و اشراق و چاشت میرے پاس نہیں ہیں لیکن میرے قلب میں ایک بہت بڑا عمل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ مجھے اﷲ و رسول سے محبت ہے  وَاَقَرَّہُ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی ذَالِکَ اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کی محبت کو تسلیم فرمایا اور عمل کی قید نہیں لگائی کہ تم اعمال میں تو کمزور ہو پھر کہاں کے عاشق بنتے ہو۔ اگر آپ سکوت بھی فرماتے تو بھی اس کی محبت ثابت ہوجاتی کیونکہ نبی کے سکوت سے بھی مسئلہ بنتا ہے کیونکہ نبی کسی نامناسب بات پر خاموش نہیں رہ سکتا لہٰذا آپ اس کی محبت کی تردید فرمادیتے بلکہ اس کے برعکس یہاں تو آپ نے اس کی محبت کو تسلیم فرمایا اور ارشاد فرمایا اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ آدمی جنت میں اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہے۔ اگر بڑے بڑے اعمال کے بغیر صرف محبت سے جنت میں اہل اﷲ کی صحبت نہ ملتی تو آپ کبھی یہ جملہ نہ ارشاد فرماتے اور یہ بشارت آپ نے اس وقت دی جب اس صحابی نے عمل کبیر کی نفی کی کہ میرے پاس کوئی بڑے بڑے اعمال نہیں ہیں لیکن ایک عمل ہے دل کا کہ میں اﷲ و رسول سے شدید محبت رکھتا ہوں۔ اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ بشارت دینا کہ ہر شخص اُس کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھتا ہے دلیل ہے اس بات کی کہ محبت اتنی بڑی نعمت ہے جو محبوب کا ساتھ نصیب کرادیتی ہے۔ اگر علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ بدون نقلِ حدیث کے یہ فیصلہ کرتے تو مجھے اس کا یقین نہ آتا لیکن فرماتے ہیں کہ یہ فیصلہ تو یہ حدیثِ پاک کررہی ہے ، یہ حدیث خود اعلان کررہی ہے کہ محبت کا خود ایک اعلیٰ مقام ہے جو اعمال سے بالاتر ہے اور یہ کہ اعمالِ نافلہ محبت کے لوازم میں سے نہیں ہیں۔ محبت ایک عجیب نعمت ہے جو موھوب من اﷲ ہوتی ہے، خدا کے دینے سے ملتی ہے اور اس کا ذریعہ خدا کے عاشقوں کی صحبت ہے۔

قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کردے
یہ آگ لگتی نہیں ہے  لگائی  جاتی  ہے
جو آگ کی خاصیت وہ عشق کی خاصیت
اک سینہ بہ سینہ ہے اک خانہ بہ خانہ ہے

دوستو! تفسیر روح المعانی سے آج ایک بہت بڑا خزانہ مل گیا جس سے معلوم ہوا کہ محبت بذاتِ خود ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔ بہت سے لوگ بطور عادت کے رسماً بہت زیادہ عمل کرتے ہیں لیکن دل میں محبت کی وہ نعمت نہیں جو بعض کم عمل والوں کے پاس ہے۔ مقابلہ کے وقت پتہ چلتا ہے، جب مقابلہ ہوتا ہے جان دینے کا، اﷲ کے حکم کے سامنے اپنا دل توڑ دینے کا اس وقت پتہ چلتا ہے کہ کون اس نعمت سے مشرف ہے لاَ شُجَاعَۃَ قَبْلَ الْحَرْبِ۔ اسی کو مولانا رومی فرماتے ہیں  ؎

لاَ شُجَاعَۃَ یَا فَتٰی قَبْلَ الْحُرُوْبِ

شجاعت اور بہادری کا پتہ جنگ سے پہلے نہیں چلتا۔ اس لیے ہم سب محبت کی یہ نعمت اﷲ سے مانگیں:

{اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ حُبَّ عَمَلٍ یُّقَرِّبُنِیْ اِلٰی حُبِّکَ}
(مسند احمد، رقم الحدیث:۲۱۰۹۳)

آج پتہ چل گیا کہ کسی کو حقیر نہ سمجھنا چاہیے۔ بعض لوگ ہیں:

مُتَنَفِّلِیْنَ طُوْلَ اللَّیْلِ وَ صَائِمِیْنَ طُوْلَ النَّھَارِ وَذَاکِرِیْنَ فِیْ اٰنَائِ اللَّیْلِ وَ اٰنَائِ النَّھَارِ لٰکِنَّ الْمَحَبَّۃَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ قَلِیْلَۃُ ٗ وَ بَعْضُ النَّاسِ کَمَا ھٰذَا الْاَعْرَابِیُّ یُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَہُ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلٰی مَحَبَّۃٍ مُرْتَفَعَۃٍ عَالِیَۃٍ

بعض کم عمل والوں کے دل میں اﷲ و رسول کی زبردست محبت ہوتی ہے۔

اس علمِ عظیم سے آج دل میں ایک عجیب خوشی محسوس کررہا ہوں، اگر دل میں محبتِ عظمیٰ کی یہ نعمت حاصل ہے تو کم عمل والے مایوس نہ ہوں اﷲ کی محبت، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت، اپنے بزرگوں کی محبت ہم کو ان شاء اﷲ تعالیٰ انہی کے ساتھ لے جائے گی۔

حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ کی شانِ عاشقانہ: اسی گفتگو کے دوران فرمایا کہ اﷲ کی محبت اﷲ کے عاشقوں سے ملتی ہے۔ میرے شیخ تھے حضرت شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ، اگر میں ان کو نہ دیکھتا تو ساری زندگی میں نہیں جان سکتا تھا کہ اﷲ کے عاشق کیسے ہوتے ہیں۔ حضرت کا یہ مقام تھا کہ فضاؤں میں اﷲ کا نام لکھتے تھے۔ بیٹھے ہوئے ہیں اور فضاؤں میں انگلی سے الف کھینچا پھر اﷲ کا لام بنایا پھر تشدید بنائی اور اوپر الف بنادیا تو میں سمجھ جاتا تھا کہ اب حضرت فضاؤں میں اﷲ کا نام لکھ رہے ہیں اور کبھی بیٹھے بیٹھے کرتے کی آستین پر اﷲلکھ دیا اور جب اﷲ کا نام لیتے تھے تو ایک آنسو نکل کر رخسار کے قریب آکر ٹھہر جاتا تھا اور وہ ظالم گرتا بھی نہیں تھا اپنی جگہ بنالی تھی، وہیں چمکتا رہتا تھا۔

اور کیا کہوں کہ حضرت کس طرح عبادت کرتے تھے۔ ان کی جیسی عاشقانہ عبادت میں نے روئے زمین پر نہیں دیکھی۔ جب تلاوت کرتے تھے تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد زور سے اﷲ کا نعرہ لگاتے تھے، آہ و فغاں کرتے تھے، تلاوت کرتے کرتے اُچھل اُچھل جاتے تھے اور اﷲ اﷲ ایسے کہتے تھے جیسے روح نہ جانے کیا لذت پارہی ہے۔ ہم لوگ تو ایسی عبادت کرتے ہیں جیسے کوئی کھانا کھا رہا ہے اور اس کو بھوک ہی نہیں ہے اور اگر تین دن کا بھوکا ہو اور بریانی کباب مل جائے تو کیسے کھائے گا، وہ اُچھل اُچھل جائے گا۔ حضرت والا کی روحِ مبارک اﷲ کی ایسی عاشق تھی کہ عبادت و تلاوت اور ذکر کرتے تھے تو اُچھل اُچھل جاتے تھے۔ حضرت کی عبادت ایسی تھی جیسے کوئی شدید بھوک میں لذیذ کھانے کھارہا ہو۔ کیا کہوں جب حضرت کی یاد آتی ہے تو دنیا میں دل نہیں لگتا، دل تڑپ جاتا ہے؎

جو  یاد  آتی ہے  وہ  زُلفِ   پریشاں
تو پیچ و تاب کھاتی ہے  مری  جاں
جو پوچھے گا کوئی مجھ سے یہ آکر
کہ کیا گذری ہے اے دیوانے تجھ  پر
نہ  ہرگز  حالِ دل  اپنا  کہوں   گا
ہنسوں گا اور ہنس کر چپ رہوں گا

یہ اشعار حضرت حاجی امداد اﷲ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ کے ہیں جو حضرت حاجی صاحب نے اپنے شیخ میاں جی نور محمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے انتقال پر کہے تھے۔

حاصلِ کائنات: مجلس کے اختتام کے قریب یہ ارشاد فرمایا کہ اگر ہم اﷲ کی محبت پاگئے اور ہمارے دل میں اﷲ پاک کا نورِ خاص عطا ہوگیا اور ہم صاحبِ نسبت ہوگئے تو پھر ساری کائنات کے ہم حاصلِ کائنات ہوگئے، کیونکہ کائنات ہمارے لیے پیدا ہوئی ہے اور ہم اﷲ کے لیے پیدا ہوئے ہیں تو جس نے اﷲ کو پالیا وہ حاصلِ کائنات اپنے دل میں پاگیا اس کے قلب میں زمین و آسمان بھی ہیں سورج و چاند بھی ہیں۔ سورج چاند کا خالق جب دل میں ہے تو سورج کیا بیچتا ہے، جس کے دل میں خالقِ آفتاب ہو وہ بے شمار آفتاب اپنے دل میں محسوس کرتا ہے۔ یہ مزہ ہے۔ آپ بتائیے اس مزہ کے سامنے بادشاہوں کے تخت و تاج، وزارتِ عظمیٰ اور سلطنت کا خیال آئے گا؟ دنیا کی لیلاؤں کا خیال آئے گا؟ ہر لیلیٰ لاش معلوم ہوگی۔ لاش کے معنی ہیں لاشے۔ گلنے سڑنے والی لاشیں ہیں۔ اس لیے کہتا ہوں کہ اﷲ کے سوا کسی سے دل کو مت بہلاؤ، یہ سب سہارے فانی ہیں، عارضی ہیں، جب ان کا جغرافیہ بدل جائے گا، نقوش بگڑ جائیں گے تو کہاں جاؤگے کس سے دل بہلاؤگے؟ اﷲ پر فدا ہوجاؤ سمجھ لو ساری دنیا کی لیلاؤں کا حسن مل گیا، جو اﷲ پر مرگیا ساری دنیا کی سلطنت اس کے ہاتھ میں ہے، ساری کائنات اور دولت سب کچھ اس کے پاس ہے چاہے چٹنی روٹی کھارہا ہے لیکن اگر دل میں اﷲ ہے تو بہار ہی بہار ہے۔ میرا ایک شعر ہے؎

جب اُن کی یاد آتی ہے تو گھبراتا ہوں گلشن میں
مجھے تو  قرب  کا عالم دیا ہے آہِ صحرا   نے

تعلیم حسنِ ظن: حضرت والا کے ایک خاص دوست جو ایک سلسلہ کے شیخ بھی ہیں ان سے ملنے کے لیے حضرت والا ان کے گھر تشریف لے گئے۔ کل ان کو حضرت نے بار بار فون کرایا لیکن کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ جب حضرت والا ان کے گھر پہنچے تو انہوں نے حافظ داؤد بدات صاحب کو فرنچ میں بتایا کہ حضرت والا کا کل کئی بار فون آیا لیکن میں رات میں بہت دیر سے لوٹا۔ اس وجہ سے میں نے فون نہیں کیاکہ حضرت کو بے وقت فون کرنے سے حضرت کی نیند میں خلل پڑے گا۔ اس پر حضرت والا نے فرمایا کہ دیکھئے! فون کا جواب نہ آنے کی یہ وجہ تھی، اس لیے شریعت نے حکم دیا ہے کہ حسنِ ظن رکھو ورنہ ایسے وقت شیطان پہنچ جاتا ہے کہ دیکھو تم تو فون پر فون کررہے ہو اور وہ جواب بھی نہیں دے رہے ہیں لہٰذا اگر اس کے کہنے پر عمل کرلیا تو گنہگار بھی ہوئے اور تعلقات بھی کشیدہ ہوگئے لہٰذا ایسے موقع پر سوچنا چاہیے کہ کوئی مجبوری ہوگی۔ حسنِ ظن رکھو۔ شریعت کی کیسی پیاری تعلیم ہے۔ لہٰذا الحمدﷲ میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی مجبوری ہے جو فون نہیں آیا۔

حضرت والا کی خوش طبعی: اس کے بعد حضرت والا سینٹ پیئر کے لیے واپس ہوئے۔ کار میں حضرت والا کے ساتھ احقر راقم الحروف اور مولانا دائود تھے اور حسان پٹیل صاحب کار چلا رہے تھے۔ راستہ میں گنے کے کھیت بہت تھے۔ ری یونین میں گنا بہت پیدا ہوتا ہے۔ حضرت والا نے احقر کو مخاطب کرکے مزاحاً یہ شعر فرمایا اور ہم خدام کو محظوظ فرمایا ؎

جو میر اپنے ملک میں کنجوس رہے ہیں
ری یونین میں گنے کا رس چوس رہے ہیں

مولانا دائود صاحب نے عطر لگایا جس سے کار میں خوشبو پھیل گئی تو حضرت والا نے پوچھا کون سا عطر ہے؟ مولانا دائود نے عرض کیا کہ سلمٰی۔ حضرت والا نے فرمایا کہ ندوۃ سے مولانا سلمان کراچی آئے تھے تو مجھ سے ملنے بھی آئے۔ ان کے لیے میں نے ایک شعر کہا تھا ؎

ایک سلمیٰ چاہیے سلمان کو
دل نہ دینا چاہیے انجان کو

اور میں نے کہا کہ جو انجان (نامحرم) کو دل دیتا ہے اس کو انجائنا ہوجاتا ہے۔ مولانا سلمان اتنے خوش ہوئے کہ ندوۃ جاکر میرے بارے میں کہا کہ یہ دُرویش بہت زندہ دل ہے۔ ان کی مجلس میں دل بالکل نہیں گھبراتا۔

آج صبح ساڑھے گیارہ بجے مولانا عمر فاروق صاحب احقر کے کمرے میں آئے، احقر سفر نامہ لکھ رہا تھا، انہوں نے بتایا کہ مولانا رشید بزرگ صاحب آئے تھے اور حضرت والا کے ساتھ ابھی ابھی لی مارک (Les Mark)کی پہاڑیوں کی سیر کے لیے روانہ ہوئے ہیں اور حضرت والا دامت برکاتہم نے احقر کے لیے فرمایا ہے کہ مولانا دائود کے ساتھ آجائے۔

مولانا دائود صاحب کچھ ضروری کاموں سے فارغ ہو کر تقریباً بارہ بجے خانقاہ سے روانہ ہوئے۔کار میں ان کے ساتھ احقر اور الیاس صوفی صاحب تھے۔ مولانا عمر فاروق اور حسن پٹیل صاحب ہم سے پہلے جاچکے تھے، تقریباً دس منٹ بعد ہماری کار پہاڑی راستوں سے گذر رہی تھی۔ آج موسم قدرے گرم تھا اور پہاڑ کی سیر کے لیے نہایت موزوں،جتنی بلندی کی طرف ہم بڑھتے جاتے تھے منظر خوش نما ہوتا جاتا تھا۔ دور نیچے سمندر نظر آرہا تھااور چاروں طرف سبزہ سے لدے ہوئے بلند قامت پہاڑ اور ان کے وسیع قدرتی سبزہ زار گویا زمین پر مخمل بچھا ہوا تھا۔ تقریباً آدھے گھنٹہ کی کوہ پیمائی کے بعد پہاڑوں کی بلندیوں پر سرو قد درختوں کی قطاریں نظر آئیں اور نہایت ہلکا کہر سبزپوش پہاڑوں پر مثل آنچل کے گررہا تھا لیکن اتنا ہلکا تھا کہ منظر صاف نظر آرہا تھا۔ ایک بجے کے قریب ہم منزلِ مقصود پر پہنچ گئے اور الحمدللہ وہاں محبی ومحبوبی و مرشدی عارف باﷲ حضرت والا دامت برکاتہم کو پالیا ورنہ اب تک ان مناظر میںاحقرکوکچھ مزہ نہیںآرہاتھا۔ حضرت والا کے بغیر احقر کو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی اور دوستوں کے ساتھ بھی تنہائی محسوس ہورہی تھی اور احقر کو اپنے یہ شعر یاد آرہے تھے جو کسی زمانے میں حضرت کی یاد میں کہے تھے  ۔

سامنے تم ہو تو دنیا ہے مجھے خُلدِ بریں
اور قیامت کا سماں تم سے بچھڑ جانے میں
پاس اگر تم ہو تو ہے آباد ویرانہ مرا
ورنہ آبادی بھی شامل میرے ویرانے میں ہے

اس مقام کانام فرانسیسی زبان میں Fennets ہے اس کا ترجمہ ہے کھڑکی۔ کیونکہ یہ پہاڑ اتنی بلندی پر ہے کہ یہاں سے تمام پہاڑوں کی چوٹیاں ایسی نظر آتی ہیں جیسے بلند چھت کی کھڑکی سے میدان، علاوہ ری یونین کے بلند ترین سیاہ پہاڑکے کہ وہ اس سے بھی بلند ہے۔ حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ وہاں سامنے جا کر دیکھو کیا منظر ہے اور اﷲ تعالیٰ سے جنت مانگ لوکہ یہ دنیائے فانی جب ایسی حسین بنائی ہے تو جنت کیسی ہوگی۔ یہ پہاڑاوردرخت اور یہ خوشنما مناظر تو زلزلۂ قیامت کی زد میں ہیں، ایک دن قیامت کا زلزلہ ان کو ختم کردے گا لہٰذا اﷲ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرو کہ اے اﷲ! ہم آپ سے جنت مانگتے ہیں اور ان اعمال کی توفیق بھی جو جنت میں لے جانے والے ہیںاور دوزخ سے پناہ چاہتے ہیں اور ان اعمال سے بھی جو دوزخ میں لے جانے والے ہیں، جنت کا ہمارا استحقاق تو نہیں ہے لیکن دوزخ کے عذاب کا تحمل نہیں ہے۔ اس لیے بدونِ استحقاق محض اپنے کرم سے ہم سب کو جنت نصیب فرمادیں، آمین۔

احقر نے آگے بڑھ کر جب بلندی سے نیچے کی طرف دیکھا تو اتنا حسین منظر پہلے کبھی نگاہوں سے نہیں گذرا تھا۔ نیچے سبز پوش پہاڑوں کے ساکت و خاموش عظیم القامت خیمے جا بجا پہلو بہ پہلو گڑے ہوئے تھے اور گہرائی در گہرائی میں سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی سڑکیں اتنی چھوٹی معلوم ہورہی تھیں جیسے بچوں کے کھلونے ہوں اور سامنے ری یونین کا سب سے بلند اور طویل و عریض سیاہ پہاڑ جس کی بلندیاں کہر آلود تھیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان پر کوئی بادل ہے اور چاروں طرف ایک ھو کا عالم۔ کان لگا کر غور سے سننے سے دور دراز چشموں کی ہلکی ہلکی دلکش آواز فضا کی خاموشی کی ہمنوا تھی اور سارے مناظر پر تنہائی برس رہی تھی اور کسی شاعر نے شاید کسی ایسی ہی خیالی بستی کے لیے یہ شعر کہے تھے جو اس وقت احقر کو یا د آرہے تھے   ؎ 

آفاق کے اُس پار اک اس طرح کی بستی  ہو
صدیوں سے جو انساں کی صورت کو ترستی ہو
اور اس کے مناظر پر   تنہائی   برستی   ہو
یوں ہو تو وہیں لے چل،اے عشق کہیں لے چل

موسم میں خوشگوار ہلکی سی خنکی تھی۔ اب کچھ بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس منظر کے عین مقابل میں زمین پر دریاں اور چٹائیاں بچھا دی گئیں اور چا ئے،  بسکٹ، مٹھائی اور پھل وغیرہ سے ضیافت کی گئی جو مولانا داؤد صاحب ساتھ لائے تھے۔

موسم میں خوشگوار ہلکی سی خنکی تھی۔ اب کچھ بھوک بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ اس منظر کے عین مقابل میں زمین پر دریاں اور چٹائیاں بچھا دی گئیں اور چا ئے،  بسکٹ، مٹھائی اور پھل وغیرہ سے ضیافت کی گئی جو مولانا دائود صاحب ساتھ لائے تھے۔

ضیافت سے فارغ ہوکر حضرت والا نے احقر سے فرمایا کہ میرے وہ اشعار پڑھو جو یہاں آنے سے کچھ دن پہلے کراچی میں ہوئے تھے، جیسا بھی ہو بے تکلف دردِ دل سے پڑھیے۔ حضرت والا کے ارشاد کے مطابق احقر نے ترنم سے وہ اشعار پڑھے ؎

منور کردے یا رب! مجھ کو تقویٰ کے معالم سے
ترے درتک جو پہنچادے ملادے ایسے عالم سے


علاجِ حزن و غم ہے صرف توبہ کر گناہوں سے
اندھیرے بے سکونی ہیں معاصی کے لوازم سے


جو دل سے غیر مخلص ہو وفاداری سے عاری ہو
بہت محتاط رہنا چاہیے پھر ایسے خادم سے


کیا برباد جس نے آخرت کو اپنی غفلت سے
بھلا پھر فائدہ کیا اس کو دنیا کے مغانم سے

حضرت والا نے فرمایا کہ مغانم کے معنی ہیںغنیمت یعنی اﷲ تعالیٰ کو بھول کر جس نے اپنی آخرت تباہ کرلی اگر وہ دنیا میں بادشاہ ہوگیا، وزیر ہوگیا، بہت بڑا تاجر ہو گیا تو بھی کیا فائدہ؟ پھر فرمایا کہ پڑھنے والے کو داد بھی دو اور یہ بھی دیکھو کہ یہ درخت اپنی قطاروں کے ساتھ ہم لوگوں کے کلام کو سن رہے ہیں۔ پھر احقر نے اگلا شعر پڑھا   ؎ 

نہ اہلِ دل کی صحبت ہو نہ دردِ دل کی نعمت ہو
تو پڑھ لکھ کر بھی وہ محروم ہو گا قلبِ سالم سے


کسی کی آہِ سوزندہ فلک پر نعرہ زن بھی ہو
تو پھر ظالم کو ڈرنا چاہیے اپنے مظالم سے

اس شعر کے متعلق فرمایا کہ یہ بالکل اِلہامی ہے یعنی میرے دماغ کو اس میں بالکل دخل نہیں۔ رات کو ڈھائی بجے میر ی آنکھ کھلی تو یہ مصرع میری زبان پر جاری تھا اس کو میں نے بنایا نہیں   ؎  

کسی کی آہِ سوزندہ فلک پر نعرہ زن بھی ہو

آسمان پر وہ آہِ بارگاہِ حق کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے کہ رحم کیجئے، ظالموں کے مقابلہ میں میر ی مدد کیجئے۔ آہ ِسوزاں تو بہت لوگوں نے استعمال کیا ہے، آہِ سوزندہ کی لغت شاید زمین پر پہلی بار اختر نے استعمال کی ہے یعنی یہ میری آہ جلانے والی ہے، جدھر سے گذرے گی ظالموں کو جلا کر خاک کر دے گی ؎

کہیں شامل نہ ہو طائر کی بھی آہ و فغاں اس میں
دھواں اُٹھا نشیمن سے یہ کہہ صیادِ ظالم سے
کتب خانے  تو  ہیں  اخترؔ  بہت  آفاقِ عالم  میں
جو  ہو ﷲ  کا  عالم  ملو  تم  ایسے  عالم   سے 

حضرت والا نے فرمایا کہ جَزَاکَ اﷲُ خَیْرًا  بہت اچھا پڑھا، ماشاء اﷲ دردِ دل سے پڑھا، جو شعر زیادہ درد دل والے تھے ان کو کئی بار پڑھا، یہ سمجھ کی بات ہے، آخر بیس سال سے رات دن میرے ساتھ ہیں۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries