مجلس۲۸ اپریل۲۰۱۴ء حضرت والا کی شانِ تقویٰ!!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی اپنے کمرۂ مبارک سے باہر تشریف لائے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا، نشست پر تشریف فرما ہوئے۔۔۔ اور مولانا ابراہیم کشمیری صاحب سے اشعار سنانے کو فرمایا انہوں نے حضرت والا محبی و محبوبی حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم کے اشعار سنانے شروع کیے۔ انہوں نے بہت ہی پرسوز آواز میں درد سے یہ اشعار پڑھے کہ کیف و مستی کی کیفیت چھا گئی۔ اس کے بعد حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات جناب ممتاز صاحب نے کتاب معارفِ ربانی سے پڑھ کر سناتےرہے۔ آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس تقریباً  ۵۲ منٹ پر مشتمل تھی

تشریحِ اشعار

جتنی زیادہ عریانی ری یونین میں تھی ویسی کہیں نہیں تھی، تو وہاں حضرت والا نے فرمایا تھا یہاں نگاہ کو بالکل نیچی رکھو! مسلمانوں کو بددین کرنے کی پوری کوششوں میں لگے ہیں ۔جیسے ترکی میں ہورہا ہے۔

وہاں ری یونین میں حضرت والا فرماتے تھے یہاں چلنا بھی مشکل ہے یہاں ہر طرف عریانی ہی عریانی ہے۔ جو یہاں ری یونین  میں صرف نگاہوں کی حفاظت کرلے تو دنیا کے سب سے بڑے اولیاء اللہ بن جاؤ گےاور ایسی نسبت عطا ہوگی کہ اور کہیں نہیں ملے گی۔ لیکن ایسے امتحان سے اللہ تعالیٰ محفوظ بھی رکھے۔اس لئے فتنے کی جگہ ایسے ماحول میں جہاں ایسی عریانی ہو جانے سے منع کیا گیا ہے، اس لئے وہاں ایسی کیفیت اولیاء اللہ میں نہیں دیکھی جیسی یہاں ہمارے یہاں برصغیر میں ہوتی ہے، وجہ یہی ہے کہ یہاں ایسی عریانی نہیں ہے۔

حضرت والا کا کمال تھا کہ کہیں بھی ہوں کبھی ایک نگاہ بھی اُٹھا نہیں دیکھتے تھے ، حضرت کی شان یہ تھی کہ صرف دوسروں تلقین ہی نہیں کرتے بلکہ عمل کر کے دیکھاتے تھے اور فرماتے تھے الحمدللہ پوری زندگی میں کبھی مجھ سے لغرش بھی نہیں ہوئی۔ اور فرمایا اور مجھے جو کچھ ملا ہے نظر کی حفاظت سے ملا ہے۔ اس لئے سب سے زیادہ اہتمام اس زمانے میں نظر کی حفاظت کا کرنا چاہیے،

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ صرف راستہ ہی نہیں دیکھاتے تھے بلکہ خود چل کر دیکھاتے تھے، جیسے انگلی پکڑ کر چلایا جاتا ہے، جو ہم رک گئے، غافل ہوگئے تھے تو وہ بیدار کرتے تھے اور خود چل کر دیکھاتے تھے، کہ اس طرح اللہ کے راستے میں چلو اور گناہ سے بچو! اٹھو توبہ کرو، مایوس نہ ہو اور دوبارہ چلو!

حضرت والا رحمہ اللہ کی انکھ مبارک سے ہر وقت اللہ کی محبت میں آنسو نکلتے رہتے تھے!

ملفوظاتِ معارفِ ربانی

صحبت اہل اﷲ کی اہمیت : اﷲ تعالیٰ اپنے اولیاء اور دوستوں کو جو تعلق عطا فرماتے ہیں وہ تعلقِ خاص موقوف ہے صحبت پر۔ کوئی کتنا ہی علامہ اور قابل ہو لیکن اگر اس کو اہل اﷲ کی صحبت نہ ملے تو اہل اﷲ نہیں ہوسکتا۔ علم کے باوجود کہیں نہ کہیں نفس کی شرارت داخل ہوجائے گی، اس لیے دین کو اﷲ نے صحبت پر موقوف رکھا ہے۔ ایک لاکھ امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ اور ایک لاکھ امام بخاری رحمۃ اﷲ علیہ جیسے بھی پیدا ہوجائیں لیکن قیامت تک صحابی نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ سیدالانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت کا آفتاب اور بلب جتنے کروڑ ملین پاور کا تھا اب دنیا میں اس پاور کا کوئی بلب قیامت تک نہیں مل سکتا لہٰذا اب کوئی صحابی نہیں ہوسکتا۔ اس لیے ہمارے اکابر کا یہ جو سلسلہ ہے کہ مختلف شہروں میں اور ملکوں میں جانا، کچھ دن وہاں قیام کرنا مجلسیں کرنا یہ حقیقت میں اسی صحبت پر عمل ہے۔

عورتوں کے لیے معیت صادقین کا طریقہ  : اسی بہانہ سے مستورات کو پردوں سے آواز تو پہنچتی ہے یہ بھی ایک قسم کی صحبت ان کو حاصل ہے۔ یعنی مرد کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ نبی کو دیکھ لے تو صحابی ہوگیا، اگر اندھا ہے تو نبی اس کو دیکھ لے تو بھی صحابی ہوگیا حالانکہ اس نے خود نہیں دیکھا جیسے حضرت عبداﷲ بن ام مکتوم نے کہاں دیکھا تھا نابینا تھے لیکن حالتِ ایمان میں اگر خود نہ بھی دیکھ سکے لیکن نبی اس کو دیکھ لے تو بھی وہ صحابی ہوجاتا ہے۔ عورتیں اگرچہ اپنے شیخ کو نہ دیکھیں کیونکہ ان کے لیے پردہ کا حکم ہے لیکن شیخ کی آواز سننا اور اس کی مجلس میں ان کا موجود رہنا یہی ان کا صحبت یافتہ ہوجانا ہے۔ اس لیے وہ بھی صحابیات ہیں جنہوں نے حالتِ ایمان میں سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بغیر دیکھے زیارت کی یعنی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے الفاظِ نبوت کی سماعت کی، سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا عہدِ نبوت پایا اور انہوں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آواز سن لی۔ نہ نبی نے ان کو دیکھا نہ انہوں نے نبی کو دیکھا لیکن وہ صحابیات ہیں یا نہیں؟ تو یہ صحبت کا طریقہ جو ہمارے اکابر کا چلا آرہا ہے، یہ میرا سفر ری یونین اور مولاناداؤد کا یہ سب انتظام کرنا خانقاہ وغیرہ کا سب کا حاصل صحبت ہے کہ اپنے بزرگوں کی صحبت مل جائے، اکابر کی صحبت مل جائے، اگر اکابر نہ ہوں تو ان کے صحبت یافتہ کی صحبت بھی کافی ہے۔ اگرچہ دہلی کے حکیم اجمل خان اب زندہ نہیں ہیں لیکن اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ فلاں صاحب دس سال حکیم اجمل خان کے ساتھ رہے ہیں تو آپ ان پر بھی اعتماد کرتے ہیں۔ بس یہی مسئلہ ہے، اب ظاہر بات ہے کہ اکابر تو چلے گئے لہٰذا ان کے صحبت یافتہ کی صحبت بھی مل جائے تو اس کو غنیمت سمجھو

اور اس کی برکت ایسی ہوتی ہے کہ حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید اور سیداحمد شہیدرحمۃ اﷲ علیہما ان دونوں کے ہاتھوں پر دو خواتین بیعت ہوئیں جو پہلے بہت گنہگار زندگی گذارتی تھیں اور بیعت ہوئیں کپڑے سے، پردہ سے، انہوں نے انہیں نہیں دیکھا لیکن ان کی باتیں سنتی رہیں، نصیحتیں سنتی رہیں یہاں تک کہ جب ان بزرگوں نے جہاد کا اعلان کردیا کہ بھئی اب بالاکوٹ چلنا ہے اور سکھوں سے جہاد کرنا ہے، تو جب حضرت سید احمد شہید اور سید اسماعیل شہید چلے تو یہ دونوں رونے لگیں کہ ہم کو توبہ کراکر آپ کہاں جارہے ہیں اب ہم کس سے دین سیکھیں گی؟ لہٰذا ہمیں بھی لے چلو تو سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید نے فرمایا کہ تم لوگ کیا کروگی وہاں چل کر؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے شوہروں کے ساتھ جائیں گی اور میدانِ جہاد کے پہاڑوں کے دامن میں جہاں ہمارا خیمہ ہوگا رات بھر مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے چنا دلیں گی، چکی چلائیں گی جبکہ یہ پہلے بہت مالدارتھیں، پھولوں پر سونے والی، لہٰذا جب جہاد شروع ہوا تو بالا کوٹ کے پہاڑوں کے دامن میں ان کے خیمے لگے، رات بھر چکی چلانے سے ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے، کیونکہ یہ کام کبھی کیا نہ تھا، دلّی کے ایک آدمی نے پوچھا کہ اے میری بہنو! میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں، آپ لوگ پہلے بہت مالدار تھیں پھولوں پر سونے والی تھیں، نوکر چاکر تھے، اور تمہاری زندگی آزادی کی تھی، نہ روزہ نہ نماز، گنہگار زندگی تھی، کیا تم کو اب اس میں مزہ آرہا ہے کہ پھولوں کے بجائے بالاکوٹ کی کنکریوں پر سورہی ہو اور ہاتھوں میں بجائے پلائو بریانیوں کے چھالے پڑگئے ہیں تو ان دونوں نے جو کہا اس کو مجھے سنایا حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے میں وہ الفاظ نقل کرتا ہوں۔

حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سلسلۂ نقشبندیہ کے بہت بڑے شیخ ہیں مگر مشایخ ِ چشتیہ کے بھی شیخ ہیں، ہمارے شیخ مولانا ابرار الحق صاحب نے بھی ان کو اپنا شیخ بنایا تھا۔ مولانا شاہ محمد احمد صاحب سلسلہ ٔ نقشبندیہ میں مولانا شاہ فضل رحمن صاحب گنج مراد آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کے خلیفہ کے خلیفہ ہیں اور بارہ سال تک اپنے شیخ کی صحبت میں رہے ہیں، سر سے پیر تک عشقِ الٰہی کی آگ بھری ہوئی تھی۔ ان کی صحبت میں میں تین سال رہا ہوں۔ جب میں سولہ سال کاتھا تو تین برس تک روزانہ مسلسل ان کی صحبت اﷲ تعالیٰ نے نصیب فرمائی۔ عصر تک تو میں کالج میں حکمت پڑھتا تھا ، عصر کے بعد رات گیارہ بجے تک حضرت کی صحبت میں بیٹھتا تھا۔ تو میں نقشبندی بزرگوں کا بھی صحبت یافتہ ہوں اور صرف صحبت یافتہ ہی نہیں بلکہ مجازِ بیعت بھی۔ حضرت نے مجھ کو اور میرے شیخ کے داماد حکیم کلیم اﷲ صاحب کو مجازِ بیعت بنایا ہے۔ مولانا کے حالات بھی چھپ کے آئے ہیں۔ اس میں اس فقیر کا بھی مجازین میں تذکرہ ہے۔

تو حضرت نے جو مجھ کو سنایا وہ میں آپ کو سنارہا ہوں کہ جب ان دو عورتوں سے مجاہدین میں سے کسی نے پوچھا کہ میری بہنو! تم کو یہاں کنکریوں پر سونے کو مل رہا ہے اور تم دلّی کے مالدار گھرانے کی ہو ، اور رات بھر چکی چلانے سے تمہارے ہاتھوں میں چھالے پڑے ہوئے ہیں تو یہ زندگی تم کو مزیدار معلوم ہوتی ہے یا دلّی میں جو عیش کی تھی، غفلت کی تھی؟ ان دونوں نے جو جواب دیا وہ مولانا شاہ محمد احمد صاحب نے مجھ کو سنایا، ان دونوں نے یہ کہا کہ سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید ان دو بزرگوں کے ہاتھوں پر جب سے ہم بیعت ہوئے اور پردہ کے ساتھ ان کی نصیحتیں سنی گویا ان کی صحبتیں ملی، اور ان کنکریوں پر سونے کی تکلیف اٹھانے سے اور مجاہدین کے گھوڑوں کے لیے رات بھر چکی چلانے سے ان دونوں بزرگوں کی دعائوں کے صدقے میں ہم کو ایسا ایمان اور یقین عطا ہوا ہے کہ اگر ہمارا ایمان ہمارے قلب سے نکال کر بالاکوٹ کے ان پہاڑوں پر رکھ دیا جائے تو یہ ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے اور برداشت نہیں کرسکیں گے۔

گناہ چھوڑنے کا مجاہدہ اصل مجاہدہ ہے: آہ! اﷲ ایسے نہیں ملتا۔ مجاہدے سے ملتا ہے، تکلیف اٹھانے سے ملتا ہے۔ جو ظالم ذکر کے مزے سے مست رہے لیکن جہاںعورتیں سامنے آگئیں اب وہاں فیل ہوگیا اور اﷲ سے دور ہوگیا کیونکہ حرام لذت کے مقابلے میں وہ اﷲ کو ترجیح نہیں دے رہا ہے، اپنے نفس کو آگے بڑھا رہا ہے۔ آپ سے میں پوچھتا ہوں کیا یہ شرافتِ محبت ہے کہ رات کو تہجد پڑھی اﷲ سے روئے لیکن جب گناہ کا موقع آیا تو وہاں خدا یاد نہیں رہا۔ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ گناہ چھوڑنے کا مجاہدہ اصل مجاہدہ ہے یعنی اپنی آنکھوں کو نامحرموں سے بچانا، جھوٹ سے بچنا ہر نافرمانی سے بچنا غرض جتنی چیزیں شریعت کے خلاف اس وقت ری یونین کے معاشرہ میں ہیں ان میں خاص کر عورتوں کا بے پردہ گھومنا بھی شامل ہے۔

پردہ مرد و عورت دونوں پرواجب ہے: حضرت عبداﷲ بن ام مکتوم نابینا صحابی جب آئے تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وہاں دو بیویاں حضرت میمونہ اور حضرت اُمِّ سلمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما موجود تھیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اِحْتَجِبَا اے میری بیویو! پردہ کرلو تو ہماری ان دونوں مائوں نے، سرورِ عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دونوں بیویوں نے عرض کیا:

 اَلَیْسَ ھُوَاَعْمٰی لاَ یُبْصِرُنَا وَلاَ یَعْرِفُنَا (سنن ابی داؤد،کتاب اللباس، باب فی قولہ عزَّ وجلَّ و قل للمؤْمنات یغضضن)

کیا عبداﷲ ابن مکتوم نابینا نہیں ہیں وہ ہم کو کیسے دیکھیں گے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَفَعَمْیَاوَانِ اَنْتُمَا اَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہِ (سنن ابی داؤد،کتابُ اللباس،ج:۲،ص:۲۱۲)

کیا تم دونوں بھی نہیں دیکھتی ہو؟ کیا تم بھی اندھی ہو؟ کیا تم دونوں بھی نابینا ہو؟ جب اﷲ نے اپنے معصوم پیغمبر کی پاکیزہ بیویوں کو حضرت عبداﷲ ابن مکتوم جیسے صحابی سے پردہ کرایا تو ہم جیسے ناپاکوں کا کیا منہ ہے کہ تقدس کا دعویٰ کریں۔ پردہ دونوں طرف سے واجب ہے، نہ مسلمان مرد عورت کو دیکھے نہ مسلمان عورتیں مردوں کو دیکھیں، اسی لیے ٹیلی ویژن حرام ہے کہ ٹیلی ویژن پر ایک مرد خبریں سنارہا ہے اور عورتیں بیٹھی دیکھ رہی ہیں اور نامحرم عورتوں کو مرد دیکھ رہے ہیں۔ اِدھر حاجی صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اُدھر حجن صاحبہ بیٹھی تسبیح لیے پڑھ رہی ہیں اور غیر محرم مردوں کو دیکھ رہی ہیں اور حاجی صاحب بھی ہر سال حج کرکے ٹیلی ویژن پر خواتین سے خبریں سن رہے ہیں۔ کان ہی سے نہیں آنکھوں سے بھی سنتے ہیں، جو شخص ٹیلی ویژن پر خبر سنتا ہے وہ کان سے بھی سنتا ہے، آنکھ سے بھی سنتا ہے یعنی آنکھ سے دیکھتا رہتا ہے کہ یہ عورت کیسے مٹک مٹک کر خبر سنا رہی ہے، کیا لچک ہے، کیا الفاظ کو چباچبا کر بیان کرتی ہے۔ یہ مشق کرتی ہیں کہ ایسا بولو کہ مرد پاگل ہوجائے جبکہ حکم ہے: لاَ تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ  فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَض (سورۃُ الاَحزاب، اٰیۃ:۳۲)

یعنی اپنی فطری نرم آواز کو بھاری کرکے بولو ورنہ جن کے دل میں مرض ہے وہ طمع کریں گے، لالچ کریں گے گناہ کے خیالات شروع ہوجائیں گے۔ خیر القرون کا زمانہ ہے سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم موجود ہیں قرآن کا نزول ہورہا ہے، جبرئیل علیہ السلام کی آمدو رفت ہورہی ہے صحابہ جیسی مبارک ہستیوں سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی! اگر اچانک نظر پڑجائے تو معاف ہے لیکن خبردار دوسری نظر مت ڈالنا:

لاَ تُتْبِعِ النَّظْرَۃَ النَّظْرَۃَ فَاِنَّ لَکَ الْاُوْلٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الْاٰٰخِرَۃُ
(مشکٰوۃُ المصابیح،کتابُ النکاح، باب النظر الی المخطوبۃ، ص:۲۶۹) 

پہلی نظر معاف ہے کیونکہ اچانک ہے لیکن دوسری نظر حرام ہے۔ آج کل کی عورتیں اور مرد دونوں کہتے ہیں، گمراہی کے اندھیروں میں ان کے الفاظ یہ ہوتے ہیں کہ مولانا پردہ تو دل کا ہے، دل صاف نظر پاک یا دل پاک نظر صاف! تو معلوم یہ ہوا کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ جن کا ایمان اس مقام پر تھا کہ فرماتے ہیں کہ جب میں قیامت کے دن جنت اور دوزخ کو دیکھوں گا تو  مَا ازْدَدْتُّ یَقِیْناً میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا، اتنا یقین مجھ کو سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت کے صدقہ میںدنیا ہی میں حاصل ہے ۔تو جن کا ایمان اس درجہ کا ہے کہ گویا وہ جنت اور دوزخ کو دیکھ رہے ہیں ان کے لیے تو نظر کی حفاظت کا حکم ہے اور آج اس زمانے میں کیا ہم لوگوں کا دل حضرت علی کے دل سے زیادہ پاک ہے اور ہماری نظر ان کی نظر سے زیادہ صاف ہے؟ یا دل صاف نظر پاک یا دل پاک نظر صاف بتائیے یہ کیا ہے؟ بیوقوفی نادانی کی بات ہے، اسی لیے آج کل اولیاء اﷲ کم پیدا ہورہے ہیں۔ اور کمی کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر تقویٰ کی کمی ہے۔ اﷲ نے اپنی دوستی کی بنیاد تقویٰ پر رکھی ہے کہ گناہ سے بچو أَلا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللّہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ اﷲ کے جو دوست ہیں ان کو میدانِ محشر کی ہولناکیوں کا کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ دنیا سے جدا ہونے کا ان کو کوئی غم ہوگا کیونکہ اعلیٰ چیز کی طرف جارہے ہیں۔

اولیاء اﷲ کی ولایت کا میٹیریل :  لیکن اولیاء اﷲ کی ولایت کا میٹیریل اور اجزاء ترکیبیہ دو ہیں (۱) ایمان، (۲) تقویٰ جیسا کہ آگے آیت میں ہے اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ماضی ہے یعنی ایک دفعہ ایمان لانا کافی ہے وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ یہ استمرار ہے، جب مضارع پر ماضی داخل ہوتا ہے تو استمراری بن جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہوا کہ ایمان لانے کے بعد ولی اﷲ بننے کے لیے ساری زندگی تقویٰ کا غم اور گناہ چھوڑنے کا غم اور نافرمانی سے بچنے کے پاپڑ بیلنے پڑیں گے، پہلے پاپڑ بیلنے کو ملیں گے پھر پاپڑ کھانے کو ملیں گے لیکن ہم لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ پاپڑ بیلنے نہ پڑیں عورتیں بیل کر پیش کردیں یعنی مجاہدات نہ کرنے پڑیں اور ثمرات مل جائیں لیکن   ؎ ایں خیال است و محال است و جنوں ۔۔

 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries