مجلس۲۹ اپریل۲۰۱۴ء شیخ و مرشد سے حُسنِ ظَن کی اہمیت!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم کی اپنے کمرۂ مبارک سے باہر تشریف لائے اور حاضرینِ مجلس کو سلام فرمایا، نشست پر تشریف فرما ہوئے۔۔۔ حضرت جناب اقبال تائبؔ صاحب دامت برکاتہم حاضرِ خدمت تھے، حضرت والا کے حکم پر انہوں نے اپنے اشعار سنائے ۔ ۔ حضرت والا نے بہت پسند فرمائے اور درمیان درمیان میں تشریحات بھی فرماتے رہے۔ یہ سلسلہ تقریباً ۵۰ منٹ تک رہا، اس کے بعد حضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے خود کتاب معارفِ ربانی سے پڑھ کر سنائے۔ آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس بہت طویل تقریباً  ۱ گھنٹہ ۲۰ منٹ پر مشتمل تھی۔ ‏الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي بِنِعْمَتِهِ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ

تشریحِ اشعار

شیخ کا جو گُلِ باطنی ہے وہ کبھی مرجھاتا نہیں ہے، کبھی اُس پر خزاں نہیں آتی، لیکن وہ عاشق کی آنکھ سے دیکھے۔

جس جتنا شیخ کے باطنی حسن و جمال، تقویٰ، نسبت مع اللہ کو پہچانتا ہے اُسی قدر اُس کی نگاہوں میں شیخ کی قدر ہوتی ہے اور اُسی قدر اُس کا درجہ  بھی ہوتا ہے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کوئی زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں آگے نہیں بڑھ سکا ، کیونکہ وہ سب سےزیادہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اُن پر جان فدا کرنے والے تھے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جتنا اپنے شیخ سے حُسنِ ظن ہوگا، اُسی کے بقدر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے۔ بس یہی معیار ہے۔

ملفوظات معارفِ ربانی

اِصلاح صرف زندہ شیخ سے ہوتی ہے: تومیں عرض کررہا تھا کہ صحبتِ صالحین ہو، اہل اﷲ کی صحبت خصوصاً کسی صاحبِ سلسلہ شیخ کی صحبت ہو جو بیعت ہو کسی کے ہاتھ پر تو اس کی صحبت کا کیا کہنا کیونکہ شیخ کی عظمت ہوتی ہے، احترام ہوتا ہے کہ میرا شیخ ہے۔ مثل مشہور ہے کہ اپنا پیر پیر، دوسرے کا پیر آدمی، عظمت کی وجہ سے اس کی اتباع آسان ہوتی ہے۔ اسی لیے اکابر نے صحبتِ شیخ کا ہمیشہ اہتمام کیا ہے، اسی لیے اپنے مشایخ کے انتقال کے بعد فوراً دوسرے شیخ کا انتخاب کیا تاکہ سر پر بڑے کا سایہ رہے کیونکہ مقصود اﷲ کی ذات ہے، شیخ ذریعۂ مقصود ہے۔ پس شیخ کو اتنا زیادہ مقصود بنالینا کہ صاحب ان کے بعد کسی سے دل ہی نہیں لگتا یہ شرک فی الطریق ہے اور یہ شخص اﷲ کے مقابلے میںشخصیت کو ترجیح دے رہا ہے۔ اﷲ نے کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ فرمایا ہے اور کُوْنُوْا امر ہے اور امر مضارع سے بنتا ہے جس میں تجددِ استمراری کی شان ہے جس سے ثابت ہوا کہ معیتِ صادقین میں استمرار ہو، ہمیشہ صادقین کے ساتھ رہو، کوئی زمانہ ایسا نہ ہو کہ معیتِ صادقین تمہیں حاصل نہ ہو اور جب شیخ کا انتقال ہوگیا تو اس کا ساتھ تو ختم ہوگیا لہٰذا دوسرا شیخ تلاش کرو کیونکہ اب اس کا فیض بند ہوگیا۔ مردہ شیخ سے اصلاح نہیں ہوتی زندہ شیخ سے ہوتی ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں شیخ کی مثال ایسی ہے جیسے کچھ ڈولیں نیچے کنویں میں گری ہوئی ہیں اور ایک آدمی کنویں کے اوپر زندہ کھڑا ہے اور وہ اوپر سے اپنی ڈول کنویں میں ڈالے ہوئے ہے جس سے وہ گری ہوئی ڈولوں کو کنویں سے نکال رہا ہے۔ تو یہ شیخ ہے اور اس کے دو مرتبے ہیں۔ جسم سے وہ آپ کے ساتھ ہے اور روح کے اعتبار سے وہ دنیا سے باہر ہے۔ آپ کی روح کو وہ اپنی روح سے پکڑ کر دنیا سے نکال رہا ہے اور اﷲ سے ملا رہا ہے، ولی اﷲ بنارہا ہے لیکن اگر وہ اوپر کا آدمی جو ڈول سے نکال رہا تھا انتقال کرگیا تو اب وہ کنویں سے نہیں نکال سکتا کیونکہ جس ہاتھ میں ڈول اور رسی تھی وہ نہیں رہا لہٰذا اب دوسرا آدمی آئے اور اپنی ڈول ڈال کر کنویں سے دوسری ڈولوں کو نکالے گا۔ ایسے ہی شیخ کے انتقال کے بعد فوراً دوسرا شیخ کرو کیونکہ اس کا فیض اب بند ہوگیا۔ اگر خود بھی شیخ ہے تو اپنے خصوصی معاملات میں وہ دوسرے شیخ کا محتاج ہوگا، اپنی اصلاح خود نہیں کرسکتا جس طرح ڈاکٹر بیمار ہوجائے تو خود اپنا علاج نہیں کرسکتا دوسرے ڈاکٹر کے مشورہ کا محتاج ہوتا ہے۔ اسی پر میرے دو شعر ہیں جو ری یونین ہی میں ہوئے   ؎

نہیں پاتا شفا دکتور خود اپنی دوائوں سے
کرے ہے جستجو دکتور بھی دکتورِ ثانی کی
بدونِ صحبت مرشد تجھے کیسے شفا ہوگی
نہیں جب شیخِ اوّل، جستجو کر شیخِ ثانی کی

شیخ اس کو بنائو جس سے مناسبت ہو: لیکن شیخ اس کو بنائو جس سے مناسبت ہو، یہ شرط ہے، یہ نہیں کہ چونکہ میرا باپ ہے یا میرا فلاں اور فلاں ہے لہٰذا میں بھی اس سے تعلق رکھوں گا۔ یہ راستہ بالکل مناسبت کا ہے، اگر مناسبت نہ ہوگی تو نفع نہ ہوگا۔ جیسے مثال کے طور پر آپ کو کسی کا خون چاہیے اور میر صاحب کو دیکھا کہ بھئی یہ تگڑا آدمی ہے اس کا خون بھی تگڑا ہوگا لیکن ڈاکٹر نے کہا نہیں بھائی اس کو دبلے پتلے مولانا دائود کا خون فٹ ہوگا، تو جب خون کا گروپ ملتا ہے پھر ڈاکٹر چڑھاتا ہے اور اسی سے فائدہ پہنچتا ہے۔ جب تک روحانی مناسبت نہ ہو اس وقت تک مزہ نہیں، نفع کا مدار مناسبت پر ہے۔ اگر مناسبت نہیں ہے تو نفع نہیں ہوسکتا۔

گناہوں سے بچنے کی ہمت صحبتِ صالحین سے ملتی ہے: بہرحال تو یہ عرض کررہا ہوں کہ صحبتِ صالحین اور صحبتُ المشایخ کا ہم اہتمام کریں جو اس وقت ہمیں حاصل ہے الحمدﷲ، مجھ کو بھی آپ لوگوں کی صحبت حاصل ہے، شیخ اور مرید دونوں کو نفع ہوتا ہے۔ اگر شیخ اکیلا رہے، دین کی دعوت کا کام نہ ہو تو اس کا ایمان بھی کمزور ہوجائے گا، جو بندوں کو اﷲ سے جوڑتا ہے اس کو اﷲ تعالیٰ بھی پیار کرتے ہیں، اس کی مثال یہ ہے جیسے کسی کا بچہ گم ہوگیا اور ایک آدمی نے اخبار میں پڑھا کہ بچے کو لانے والے کو پچاس ہزار کا انعام بھی ہے۔ وہ گیا اور ڈھونڈ کر باپ کے پاس لے آیا ۔ وہ بچے سے نہیں کہے گا کہ لائو انعام۔ اگر بچے سے کہتا ہے کہ انعام لائو تو مخلص نہیں ہے، ابا سے انعام مانگے گا اور ابا اس بچے کو پیار کرنے سے پہلے اس لانے والے کو پیارکرے گا اور سینے سے لگا کر کہے گا جزاک اﷲ آپ نے میرے آنکھوں کی روشنی، میرے جگر کا ٹکڑا لادیا۔ اسی طرح جو محنت کرکے اﷲ کے بندوں کو اﷲ سے جوڑتا ہے تو اﷲ کا پہلا پیار جوڑنے والے کو ملتا ہے لیکن علامت یہ ہے کہ بندہ سے نہ کہے کہ انعام لائو جس طرح بچے سے انعام نہیں مانگتا کیونکہ بچہ کہاں سے دے گا، ابا سے لو، اسی طرح بندہ کہاں سے دے گا، تم ربا سے لو۔

اور جو بندہ اﷲ والوں سے جڑ جاتا ہے وہ اﷲ والا ہوجاتا ہے کیونکہ گناہوں سے بچنے کی ہمت بھی صحبت ہی سے نصیب ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دیکھو یہ ہمارے بزرگ ری یونین میں جارہے ہیں اور کیسی کیسی لڑکیاں سامنے آتی ہیں مگر بالکل نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتے اور اس سے حرام لذت نہیں لیتے تو انسان سوچتا ہے کہ جب ہم جیسے انسان بھی یہ کررہے ہیں تو ہم بھی کریں، ان کی ہمت کا فیض پہنچتا ہے اور توفیق نصیب ہوتی ہے۔ تو دوستو! اس لیے اﷲ کی اس نعمت کی قدر کیجیے، ہم بھی کریں آپ بھی کریں، یہاں سے کراچی کا کتنا فاصلہ ہے اور یہاں آکر ہم دینی مجلسیں کر رہے ہیں، اس میں علمِ دین بھی مل رہا ہے اور اہلُ اﷲ کی صحبت بھی مل رہی ہے، ہر آدمی دوسرے کو صالح سمجھے اور سوچے کہ مجھ کو ری یونین کے صالحین کی صحبت مل رہی ہے۔

جن لوگوں کو بھی دیکھا کہ اُن کو حضرت سے مناسبت نہیں تھی اور وہ عناد رکھتے تھے دیکھا کہ اُن کے اندر کوئی کمی تھی اور وہ پھر ظاہر بھی وہ ہوگئی کہ اُن کی طبیعت میں کجی تھی، اور ایسی کجی تھی کہ اس نے بعضوں کو ہلاک ہی کردیا۔

ایک صاحب نے حضرت والا کی شان میں گستاخی کی اُس کا قصہ بیان فرمایا کہ وہ آخر میں پاگل ہوگئے تھے اگرچہ معافی مانگ چکے تھے اور حضرت نے اُن کو معاف بھی فرمادیا تھا لیکن حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ بعض بندے ایسے مقبول ہیں کہ وہ ستانے والوں معاف بھی کردیں توبھی اللہ تعالیٰ دنیا میں ضرور اُس گستاخ  سے انتقام لیتے ہیں۔ کیونکہ اللہ والوں کو ستانے والوں سے اللہ تعالیٰ کے جنگ کا اعلان ہے۔

آخر میں اُن صاحب کے لئے دُعائے مغفرت بھی فرمائے کہ اللہ اُن کو اخرت کے عذاب سے بچالے اور ہم سے بھی جو شیخ کے حق میں ناقدریاں ہوئی ہیں اللہ اُن کو بھی معاف فرمادے اور ہم سے انتقام نہ لے۔ ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries