مجلس۳۔ مئی۲۰۱۴ء ترکِ گناہ علامتِ اہل محبت ہے!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصۂ مجلس:محبی و محبوبی مرشدی و مولائی حضرت والا دامت برکاتہم مجلس میں تشریف فرما تھے، جناب عامر سعید صاحب کو اشعار سنانے کو فرمایا، انہوں نے بہت عمدہ اشعار سنائے، حضرت والا نے بہت پسند فرمائے اس کے بعد جناب ممتاز صاحب نے حضرت والا کے حکم پرحضرت والا شیخ العرب والعجم مجددِ عصر عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ کا سفرِ ری یونین کے ملفوظات پڑھ کر سنائے۔ آخر تک یہی سلسلہ رہا۔ آج کی مجلس  تقریباً ۱  گھنٹہ ۷ منٹ پر مشتمل تھی۔ 

ملفوظات تشریح اشعار

یہ شعر حضرت والا رحمہ اللہ کی  زندگی کی پوری  تاریخ ہے

اللہ سے محبت کرنے والے تو بہت دیکھے لیکن اللہ کے بندوں سے ایسا محبت کرنے والا نظر سے نہیں گذرا،حضرت فرماتے تھے کہ اگر اللہ کے عاشق مجھے نہ ملیں تو میں بیمار پڑ جاؤں۔

جو حضرت والا کے اندر عشق و محبت میں ایسے غرق تھے کہ اُمت میں ایسے اشخاص خال خال ہی ہوئے ہیں۔

مولانا ایوب سورتی نے فرمایا تھا کہ میں نے بہت بزرگانِ دین کو دیکھا ہے مگر آپ کو دنیا سے غرض ہی نہیں بس ہر وقت اللہ کی محبت کی ہی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔

حضرت والا تو دین کی اشاعت میں پیسے ایسے بانٹتے  تھے جیسے کوئی کاغذ ہوں۔

حضرت پھولپوری کی مسجد میں بیان ۔۔۔ حضرت والا پر عجیب کیفیت طاری تھی۔۔۔ آپ کی پوری زندگی اس شعر کی شاہد تھی ۔ ۔  کہ آپ کیسے اپنے شیخ کی دن رات کرتے تھے۔

حضرت والا کسی کو کبھی بھی ذلیل نہیں کرتے تھے۔ ہر کسی کو محبت سے پیش آتے تھے مجمع میں کہتے ضرور تھے لیکن براہ راست کسی کو نہیں کہتے تھے ، بعض ڈارھی منڈے بیان میں سامنے آکر بیٹھتے تھے اور حضرت والا کی بات محبت سے سنتے تھے

بنگہ دیش کا واقعہ ایک شخص جو ڈاڑھی منڈواتا تھا ۱۰ سال اُن کو کچھ نہیں فرمایا پھر ایک دن عین بیان میں اچانک فرمایا۔

ایک شرابی کی توبہ  اور جذب کا واقعہ بیان فرمایا، ایک بزرگ کی مجلس میں ایک شرابی شراب پی کر آکر بیٹھ جایا کرتا تھا، لوگوں نے چاہا شراب سے توبہ کی، حج کیا اور مکہ مکرمہ میں سجدہ کی حالت میں انتقال ہوگیا۔

شیخ ہونا آسان کام نہیں ہے،  دلوں کی تربیت اور لحاظ رکھنا ایک آسان نہیں ہے

جتنے سانس ہیں اُتنے طریقے اصلاح کے ہیں

پہلے جو سر غیر اللہ پر مرتا تھا ، وہی سر اہل اللہ کی صحبت سے اللہ کے در پر ہی جھکتا ہے، پہلے ہمیں پتہ ہی تھا کہ اللہ کا دردِ محبت کیا چیز ہے پہلے اس کی خبر نہیں تھی اور دردِ محبت گناہوں سے بچنے نصیب ہوتا ہے

ملفوظات تشریح اشعار

بندوں سے اﷲ کی محبت کے معنیٰ: ایک چیز اور عرض کرتا ہوں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ دین سے مرتد ہوتے ہیں ہم ان کے مقابلے کے لیے عاشقوں کی ایک قوم پیدا فرمائیں گے یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗجن سے اﷲ تعالیٰ محبت کریں گے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے محبت کریں گے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ اِشکال قائم فرماتے ہیں کہ اﷲ نے اپنی محبت کو مقدم کیوں فرمایا اور بندوں کی محبت کو بعد میں کیوں بیان فرمایا؟ پھر اس کا جواب دیتے ہیں:

 قَدَّمَ اﷲُ تَعَالٰی مَحَبَّتَہٗ عَلٰی مَحَبَّۃِ عِبَادِہٖ لِیَعْلَمُوْا اَنَّہُمْ یُحِبُّونَ رَبَّہُمْ بِفَیْضَانِ مَحَبَّۃِ رَبِّہِمْ

 اﷲ نے اپنی محبت کو اس لیے مقدم کیا تاکہ جس کو اﷲسے محبت نصیب ہو اس میں ناز نہ پیدا ہو اور اس کو یقین رہے کہ ہم جو اﷲ سے محبت کر رہے ہیں اور آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت کررہے ہیں یہ اصل میں اﷲ کی محبت کا ہم پر فیضان ہورہا ہے   ؎

محبت دونوں عالم میں یہی جاکر پکار آئی
جسے خود یار نے چاہا اُسی کو یادِ یار آئی

اﷲ جس کو چاہتا ہے وہی اﷲ کو یاد کرتا ہے۔ اسی لیے اﷲ نے اپنی محبت کو مقدم کیا تاکہ بواسطۂ صحابہ سب کو معلوم ہوجائے کہ ہم لوگ جو اپنے رب سے محبت کرتے ہیں یہ حق تعالیٰ کی محبت کا فیضان ہے۔ ہم جو اُن کو چاہ رہے ہیں یہ ہمارا کمال نہیں ہے، دراصل وہی ہم کو چاہ رہے ہیں   ؎

وہی چاہتے ہیں میں کیا چاہتا ہوں

بتائیے! کیا عمدہ تفسیر ہے۔ آہ! یہ اﷲ کے کلام کی تفسیر ہمیں اﷲ سے قریب کر رہی ہے اور اﷲ کی اپنے بندوں کے ساتھ محبت سے کیا مراد ہے؟ مراد وہ محبت ہے  مَا تَلِیْقُ بِشَانِہٖ تَعَالٰی جو اﷲ کی شان کے لائق ہے یعنی اﷲ تعالیٰ ارادہ فرمالیتے ہیں کہ مجھے فلاں کو اپنا ولی بنانا ہے، بس اﷲ کی محبت سے یہ مراد ہے  اِنَّ ﷲَ تَعَالٰی اَرَادَ اَنْ یَّجْعَلَہُ مُرَادًا وَّ مَحْبُوْبًا لِّنَفْسِہٖ یعنی اﷲ تعالیٰ اس کو اپنی ذات کے لیے محبوب بنانے کا ارادہ کرلیتے ہیں اور اﷲ کے ارادہ اور مراد میں تخلف محال ہے، جس کو اﷲ اپنا ولی بنانے کا ارادہ کرلے ناممکن ہے کہ ساری دنیا اس کو گمراہ کرسکے بلکہ خود اس کا نفس و شیطان بھی اس کو گمراہ نہیں کرسکتا، پھر اس کے لیے اسبابِ ہدایت خود اﷲ پیدا فرماتے ہیں   ؎

حسن کا انتظام ہوتا ہے
عشق کا یوں ہی نام ہوتا ہے

بندوں پر اﷲ کی محبت کے آثار: حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لیے سارا انتظام اﷲ میاں نے کیا ورنہ وہ کہاں سے ایمان پاتے؟ ہماری محبت کا ایک نام ہے ورنہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے   ؎

کار فرما تو لطف ہے اُن کا
ہم غلاموں کا نام ہوتا ہے

 اور بندوں کی محبت سے کیا مراد ہے؟ کہ ﷲ کی طرف وہ طبعاً، عقلاً اور قلباً مائل رہیں اور اﷲ کے احکام کو بجا لائیں اور ان کی منع کی ہوئی باتوں سے اجتناب کریں یعنی امتثالِ اوامر اور اجتنابِ نواہی اہلِ محبت کی علامات سے ہیں۔

نبی کے قتل کا ارادہ کرنے والے اور نبی کے چچا کو قتل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ایمان دے دیا۔ اور فرمایا حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ دوبارہ سنا دیجئے

حضرت وحشی کے اسلام کا واقعہ: حضرت وحشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اسلام بھی عجیب طریقہ سے ہوا جس کو علامہ محمود نسفی کی تفسیرِ خازن کے حوالہ سے پیش کر رہا ہوں۔ حضرت وحشی رضی اﷲ عنہ کو اﷲ تعالیٰ نے سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ اے محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم آپ وحشی کو دعوت اسلام پیش کیجئے۔ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنا قاصد بھیجا کہ اﷲ تم کو یاد فرمارہے ہیں، اﷲ پر ایمان لے آئو۔ وحشی حالت ِکفر میں ہے، رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تو بعد میں ہوئے، ابھی ایمان نہیں لائے لہٰذا انہوں نے جواب دیا کہ آپ کے خدا نے تو قرآنِ پاک میں یہ نازل فرمایا کہ جو مشرک ہوگا، قاتل ہوگا، زانی ہوگا

وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَاماً یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
(سورۃُ الفرقان، اٰیۃ:۶۹)

وہ شخص مجرم ہے اس کو تو ڈبل عذاب ملے گا لہٰذا آپ مجھے کیسے دعوت اسلام دے رہے ہیں جبکہ میں یہ سب کام کرچکا ہوں  وَاَنَا قَدْ فَعَلْتُ ذٰلِکَ کُلَّہُ میں نے قتل بھی کیا، شرک بھی کیا کوئی گناہ نہیں چھوڑا۔ دیکھئے سوال و جواب چل رہے ہیں، اﷲ کا پیغام بواسطۂ نبوت وحشی کو پہنچ رہا ہے اور وحشی کا پیغام بواسطۂ نبوت اﷲ تعالیٰ تک پہنچ رہا ہے، آپ سوچیے کہ اس کے بعد اگر اﷲ عذاب نازل کرتا تو کیا عجب تھا کہ اچھا مردود نخرے بھی کرتا ہے اس کے اوپرآگ برسادو ، لیکن آہ! ارحم الراحمین کی شان دیکھیے کہ ان کے اسلام کے لیے دوسری آیت نازل ہورہی ہے:

اِلاَّ مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً
(سورۃُ الفرقان، اٰیۃ:۷۰)

وحشی سے کہہ دو کہ اگر وہ توبہ کرلے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرتا رہے تو سب معاف، پھر کوئی عذاب نہیں ہوگا۔ اس پر انہوں نے دوسرا پیغام بھیجا کہ میں ایمان لانے کے لیے تیار ہوں، توبہ کرنے کے لیے تیار ہوں لیکن ساری زندگی صالح عمل کرنا یہ شرط بہت سخت ہے ہٰذَا شرط شدید لَعَلِّیْ لَا اَقْدِرُ عَلَیْہِ مجھے امید نہیں کہ میں اس پر قائم رہ سکوں، یعنی میں اس کی طاقت نہیں رکھتا کہ ساری زندگی عملِ صالح کرتا رہوں، اب بتلائیے حالتِ کفر میں ہیں، اتنے بڑے مجرم ہیں کہ نبی کے چچا کو قتل کیا ہے اور ناز دِکھا رہے ہیں لیکن آہ! کیا رحمت ہے اﷲ تعالیٰ کی کہ ان کے ایمان کے لیے تیسری آیت نازل فرمائی:

{ اِنَّ اﷲَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ}
(سورۃُ النسآء، اٰیۃ: ۴۸)

اﷲ تعالیٰ مشرک کو معاف نہیں فرمائیں گے لیکن شرک کے علاوہ سب گناہ معاف کردیں گے چاہے وہ عملِ صالح کرے یا نہ کرے یعنی عملِ صالح سے بھی آزادی دے دی۔ اب ان کا جواب سن لیجیے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ قاصد بھیجتے ہیں کہ اِنِّیْ فِیْ رَیْبٍ میں ابھی شک میں ہوں کیونکہ اﷲ نے میری مغفرت کو مقید بالمشیت کردیا ہے کہ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآءُ  تو مشیت کی جو قید ہے اس میں مجھ کو شک ہے اَنَّ مَشِیَّۃَ ﷲِ تَعَالٰی تَکُونُ فِیَّ اَمْ لاَ یعنی اﷲ کی مشیت میرے بارے میں ہوگی یا نہیں ہوگی؟ اس میں کوئی ضمانت، کوئی گارنٹی نہیںہے، مجھ کو اس کا یقین نہیں آرہا ہے۔ تین آیتیں نازل ہوگئیں۔ اب چوتھی آیت اﷲ تعالیٰ نازل فرمارہے ہیں وحشی کے اسلام کے لیے، اس سے اندازہ کرو کہ حق تعالیٰ کتنے ارحم الراحمین ہیں کہ ایک جلیل القدر صحابی یعنی نبی کے چچا حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قاتل کو بھی آغوشِ رحمت میں لے رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اﷲ کی کیا شان ہے کہ کروڑوں زِنا اور بدمعاشی کے باوجود کوئی نادِم ہوکر توبہ کرلے تو سب معاف فرمادیتے ہیں۔ اب اﷲ تعالیٰ نے چوتھی آیت نازل فرمائی:

قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اﷲِ اِنَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعاً
(سورۃُ الزمر، اٰیۃ: ۵۳)

اے نبی! آپ میرے بندوں سے فرمادیں جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا کہ میری رحمت سے نا امید نہ ہوں، اب اس میں مشیت کی بھی قید نہیں۔ اِنَّ تاکیدہے، جملہ اسمیہ دوام اور ثبوت پر مقتضی ہے الذنوب پر الف لام داخل کردیا استغراق کا اور پھرجمیعاً   کی بھی تاکید لگادی، چار چارتاکیدوں کے ساتھ فرمایا کہ کوئی بھی گناہ ہو، اﷲ سب بخش دے گا۔ اس آیت کو سن کر حضرت وحشی کیا کہتے ہیں؟ نِعْمَ ہٰذا واہ! کیا ہی اچھی آیت ہے فَجَآئَ وَ اَسْلَمَ فوراً آئے اور اسلام قبول کرلیا۔ ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries